بھارت کی بات، سب کے ساتھ :لندن میں ویسٹ منسٹر کے سینٹرل ہال میں ہوئے دو گھنٹوں سے زیادہ کے پروگرام ‘ بھارت کی بات، سب کے ساتھ ‘ میں وزیر اعظم نریندر مودی شروع سے لےکر آخر تک اپنی ہی بات کرتے رہ گئے۔
لندن میں ویسٹ منسٹر کے سینٹرل ہال میں ہوئے دو گھنٹوں سے زیادہ کے اس پروگرام کا نام تو تھا ‘ بھارت کی بات، سب کے ساتھ ‘، لیکن ختم ہوا تو پتا چلا کہ دراصل وہ ‘ نریندر مودی کی بات، پرسون جوشی کے ساتھ ‘ تھا، جس میں خود کو فقیر بتانے والے ہندوستان کے ‘ وزیر اعظم ‘ کو گھنٹوں اپنی تعریف کا سنہری موقع حاصل ہوا۔
کچھ ایسے کہ ایک کارٹون کیریکٹر کو عوام سے ‘ پوچھنا ‘ پڑا اور کتنی ترقی چاہتے ہو تم؟ دیکھو، ہمارے وزیر اعظم یوروپ سے انتخابی تشہیر کر رہے ہیں۔ فطری طور پر کئی حلقوں میں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کہیں وزیر اعظم نے خود کو ہی ہندوستان تو نہیں مان لیا، جو بھارت کی بات کے پروگرام میں شروع سے آخر تک اپنی ہی بات کرتے رہ گئے؟
یہ یقین کرنے کی وجہ سے ہے کہ اس سوال کا جواب نہ وزیر اعظم کی طرف سے آئےگا، نہ ان کی حکومت یا پارٹی کی طرف سے لیکن دوسرے کانگریسی رہنماؤں اور وزیر اعظم کے بے رحم ناقد وزیر اعظم جس طرح اندرا گاندھی کی تنقید سے پرہیز کرتے اور کئی بار ان کو آئیڈیل بتانے کی حد تک چلے جاتے ہیں، اس سے بہت ممکن ہے کہ چار سال کے اقتدار کے بعد ان کے دل میں بھی لڈو پھوٹنے لگے ہوں کہ گاندھی کے وقت کے انتہائی مشہور ‘ اندرا از انڈیا اینڈ انڈیا از اندرا ‘ کی طرز پر اب ‘ مودی از انڈیا اینڈ انڈیا از مودی ‘ کہا جائے۔
اس حوالے سے، تاریخ کے اس تکرار کے لئے جو کچھ بھی کرنا ممکن ہو رہا ہے، وہ کر ہی رہے ہیں۔ گاندھی کے پاس دیوکانت بروا تھے تو ان کے پاس پرسون جوشی ہیں، جو ضرورت کے وقت ان کی جےبولنے کے لئے نغمہ نگار سے صحافی کی صورت اختیار کرتے بھی نہیں ہچکچاتے۔
پھر تو وہ ملک کے ان کئی صحافیوں کو مات کر دیتے ہیں، جو پچھلے چار سالوں سے ترس رہے ہیں کہ وزیر اعظم ان سے ایک ڈھنگ کی بات چیت کر لیں۔ بھکتوں کی فوج بھی وزیر اعظم کے پاس اندرا گاندھی سے کم نہیں ہے اور ان کی قابلیت اس بات میں ہے کہ تاریخ کا یہ تکرار وہ ایسے جادوئی انداز میں کرتے ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کو علم تک نہیں ہوتا۔
تبھی تو ایک مشہور ہندی روزنامہ نے ان کی اس قابلیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے، ‘ سیاستدانوں کی اداکاری، مکالمہ کی ادائیگی، منچ کی پیشکش اور وضع قطع وغیرہ کے لئے آسکر جیسا کوئی انعام ہوتا تو یقیناً نریندر مودی اس کو لگاتار چار سالوں تک جیتنے کا رکارڈ بناتے۔ ہندوستان کا وارانسی ہو یا امریکہ میں ٹائم اسکویئر یا لندن میں ویسٹ منسٹر سینٹرل ہال، سال در سال مودی کی ڈرامائی پیشکش میں نکھار آتا جا رہا ہے۔ کیا غضب کے اداکار اور شو مین یا کہ جادوگر ہیں نریندر مودی۔ ‘
یقیناً، ان کی یہ جادوگری محض اتنی ہی نہیں کہ وہ اسٹیج پر ناظرین کو کوئی خالی صندوق دکھاکر اس سے رنگین کاغذ یا کبوتر نکالکر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ناظرین میں سے کسی ایک کو منچ پر بلاکر صندوق پر لٹانا، پھر تھوڑی ہاتھ کی صفائی، تھوڑی خواب آوری، تھوڑی چالاکی اور تھوڑی بے ایمانی سے اس کو بیچ سے آری سے کاٹ اور جوڑ دینا معمولی جادوگروں کے کارنامے ہیں۔
وزیر اعظم کا مایاجال ان معمولی جادوگروں کے مقابلے کتنا بڑا یا یہ کہ غیر معمولی ہے اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پر ان کے بولنے کے لئے آئینی طور سے پارلیامنٹ نام کا جو منچ دستیاب ہے، وہاں وہ نہ خود بولتے ہیں اور نہ کسی کو بولنے دیتے ہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی بےوجہ نہیں کہتے کہ ان کو پارلیامنٹ میں پندرہ منٹ بھی بولنے نہیں دیا جاتا۔
اس میں وزیر اعظم کا جادو یہ ہے کہ پہلے ان کی حکومت خود ایسا طلسم پیدا کردیتی ہے، جس سے پارلیامنٹ کی کارروائی کا صاف طورپر چلنا ناممکن ہو جائے، پھر اس کا ٹھیکرا حزب مخالف کے ہنگاموں کے سر پھوڑ دیتی ہے۔
حال میں اس کی وجہ سے بجٹ سیشن کا دوسرا مرحلہ ایک دم سے بےکار ہو گیا۔ دوسری طرف چونکہ وزیر اعظم پارلیامنٹ میں بولتے ہی نہیں، ضروری مدعوں پر وزیر اعظم کا آن دی رکارڈ نظریہ ملک کے پاس دستیاب ہی نہیں ہے۔ پارلیامنٹ کے بجائے وہ ‘ من کی بات ‘ میں بولتے ہیں، ریلیوں میں بولتے ہیں، غیر ممالک میں منعقد اسپانسرجلسوں میں بولتے ہیں اور ان سب میں ایک ہی جیسے جارحانہ انتخابی انداز میں بولتے ہیں، پہلے سے تیار اسکرپٹ کو ملک کے حالات کے حساب سے اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہوئے۔
متاثر عوام نے ان کے اس کارنامے میں بھی ایک غنیمت ڈھونڈ لی تھی، لیکن اس بار لندن میں انہوں نے سوال جواب کا جو طریقہ چنا، اس میں تو حد ہی ہو گئی۔ کون کیا سوال پوچھےگا اور وہ اس پر کیا جواب دیںگے، سب کچھ پہلے سے طے تھا۔ سو، بھکتوں کو خوب مزہ آیا : سینسر بورڈ کے صدر پرسون جوشی خوش مزاجی سے سوال پوچھتے رہے اور وزیر اعظم بخشش کی طرح جواب دیتے رہے۔
پروگرام کا سب سے پھوہڑ حصہ یقیناً وہ تھا، جس میں پرسون نے وزیر اعظم کو شہنشاہ بناتے ہوئے ان کی ‘ فقیری ‘ کے بارے میں سوال کیا۔ سوال اور جواب دونوں ایسے تھے کہ جیسے وزیر اعظم نے ڈاکٹرمنموہن سنگھ تو کیا، وہ تو اپنی فقیری پر گفتگو کرنے یا اس کو مدعا بنانے کو ہی تیار نہیں ہوتے، سنت کبیر، میرابائی اور ریداس کے ساتھ گرونانک کی فقیری کو بھی شکست دے دی ہو۔
ساتھ ہی گاندھی جی کو بھی۔ یقیناً، ان شخصیتوں میں سے کوئی بھی ان کی طرح سنہری کڑھائی میں نمو نمولکھا ہوا راج شاہی لباس پہنکر ‘ مجھے کچھ نہیں چاہئے ‘ کا راگ نہیں الاپ سکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے جو کچھ بھی ملتا ہے، میں سرکاری توشہ خانے میں جمع کر دیتا ہوں تو ان کی اس ‘ قربانی ‘ پر ہنسی بھی نہیں آئی۔ اس لئے کہ اس تعلق میں واضح اصول بنے ہوئے ہیں، جن پر عمل وزیر اعظم کی مجبوری ہے۔
ایک ناظر کی مانیں تو المیہ اصل میں یہ ہے کہ وزیر اعظم خود کو وہی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں جو وہ ہیں نہیں۔ وہ اپنا نام تاریخ میں درج نہیں کرانا چاہتے، لیکن مودی مودی کا نعرہ ہوتا ہے، تو ان کے چہرے کی مسکان قاتلانہ ہوتے دیر نہیں لگاتی۔ وہ حکومت کی خواہش نہیں رکھتے، لیکن جہاں انتخاب ہوں، بےشمار جلسے کرتے ہیں اور سیٹیں کم آئیں توبھی آئین کودرہم برہم کرکے بی جے پی کی حکومت بنوا لیتے ہیں۔
وہ سرجیکل اسٹرائیک کے لئے سینہ ٹھونکتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ اس کے بعد پاک سے ہوئی جدو جہد میں ہم نے اپنے کتنے جوان اور شہری گنوائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی پاسپورٹ طاقت ور ہوا ہے، جبکہ گلوبل پاسپورٹ پاور رینک کی رپورٹ بتلاتی ہے کہ گزشتہ سال 75ویں مقام کے ساتھ ہمیں 51 ممالک میں ویزا فری تھا اور اب 86ویں مقام کے ساتھ صرف 49 ممالک میں ویزا فری ہے۔
ڈیجیٹل انڈیا، اسکل انڈیا اور مہارت کی ترقی کی رپورٹ کارڈ پیش کرتے ہوئے وہ ڈاٹا چوری، بےروزگاری اور چھوٹے کاروباریوں کی بربادی پر کچھ نہیں بولتے۔ کٹھوعہ اور اناؤکے واقعات پر ‘ درد کا ‘ اظہار کرتے ہیں توبھی یہ یقین دہانی نہیں کراتے کہ آگے ان کا تکرار نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم کی بدقسمتی سے اس وقت ان کی پارٹی یا حزب مخالف میں کوئی ایسا نہیں ہے، جو ان کو بتا سکے کہ ایسے جادوگروں کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ کہاوت ہے کہ کچھ لوگوں کو لمبے وقت تک اور ڈھیر سارے لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، لیکن ڈھیر سارے لوگوں کو لمبے وقت تک بیوقوف بنانے کے پھیر میں پڑنے پر آخرکار ناکامی ہی ہاتھ لگتی ہے۔
بے حس جادوگروں میں چار سال گزرا چکے وزیر اعظم کے پاس اب ویسے بھی بہت کم وقت بچا ہے اور انہوں نے ابھی بھی اس کہاوت سے کچھ سیکھنا گوارا نہیں کیا تو کون جانے عوام آگے اس شکل میں ان کی قسمت کا فیصلہ سنائے کہ چھوڑئیے وزیر اعظم کا عہدہ، آپ جادوگر کے طور پر ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘ اندرا از انڈیا ‘ کے بعد اندرا گاندھی کی بابت آیا عوام کا فیصلہ تو وزیر اعظم کو یاد ہوگا۔
(مضمون نگار سینیئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر