آئین میں کسی سیٹنگ جج کو اس کے عہدے سے ہٹائے جانے کا عمل بےحد پیچیدہ ہے۔ قانون سازمجلس کے دونوں ایوانوں کے ذریعے منظور شدہ تجویز کی بنیاد پر صدر ہی ان کو ہٹا سکتے ہیں۔
آئین میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو ہٹانے کا عمل بےحد پیچیدہ ہے۔ ان عدالتوں کے ججوں کو صرف ‘proven misbehaviour or incapacity’ کی بنیاد پر ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 124 (4) اور جج انکوائری ایکٹ، 1968 اور اس سے متعلق دستور العمل میں اس بارے میں پورے عمل کی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کے عمل کا ذکر آئین کے آرٹیکل 124 (4) میں ہے، جبکہ کسی ہائی کورٹ کے جج کو ہٹانے کے اہتمام کا ذکر آئین کے آرٹیکل 217 (1) (بی) میں ہے۔آئین کے آرٹیکل 124 (4) میں کہا گیا ہے، ‘سپریم کورٹ کے کسی جج کو اس کے عہدے سے تب تک نہیں ہٹایا جائےگا جب تک proven misbehaviour یا نااہلی کی بنیاد پر اس کو ہٹائے جانے کے لئے قانون سازمجلس کے ہرایک ایوان کے ذریعے اپنی کل ممبر کی اکثریت کے ذریعے اورحاضراور ووٹ دینے والے ممبروں کی کم سے کم دو تہائی اکثریت کے ذریعے حمایت، صدر کے سامنے اسی سیشن میں رکھے جانے پر صدر نے حکم نہیں دے دیا ہے۔ ‘
سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کو ہٹانے کا عمل شروع کرنے کے لئے تجویز لوک سبھا کے کم سے کم 100 ممبروں یا راجیہ سبھا کے 50 ممبروں کے ذریعے پیش کیا جانا چاہئے۔ اگر تجویز کو لوک سبھا کے صدر یا راجیہ سبھا کے صدر قبولکر لیتے ہیں تو وہ ایک جانچ کمیٹی کی تشکیل کرتے ہیں۔
اس جانچ کمیٹی میں تین ممبر ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کوئی جج، کسی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اور کوئی معروف قانون داں اس کے ممبر ہوتے ہیں۔ یہ کمیٹی الزام طے کرتی ہے اور متعلقہ جج کو تحریری جواب دینے کو کہا جاتا ہے۔ جج کو گواہوں کے تجزیہ کا بھی حق ہوتا ہے۔ جانچکے بعد کمیٹی اس بات پر فیصلہ کرتی ہے کہ الزام صحیح ہے یا نہیں اور تب وہ آخرکار اپنی رپورٹ سونپتی ہے۔اگر جانچ کمیٹی جج کو قصوروار نہیں پاتی ہے تو آگے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ اگر وہ اس کو قصوروار پاتے ہیں تو قانون سازمجلس کے جس ایوان نے تجویز پیش کی تھی، وہ تجویز کو آگے بڑھانے پر غور و فکر کر سکتی ہے۔
تجویز پر تب بحث ہوتی ہے اور جج یا ان کے نمائندے کو اپنا حق رکھنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے بعد تجویز پر رائے دہندگی ہوتی ہے۔ اگر تجویز کو ایوان کی کل ممبر کی اکثریت کی اور حاضراور ووٹ دینے والے ممبروں کی کم سے کم دو تہائی اکثریت کی حمایت مل جاتی ہے تو اس کو منظور کر لیا جاتا ہے۔یہ عمل پھر دوسرے ایوان میں بھی دوہرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایوان کے صدر کو پیغام بھیجکر ان سے جج کو عہدے سے ہٹانے کو کہتا ہے۔
Categories: خبریں