جس ہندو مسلم یکجہتی کے لئے گنیش شنکر ودیارتھی نے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی اسی ہندوستان میں ہندو مسلم فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے والی صحافت کرنے والے روہت سردانا کو ان کے نام پر انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مرکزی ہندی انسٹی ٹیوٹ آگرہ نے 2016 کے انعامات کا اعلان کر دیاہے۔ بارہ زمروں میں 26 لوگوں کو دئے جانے والے انعامات کا چار پیج پر مشتمل اشتہار کے دوسرے زمرے (گنیش شنکر ودیارتھی ایوارڈ ) کو دیکھکر میں اواک رہ گیا۔ اشتہار کے مطابق، ہندی صحافت اور ماس کمیونکیشن کے میدان میں قابل ذکر کام کے لئے شیلا جھنجھنوالا اور روہت سردانا کو گنیش شنکر ودیارتھی ایوارڈ سے نوازا جائےگا، جس کے تحت ان کو پانچ پانچ لاکھ روپے کی رقم ملےگی۔ملک اور غیرممالک میں ہندی کی تعلیم و تربیت، ریسرچ اور کثیر جہتی ترقی کے لئے کام کرنے والا یہ ادارہ حکومت ہند کی وزارت برائے ترقی انسانی وسائل کے تحت آتا ہے۔ ادارے کے ذریعے اعلان شدہ انعام کے لئے چنے گئے 26 اسکالرس پر بات کیا کرنا، یہ تبصرہ صرف گنیش شنکر ودیارتھی ایوارڈ کے لئے چنے گئے ٹی وی صحافی روہت سردانا تک محدود ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر پروفیسر نند کشور پانڈے کی قیادت میں مذکورہ صحافی کا گنیش شنکر ودیارتھی ایوارڈ کے لئے انتخاب کرنے والی کمیٹی کے ممبروں کی عقل پر ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے روہت سردانا کے ذریعے پچھلے کچھ سالوں میں کی گئی صحافت اور ودیارتھی جیکی زندگی کا مقصد اور ان کی صحافت پر نظر ڈالی۔یہ دماغی کسرت کرتے ہوئے ہم سوچنے لگے کہ کیا ہندی صحافت کا دائرہ اتنا تنگ ہے کہ ادارے کو فرقہ پرستی کو بڑھانے والے صحافی کا انتخاب کرنا پڑا۔ ادارے کے اس انتخاب پر میں ہی نہیں ہر وہ شخص اعتراض کرےگا جس نے گنیش شنکر ودیارتھی کو ٹھیک سے پڑھا ہوگا۔
ویسے میں نے یہ سوچا نہیں تھا کہ گنیش شنکر ودیارتھی کی یوم وفات (25 مارچ 2018) پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کمیٹی کی طرف سے راجیندر بھون میں منعقد گنیش شنکر ودیارتھی یادگار ی خطبہ دینے کے محض دس دن بعد یہ تبصرہ لکھنا پڑےگا۔ ادارے نے اس انتخاب کے ذریعے ودیارتھی جی کی پوری صحافت اور ان کے کام کا مذاق اڑانے کی حماقت کی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو شخص اپنی زندگی کے آخری وقت تک کسانوں اور مزدوروں کی لاٹھی بنا رہا۔ فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف لڑتا رہا۔ گنگا جمنی تہذیب کی مثال بنا رہا۔ سماجی اتحاد کے لئے کام کرتا رہا۔ اسی سماجی اتحادکو قائم کرنے کی کوشش میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی کوشش کرتا ہوا آخرکار شہید ہو گیا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی ایسی عظیم شخصیت کے نام پر قائم انعام اس شخص کو دیا جا رہا ہے جو گنیش شنکر ودیارتھی کے عظیم مقصد اور کام کے برعکس کاموں کے لئے جانا جاتا ہے۔
بھگت سنگھ اور ان کے دوست انقلابیوں کو برٹش حکومت نے 23 مارچ 1931 کو پھانسی دی تھی۔ ودیارتھی کو اس کی اطلاع اگلے دن یعنی 24 مارچ کی صبح ملی تھی۔ اسی وقت وہ گھر سے نکل گئے تھے۔ پورا دن تعزیتی جلسے اور ہڑتال کے اعلان میں رہے، لیکن انقلابیوں کی پھانسی کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں فسادات بھڑک گئے تھے۔ کانپور میں بھی فساد شروع ہو گیا تھا۔ دیر رات گھر لوٹے ودیارتھی نے رشتے داروں کو بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں کی شہادت کے بارے میں بتایا تھا۔
وہ بار بار بےچین ہو جاتے تھے۔ غمگین اور پریشان ہو جاتے تھے۔ انقلابیوں کی پھانسی سے زخمی اور فرقہ وارانہ فسادات سے فکرمند ودیارتھی پوری رات سو نہیں پائے تھے۔ وہ بار بار اٹھتے تھے۔ ٹہلنے لگتے تھے۔ ماں تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہتیں، ‘ ببوا، تھوڑی دیر آنکھی جھپک لا! ‘ اس پر ودیارتھی کا جواب ہوتا، ‘ اماں ، کچھ سمجھ نہیں آتا، کیا کروں؟ ‘ ماں انہونی کے خدشہ سے سہمی ہوئی تھیں۔ان کا یہ خدشہ اگلے دن صحیح ثابت ہوا۔ ہندوؤں کے محلے میں کچھ مسلم عورتیں پھنس گئی تھیں۔ ان کو محفوظ بچاکر مسلم محلے لے جاتے ہوئے اور وہاں پھنسی ہندو فیملیوں کو محفوظ نکال لانے کی کوشش کرتے ہوئے ودیارتھی فسادی عناصر کے شکار ہو گئے۔ ان کی بیٹی وملا ودیارتھی کے الفاظ میں کہیں تو ‘ دراصل ان کو فسادی عنصر بھی کہنا غلط ہوگا۔ میری نگاہ میں تو وہ برٹش حکومت کے ذریعے بہکائے گئے لوگ ہوںگے۔ ‘
اس طرح ودیارتھی اسی راہ کے راہرو بن گئے جس راہ پر دو دن پہلے ان کے انقلابی شاگرد گئے تھے۔ ایک طرح سے فرقہ وارانہ فسادات نے ان کی نیند اڑا دی تھی۔ وہ دو دن سے سو نہیں پائے تھے، لیکن ان کے نام پر قائم انعام کے لئے ایسے صحافی کا انتخاب کیا گیا جس نے اپنی صحافت کے ذریعے لوگوں کو خاصکر سوچنے سمجھنے اور ملک اور سماج کی فکر کرنے والوں کی نیند اڑا رکھی ہے۔فی الحال سب سے تیز کہے جانے والے چینل ‘ آج تک ‘ کی نمائندگی کر رہے اس صحافی کے خاص شو ‘ دنگل ‘ کے کچھ مہینوں کی کیچ لائن پر نظر ڈالیںگے تو آپ کو اس کا آسانی سے اندازہ ہو جائےگا۔ کاس گنج تشدد کے دوران تو انہوں نے فرقہ وارانہ صحافت کے ریکارڈ بنا ڈالے۔ ایک دن انہوں نے اپنے شو کی کیچ لائن بنائی-‘بھارت میں ترنگا پھہرایا تو دنگا ۔ ‘
واضح طور سے سماج کو فسادات کی آگ میں جھونکنے والے یہ مہاشے یہ نہیں سمجھتے کہ حب الوطنی کے نام پر جھوٹ میں سنے مواد کو نشر کرنے سے سماج میں کشیدگی بڑھےگی۔ دو مذہبوں کے درمیان کھدی گئی کھائی پہلے سے کہیں زیادہ چوڑی ہوگی۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کا نامہ نگار کیا اطلاع دے رہا ہے۔ ان کی اسی من مانی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں دو یا اس سے زیادہ کہانیاں چلنے لگتیں۔ایک طرح سے روہت سردانا اپنے شو کے ذریعے پورے مسلم سماج کو ہندوستان مخالف، ترنگا مخالف، وندے ماترم مخالف اور پاکستان پرست بتانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ بات ان کے سوالوں سے بھی ثابت ہوا، جیسےترنگا ہندوستان میں نہیں تو کیا پاکستان میں پھہرایا جائےگا؟ کیا وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے فرقہ وارانہ نعرے ہیں؟ کاس گنج میں ترنگے کے دشمن کون لوگ ہیں؟ پولیس ان کے نام کیوں نہیں بتا رہی؟ ملک کے اندر ایسے کتنے پاکستان پنپ رہے ہیں؟
اس سے پہلے بھی ایک ویب سائٹ کے ذریعے نومبر 2017 کے آخری دس دن کے دو چینلوں کے خاص شو کا مطالعہ کیا گیا تھا۔ اس میں بھی روہت سردانا نے تقریباً 95 فیصدی اپنے شو کو ہندو بنام مسلم کی بحث میں بدلنے کی کوشش کی۔ ان کے نشانے پر مسلمان اور مولانا رہے تھے۔یہ جناب اس چینل سے پہلے ‘ زی نیوز ‘ ٹی وی نیوز چینل کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ وہاں ‘ تال ٹھوککے ‘ نام کا شو کرتے تھے۔ اس میں بھی ان کے زیادہ تر موضوع ہندو بنام مسلم والے ہوتے تھے یا ان کے ذریعے جبراً بنا دئے جاتے تھے۔ اس چینل میں کام کرنے کے دوران ان کے کچھ شو کا ذکر کرنا ضروری ہے، جس سے پتا چلےگا کہ کس طرح کی صحافت یہ کرتے رہے ہیں۔
مئی 2017 میں کئے گئے ایک شو کا موضوع تھا-‘ غدار وطن حریت کو ملک نکالا کب؟ ‘ اس میں پوچھے گئے سوالوں کی ایک بانگی بھی دیکھ لیجئےآتنک کے دلالوں کی سیوا کب تک کرےگا بھارت ؟، آتنکیوں کے ایجنٹوں کو دیش نکالا کب؟، آتنکیوں کے ایجنٹ ہندوستان کے وی وی آئی پی کیوں؟ جبکہ معاملہ یہ تھا کہ کشمیر میں دہشت گردانہ واقعات کے لئے پاکستان سے رقم ملنے کا الزام تھا، جس میں این آئی اے نے ایک معاملہ درج کر رکھا تھا۔ اسی تعلق سے حریت کے رہنما سیدعلی شاہ گیلانی سمیت کچھ رہنماؤں کے خلاف این آئی اے نے تفتیش شروع کی تھی، لیکن روہت کے سوالوں سے تو مذکورہ تمام رہنما اسی دن دہشت گردوں کے ایجنٹ اور دلال اعلان کر دئے گئے تھے۔ اسی طرح مئی کے بیچ میں ہی ‘ ملک میں دیش دروہ پر ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ ‘ عنوان سے شو کیا گیا، جس کا چہرہ تھا-‘ کیا کشمیر میں دیش کے غداروں کو یہ بھروسا ہو گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں، ان کے خلاف یا تو کارروائی نہیں ہوگی اور ہوگی بھی تو صرف دکھاوا کرنے کے لئے اور کیا کشمیر میں دیش دروہی حرکتوں پر سرکار کی آنکھ پر پٹی بندھی ہے۔ ‘
معاملہ یہ تھا کہ یہاں کے پلواما کے اسٹیڈیم میں میچ کے دوران پاکستان کا راشٹرگان گائے جانے کا الزام تھا۔ ساتھ ہی ہندوستان مخالف نعرے لگانے اور دہشت کے کچھ ملزمین کے پوسٹر لگانے کی بھی بات سامنے آئی تھی۔ خبر کے طور پر یقینی طور پر یہ اطلاع نشر کی جانی چاہئے، لیکن اس کے لئے الفاظ کے انتخاب پر خاص دھیان دینے کی ضرورت تھی۔ اس حرکت کے پیچھے چند لوگ ہوںگے نہ کہ تمام کشمیروالے، جیسا کہ صحافی نے ‘ کچھ ‘ یا ‘ چند ‘ لفظ کا استعمال نہ کرکے تمام کشمیری کو غدار بتانے کا کام کیا۔
ستمبر 2017 میں ‘ تال ٹھونککے ‘ شو میں روہت سردانا رکن پارلیامان اسدالدین اویسی سے بات کرتے ہیں۔ سوال کیا کہ نالگونڈا میں پانچ مسلم جوانوں کا انکاؤنٹر کیا گیا، اس کے لئے آپ نے کیا کیا؟ اویسی نے جواب دیا کہ آپ لوگ چونکہ میرے کام کو دکھاتے نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو پتہ نہیں ہے۔ ویسے میں نے حکومت کے خلاف ماحول بنایا۔ پبلک میٹنگ کی۔ ہائی کورٹ میں مقدمہ ڈالا ہے۔روہت نے اپنی طرف سے جوڑا کہ آپ کا کہنا ہے کہ ملک کے خلاف دئے گئے بیان میڈیا دکھاتا ہے لیکن اچھائی کرتے ہیں تو نہیں دکھاتا ہے۔ ناراض اویسی نے کہا کہ میں نے کب ملک کے خلاف کہا ثبوت دیجئے اور اگر ثبوت ہو تو یہیں سے جیل بھجوا دیجئے نہیں تو اپنی بات واپس لیجئے۔ اس پر روہت گلی گلی اپا والی اسٹائل میں اویسی کے بھائی کے تبصروں کا حوالہ دینے لگے۔
اس پر اویسی نے سخت انداز میں کہا کہ بھائی نے بولا تو ان کے خلاف مقدمہ بنا۔ وہ جیل گئے۔ معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔ لیکن میں نے ملک کے خلاف کیا کہا اس کا ثبوت آپ کو دینا ہوگا۔ لیکن روہت سردانا کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ وہ صرف اپنی خیالی کہانی کے ذریعے جبراً وہ لفظ ڈال رہے تھے، جس پر ان کو اس دن منھ کی کھانی پڑی تھی۔روہت سردانا کی صحافت کی بات ہو اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کا ذکر نہ آئے ایسا ہو نہیں سکتا ہے۔ ویسے تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن چند صحافیوں نے جےاین یو کی سپاری لی تھی اس میں وہ اگلی لائن کے ‘ جنگجو ‘ تھے۔ یعنی انہوں نے جے این یو پر کئی شو کئے، لیکن مثال کے لئے ایک شو کا ذکر یہاں کر رہے ہیں، جس کا عنوان تھا ‘ غداری پر سینہ زوری کیوں؟ ‘
اس میں ان کی طرف سے سوال اچھالے گئے کہ جےاین یو میں لگے ملک کے خلاف نعروں پر ہوئی کارروائی پر سیاست کیوں ہو رہی ہے؟ کیوں اظہار کی آڑ میں ملک مخالف کرتوت پر پردہ ڈالا جا رہا ہے؟ جس جےاین یو سے غدار وطن کی بدبو آ رہی تھی وہاں پارٹیوں کو ووٹ کی خوشبو کیوں آنے لگی؟
ایسے سوال جب اچھالے جا رہے تھے تو اس وقت کے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سیتارام یچوری، اس وقت کے جےاین یو طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار اور عمر خالد کی تصویروں کا کولاج لگاتار دکھایا جا رہا تھا۔ راہل گاندھی اور سیتارام یچوری وغیرہ رہنما طالب علموں کی حمایت کرنے جےاین یو گئے تھے۔ یہی بات روہت کو پچ نہیں رہی تھی۔اس طرح کی صحافت نے جےاین یو کو اس وقت غدار وطن کے گڑھ کے طور پر دکھایا تھا اور عمر خالد کو علیحدگی پسند طلبہ کے طور پر، لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ ایک سوچی سمجھی چال تھی، جس میں مرکزی حکومت اور اس کے گودی میڈیا نے ملکر جےاین یو کے خلاف ایک پروپیگنڈہ بنایا تھا۔ نشانہ بنائے گئے جےاین یو کے طالب علموں کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں کو ابتک ان کی ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔
اس طرح سے روہت سردانا پہلے ‘ زی نیوز ‘ میں رہتے ہوئے ‘ تال ٹھوککے ‘ اور پھر ‘ آج تک ‘ میں آنے کے بعد ‘ دنگل ‘ شو کے ذریعے سماج میں نفرت پھیلانے کی صحافت کا ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ان کے اس ریکارڈ کے بارے میں کچھ شو کی بات چیت کی گئی ہے تو کچھ شو کے عنوان پر بھی نظر ڈالی جا سکتی ہے؛ وکاس کے ‘ مارے ‘-‘ ہندو آتنک واد ‘ کے سہارے، پی ایم کو ‘ گالی ‘-حافظ کو ‘ تالی ‘، ‘ راشٹر وادی ‘طاقتوں کے خلاف چرچ؟،دیش دروہیوں کے خلاف انڈیا کی بیٹنگ ، ٹرپل طلاق کو آخری ‘ طلاق ‘، ‘ مجرے ‘ کراکر کشمیر کو پالےگا پاکستان؟، ‘ مغل ‘بھارت کے لئے بوجھ یا وراثت؟روہت سردانا کے شو کے ان موضوعات کو توجہ سے دیکھا جائے اور صحافت کے آئینے میں پرکھنے کی بھول کی جائے تو سماج کو منقسم کرنے، دو کمیونٹی کو لڑانے، سماجی اتحاد کو تہس نہس کرنے کے ساتھ ہی دوسرے ملک سے تعلق خراب کرنے وغیرہ کےکئی تمغہ ان کے نام پر جائیںگے۔
شاید اسی طرح کی ٹی وی صحافت کو دھیان میں رکھکر پچھلے مہینے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک معاملے کو سنتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ ‘ ہم چینلوں کا نام نہیں لینا چاہتے لیکن کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ تخت پر بیٹھے پوپ ہیں جو کوئی نصیحت دے سکتے ہیں یا فیصلہ سنا سکتے ہیں۔ ‘ فی الحال تو روہت سردانا اور ان کے جیسے صحافی تو اپنے کو یہی سمجھ رہے ہیں۔اس طرح کے شو دیکھکر لوگ کتنا اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں یا کتنا ایک سماج کے متعلق نفرت اور نفرت سے بھر جاتے ہیں، اس کا نمونہ آئے دن اس سماج کے متعلق ہو رہے تشدد آمیز واقعات دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ اس طرح کے شو دیکھکر لوگوں کو کہیں سے بھی اطلاعات نہیں ملتیں۔
ان کے علم میں اضافہ بھی نہیں ہو رہا۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ وہ ،خاص کر جوان جوش میں ضرور آ رہے ہیں۔ ان کا مذہب اچھال مار رہا ہے۔ صحافی مہودیہ کی ایسی صحافت پوری طرح ہیٹ اسپیچ کے تانےبانے میں بنی ہوتی ہے۔ وہ ملک اور سماج کے تمام مسائل کو نظرانداز کرکے ہندو بنام مسلم کی رگڑائی کرتے ہیں۔اس سے جہاں وہ ایک خاص سیاسی جماعت اور تنظیم کا مقصد پورا کر رہے ہیں تو وہیں کاروبار کی سطح پر اپنے مالکان کے پیارے ببوا بنے ہوئے ہیں۔ ایسے ببوا وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے جیسے ببوا صحافیوں کی ایک پوری جماعت ہے۔ ایسی ہی جماعت کا ایک وہاٹس ایپ پوسٹر کچھ دنوں پہلے شیئر ہوا تھا جس میں 6 صحافیوں کے فوٹو استعمال کئے گئے ہیں۔
اس کی کیچ لائن ہے، ‘بھارت کا سب سے بڑا آتنکی سنگٹھن لشکر میڈیا۔ ‘ پھر پوسٹر میں نیچے لکھا گیا ہے کہ ‘ دیش میں نفرت پھیلانے والی میڈیا پر تی بندھ لگے۔ ‘ پوسٹر کے ساتھ ایک میسج بھی ہے کہ ‘ یہ میڈیا پر سٹیک سٹائر ہے۔دیش کو ہنسا کے انماد میں ڈبو رہا ہے یہ لشکرمیڈیا۔ ‘خیر، اس پوسٹر کا بھلے ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں لیکن ذاتی سطح پر ہم کسی بھی میڈیا پر پابندی کے حمایتی نہیں ہیں، لیکن صحافت میں غیرجانب داری کے ضرور حمایتی ہیں۔ مذکورہ پوسٹر میں شامل چھے صحافیوں کے ساتھ روہت سردانا کی بھی مسکراتے ہوئے فوٹو ہے، لیکن ہم یہاں ان کے اضافی پانچ لوگوں کا ذکر اس لئے نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ ان کا اس اصل تبصرہ سے تعلق نہیں ہے۔
اگر روہت کی طرح ان کو بھی گنیش شنکر ودیارتھی ایوارڈ کے لئے چنا جاتا تو وہ بھی تبصرے کا اہم حصے ہوتے۔ ویسے، صحافت میں یہ پوری جماعت کس کے اشارے پر اور کس کے لئے کام کر رہی ہے وہ اب چھپا نہیں ہے۔ایسے میں مرکزی ہندی ادارے کے ڈائریکٹر پروفیسر نند کشور پانڈے نے بھلےہی صحافیوں کو بلاکر انعام کے لئے چنے گئے اسکالروں کے بارے میں بتایا ہو۔ چنے گئے ناموں پر کمیٹی کے ممبروں نے بھلےہی مہر لگائی ہو، لیکن روہت سردانا جیسے صحافی کو گنیش شنکر ودیارتھی ایوارڈ دینے کا اشارہ کدھر سے کیا گیا ہوگا، اس پر زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔
گنیش شنکر ودیارتھی نے اپنے ‘ پرتاپ ‘ نام کے اخبار کے پہلے شمارے میں اس کی پالیسی واضح کرتے ہوئے آخری پیراگراف میں لکھا تھا کہ ‘ جس دن ہماری روح ایسی ہو جائے کہ ہم اپنے پیارے اصول سے کھسک جائیں، دانستہ طور پر جھوٹ کے حمائیتی بننے کی بےشرمی کریں اور لبرل، آزادی اور غیر جانبداری کو چھوڑ دینے کی بز دلی دکھائیں، وہ دن ہماری زندگی کا سب سے بدقسمتی کا دن ہوگا، اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس اخلاقی موت کے ساتھ ہی ساتھ ہماری زندگی کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ ‘اسی مقصد کے تحت گنیش شنکر ودیارتھی شہید ہونے تک صحافت کرتے رہے۔ اپنی زندگی کے وقت میں ان کو ایسا بدقسمت دن دیکھنے کو نہیں ملا ہوگا، لیکن آزادی کے 70 سال بعد سب کا ساتھ سب کا وکاس والے ہندوستان میں ان کی روح کو یا ان کو پڑھنےگنگنانے والوں کو یہ بدقسمت دن دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جس ہندومسلم اتحاد کے لئے انہوں نے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی اسی ‘ ہم آہنگی ‘ والے ہندوستان میں ہندو اور مسلم فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے والی صحافت کرنے والے ایک شخص کو ان کے نام پر انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بہتر یہ ہوگا کہ جن صحافی مہاشے کو یہ انعام دینے کا اعلان ہوا ہے وہ یہ کہہ کر انعام لینے سے منع کر دےکہ جس نیک مقصد والی صحافت گنیش شنکر ودیارتھی نے کی ہے، میں نے ٹھیک اس کے برعکس کام کیا ہے، ایسے میں ان کے نام پر قائم انعام کے لئے میں خود کو لائق نہیں پاتا ہوں۔ ایسا کرکے وہ شہید مجاہد آزادی کی روح کے ساتھ انصاف کر سکیںگے۔ ساتھ ہی تھوڑا اپنا ضمیر بھی بچا سکیںگے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر