ایک طرف ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف کمیونسٹ اس دانشورانہ صلاح و مشورہ میں الجھے ہیں کہ اس کو بجھانے کے لئے کنواں کہاں کھودا جائے۔
لبرل مانے جانے والے سیتا رام یچوری لیفٹ فرنٹ کی سب سے بڑی مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی حیدر آباد میں ہوئی 22 ویں کانگریس میں جنرل سیکرٹری منتخب کر لئے گئے ہیں تو بہت ہی فطری ہے کہ لیفٹ پارٹیوں کی صحیح غلط،پالیسی اور بڑھتے گھٹتے اثرات سے جڑے وہ سارے سوال ایک بار پھر پوچھے جانے لگے جو ان کے مغربی بنگال اور تریپورہ جیسے گڑھوں کے گرنے سے پہلے سے پوچھے جاتے رہے ہیں اور ان کے ڈھہنے کے بعد کہیں زیادہ تیز ہو گئے ہیں۔ان سوالوں میں سب سے بڑا سوال تو یقینی طور پر یہی ہے کہ انتخابی نتائج کے لحاظ سے وہ مسلسل شکست کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟
اس قدر کہ ان کے مخالفین کو ان کو چڑھاتے ہوئے یہ کہنے کا موقع ہاتھ لگ رہا ہے کہ آگے چلکر وہ معدومیت کے شکار ہو جائیںگے یا صرف جواہرلال نہرو یونیورسٹی جیسی جگہوں پر پائے جائیںگے۔ اور تو اور، اس ہندی ریاست میں ان کی علامتی حاضری بھی کیوں مشکل ہوتی جا رہی ہے، جس کو ملک کا دل کہا جاتا ہے اور جس کی زمین کو وہ ایک وقت اپنے لئے بےحد موافق اور زرخیز مانتے تھے؟ کیوں مغربی بنگال کا گڑھ ڈھانے کے بعد سے ہی یہ امید نا امید ہوتی چلی آ رہی ہے کہ کون جانے گڑھ کھو دینے کے بعد ہی وہ اپنے امکانات کی ملک گیر توسیع کے لئے کھلکر کھیلنے کا من بنائیں؟ آخرکار یہ توسیع ان کے لئے زندگی اور موت کا سوال کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
یوں، یچوری اپنے پہلے دورمیں اپنی ساری خاکساری کے باوجود لیفٹسٹ کی عوامی حمایت میں پرکاش کرات کے جنرل سیکرٹری ہونے کے وقت سے ہی جاری انتشار کو روکنے میں جس طرح ناکام رہے ہیں، اس سے لگتا نہیں کہ ان کے دوسرے دور میں ہی صحیح، ان سوالوں کے صحیح جواب حاصل ہو پائیںگے۔لیفٹ کے رہنماؤں کے لئے ان سوالوں کے جواب اس لئے بھی مشکل ہو گئے ہیں کہ وہ پارلیامانی کہیں یا انتخابی سیاست میں اترے تو اس کو اپنی انقلابی خواہشوں کے لئے استعمال کرنے کے منصوبے سے تھے، مگر وقت کے ساتھ خود اس کے ہاتھوں استعمال ہوکر رہ گئے ہیں۔
اتناہی نہیں، آزادی کے بعد فروغ پائی اپنی وہ امیج بھی نہیں بچا پائے ہیں، جس میں ان کو نہ صرف حکمراں کانگریس بلکہ اکثر ساری متوسط پارٹیوں کی سب سے پرعزم نظریاتی مخالف جماعت مانا جاتا تھا۔ بعدکے بےحس اقتدار کی جد و جہد میں مذکورہ پارٹیوں کے سیاسی نظریات کو لات مار کر اپنا تکیہ ذات، مذہب، فرقہ اور علاقہ وغیرہ کی آئرنی پر رکھنے لگی تولیفٹ کی جماعت اس سے علیحدگی کا خطرہ اٹھانے کی جرأت نہیں ظاہر کر پائے اور موجودہ حالات کے نام پر کبھی اس تو کبھی اس بڑی پارٹی کی پالکی کے کہار کے کردار میں دکھنے لگے۔
تس پر کوڑھ میں کھاج یہ کہ حالات اور حالات کے اندازے میں انہوں نے لگاتار غلطیاں کیں۔ مثال کے طور پر آزادی سے پہلے غیر منقسم بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی اس ہدایت پر عمل کے بجائے کہ اس کو پوری طاقت سے برٹش استعماریت سے لڑنا چاہئے،مسلسل برٹش کمیونسٹ پارٹی کے ایجنڈے پر چلتی رہی، جس کے نتیجے میں آزادی کی جدو جہد میں اپنے کردار کو منطقی انجام نہیں دے سکی۔ مہاتما گاندھی، بابا صاحب امبیڈکر، سبھاش چندر بوس اور یہاں تک کہ سردار بھگت سنگھ جیسے اس جدو جہد کے ہیروؤں کی معروضی تشخیص میں بھی اس نے بہت تاخیر کی۔ آزادی کے بعد سی پی آئی (ایم)کو جیوتی بسو کے طور پر ملک کو پہلا بائیں بازو کار وزیر اعلیٰ دینے کا موقع ہاتھ لگا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ تب کمیونسٹ پارٹی کے مخالفین اور خیر خواہ دونوں کو کہنا پڑا کہ کمیونسٹ پارٹی کی ٹرین چھوٹ گئی ہے۔ جیوتی بسو کو بھی بعد میں اس کو ہمالیہ جیسی بھول بتانا پڑا۔
یہ بھی کمیونسٹ کے ذریعے حالات کے غلط اندازے کی وجہ سے ہی ہوا کہ جب ان کو راجیو گاندھی اور منموہن سنگھ کی فروغ دی گئی نئی اقتصادی پالیسیوں سے لڑنا چاہئے تھا، انہوں نے اپنی ساری طاقت اس فرقہ پرستی سے لڑنے میں ہی لگا دی جو عوام مخالف اقتصادی پالیسیوں کی ہی پیداوار تھی اور اس معاشی پالیسی کے ساتھ ہی خودبخود ختم ہو جاتی۔ کیا تعجب کہ ان کے لڑتے لڑتے نئی معاشی پالیسی اور فرقہ پرستی دونوں ‘ ناقابل شکست ‘ ہو گئیں اور منموہن کی حکومت میں امریکہ سے ایٹمی معاہدے کی مخالفت میں حکومت سے حمایت واپس لینے کا نقصان بھی اکیلے بائیں بازو کو ہی اٹھانا پڑا۔
کمیونسٹ ایسی غلطیاں نہیں کرتے تو آج اکثر ساری متوسط پارٹیوں سے مایوس ملک ان کو خاص امید کے ساتھ دیکھتا۔ وہ کہہ پانے کی حالت میں ہوتے کہ اب ہماری باری ہے۔ لیکن ابھی تو وہ مخالفین کی لگاتار بڑھتی جا رہی نفرت کے ساتھ اپنے گڑھ تک میں عوام کا غصہ جھیل رہی ہے اور پھر بھی اپنے داخلی انتشار نہیں سلجھا پا رہی ہے۔ ایک طرف نئے سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیاں ملک کو نگلنے پر آمادہ ہیں اور دوسری طرف ان سے پورے دم خم کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے بجائے ان متصادم جماعتوں نے اپنی انقلابی خواہشوں کو بھی مذہبی رسوم بنا ڈالا ہے۔ ان کی چھاؤنیوں میں مذہبی رسوم کے طور پر ایسی کئی اور چیزیں چلتی رہتی ہیں۔ مثلاً، ملک کو کمیونسٹ آپشن دینے کے لئے کام کرنا، وسیع لیفٹسٹ یکجہتی کی کوشش تیز کرنا اور غیرالیفٹسٹ جماعتوں سے کم از کم ساجھا پروگرام کی بنیاد پر حکمت عملی کے طور پرحمایت اور تعاون کے رشتے بنانا وغیرہ۔
ان مذہبی رسوم کا سچ یہ ہے کہ لیفٹ پارٹیوں میں اتحاد کے بجائے انتشار بڑھتا جا رہا ہے اور کئی کمیونسٹ پارٹیاں اپنے جنرل سکریٹری کی جیبوں میں رہکر ان کی دانشورانہ بھوک کو مٹانے کا ذریعہ بھر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف کئی کمیونسٹ پارٹیوں کے رہنما اتنے بھی پرعزم یا ‘ مینٹلی اکوپائیڈ ‘ نہیں رہ گئے ہیں، جتنے کبھی ان کے معمولی کارکن ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دوجے کے لئے بور ژوا، ترمیم پسند ، اصلاح پسند اور پارلیامان پسند وغیرہ ایک سے بڑھکر ایک گالیاں تیار کر ڈالی ہیں اور ان کو لےکر اپنی ہی چھاؤنی میں’ قتل ‘ کرتے رہتے ہیں۔ سی پی آئی (ایم ) سے جڑے ماہر اقتصادیات پربھات پٹنایک نے چھے سال پہلے اپنی ہی پارٹی کی کیرل اکائی پر ‘ زمیندارانہ اسٹالینزم ‘ اور لبریلزم کے غلبہ کا شکار ہونے کی تہمت لگائی تو کئی کمیونسٹ حلقوں کو یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ وہاں پرعزم اور عدم پرعزم کا جھگڑا بھی ایسا ہے کہ اکثر ساری لیفٹ جماعتیں خود کو ہی پرعزم مانتی ہیں۔ کیا یہ ویسا ہی نہیں ہے جو آج کل کچھ جماعتیں ہر کسی کی حب الوطنی پر شک کیا کرتی ہیں؟
ایسے میں لیفٹ پارٹیوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے نئے فارمولیشن اور حکمت عملی کی بےحد سخت ضرورت ہے کیونکہ پرانی کمیونسٹ تھیسسوں کا نئی تبدیلوں کے نقطہ نظر میں عصریاتی جائزہ کئے بنا ان کی بات نہیں بننے والی ہے۔ لیکن سوال پھر وہی کہ کیا یچوری اس لحاظ سے کوئی کردار نبھا پائیںگے؟ اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ ان سے متوسط طبقے کی پارٹیوں کے سپریمو جیسی توقع نہیں ہی کی جانی چاہئے۔ سارے ‘ زوال ‘ کے باوجود کمیونسٹ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ ابھی بھی اپنے ہیروؤں کو، وہ جنرل سکریٹری ہی کیوں نہ ہو،اس کو جابر ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر کس کو نہیں معلوم کہ یچوری کی اپنی پارٹی تک میں ان کی سیاسی لائن کے مخالفین کی کمی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے طبقے کے دشمن کو پیغام اور بی جے پی کی فرقہ وارانہ خراب حکومت سے آزادی کی جو باتیں کر رہے ہیں، ان کو لےکر لڑائیوں کی سمت اور صورت پر بھی پارٹی عام رائے سے مکمل نہیں ہے۔ وہاں ابھی بھی بحث جاری ہے کہ بی جے پی کو مطلق العنان مانا جائے یا فاسسٹ اور اس سے لڑنے کے لئے کانگریس سے کیسے ‘ ملا ‘ جائے، ملا بھی جائے یا نہیں۔ یچوری اس کو ضروری بتاتے ہیں تو پرکاش کرات بیوقوفی۔
کیا معنی ہے اس کا؟ یہی تو کہ ایک طرف ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف آپ اس دانشورانہ صلاح و مشورہ میں الجھے ہیں کہ اس کو بجھانے کے لئے کنواں کہاں کھودا جائے۔ ایسے ہی رویے کا نتیجہ ہے کہ تقریباً ایک ساتھ فعال ہونے والی دو جماعتوں میں جس نے کہا کہ وہ سیاست سے الگ رہکر تہذیب کے ہی علاقے میں کام کرےگی، اس نے کام کرتے کرتے اپنی سیاسی فرنٹ کی معرفت تقریباًپورے ملک کی سیاست پر قابو پا لیا ہے اور اپنے کو کمیونسٹ کہنے اور تہذیب کے علاقے میں کام سے پرہیزکرکے چوبیسوں گھنٹے عوام کی حمایت میں سیاست کرنے والی جماعت ،سیاست کے حاشیے پر چلی جا رہی ہے۔ جو دلت اور پسماندہ کبھی اس کی بنیاد ہوا کرتے تھے، مایوس ہوکر وہ الزام لگا رہے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی انقلاب کرنے نہیں، انقلاب روکنے کے لئے پرعزم ہے اور طبقے کے چکر میں انہوں نے ورن نظام کی حقیقتوں کوذرا سا بھی نہیں سمجھا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میعاد عہد میں بھی یچوری کی راہ آسان نہیں ثابت ہونے والی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں)
Categories: فکر و نظر