سپریم کورٹ نے کٹھوعہ میں بچی کے ساتھ ریپ اور اس کے قتل کے دو ملزمین کی اس عرضی پر غور کرنے کی حامی بھر دی ہے، جس میں انہوں نے مقدمہ کی سماعت جموں سے باہر منتقل نہیں کرنے اور معاملے کی تفتیش سی بی آئی کو سونپنے کی گزارش کی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ اس کی ‘ اصل فکر ‘ کٹھوعہ معاملے کی غیر جانبدارانہ سماعت کو لےکر ہے۔ عدالت نے ساتھ ہی اشارہ دیا کہ اگر اس کو ذرا بھی یہ لگاکہ غیر جانبدارانہ سماعت ممکن نہیں ہے تو اس معاملے کو کٹھوعہ سے باہر منتقل کر دیا جائےگا۔چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس دھننجئے وائی چندرچوڑ کی تین رکنی عدالتی بنچ نے کٹھوعہ گینگ ریپ اور قتل کے اس معاملے میں کہا کہ مقدمہ کی سماعت ملزمین کے لئے ہی نہیں بلکہ متاثر ین کے لئے بھی غیر جانبدارانہ ہونی چاہئے اور ان کے وکیلوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔ عدالت اس معاملے میں اب 30 جولائی کو سماعت کرےگی۔
اس سے پہلے، بار کاؤنسل آف انڈیا نے بنچ کو مطلع کیا کہ کٹھوعہ ضلع کے وکیلوں کی تنظیم نے نہ تو کرائم برانچ کی جارچ شیٹ داخل کرنے کے عمل اور نہ ہی متاثر ین کی نمائندگی کر رہی وکیل کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔ بنچ نے اس معاملے میں عدالتی انتظامیہ کے کام میں وکیلوں کے ذریعے رکاوٹ ڈالنے کے مدعے پر بھی غور کیا اور کہا، ‘ اگر وکیل غلط تھے تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق پیش آیا جائےگا۔ ‘
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ اصل مدعا اس معاملے میں مقدمہ کی غیر جانبدارانہ سماعت کرانا ہے۔ اس معاملے کی سماعت شروع ہوتے ہی بار کاؤنسل آف انڈیا نے مہر بند لفافے میں کٹھوعہ میں اس معاملے میں وکیلوں کے ذریعے مبینہ رکاوٹ ڈالنے سے متعلق اپنی تفتیشی رپورٹ بنچ کو سونپی۔بار کاؤنسل آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وکیلوں کی تنظیم نے نہ تو متعلقہ عدالت میں جارچ شیٹ داخل کرنے کے جموں و کشمیر پولیس کے کرائم برانچ کے کام میں رکاوٹ ڈالی اور نہ ہی متاثر فیملی کی وکیل دیپیکا سنگھ راجاوت کو ہائی کورٹ میں پیش ہونے سے روکا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیرہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، جموں اور کٹھوعہ ضلع بار ایسوسی ایشن کے سارے معاملے کی سی بی آئی تفتیش کرانے کی مانگ منصفانہ لگتی ہے۔اس بیچ، ریاستی حکومت کے وکیل شعیب عالم نے اس رپورٹ کی مخالفت کی اور پھر کہا کہ وکیلوں کی پولیس دستہ کے ساتھ مبینہ طور پر دھکامکی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کر سکی تھی۔
عالم نے کہا کہ اس رپورٹ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کٹھوعہ میں مشتعل وکیلوں کے ذریعے مبینہ طور پر رکاوٹ ڈالنے کے شکار ہوئے کرائم برانچ کے کسی بھی افسر کو سنا نہیں گیا۔ انہوں نےہائی کورٹ کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کٹھوعہ کے ضلع جج کی الگ رپورٹ کی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس رپورٹ میں افسروں کو ‘ روکے جانے ‘ اور عدالتی انتظامیہ میں رکاوٹ ڈالے جانے کے بارے میں واضح نتیجے نکالے گئے ہیں۔
حالانکہ بنچ نے کہا، ‘ ہمیں اہم مدعے سے نہیں بھٹکنا ہے۔ غیر جانبدارانہ تفتیش، غیر جانبدارانہ سماعت، مناسب قانونی رہنمائی اور ملزمین اور متاثر فریقوں کی طرف سے نمائندگی ضروری ہے۔ اس میں الجھنے کی بجائے بار کاؤنسل آف انڈیا کی رپورٹ کیا کہتی ہے اور وکیل کیا کہتے ہیں، ہمیں اصل مدعے سے نہیں بھٹکنا چاہئے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ ہم انصاف کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ‘متاثرہ کے والد کی طرف سے سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے بنچ سے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے اور اس کی سماعت کی نگرانی کرنی چاہئے۔ بنچ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ کی سماعت تیز کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طےشدہ عمل کے مطابق ملزمین اور متاثر فیملی کو مناسب موقع نہیں دیا جائےگا۔
غور طلب ہے کہ جموں کے کٹھوعہ ضلع میں اقلیتی خانہ بدوش کمیونٹی کی ایک بچی 10 جنوری کو اپنے گھر سے لاپتہ ہو گئی تھی۔ کچھ ہفتہ بعد اس کی لاش اسی علاقے کے جنگلوں سے ملی تھی۔ ریاستی پولیس کے کرائم برانچ نے پچھلے ہفتہ سات لوگوں کے خلاف ایک اہم جارچ شیٹ اور نابالغ ملزم کے خلاف کٹھوعہ ضلع کی ایک عدالت میں ایک دوسری چارج شیٹ داخل کی تھا۔چارج شیٹ کے مطابق بچی کا قتل کرنے سے پہلے اس کا اغوا کر کے،اس کو نشہ دےکر اس کے ساتھ ایک مذہبی مقام میں ریپ کیا گیا تھا۔
Categories: خبریں