خبریں

جرمنی میں جرائم کی شرح میں کمی مگر خوف میں اضافہ

تازہ اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ جرمنی دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ لیکن جرمن لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جس قدر خود کو غیر محفوظ آج محسوس کرتے ہیں اتنا پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔

2017ء کے دوران جرمنی میں ریکارڈ کیے جانے والے جرائم کی تعداد 5.67 ملین رہی۔ اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں یہ تعداد 10 فیصد کم تھی۔

2017ء کے دوران جرمنی میں ریکارڈ کیے جانے والے جرائم کی تعداد 5.67 ملین رہی۔ اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں یہ تعداد 10 فیصد کم تھی۔

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زی ہوفر کی طرف سے جرائم کے حوالے سے پیش کیے جانے والے اعداد وشمار آج جس قدر جرمن عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اتنا ماضی میں پہلے کبھی نہ تھے۔ یہ تبدیلی مہاجرین کے بحران کے سبب آئی۔ رواں برس یہ اعداد وشمار نئے وزیر داخلہ ہورسٹ ذی ہوفر آج منگل آٹھ مئی کو پیش کر رہے ہیں۔

جرائم سے متعلق اعداد وشمار پر مبنی رپورٹ میں اہم نکات کی طویل فہرست میں یہ سرخیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں:

’گزشتہ 25 برسوں کے دوران جرائم میں مسلسل کمی‘

’جرمنی میں چوری کے واقعات میں 20 فیصد کمی‘

’نوجوانوں سے متعلق تشدد میں ڈرامائی کمی‘

مگر یہ سرخیاں شاید میڈیا میں جگہ حاصل نہیں کر پائیں گی۔ جرمنی 2018ء میں اُس سے کہیں مختلف ملک ہے جو اب سے کچھ برس قبل یہ ہوا کرتا تھا۔ حقائق کی جگہ جذبات اہم ہوتے جا رہے ہیں۔’’ایک طرف تو یہ میڈیا کا طریقہ کار ہے، جس کے لیے صرف بُری خبر ہی اچھی خبر ہے۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے بات رکتے ہوئے یہ کہنا تھا علم جرائم کے معروف جرمن ماہر کرسٹیان فائفر کا۔

2017ء کے دوران جرمنی میں ریکارڈ کیے جانے والے جرائم کی تعداد 5.67 ملین رہی۔ اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں یہ تعداد 10 فیصد کم تھی۔تاہم کرسٹیان فائفر کا کہنا ہے کہ اگر ٹیلی وژن پر نشر کیے جانے والے پروگراموں پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جرمن عوام کیوں خود کو کم محفوظ تصور کرتے ہیں۔ فائفر جرمن ریاست لوئر سیکسنی میں واقع ’کریمنولوجیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر ہیں اور اسی ریاست میں بطور وزیر انصاف بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ فائفر کے مطابق، ’’یہ پاگل پن ہے۔۔۔ کوئی ایسی رات نہیں گزرتی جب ٹیلی وژن پر جرم سے متعلق کوئی فلم نہ دکھائی جا رہی ہو۔ ہم پر قتل اور تشدد کی بھرمار کی جا رہی ہے۔‘‘

کرسٹیان فائفر کے مطابق یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ لوگ ایسی چیزوں کو عمومی تصور کرتے ہیں اور اس بارے میں زیادہ فکر مند ہو جاتے ہیں ۔۔۔ بھلے گزشتہ برس کے دوران پر تشدد جرائم کی شرح میں خاص طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔فائفر کے مطابق جزباتی عنصر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے: ’’جرمنی میں غیر محفوظ ہونے کے احساس کی وجہ یہاں کافی زیادہ غیر ملکیوں کا موجود ہونا بھی ہے۔‘‘ فائفر مزید کہتے ہیں، ’’گھر کی طرح محفوظ ہونے کا احساس اور جذباتی تحفظ کا احساس ختم ہوا ہے۔‘‘

ماہر جُرمیات فائفر کے مطابق جرمنی اس وقت اُسی عمل سے گزر رہا ہے جو مہاجرت کے نتیجے میں بننے والی کسی قوم کے اُن تجربات پر مبنی ہوتا ہے جب ان کے ہاں ایک ساتھ بہت زیادہ تارکین وطن پہنچ جائیں: ’’یہ غیر محفوظ محسوس کرنے کی صورت ہے کیونکہ انسان نے کئی صدیوں کے تجربات سے سیکھا ہے کہ غیر ملکی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘

غیر محفوظ ہونے کا یہ احساس خاص طور پر بڑے شہروں میں زیادہ ہے جہاں گزشتہ چند برسوں کے دوران تارکین وطن کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ فائفر کے مطابق اس کی وجہ جرائم کی شرح میں اضافہ نہیں بلکہ ’’ہائی ماٹ کے احساس میں کمی واقع ہونا ہے۔‘‘جرمنی میں ’ہائی ماٹ‘ کا مطلب ہے کہ ایک ایسی جگہ یا برادری جہاں انسان خود کو اپنے گھر کی طرح محفوظ تصور کرتا ہے۔ ایک ایسی چیز جس سے جرمن عوام جذباتی طور پر بہت جُرے ہوئے ہوتے ہیں۔

جرائم کی وجہ بننے والے افراد کی عمر اور ان کی جنس کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے۔ فائفر کے بقول، ’’2014ء میں مہاجرین کے بحران سے قبل بھی جرمنی میں 14 سے 30 برس تک کی عمر کے افراد سب سے زیادہ مشکلات کا باعث بننے والا گروپ تھے۔ اُس وقت جرائم کرنے والے مشتبہ افراد کی نصف کے قریب تعداد اسی عمر کے لوگوں پر مبنی ہوتی تھی تاہم یہ کُل آبادی کے محض نو فیصد بنتے تھے۔‘‘

جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین میں سے ہر چوتھا فرد ایک نوجوان ہے۔ شمالی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن میں سے تو ہر دوسرا تارک وطن نوجوان ہے۔ یہ ایسے نوجوان مرد ہیں، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ جرمنی میں رہ بھی پائیں گے یا واپس بھیج دیے جائیں گے اور پھر یہ لوگ اپنی بیویوں یا گرل فرینڈز کو بھی اپنے آبائی وطنوں ہی میں چھوڑ کر جرمنی آئے ہیں۔

ماہر جُرمیات کرسٹیان فائفر کے مطابق، ’’خواتین کی کمی قابل توجہ ہے۔۔۔ خواتین مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ جب وہ موجود نہ ہوں تو مردانگی کی نمائش کرنے والا رویہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔‘‘