مانا جاتا ہے کہ جو حکومت جی ایس ٹی نافذ کرتی ہے وہ انتخاب ہار جاتی ہے۔ ملیشیا میں ایسا ہوا لیکن وہاں کے تجربے کو ہندوستان سے جوڑنے سے پہلے ہندوستان کے تجربات اور یہاں کی سیاست کو سمجھنا ہوگا۔
ملیشیا کے انتخابات میں جس پکتن ہرپن اتحاد کو اکثریت ملی ہے، اس کا وعدہ تھا کہ اقتدار میں آتے ہی جی ایس ٹی کی شرح 6 فیصد سے 4 فیصد کر دیںگے اور سال بھر کے اندر جی ایس ٹی ختم کر دیںگے۔ کہیں کہیں100 دن بھی لکھا ہے۔ملیشیا کے انتخابات میں جی ایس ٹی بھی ایک بڑا مدعا تھا۔ ملیشیا کے ریونیوکا 40 فیصدی حصہ تیل سے آتا تھا مگر تیل کے دام گرنے سے یہ گھٹکر 14 فیصدی ہو گیا۔ اس وقت ریونیو کا 18 فیصدی جی ایس ٹی سے آتا ہے۔
ملیشیا کی حکومت نے جی ایس ٹی نافذ کیا تو وہ لوگ بھی ٹیکس دینے لگے جو ابھی تک ا س کے دائرے سے باہر تھے۔ ایسے لوگوں کی آمدنی تو بڑھی نہیں مگر جی ایس ٹی نے ان کی کمائی پر حملہ کر دیا۔ اس سے مہنگائی بھی بڑھی اور حکومت سے توقع بھی کہ جب ہر بات پر ٹیکس دے رہے ہیں تو سہولیات کہاں ہیں۔ نتیجہ وہاں کی نجیب حکومت انتخاب ہار گئی ہے اور 92 سال کے مہاتیر محمد وزیر اعظم بننے کی راہ پر ہیں۔
مانا جاتا ہے کہ جو حکومت جی ایس ٹی نافذ کرتی ہے وہ انتخاب ہار جاتی ہے۔ ملیشیا میں ایسا ہوا لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان میں جی ایس ٹی نافذ ہونے کے فوراً بعد گجرات انتخاب ہوا تھا۔ سورت کے کاروباری جی ایس ٹی کی وجہ سے بربادی کا رونا رو رہے تھے۔ آج بھی رو رہے ہیں مگر انہوں نے ووٹ بی جے پی کو ہی دیا۔ آگے بھی دیتے رہیںگے۔ سورت ویران ہو گیا ہے۔ شروع میں بی جے پی آدھار اور جی ایس ٹی کی مخالفت کرتی تھی، آج وہ ان دونوں کی سب سے بڑی کیمپینرہے۔ راہل گاندھی گجرات میں جی ایس ٹی کو گبّر سنگھ ٹیکس کہتے رہے، کرناٹک میں بھی کہتے ہیں۔ گجرات کی عوام نے بی جے پی کو ہی منتخب کیا۔
کیا راہل گاندھی جی ایس ٹی کی شرحیں کم کرنے اور سال بھر کے اندر ہٹا دینے کی جرأت دکھا پائیںگے؟ راہل کی تو آدھار پر بھی لائن سمجھ نہیں آتی۔ کبھی صحیح سے ظاہر بھی نہیں کیا ہے۔ ہندوستان میں جی ایس ٹی کی شرح 12 فیصدی ہے۔ کسی کسی آئٹم پر تو 20 فیصدی سے بھی زیادہ ہے۔جی ایس ٹی کا مطلب ٹیکس کی ایک شرح ہے۔ ہندوستان میں جی ایس ٹی کی کئی شرحیں ہیں۔ 4 شرحیں ہیں۔ ملیشیا میں 6 فیصد ہے۔ ہم یہاں جی ایس ٹی کے مسئلہ کو صرف کاروباریوں کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
مسئلہ ہے بھی مگر کاروباری طبقہ بی جے پی کے ساتھ ہی ہے۔ وہ اس مسئلہ سے ایڈجسٹ ہو چکا ہے۔ اس لئے ہندوستان کے انتخابات میں جی ایس ٹی کا حکومت پرمخالف اثر ہوگا، ابھی دیکھنا اور سمجھنا باقی ہے۔ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں نے لوگوں پر جی ایس ٹی کا اثر نہیں دیکھا یا ان کے درمیان اس مدعے کو اٹھاکر نہیں دیکھا ہے کہ عوام کیا کرتی ہے۔
ہندوستان میں اس وقت کئی شہروں میں پیٹرول 80 روپے فی لیٹر مل رہا ہے۔ لوگوں میں کوئی بے چینی نہیں ہے۔ بلکہ وہاٹس ایپ یونیورسٹی میں چل رہا ہے کہ 200 روپے لیٹر پیٹرول خریدیںگے لیکن ووٹ مودی کو دیںگے۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے تباہی بھی ہے۔ نوٹ بندی کے نام پر ملک کے ساتھ فراڈ بھی ہوا لیکن دونوں تجربوں یا برے تجربوں کا اثر انتخابی نتیجوں پر نہیں پڑا۔ایک خاص دائرے کے باہر اس پر گفتگو تک نہیں ہے۔ جی ایس ٹی سے کاروباریوں کو دقت بھی ہوگی تو وہ بولتے نہیں ہیں۔ اس لئے ملیشیا کے تجربے کو ہندوستان سے جوڑنے سے پہلے ہندوستان کے تجربات اور یہاں کی سیاست کو سمجھنا ہوگا۔
(یہ تبصرہ بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر