فکر و نظر

کیا جامعہ واقعی ’ہندومخالف‘اور’جناح پریمی‘ہے؟

جامعہ ملیہ اسلامیہ معاملہ: جن کے اکابرین نے خود کبھی انگریزوں سے لوہا نہیں لیا اور اپنی ساری توانائی  عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے میں لگائی ، وہی آج ملک میں  دیس  بھکتی کے “ٹھیکیدار” بن بیٹھے ہیں۔

JMI_PTI

فوٹو : پی ٹی آئی

منگل کی شام دہلی میں  واقع  تاریخی تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے  مین گیٹ پر پہنچ کر، تقریباً 10 سے15 ہندوشدت پسند عناصر نے ‘جناح پریمی دیس چھوڑو’  اور  ‘ہندوؤں کا  اَپمان نہیں سہے گا ہندوستان’ جیسے اشتعال انگیز نعرے دینے لگے اور ماحول کو بگاڑنے کی بھر پور کوشش کی۔حالانکہ شر پسندوں کو گیٹ سے اندرداخل ہونے سے روک دیا گیا،  جس کی  وجہ سے  ایک بڑا  ناخوشگوار واقعہ ہوتے ہوتے ٹل گیا ۔ واقعہ کے بعد  شر پسندوں نے جامعہ کے طلبا کو دھمکیاں  بھی دیں۔ تادم تحریر جامعہ میں بے چینی، اضطراب اورعدم تحفظ کی کیفیت بنی ہوئی  ہے۔

جامعہ کے طلبا   اسے  ایک بڑی سازش کا حصہ مان رہے ہیں ۔ ان کا خدشہ ہے کہ یہ سب  مذہبی منافرت  و کشیدگی پھیلانے اور مسلمانوں کوملک بھر میں’بدنام’ کرنے  کی ایک نئی سازش تھی۔جامعہ  پر ہوئے اس حملےکو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہوئے حالیہ حملہ سے  جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے ، جہاں شدت پسندوں نے نہ صرف سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری پر حملہ کیا ، بلکہ جامعہ  کی طرح  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کو ‘جناح پریمی’  کہہ کر گالیاں دیں۔

 دریں  اثنا ، مثبت پہلو یہ ہے کہ جامعہ کے طلبا نے  اپنا موقف سامنے لانے میں سوشل میڈیا کا اچھا  استعمال کیا ہے۔ہندو فرقہ پرستوں کو بے نقاب کرنے میں جامعہ کےبہت سارے ہندو طلبا  نے سوشل میڈیا  پر لکھا ہے کہ وہ  ‘ہندو’  ہیں مگر جامعہ میں اپنے آپ کو ‘غیر محفوظ’ محسوس نہیں کرتے ۔ جامعہ کی ایسی ہی  ایک  طالبہ انشل بھامرا ہیں ، جنہوں نے  اپنے بلاگ پر سوال اٹھایا   ہے اگر مان  لیا جائے کہ جامعہ میں تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہندو طلبا غیر محفوظ  محسوس  کر رہے ہیں ، تو کیا ہندو   فرقہ پرست عناصر  یہ قبول  کرنے کے  لئے تیار ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں اقلیت بشمول مسلمان،  سکھ، عیسائی،  عدم تحفظ میں مبتلا  رہتےہیں؟

راقم الحروف نے بھی جامعہ سے ( ایم اےپولیٹیکل  سائنس) ہی پڑھائی کی  ہے۔ اس درسگاہ سے میری قربت اس وجہ سے بھی ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے دو بہترین  سال اے  ایم خواجہ ہاسٹل، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزار ے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے ہمارا ہاسٹل اے  ایم خواجہ(1885-1962) کے نام پر رکھا گیا ہے،   جو   سال1936سے 1962 تک امیر جامعہ تھے اور  جنہوں نے اپنی پوری   زندگی جامعہ کی خدمت میں گزار دی۔  ان کی خدمت  ان  معنی میں بھی اہم ہے کہ وہ دور جامعہ کے لئے بحران کا  دور تھا۔

  فرقہ پرستوں کےپروپیگنڈہ  کے بر عکس، جامعہ میں غیر مسلم  طلبا کی ایک بڑی   تعداد پر  امن   ماحول اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا میں  تعلیم حاصل کرتی ہے ۔  ہاسٹلوں میں بھی میں نے بڑی تعداد میں  غیر مسلم  طلبا کو رہتے ہوئے پایا ۔ غیرمسلم ہونے کی وجہ سے میں نے کبھی بھی  تعصب اور  امتیاز محسوس نہیں کیا ۔ ہاسٹل  میں ہم سب کو  جمعہ اور اتوار کا بے صبری سے انتظار ہوتا تھا۔ جمعہ کی شام کو’ چکن قورمہ’  اور ‘فروٹ کریم’  ملتا، اتوار کی صبح ناشتے میں آلو پراٹھا اور دھنیا کی چٹنی ملتی تھی، جو کافی لذیذ ہوتی تھی۔

 ہفتہ بھر کے انتظار کے بعد، ہم  اتوار کی شام کو چکن بریانی  کا  لطف  لیتے۔ رمضان کا انتظار   سب کو ہوتا تھا۔ افطار میں  ملنے والی پکوڑی کی لذت مانواب بھی ہمارے ذائقہ میں ہے ۔ مہینہ کے آخر میں ایک ‘گرانڈ’  افطار کا انتظام ہوتا تھا۔ سال 2008 کی بات ہے ۔ ایک ایسی ہی   یاد ،رمضان کے گرانڈافطار کی ہے۔ جمعہ کی شام تھی۔ میں دوپہر کے وقت خواجہ ہاسٹل کے ریڈنگ روم میں پڑھ رہا تھا ، مگر میں یہی سوچ رہا تھا کہ کب سورج ڈوبے اور ہمیں افطار ملے۔ تبھی کچھ پٹاخے جیسی آواز آئی۔ میں نے اسے نظر انداز کیا ۔ مگر تھوڑی دیر میں میرے ایک صحافی دوست کا فون آیا اور اس نے  کہا کہ پاس میں ہی پولیس انکاؤنٹر ہو ا   ہے، جس  کو ہم  ‘بٹلہ ہاوس’ انکاؤنٹر کے نام سے جانتے ہیں ۔

جو  لوگ بھی جامعہ کی حب الوطنی پر  سوال اٹھا رہے ہیں  یا  اس پر  ‘جناح پریمی’ ہونے كا بیہودہ   الزام عائد کر رہے ہیں وہ  نہ صرف جامعہ بلکہ تحریک آزادی کے مجاہدوں کی تذلیل کر رہے ہیں۔ جن کے اکابرین نے خود کبھی انگریزوں سے لوہا نہیں لیا اور اپنی ساری توانائی  عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے میں لگائی ، وہی آج ملک میں  دیس  بھکتی کے “ٹھیکیدار” بن بیٹھے ہیں۔ نامور مورخ  سریش چندر گھوش نے اپنی کتاب’ دی  ہسٹری آف ایجوکیشن ان   ماڈرن انڈیا’ میں  صاف طور سے لکھا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تشکیل تحریک عدم تعاون کے نظریہ  سے متاثر ہو کر ہوئی ، جب ملک کے قومی  رہنماؤں نے  انگریزی نظام تعلیم سے ہٹ کر ہندوسانی قومی تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بات کہی۔ 1920کے  ناگپور قرارداد میں کانگریس نے  عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی حکومت کے ما تحت اسکولوں اور کالجوں سے باہر نکالیں اور خود مختار قومی اسکول اور کالج کھولیں  ۔

 ٹیگور کا  وشو بھارتی، گروکل اور جامعہ جیسے قومی تعلیمی ادارے وجود میں آئے۔ جامعہ  کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کرنے والے فرقہ پرست اس پر پردہ پوشی کرتے ہیں کہ  سامراجیت مخالف  آیئڈیالوجی اور جذبہ قومیت سے سرشار ہو کر ہی وجود میں آیا۔جامعہ کےقیام میں  مہاتما  گاندھی نے بھی کافی نمایاں رول  ادا کیا۔ مشہور مورخ مشیر الحسن اور رخشندہ جلیل نے  اپنی کتاب  ‘پارٹنرز  ان فریڈم : جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ میں کہا ہےکہ  گاندھی نے  جامعہ کے مالی تعاون سے لے کر   اس کی ہر طرح سے مدد   اور ستائش کی۔  گاندھی کے متبع صنعت کار جمنا لال بجاج،  بیٹا  دیو داس گاندھی،  قریبی دوست  مادھو دیسائی  جامعہ سے جڑے ہوئے تھے۔ گاندھی نے اپنے پوتے   رسک لال کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے بھیجا۔

جامعہ جب 29 اکتوبر 1920 کو  وجود میں آیا تب سے لے کر آج تک جامعہ کے دروازے تمام مذاہب و مکاتب فکر کے لوگوں کے لئے کھلے رہے ہیں۔ اپنے شروعاتی دن سے لے کر آج تک جامعہ میں ہندو،مسلمان سب ساتھ میں پڑھتے   اور رہتے ہیں۔  پروفیسر مشیرا لحسن اور رخشندہ جلیل کے الفاظ میں “ہندو اور مسلم طلبا نہ صرف [جامعہ میں] پڑھتے تھے، بلکہ ایک ساتھ کھاتے اور سوتے بھی تھے”۔ جامعہ میں اس دور سے ہی ہندوؤں کی مقدس سمجھی جانے والی کتاب ‘گیتا’ پڑھائی جاتی تھی اور سنسکرت اور ہندی پڑھنے کا بھی  انتظام کیا گیا تھا۔جامعہ کے  بانیوں میں سے ایک اور اس کے پہلے شیخ الجامعہ مولانا محمد علی  جوہرنے    سال  1926-1925میں ‘ہمدرد’ میں لکھتے ہوئے  یہ صا ف طور سے کہا  کہ جامعہ کے “دروازے ہر مذہب کے لئے کھلے ہوئے ہیں”۔

جامعہ کے دروازے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ مگر افسوس کہ فرقہ پرست طاقتیں جامعہ کی شبیہ بگاڑنے اور اسے بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کی تخریب کاری کر رہی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب سے سنگھی طاقتیں بر سر اقدار آئی  ہیں تب سے تخریب کاریوں میں مزید  اضافہ ہوا ہے۔ جامعہ میں پہلے سے کہیں زیادہ آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی مضبوط ہوئی ہے۔  مسلمانوں کے درمیان متحرک ‘ آر ایس ایس کی تنظیم ‘مسلم راشٹریہ منچ’ جامعہ میں کافی سرگرم ہوئی ہے اور اس کی تخریب کاری کو روکنے میں انتظامیہ ناکام ہے۔گزشتہ  سال رمضان میں مسلم  راشٹریہ منچ نے افطار پارٹی کا  انتظام  جامعہ میں کیا  تھا، جس میں اندریش کمار کو مدعو کیا گیا تھا۔

  آر ایس ایس لیڈر  اور مسلم  راشٹریہ  منچ کے سرپرست اندریش کمار 2007 اجمیر  بم  دھماکہ کیس  میں ملزم  بنائے گئے تھے، جن کو اب عدالت نے بری کر دیا ہے۔ اس پروگرام کی مخالفت کرنے پر پولیس نے طلبا کی پٹائی کی اور ان میں سے متعدد کو حراست میں لیا گیا ۔مگر اس پروگرام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے لئے اندریش کمار پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اندریش کمار نے  مسلمانوں کو صلاح دی کہ گوشت نہ کھائیں، کیوں کہ اس سے  بیماری ہوتی ہے  اور افطار میں گائے کا دودھ  پیئیں اور تلسی کا پودااپنے گھر میں لگائیں،  جو ان کو جنت لے جانے میں مدد  کرے گا۔

ان  تمام سنگھی حرکتوں کے پیچھے  ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح سے ہندومسلم ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جائے اور لوگوں کو مذہب کےنام پر تقسیم کیا جائے۔ اسی لئے جامعہ پر جو حملہ ہو رہا ہے وہ حملہ چند منچلوں کے دماغ کا فتور نہیں ہے بلکہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے ، جس کا  نشانہ بظاہر مسلمان دکھ رہے ہیں اور  اصلاًوہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ  اس کا اصل نشانہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یہاں کی جمہوریت ہے۔