درخواست گزار نے اپنی اپیل میں دلیل دی تھی کہ اس سے الگ رہ رہی اس کی ہندو بیوی کی شکایت کے بعد اس کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ صرف ازدواجی تنازعے سے جڑا معاملہ ہے۔ ہائی کورٹ نے ملزم کو ضمانت دی۔
نئی دہلی: کیرل ہائی کورٹ نے مبینہ طور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے متعلق ویڈیو دیکھنے اور جہادی لٹریچر پڑھنے سے کوئی دہشت گرد نہیں بن جاتا۔جسٹس اےایم شفیق اور جسٹس پی سوم راجن کی بنچ نے محمد ریاض نام کے ایک آدمی کی اپیل پر غور کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ ملزم نے اپنی ضمانت نامنظور کئے جانے کے این آئی اے عدالت کے حکم کو چیلنج دیا تھا۔ریاض نے کہا کہ وہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا حصہ نہیں تھا۔اس نے اپنی اپیل میں دلیل دی تھی کہ اس سے الگ رہ رہی اس کی ہندو بیوی کی شکایت کے بعد اس کو دہشت گرد ی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزم کے وکیل نے کہا کہ یا تو صرف یہ ازدواجی تنازعے سے جڑا معاملہ ہے یا اس کی بیوی نے کسی کے دباؤ میں آکر اس کے خلاف یہ الزام لگائے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ان کی بیوی نے اسلام مذہب اپنا لیا تھا۔
سماعت کے دوران این آئی اے نے دلیل دی کہ ریاض کے پاس سے دو لیپ ٹاپ ضبط کئے گئے جس میں جہاد کے بارے میں ادب، اسلامی واعظ ذاکر نائک کی تقریروں کے ویڈیو اور سیریا میں جنگ سے جڑے کچھ ویڈیو ہیں۔حالانکہ، بنچ نے کہا کہ اس طرح کے ویڈیو عوامی ہیں اور لوگوں کے درمیان ہیں۔ صرف اس لئے کہ کوئی شخص ان چیزوں کو دیکھتا ہے، اس کو لےکر اس پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا جاسکتاہے۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 26 سالہ کیرل کے کنور ضلع کے نیو ماہے باشندہ ریاض پر لالچ دےکر خاتون کوتبدیلی مذہب کے بعد اس کو دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل کرانے اور سیریا لے جانے کا الزام ہے، جس کی تفتیش این آئی آے کر رہی ہے۔
این آئی اے نے کورٹ کو بتایا تھا کہ ٹیم کو ملزم سے بر آمد دو لیپ ٹاپ میں سے جہاد سے جڑے کچھ ادب اور ویڈیا، ذکر نائک کی تقریر اور سیریا جنگ سے جڑے ویڈیو ملے ہیں۔ این آئی اے وکیل ایم اجئے نے بتایا کہ اب تک اس کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے تعلق کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ادھر، ریاض کے وکیل سنیل نائر پالکّٹ نے عدالت میں دلیل دی کہ درخواست گزار کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی میں شامل نہیں ہے اور یہ جو الزام لگے ہیں، یہ محض ازدواجی زندگی میں چل رہے تنازعے کی وجہ سے لگائے گئے ہیں۔
درخواست گزار کو غیرضروری طریقے سے جیل میں رکھا جا رہا ہے۔ اس کو 180 دن بعد ہی ضمانت مل سکےگی، کیونکہ گرفتاری یو اےپی اے (اَن لاء فل ایکٹیویٹیز پروینشن ایکٹ) قانون کے تحت ہوئی ہے۔دلیل سننے کے بعدہائی کورٹ نے این آئی اے عدالت کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے درخواست گزار کو ضمانت دے دی۔ درخواست گزار 70 دن جیل میں گزرا چکا تھا، جس کے بعد بھی عدالت کے پاس کوئی پختہ ثبوت نہیں آئے تھے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں