خرید وفروخت کی سیاست میں بھی ایک کم از کم اعتماد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرناٹک کے انتخابی نتیجے کے بعد جو ہوا، وہ بتاتا ہے کہ مودی اورشاہ کی جوڑی کافی تیزی سے یہ اعتماد بھی کھو رہی ہے۔
کرناٹک انتخاب نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے مدنظر کثیر جماعتی انتخابی سیاست کے کئی سارے پہلوؤں کو واضح کیا ہے۔ نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی پر کئی علاقائی جماعتوں کے رہنماؤں کا عدم اعتماد انہی پہلوؤں میں سے ایک ہے۔اس سے یقینی طور پر حزب مخالف اتحاد کے امکانات کو طاقت ملےگی جو کہ اس سے پہلے اتر پردیش کے ضمنی انتخاب میں دیکھنے کو ملا اور اب کرناٹک اسمبلی انتخاب میں دیکھنے کو ملا ہے۔ جیسےجیسے حزب مخالف اتحاد بڑھتا جائےگا اور حزب مخالف کے ووٹ یکجا ہوتے جائیںگے ویسے ویسے مودی اور شاہ کے انتخاب جیتنے کی حکمت عملی پٹتی دکھےگی۔
انتخابی سیاست ایک طرح کی سائنس تو ہے ہی، ساتھ ہی ایک آرٹ بھی ہے۔ آپ دوسرے رہنماؤں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھتے ہیں اور کیسے ان کے ساتھ مکالمہ قائم کرتے ہیں، انتخابی سیاست کا آرٹ ہمیں یہی بتاتا ہے۔وہیں انتخابی سیاست کی سائنس یہ سکھاتی ہے کہ کیسے چھوٹے چھوٹے رائےدہندگان گروپوں کو اپنے حق میں کرکے ایک مؤثر رنگ دیا جا سکے۔کرناٹ کے انتخابی نتیجے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ یہ بتاتے ہیں کہ مودی اور شاہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے مدنظر علاقائی جماعتوں کا اعتماد بڑی تیزی سے کھو رہے ہیں۔ اس بڑھتے عدم اعتماد کی بھی وجہ ہے۔ پوری طرح سے خرید و فروخت کی سیاست میں بھی ایک کم از کم سطح کے اعتماد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مودی اور شاہ مضبوط علاقائی رہنماؤں جیسے ممتا بنرجی، نوین پٹنایک اور دوسرے کئی لوگوں کے قریبی ایم ایل اے اور صلاح کاروں کے خلاف گڑے معاملے اکھاڑنے لگے۔ سیاسی تجزیہ کار اس کو لےکر کافی متذبذب میں مبتلا تھے کہ مکمل اکثریت میں آنے کے ساتھ ہی بی جے پی کی علاقائی رہنماؤں کے ساتھ اس طرح سے انتقام کی سیاست کرنا کتنا صحیح ہے۔امید یہ تھی کہ مودی اور شاہ کی جوڑی اقتصادی مدعوں پر زیادہ دھیان دےگی، کم سے کم اپنے میعاد عہد کے پہلے آدھے حصے میں تو ضرور ہی۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ ہمیں بتایا گیا کہ امت شاہ نے تو پہلے سے ہی ‘ شمال مشرقی مشن ‘ تیار کر رکھا تھا۔سی بی آئی کا علاقائی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف جم کر استعمال کیا گیا۔کسی بھی دوسری حکومت نے سی بی آئی،Enforcement Directorate اور محکمہ ٹیکس کااتنی ہوشیاری اور بےرحمی سے استعمال نہیں کیا تھا۔
حال ہی میں انتخاب کے دوران کرناٹک کانگریس کے رہنما ڈی کے شیوکمار کے گھر پر جان بوجھ کر محکمہ ٹیکس نے چھاپا مارا ۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کیونکہ اسمبلی انتخاب کے ڈرامائی واقعہ میں شیوکمار کانگریس کے لئے نجات دہندہ بن کرسامنے آئے تھے۔ انہوں نے فلور ٹیسٹ سے پہلے بی ایس یدورپا اور ریڈی بندھووں کی ایک نہیں چلنے دی۔مودی اور شاہ نے حزب مخالف جماعتوں کے رہنماؤں میں بڑی احتیاط سے اپنا نشانہ بنایا، ساتھ ہی اگر وہ بی جے پی میں آ گئے تو ان کو تحفظ دیا گیا۔ اس کی ایک بہترین مثال مہاراشٹر کے نارائن رانے اور مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے قریبی رہے مکل رائے کے معاملے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان دونوں کے معاملوں میں سی بی آئی اور Enforcement Directorate نے خوب زور شور سے کارروائی کی جب تک دونوں نے بی جے پی کا دامن نہیں تھام لیا۔
کسی بھی چیز کی جب انتہا ہو جاتی ہے تو وہ خود کو ہی نقصان پہنچانے لگتی ہے، یہ بات مودی اور شاہ کی جوڑی نہیں سمجھ پائی۔ جانچ ایجنسیوں کے استعمال کے ذریعے بلیک میل کرنے کی سیاست کا بہت استعمال ہو چکا ہے۔ اب یہ اس حد تک جا پہنچا ہے جہاں سے یہ دوسرے جماعتوں کے بھروسے کو بڑی تیزی سے کھو رہے ہیں۔حال ہی میں آئے شیوسینا سپریمو ادھو ٹھاکرے اور تیلگو دیشم پارٹی کے صدر چندربابو نائیڈو کے بیان سے اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھی آپس میں اتنا عدم اعتماد بڑھ جاتا ہے کہ کسی بھی طرح کے تال میل کا امکان سیاست میں ختم ہو جاتا ہے۔
سرکاری طاقتوں کے غلط استعمال نے آج بی جے پی کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اب کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہو رہا۔ سیاسی آرٹ یہاں آکر اوندھا منھ گر جاتا ہے۔ بڑھتا ہوا حزب مخالف اتحاد کا سیدھا تعلق بی جے پی کو لےکر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد سے ہے۔ جیسے ہی حزب مخالف اتحاد بڑھتا ہے ویسے ہی بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی شکست کھانے لگتی ہے جیسا کہ اتر پردیش میں بھی دیکھنے کو ملا۔بی جے پی کو یہ قطعی نہیں بھولنا چاہئے کہ 2014 کے عام انتخابات میں صرف 31 فیصدی ووٹ کی بدولت ان کو معمولی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ جبکہ اس وقت حزب مخالف اس طرح سے متحد نہیں تھے۔ خیر اس مینڈیٹ سے بکھرے ہوئے حزب مخالف کو بھی تعجب ہوا تھا۔ ان کو ایسی امید نہیں تھی۔
صرف 31 فیصدی ووٹ کے تناسب میں بی جے پی کو جتنی سیٹ ملیں، وہ ہندوستان کے انتخابی تاریخ میں اب تک اتنے ووٹ شیئر پر سب سے زیادہ سیٹوں کی تعداد ہے۔ ہرایک فیصدی ووٹ پر بی جے پی کو نو سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔یہ متناسب اعداد و شمار راجیو گاندھی کو 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملی شاندار جیتکے اعداد و شمار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت کانگریس کو 50 فیصدی ووٹ کے ساتھ 404 سیٹ ملی تھیں۔ اس حساب سے ہرایک فیصدی ووٹ پر کانگریس کو آٹھ سیٹ ملی تھیں۔
یہ بی جے پی کو ہرایک فیصدی ووٹ پر ملے نو سیٹوں سے کم ہی ہے۔ اس سے پہلے 1971 میں اندرا گاندھی کو ملی شاندار جیت میں کانگریس کو 44 فیصدی ووٹ اور 352 سیٹ ملی تھیں۔ اس میں بھی ہرایک فیصدی ووٹ پر آٹھ سیٹوں کے اعداد و شمار ہی بیٹھتا ہے۔ اس لئے بی جے پی کی موجودہ جیت میں ووٹ شیئر کے اتنے بڑے پیمانے پر سیٹ میں تبدیل ہونا تھوڑا الگ ہی ہے۔
2019 میں حزب مخالف پارٹیوں کے متحد ہونے سے ووٹ شیئر اور سیٹوں کے تناسب میں ممکن ہے کہ گراوٹ آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پچھلی بار کے برابر 31 فیصدی ووٹ بھی اگر بی جے پی کو ملتے ہیں توبھی اس کو سیٹ کم ملیںگے۔اس کے علاوہ اینٹی ان کمبیسی کی وجہ سے اگر بی جے پی کے ووٹ شیئر میں گراوٹ آتی ہے تو بی جے پی کل 200 سیٹوں سے بھی نیچے جا سکتی ہے۔ اس کا امکان کرناٹک کے انتخابات میں ملی نفسیاتی ہار اور اتر پردیش میں حزب مخالف جماعتوں کے متحد ہونے سے بڑھ گئی ہے۔
حزب مخالف کو اب کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے اتحاد اور طاقت کو بنائے رکھے۔ اقتصادی بدانتظامی، بڑھتی بےروزگاری اور زراعتی بحران بی جے پی کے لئے 2019 میں جی کا جنجال بننے والے ہیں۔ ہندی پٹی میں بھی، جہاں طے ہے کہ 2019 کے قریب آتے آتے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھیںگی، بی جے پی کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ایک مقام ایسا آئےگا جب فرقہ پرستی کے کارڈ کا بھی بےشمار استعمال سے نقصان پہنچانا شروع کر دےگا، خاص کر تب جب دوسری طرف حزب مخالف متحد رہےگا۔یہ سب تب ہی ممکن ہے جب حزب مخالف مدعے پر مبنی سیاست پر زور دیں اور شخصی سربراہ مقابلے سے دور رہیں۔ سیاسی طور پر یہ کوئی بہت مغز ماری کا کام نہیں ہے۔ کرناٹک میں جو کچھ ہوا اس سے اس بارے میں حزب مخالف کے سامنے یہ تصویر کچھ صاف ہوئی ہے۔
Categories: فکر و نظر