کوبراپوسٹ کے اسٹنگ آپریشن میں ٹائمس گروپ کے ایم ڈی ونیت جین کہتے نظرآ رہے ہیں کہ ایک کارپوریٹ کے طور پر ہمیں غیر جانبداردکھنا ہے، مطلب دیکھنے میں غیر جانبدار لگنا چاہئے۔
نئی دہلی:جس نے بھی ٹائمس گروپ میں اپنے کیریئر میں ایک صحافی کے طور پر یا پھر اس کے کسی دوسرے محکمہ میں کام کیا ہوگا اس نے یہ بات ضرور سنی ہوگی، ہم خبروں کے کاروبار میں نہیں ہیں۔اخبار کا کام قارئین تک اشتہار پہنچانا ہے۔یہ پہلی بار کس نے کہا اس کے بارے میں پتہ نہیں۔کچھ کا ماننا ہے کہ کارپوریٹ مینجر تو کچھ کہتے ہیں کہ یہ گروپ کے مالک مینیجنگ ڈائریکٹر ونیت جین کے لفظ ہیں جنہوں نے رسمی طور پر نیویارک کے کین آلیٹا سے کہا تھا، ہم اخبار کے کاروبار میں نہیں ہیں، ہم اشتہار کے کاروبار میں ہیں۔
شاید اسی لئے بہت لوگوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا جب جین اور ان کی دوسری کارپوریٹ کمپنیوں میں سے ایک کو کیمرے کے سامنے ہندو توا کے ایجنڈے کو بڑھانے کے عوض میں 500 کروڑ روپے لینے سے کوئی گریز نہیں ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔کوبراپوسٹ کےانڈر کور رپورٹر نے اس اسٹنگ آپریشن میں یہ بھی کہا کہ وہ یہ 500 کروڑ روپے بلیک منی کی شکل میں دیںگے۔کالا دھن لینے کے علاوہ جین اور ان کے خاص لوگ خفیہ طریقے سے ریکارڈ کی گئی اس بات چیت میں جس حد تک ایڈیٹوریل لائن کے ساتھ اشتہار کے گھال میل کی بات کرتے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔
کوبراپوسٹ کے اس انکشاف میں جین اور بینیٹ کولمین اینڈ کمپنی لمیٹڈ (بی سی سی ایل) کے ایگزیکٹیو چیئر مین سنجیو شاہ کو کوبراپوسٹ کے انڈر کور پشپ شرما سے سودے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔پشپ شرما اس بات چیت میں خود کو ‘آچاریہ اٹل ‘کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ بے نام تنظیم کے نمائندہ بنکر آئے ہیں لیکن وہ یہ جتلاتے ہیں کہ ان کا تعلق ناگ پور واقع راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے ہے۔
سنجیو شاہ اور ‘آچاریہ ‘کے درمیان ہوئی پہلی میٹنگ میں شاہ کو ٹائمس گروپ کی اونچی پہنچ اور اقتدار کے گلیاروں میں اچھی گرفت کا حوالہ دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے بات چیت کے دوران بتایا کہ کیسے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس اور وزیر اعظم نریندر مودی کا جین اور ان کی ماں کے یہاں آنا جانا ہے۔وہ خفیہ ویڈیو میں ‘آچاریہ اٹل ‘پر جین کو متاثر کرنے کے لئے رقم بڑھانے کو لےکر دباؤ بناتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔
میڈیا گروپ کے ذریعے مارچ 2018 میں 2000 کروڑ روپے کا فائدہ کمانے کی بات کرتے ہوئے سنجیو شاہ کہتے ہیں کہ تنظیم کو کم سے کم 1000 کروڑ روپے خرچ کرنے کے بارے میں خیال کرنا چاہئے تاکہ جین سے بات پکی کی جا سکے۔وہ تنظیم کے ہندتووادی پروپگینڈے کو سات سے آٹھ کروڑ قارئین تک ہر روز پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ویڈیو کلپ کے دوسرے حصے میں جین کو اسکیم پر بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔وہ ‘آچاریہ اٹل ‘سے کہہ رہے ہیں، ‘ایک کارپوریٹ کے طور پر ہمیں غیر جانبدار دکھنا ہے۔مطلب کہ دیکھنے میں غیر جانبدار لگنا چاہئے۔ ‘
‘ آچاریہ اٹل ‘ جین سے ‘ 2019 میں ان کے کارپوریٹ مفادات کا خیال رکھنے کا وعدہ کرتے ہیں ‘اور ان کو صلاح دیتے ہیں کہ ‘ہندوتوا کو روحانیت ‘کے طور پر بیچئے۔ وہ جین کو مطمئن کرتے ہیں، ‘ ہم اس کو ووٹ میں بدل دیںگے اور اس کا فائدہ اٹھائیںگے۔ ‘وہ 2019 میں بھگوا پارٹی کے نہیں جیتنے کی حالت میں پوزیشن بدلنے کو لےکر جین کو بھی خبردار کرتے ہیں۔معلوم ہو کہ عام انتخابات 2019 کے درمیان تک ہونے کا امکان ہے۔
اس کے بعد ‘آچاریہ ‘ کو تین سطحوں پر مہم چلانے کی بات کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے جس میں بھگوان کرشن اور بھگود گیتا کے نام پر کچھ نیم سیاسی مواد کی بدولت ‘ نرم ہندوتوا ‘ پھیلانے کی بات کہی جا رہی ہے۔وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس پورا مواد تیار ہے جو ‘پپّو، پھوپھی اور ببوا ‘ کا مذاق اڑانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔یہ تینوں کانگریس صدر راہل گاندھی، بی ایس پی کی صدر مایاوتی اور اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے لئے استعمال ہونے والے نام ہیں۔
صرف ایک بار جین اپنے اس کلائنٹ کی بات پر ٹھٹکے جب ‘ آچاریہ ‘ نے ان کو فیمینا مس انڈیا مقابلہ میں حصہ لینے والوں سے ہندوتو اکے اوپر سوال کرنے کو کہا۔بتا دیں کہ جین مقابلہ حسن میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔اس کے بعد تینوں ادائیگی کی رقم کیسے دینی ہے اس کو لےکر اسکیم بنانے لگے۔’ آچاریہ اٹل ‘یہ رقم نقد کے طور پر دینے پر زور دیتے ہیں۔تو وہیں جین اور شاہ چاہتے ہیں کہ ادائیگی چیک کے ذریعے ہو۔
وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی میں نقد میں کوئی لین دین نہیں ہوتا۔انڈر کور رپورٹر پشپ شرما پھر ان کو تین بار میں پوری رقم لینے کی صلاح دیتے ہیں۔ایک کنٹینٹ پلان طے ہو جانے پر 182 کروڑ روپے کی تین رقم ٹائمس گروپ کو دی جائےگی۔تینوں اس بات پر اتفاق جتاتے ہیں کہ زیادہ بڑی رقم ‘ اگلی حکومت کے جانچکے حکم دینے پر ‘ ان کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔شرما ‘اپنا گلاسگو واقع کمپنی ‘کے معرفت پیسہ دینے کی بھی پیشکش کرتے ہیں لیکن جین چیک کے ذریعے ہی پیسہ لینے پر زور دیتے ہیں۔500 کروڑ کی رقم جس پر معاملہ طے کیا گیا وہ ٹائمس گروپ کی 2017 میں کل آمدنی 9976 کروڑ روپے کا پانچ فیصد ہوتا ہے۔
دی وائر کو 26 مئی کو کئے گئے ایک ای میل میں ٹائمس آف انڈیا کے نمائندے نے کہا ہے، ‘ہم صرف مارکیٹنگ آفر انہیں (کوبراپوسٹ نامہ نگار) دے رہے تھے تاکہ ان کے پیچھے کون ہے پتا چل سکے۔ ہم نے واضح طور پر کہا کہ ہم کسی بھی صورت میں نقد میں کوئی معاہدہ نہیں کرتے ہیں۔تمام بڑے معاہدے بینکوں کے ذریعے قانونی طریقے سے ہوتے ہیں۔اس تناظر میں ہمارے بیان کو توڑ مروڑکر پیش کیا گیا ہے۔ ‘ان کی دوسری میٹنگ میں شاہ ‘آچاریہ اٹل ‘کو بتلاتے ہیں کہ انہوں نے کمپنی کے اندر ایک ٹیم بنا لی ہے جو گروپ کے تمام کمپنیوں میں چلنے والے کنٹینٹ وغیرہ پر نظر رکھےگی۔
اس بار ایک بار پھر سے جین اور شاہ نقد کے بجائے چیک سے پیسے لینے پر زور دیتے ہیں۔تب ‘آچاریہ ‘ان کو کم سے کم دس فیصدی رقم (50 کروڑ روپے)نقد میں لینے کی گزارش کرتے ہیں۔کافی زور دینے کے بعد شاہ اور جین رقم کی آخری قسط نقد میں لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد تینوں اس پر بات چیت کرتے ہیں کہ کن کمپنیوں کے ذریعے ٹائمس گروپ کو پیسہ پہنچایا جا سکتا ہے تاکہ تنظیم سے کوئی اس کو نہ جوڑ سکے۔
جین اور شاہ نے تب ‘ آچاریہ اٹل ‘کو گورو ڈالمیا، بینکر ہیمیندر کوٹھاری، اڈانی گروپ، امبانی گروپ یا پھر ایسار گروپ کا نام سجھایا اور کہا کہ ان کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات ہیں اس لئے ان کے ذریعے آسانی سے پیسہ منگوایا جا سکتا ہے۔سنجیو شاہ کسی ‘ کمار ‘ کا نام بھی لیتے ہیں جو یہ کام کر سکتا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہو پا رہا ہے کہ وہ کس کی بات کر رہے ہیں۔حالانکہ یہ صاف نہیں ہو رہا ہے کہ محکمہ ٹیکس کو چکمہ دینے کے لئے کیا راستہ اختیار کیا جائےگا اور اس بیچ وزارت خزانہ یہ طےکرےگا کہ ٹائمس گروپ اور ‘ تنظیم ‘ کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔
دی وائر اس ای میل تک پہنچنے میں کامیاب رہا ہے جو سنجیو شاہ نے ‘شریمد بھگود گیتا پرچار سمیتی’ کو بھیجا تھا۔یہ ایک نام نہاد تنظیم تھی جو ‘آچاریہ اٹل ‘نے ان کو بتایا تھا کہ انہوں نے معاہدہ کرنے کے لئے بنایا ہے اور اس میں ‘ تنظیم ‘ کے پروپگینڈہ کو کیسے ٹائمس گروپ کے ذریعے نشر کرنا ہے اس کو طے کرنا ہے۔
یہاں کچھ ایسی ممکنہ اسکیموں کی فہرست دی جا رہی ہے جو سنجیو شاہ نے 500 کروڑ کے عوض میں ‘بھگود گیتا اور بھگوان شری کرشن کے پیغام کی تشہیرو توسیع کے لئے ‘ تجویز کی تھی :
1شاہ بی سی سی ایل کی فہرست میں شامل اخباروں کا نام دیتے ہوئے لکھتے ہیں، ‘ ہم اخباروں (خاص کر اسپیکنگ ٹری، نوبھارت ٹائمس وغیرہ) کا استعمال بیداری پھیلانے اور لگاتار نظر میں رہنے کے لئے کریںگے۔ہم دو صفحات کی ریسرچ پر مبنی خاص گوشےبھی چھاپ سکتے ہیں۔ ‘
2 فیمینا، فلم فیئر، ہیلو!، گریزیا، ٹاپ گیئر، گڈ ہومس اور لونلی پلینیٹ جیسے رسالوں کا استعمال ہم ‘ بیداری پھیلانے اور لگاتار نظر میں رہنے کے لئے ‘ کریںگے۔ریسرچ پر مبنی حقیقتوں کی بنیاد پر کچھ خاص رسالہ بھی نکال سکتے ہیں۔ایسی ہی اسکیم ٹائمس بکس کے لئے بھی ہو سکتی ہے۔
3 گروپ کے پاس ٹائمس ناؤ، مرر ناؤ، زوم ٹی وی اور رامیڈی ناؤ کو ملاکر 12 ٹی وی چینل ہیں۔یہ تمام چینل ٹی وی سیریز تیار کریںگے۔شاہ نے دعویٰ کیا کہ ان تمام چینلوں کو کل ملاکر 12کروڑ لوگ دیکھتے ہیں۔
4ریڈیو مرچی جس کو 13 کروڑ لوگ سنتے ہیں، اس پر ہندو توا پر خاص پروگرام براڈکاسٹ کیا جائےگا۔
5اگر شاہ کی بات پر یقین کریں تو ملک کے سارے بڑے شہروں جیسے دہلی، ممبئی، کولکاتہ، بینگلورو، حیدر آباد میں ان پروگراموں کی ہورڈنگس لگائی جائےگی۔
6گروپ نے ای ٹی ایج کا فائدہ اٹھانے کا بھی وعدہ کیا۔اس کے تحت بزنس سمٹ کئے جاتے ہیں جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ اپنے اس کلائنٹ کے نظریہ سے جڑے خطیبوں کو اسٹیج دیا جائےگا۔
7 فلم فیئر ایوارڈ، کارپوریٹ ایکسی لینس کے لئے دیا جانے والا اکونامکس ٹائمس ایوارڈ، مرچی میوزک ایوارڈ، فیمینا مس انڈیا اور ٹوئفا ایوارڈ جیسے تقریبات کا استعمال بھی پروپگینڈےکے لیے کیا جائےگا۔ان تقریبات پر کئی لوگوں کی نظر رہتی ہے کیونکہ ان میں بڑے سیلیبرٹی اور سیاستداں شرکت کرتے ہیں۔
8 ٹائمس گروپ کی جنگلی پکچرس جس نے دل دھڑکنے دو، تلوار اور بریلی کی برفی جیسی فلمیں بنائی ہے، تنظیم کے نظریہ کو بڑھانے والی فیچر فلم اور شارٹ فلم بنا سکتی ہے۔اسی طرح سے ٹائمس میوزک ‘ مشہور موسیقاروں اور فنکاروں ‘ کو لےکر مقامی اور عالمی سطح پر کنسرٹ منعقد کر سکتا ہے۔
9ٹائمس گروپ کا ڈیجیٹل پلیٹ فارم جس پرمہینے میں23.2 کروڑ لوگ آتے ہیں ، 10.4 کھرب بار پیج دیکھتے ہیں اور 10کھرب منٹ ویب اور موبائل پر گزارتے ہیں، کا استعمال ‘فکشنل اور ڈاکیومنٹری جیسی چیزوں ‘ کو دکھانے میں ہوگا۔ سنجیو شاہ کا دعویٰ تھا، ‘یہ گروپ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور اس کا استعمال بڑے پیمانے پر بڑی پہنچ بنانے میں کیا جا سکتا ہے۔
10 اس دوران ٹائمس گروپ سے حال ہی میں جڑے ٹائمس اسٹوڈیو کا استعمال او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور برانڈس کے لئے اعلیٰ معیار والے ڈیجیٹل مواد تیار کرنے میں کیا جائے گا
ٹائمس گروپ کے ملازم سمیر جین کو ‘ وی سی ‘ کہہکر پکارتے ہیں اور ان کو اکثر ٹائمس گروپ کی کامیابی کا سہرا دیا جاتا ہے۔میڈیانیٹ، بی سی سی ایل کی پیسہ کمانے والی دودھارو گائے کی طرح ہے لیکن اس کا سہرا ونیت جین کو دیا جاتا ہے۔اس اسکیم کے تحت مشتہر سرکاری طور پر تو اشتہار کی جگہ خریدتے ہیں لیکن ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ ان کو اخبار کے صفحات پر بھی تشہیر کے لئے کچھ جگہ مہیا کراتی ہے۔کارواں میگزین نے جب ونیت جین کی پروفائل چھاپی تھی تب اس اسکیم کے بارے میں بہترین طریقے سے بتایا تھا۔
رسالہ کے لئے یہ رپورٹ کرنے والے سامناتھ سبرمنین نے لکھا تھا، ‘میڈیانیٹ پچھلی کئی دہائیوں میں ہندوستانی صحافت میں اٹھائے گئے سب سے خراب قدموں میں سے ایک ہے۔میڈیانیٹ کی پہل اہم اخبار میں بھی اپنی گھس پیٹھ کر لی ہے۔اس کی مدد سے مشتہرین کو مثبت خبروں کی آڑ میں پیش کر کے ان کو خوش کیا جا سکتا ہے۔اس میں شامل سودے بازی کو ثابت کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔ ‘وہ آگے لکھتے ہیں، ‘سمیر جین کی دو ایسے نظرئے تھے جس کی بنیاد پر میڈیانیٹ کی سوچ ترقی ہوئی ہے :پہلا نظریہ تو یہ تھا کہ ٹائمس گروپ کا اخبار اکثر لوگوں اور کمپنیوں پر رپورٹنگ کر کےان کو مفت میں پبلسٹی دیتے ہیں اور دوسرا نظریہ یہ تھا کہ صحافی پیسے اور دوسرے فائدوں کے لئے لکھکر الگ سے کمائی کرتے ہیں۔ ‘
میڈیانیٹ کے تحت کوریج کی سب سے غلیظ مثال اس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب نوٹ بندی کا اعلان ہوا تھا۔ٹائمس گروپ کےاخبار ممبئی مرر کے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا تھا، ‘یہ ایک ناقابل تردید سچ ہے کہ نریندر مودی ملک کے اب تک کے سب سے بہترین وزیر اعظم ہے۔وزیر اعظم کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم ملک کی ترقی میں ایک شہرہ آفاق تبدیلی لائےگا۔ ‘
ممبئی مرر کی ویب سائٹ پر یہ آرٹیکل بغیرکسی وضاحت کے چھپا تو وہیں پرنٹ میں پیج نمبر27 پر یہ چھپا تھا اور صفحے کے اوپر بہت ہی باریک حرفوں میں لکھا تھا پرموشن آف بزنیس آف انٹرٹین منٹ جس کو اشتہار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ٹائمس گروپ کا حکمراں جماعت کے ساتھ ہمیشہ سے اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں۔اگر افواہوں پر یقین کیا جائے تو مارچ 2017 میں ہونے والے اکونامک ٹائمس کے گلوبل بزنس سمٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی مہمان خصوصی ہونے والے تھے لیکن انہوں نے آخری وقت میں اس میں شامل ہونے سے منع کر دیا۔
نیوزلانڈری نے کئی ذرائع کے حوالے سے یہ بتایا ہے کہ کیوں وزیر اعظم مودی اس انعقاد سے خود کو دور کر لیا۔اس نے اتر پردیش انتخاب کے بعد کئے گئے ٹائمس گروپ کے کوریج سے لےکر ونیت جین کے اس ٹوئٹ کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں انہوں نے نوٹ بندی کی تنقید کی ہے۔اس کے علاوہ ٹائمس آف انڈیا کے کارٹونوں میں بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے اور ریڈیو مرچی پر بھی مودی کا مذاق اڑایا گیا ہے۔یہ تنازعہ تب سامنے آیا جب اتر پردیش انتخاب کور کرنے والی اکونامک ٹائمس کی صحافی روہنی سنگھ نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کیا اور ریڈیو مرچی نے اپنا شو ‘متروں’بند کر دیا۔
مودی کے قدم سے ٹائمس گروپ کے چینلوں کو تعجب ہوا تھا۔ٹائمس ناؤ نے نوٹ بندی کے حق میں مہم چلا رکھی تھی جس کے بارے میں مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ کالا دھن سے نپٹنے کے لئے یہ ضروری قدم ہے۔بعد میں ایک لیک ہوئے وہاٹس ایپ پیغام نے جون 2017 میں ٹائمس آف انڈیا کے مدیروں اور مودی حکومت کے درمیان ہوئی سانٹھ گانٹھ کا انکشاف کیا۔
اخبار کے کارگزار مدیر کی طرف سے غلطی سے یہ پیغام ٹی او آئی گروپ میں بھیج دیا گیا تھا۔اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ کیسے وہ اور اکونامکس ٹائمس اور اوپن کے سابق مدیر نے ملکر وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ساتھ ایک ا نام ٹیکس آفیسر کی طرف سے لابنگ کی ہے۔جولائی 2017 میں ٹائمس آف انڈیا کے احمد آباد ایڈیشن میں پچھلے پانچ سالوں میں امت شاہ کی جائیداد میں 300 فیصدی کا اضافہ ہونے کے اوپر ایک رپورٹ چھپی تھی جس کو اخبار کی ویب سائٹ سے چھپنے کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر ہٹا لیا گیا تھا۔اخبار کی طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ٹائمس آف انڈیا نے اسمرتی ایرانی کے ممبر آف پارلیامینٹ لوکل ایریا ڈیولپمنٹ فنڈ (ایم پی ایل اے ڈی) کی دھوکہ دھڑی میں شامل ہونے کی رپورٹ کے ٹوئٹ اور فیس بک پوسٹ کو ہٹانے کا فیصلہ لیا ہے۔مانا جاتا ہے کہ ایرانی نے 27 جولائی 2017 کو چھپی اس رپورٹ پر اعتراض درج کیا تھا۔اس کے علاوہ ستمبر 2017 میں ٹائمس آف انڈیا کے جئے پور ایڈیشن میں چھپے نریندر مودی حکومت کی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کی تنقید کو بھی اس کی ویب سائٹ سے کچھ ہی گھنٹوں میں ہٹا لیا گیا تھا۔