گراؤنڈ رپورٹ :ویدانتا گروپ کے اسٹرلائٹ پلانٹ کے ملازمین کی آپ بیتی بتاتی ہے کہ کمپنی کا اپنے ملازمین کے تئیں رویہ بےحد غیر انسانی تھا۔
توتی کورن : تمل ناڈو کے اس ساحلی شہر کے باہری حصے میں رہنے والے 34 سال کے کارتی بان گہرے صدمے میں ہیں۔ پتھر پر بیٹھکر اپنے بائیں ہاتھ کے ناخن کو چباتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘ میں نے کوشش کی۔ میں نے جینے کی کوشش کی۔ لیکن اب میرا مرنا ضروری ہے اور بغیر دائیں ہاتھ کے جینے سے مرنا زیادہ بہتر ہے۔ ‘کارتی بان اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ میں کام کرتے ہوئے 2017 میں زخمی ہو گئے تھے۔ ان کے علاج کا خرچ ای ایس آئی (Employees’ State Insurance)کی طرف سے اٹھایا گیا لیکن اب تک ان کو پینشن کے طور پر ملنے والے 5000 روپے ملنے شروع نہیں ہوئے ہیں۔ ان کا جو نقصان ہوا ہے اس کے سامنے یہ رقم کچھ بھی نہیں ہے لیکن وہ بھی کم سے کم ملے تو۔
وہ کہتے ہیں، اپنا ہاتھ کھونے کے بعد مجھے اب تک کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔ میں انتظار کرتا رہا اور بار بار کمپنی سے پوچھتا رہا اس کے بارے میں۔ وہ مجھے بار بار بعد میں آنے کو کہتے رہے۔ ‘ان کی پریشانی اب اور بڑھ گئی ہے کیونکہ ان کی بیوی جو اسی کارخانہ میں کام کرتی تھی، اب بےروزگار ہیں کیونکہ تمل ناڈو حکومت نے 28 مئی کو کارخانہ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ریاستی حکومت نے پچھلے ہفتے ویدانتا کمپنی کی مخالفت کر رہے 13 لوگوں کی پولیس کی گولی باری میں مارے جانے کے بعدپلانٹ کو ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ لوگ اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کو لےکر احتجاج کر رہے تھے۔ یہ مظاہرہ پچھلے تین مہینوں سے چل رہا تھا۔
ریاستی حکومت کے فیصلے سے جشن کے بجائے چاروں طرف ایک سناٹا پسر گیا ہے کیونکہ اس فیصلے نے اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی میں بہت کچھ بدل دیا ہے۔ قریب 3500 مزدوروں کی چھٹی کر دی گئی ہے جبکہ 40000-30000 لوگ بلاواسطہ طور پر اس کی معاون اکائیوں میں کام کر رہے ہیں۔کارتی بان ان کئی مزدوروں میں سے ایک ہیں جن کو اب تک اسٹرلائٹ کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔ لیکن اسٹرلائٹ کے مزدوروں کی طرف سے مقدمہ لڑنے والے وکیل ادھی سایا کمار کا دعویٰ ہے، کچھ فیملی ایسے بھی ہیں جن کے گھر میں اکیلے کمانے والے شخص کی کارخانہ کے اندر موت ہو گئی ہے ان کو لاکھوں روپے کا معاوضہ ملا ہے اور غیرقانونی طور پر ان کا نپٹارہ کیا گیا ہے۔ ‘
ادھی سایا کمار نے 2006 سے لےکر 2010 کے درمیان کارخانے میں کتنی موتیں ہوئی ہیں، اس کو لےکر آر ٹی آئی دائر کی تھی۔ جو جواب ان کو ملا اس کو دیکھکر ان کو تعجب ہوا ہے۔ آر ٹی آئی کے جواب کے مطابق مقامی پولیس کے ذریعے 20 لوگوں کے مرنے کی ایف آر آئی درج کی گئی تھی۔ لیکن دو لفظ ایسے تھے جو ہر مقدمہ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ وہ لفظ تھے ‘ کارروائی بند کر دی گئی ہے۔ ‘کمار کا کہنا ہے، ؛ کیوں کارروائی بند کر دی گئی ہے اس کے بارے میں ہم پوری طرح سے نہیں جانتے ہیں لیکن ایسا سننے میں آیا ہے کہ غیرقانونی طور پر ان معاملوں کو نپٹا دیا گیا ہے۔ ‘
فوجداری مقدمے کا صنعتی حادثات کے معاملے میں ایک اختیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ویسے معاملوں میں جہاں نتیجہ بالکل صاف ہے وہاں سرکاری افسروں کو جانکاری لینی ہوگی۔ کارتی بان کے معاملے اور کئی زخمی دوسرے مزدوروں کے معاملے میں لاپروائی صاف دکھتی ہے۔ ان معاملوں پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔The Fatal Accidents Act, 1855کی دفعہ 1A کے تحت جب کسی کی موت غلطی، لاپروائی یا کسی خامی کی وجہ سے ہوتی ہے تو متاثرہ فریق کو کارروائی کرنے اور نقصان کی بھرپائی کا حق ہوتا ہے۔ موت نہیں ہونے کی حالت میں بھی متاثرہ فریق کو کارروائی اور نقصان کے لئے مقدمہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ لیکن اسٹرلائٹ کارخانے میں شاید ہی اس کا عمل ہوتا ہے کیونکہ درج ایف آئی آر کہیں میں لٹکی رہ جاتی ہیں۔
40 سال کے بھاکیاراج جو سابق فیکٹری انسپکٹر ہیں، کمار کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں اور بتاتے ہے کہ کمپنی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاملوں کو نپٹاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ‘ یہ کسی پنچایت کی طرح ہوتا ہے جس میں کمپنی کے لوگ ایک مشت کچھ پیسے لےکر معاملے کو رفع دفع کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ سالوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ‘بھاکیاراج یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیسے شمالی ہندوستان سے آنے والے مزدور غیر محفوظ حالت میں کام کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ-پاؤں کھو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ وہ (کمپنی مینجمنٹ) ان کو (مہاجر مزدوروں کو) ڈسپوزابل جیسے سمجھتے ہیں کہ کیا اور پھینک دیا۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ کوئی ہنگامہ بھی نہیں کھڑا کریںگے۔ ‘
کمپنی کی سودے بازی کی سیاست میں پھنس چکے 25 سال کے مادھو بہار سے یہاں کام کرنے آئے ہیں۔ وہ واپس بہار جانے سے پہلے ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں کہتے ہیں، ‘میں جا رہا ہوں۔ میں بنا کوئی رقم لئے جا رہا ہوں۔ میری زندگی برباد ہو چکی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ ویڈیو ان لوگوں تک پہنچےگا جن تک اس کے پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ‘مادھو کیمرے کے سامنے اپنا جھولتا ہوا ہاتھ دکھاتے ہیں۔ مادھو کو معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ان کو کچھ نہیں ملا۔ وہ ویڈیو میں کہتے ہیں، ‘میں چاہتا ہوں کہ ہر کسی کو پتا چلے کہ میری کڑی محنت کے بدلے میں مجھے کچھ نہیں ملا ہے۔ کسی کو میری پرواہ نہیں۔ ‘
2007 میں ناروے کاؤنسل آف ایتھیکس نے ویدانتا کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا تھا اور ناروے گورنمنٹ پینشن فنڈ کو صلاح دی تھی کہ ویدانتا میں اپنی حصےداری ختم کر دیں اور کمپنی میں کوئی سرمایہ کاری نہ کریں کیونکہ کمپنی انسانی حقوق، مزدوروں کی حفاظت اور ماحولیاتی تحفظ جیسے مسائل کے لیے بنائے گئے اصولوں پر عمل کرتی نہیں پائی گئی ہے۔ فروری 2015 اور 2016 میں ویدانتا نے کاؤنسل کو لکھکر 2007 کے فیصلے پر پھر سے خیال کرنے کو کہا تھا۔حالانکہ 9 مارچ 2017 کو کاؤنسل نے پھر سے کہا، کاؤنسل نے 2016 میں 2007 سے باہر کئے گئے ویدانتا کی سہولیات کا ایک بار پھر سے تجزیہ کیا ہے اور پایا ہے کہ اس کو باہر رکھنے کے فیصلے کو جاری رکھا جائے۔ ‘
دوسری طرف وہ مزدور ہیں، جن کی نوکریاں چلی گئی ہیں اور وہ اس سے پریشان نہیں ہیں۔ پنڈارمپاٹی گاؤں میں اپنے گھر میں بیٹھے متپانڈی بتاتے ہیں، ‘میری نوکری چلی گئی ہے تو کیا ہوا؟ بہت سارے ایسے ہیں جن کی اس تحریک میں زندگی تک چلی گئی ہے۔ میرے لئے یہ کچھ بھی نہیں۔ ‘متپانڈی اور دوسرے کئی مزدوروں کو کچھ دنوں پہلے اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ کی حمایت اور مخالفت کر رہے مظاہرین کے خلاف ایک کاغذ پر دستخط کر اس کو کلکٹریٹ آفس میں جمع کرنے کو کہا گیا تھا۔ انہوں نے اس سے صاف انکار کر دیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں، ‘ کام کرنے کے لحاظ سے یہ کارخانہ بہت غیر محفوظ ہے اور ہم سب یہ بات جانتے ہیں۔ دل میں مجھے پتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک الجھن ہے۔ جانتا ہوں کہ میں اسی کمپنی کے لئے کام کرتا ہوں جو اس ہوا کو آلودہ کر رہی ہے جس میں میں سانس لیتا ہوں۔ لیکن اگر میرے پاس اختیار ہو تو میں آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس کے بند ہونے سے ہماری آنے والی نسل کو اچھی صحت ملتی ہے تو یہ کمپنی میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ ‘
اسٹرلائٹ کارخانے میں کام کرنے والی تیس سال کی مالتی کارخانے کے بند ہونے سے صدمے میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘ مجھے دوبارہ نوکری مل جائےگی۔ کارخانے کا سیل اور بند ہونا عارضی ہے۔ ان کاماننا ہے کہ حکومت نے یہ مرنےوالوں کی فیملی والوں کو خاموش کرنے کے لئے ایسا کیا ہے تاکہ وہ پوسٹ مارٹم وغیرہ کارروائی ہو۔حالانکہ 40 سال کی مَیری پورے معاملے کو لےکر بھروسہ کھو چکی ہیں اور اس پورے معاملے کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ وہ یہ صاف سمجھتی ہے کہ یہ جشن منانے کا وقت تو نہیں ہے۔وہ کہتی ہیں، ‘ کارخانہ بند ہوگا، پھر کھلےگا، پھر بند ہو رہا ہے پھر کھل رہا ہے۔ کیا ہے یہ معاملہ؟ ہمیں حکومت اور پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ انل اگروال (ویدانتا گروپ کے بانی اور چیئر مین) ہمارے دکھ کو کم نہیں کر سکتے۔ ہم اب یہاں سے کہاں جائیںگے؟ ‘
Categories: گراؤنڈ رپورٹ