خبریں

ویدانتا کے ذریعے ماحولیاتی اصولوں کی دھجیاں اڑانے میں مودی حکومت کا پورا تعاون رہا ہے

مودی حکومت کے ذریعے دسمبر 2014 میں ماحولیاتی قانون میں ایسی تبدیلی کی گئی، جس سے ویدانتا کے توتی کورن پروجیکٹ جیسے کچھ اسپیشل پلانٹ کو ان سے متاثر ہونے والے لوگوں کی رائے کے بغیر بنانے کی منظوری ملی۔

توتی کورن میں اسٹرلائٹ کاپرکو بند کرنے کی مانگ‌کر رہے مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتی پولیس (فوٹو :پی ٹی آئی)

توتی کورن میں اسٹرلائٹ کاپرکو بند کرنے کی مانگ‌کر رہے مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتی پولیس (فوٹو :پی ٹی آئی)

نئی دہلی:تمل ناڈو کے توتی کورن میں ویدانتا گروپ کے روزانہ 1200 ٹن کی صلاحیت والے کاپر اسمیلٹر پلانٹ کے متنازعہ توسیع پر ہائی کورٹ نے 23 مئی کو روک لگا دی ہے۔ کورٹ کا یہ فیصلہ ریاستی پولیس کی فائرنگ میں پلانٹ کے خلاف مظاہرہ کر رہے کم سے کم 11 لوگوں کے مارے جانے کے بعد آیا ہے۔کورٹ نے کمپنی کو پلانٹ کے آگے تعمیر کرنے سے پہلے لوگوں سے  مشورہ کرنے  کا حکم دیا ہے، جبکہ کمپنی کا یہ دعویٰ تھا کہ قانونی طور پر اس کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ویدانتا کا دعویٰ ہے کہ اس نے اسمیلٹر پلانٹ کی صلاحیت کو بڑھاکر دو گنا کرنے کے لئے قانون کے مطابق مرکزی حکومت سے ضروری ماحولیاتی کلیرنس لیا تھا۔  لیکن مرکزی وزارتِ  ماحولیات اور کورٹ کے کئی ریکارڈوں کی جانچ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ این ڈی اے حکومت نے دسمبر، 2014 میں ماحولیاتی قوانین کی جو وضاحت کی،اس نے توتی کورن میں ویدانتا جیسے کچھ پلانٹ کی مدد کی اور انھیں منصوبہ سے متاثر ہونے والے علاقے کے لوگوں سے مشورہ کئے بغیر ہی تعمیری کام کو آگے بڑھانے کی اجازت دے دی گئی۔

ماحولیاتی تحفظ کےاصولوں میں یہ چھوٹ کئی صنعتوں کی گزارش پر دی گئی۔ یہ بات بزنس اسٹینڈرڈ کے ذریعے کورٹ اور سرکاری دستاویزوں کے تجزیہ سے نکل‌کر سامنے آئی ہے۔ یہ چھوٹ اس وقت کے ماحولیاتی وزیر کے احکام کے ذریعے دی گئی جس میں ‘وضاحت ‘ کو شامل کیا گیا تھا۔  آنے والے مہینوں میں اس وضاحت سے ویدانتا سمیت دوسری کمپنیوں کو  لوگوں سے صلاح مشورہ کئے بغیر اپنے کارخانوں کی تعمیر شروع کرنے کی اجازت مل گئی۔

ویدانتا کے توتی کورن واقع کارخانے کو بھی اس سے فائدہ پہنچا۔  این ڈی اے حکومت کے ذریعے کی گئی یہ وضاحت کمپنیوں کے لئے کافی فائدےمند تھی، کیونکہ یو پی اے حکومت کے تحت وزارتِ ماحولیات نے مئی،2014 میں اس بات پر زور دیا تھا کہ قانونی طور پر منصوبوں کو لوگوں سے  مشورہ کرنا ضروری ہے۔  یہ بات ویدانتا کے توتی کورن واقع منصوبہ پر بھی نافذ ہوتی تھی۔

2016 میں نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) نے پایا کہ دسمبر (2014) میں این ڈی اے حکومت کے ذریعے دئے گئے وہ حکم غیر قانونی تھے جن میں ویدانتا کی حمایت کی گئی تھی۔ اس کو اس معاملے سے جڑی جانکاریاں دینے کے لئے وزارتِ ماحولیات کے افسروں سے دھمکی کے لہجے میں بات کرنی پڑی۔ وزارت کے افسروں نے کہا کہ دسمبر، 2014 کی حکومت کےفیصلے کو منسوخ کرنے سے کئی منصوبوں پر منفی اثر پڑے‌گا۔

آخرکار، این جی ٹی نے دسمبر، 2014 کے حکم کو منسوخ کر دیا۔  این جی ٹی کی ہدایتوں پر وزارت کو نیا حکم دینا پڑا، جس میں یہ صاف صاف لکھا گیا تھا کہ بنا ماحولیاتی کلیرنس والے صنعتی پارکوں میں واقع منصوبوں کے لئے عوامی شنوائی کرنا ضروری ہے۔لیکن، ویدانتا نے تب تک توتی کورن میں اپنے منصوبہ کی توسیع کے لئے ماحولیاتی کلیرنس کو آگے بڑھوا لیا تھا جس میں اس کو عوامی شنوائی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

ہائی کورٹ نے 2016 کے این جی ٹی کے اس حکم اور معاملے کی سماعت کے دوران سامنے آئی دوسری حقیقتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بدھ کو ویدانتا سے اپنی توسیعی اسکیموں پر روک لگانے اور پہلے لوگوں سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے۔بڑے پیمانے کی تقریباً تمام اسیکموں کے لئے وزارتِ ماحولیات سےکلیرنس لینا ضروری ہے۔ پروجیکٹ ڈیویلپر کو سب سے پہلے ایک رپورٹ تیار کرنی پڑتی ہے، جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس صنعت سے پلانٹ کے آس پاس کے علاقے کے لوگوں اور ماحول پر کیا اثر پڑے‌گا؟

اس کے بعد وہ اس رپورٹ کو ریاستی حکومت کی نگرانی میں لوگوں کے سامنے صلاح ومشورہ کے لئے رکھتا ہے۔مرکزی وزارتِ ماحولیات کے ماہران باتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جازت دی جا سکتی ہے یا نہیں!

توتی کورن تشدد کی مخالفت میں دہلی میں ہوا احتجاج(فوٹو : پی ٹی آئی)

توتی کورن تشدد کی مخالفت میں دہلی میں ہوا احتجاج(فوٹو : پی ٹی آئی)

رائے اور مشورہ کے دوران لوگ منصوبہ کو ویٹو نہیں کر سکتے ہیں، لیکن منصوبہ پر کام شروع ہو سکے، اس سے پہلے کمپنی اور مرکزی حکومت کو ان کی تشویش کا حل کرنا ہوتا ہے۔2006 سے ہی وجود میں آ چکےکلیرنس کے اصول، کچھ معاملوں میں عوامی شنوائی سے چھوٹ دیتے ہیں۔ اگر ایک چھوٹی صنعت ایک ایسے مبینہ صنعتی پارک کے اندر قائم کیا جا رہا ہے، جس کے پاس اپنا ماحولیاتی کلیرنس ہے، تو اس خاص صنعت کو لوگوں سے رائے و مشورہ کرنے سے چھوٹ دے دی جاتی ہے۔

یو پی اےکے زمانے میں، مئی،2014 میں ان باتوں کو لےکر حکومت سے سوال پوچھے گئے تھے۔  اس میں ایک سوال تھا 2006 کے اصولوں کے نافذ ہونے سے پہلے وجود میں آ چکے صنعتی پارکوں کا کیا ہوگا جن کے پاس خود کا ماحولیاتی کلیرنس نہیں ہے؟  کیا ایسے معاملوں میں بھی صنعتوں کو منصوبہ سے متاثر لوگوں سے رائے و مشورہ کرنا ہوگا؟مئی،2014 میں یو پی اے حکومت کے وزارتِ ماحولیات کی طرف سے وضاحت آئی۔  اس میں کہا گیا کہ کوئی صنعت صرف ایک صورت میں عوامی صلاح و مشورہ سے چھوٹ پا سکتا ہے :جس صنعتی پارک کے اندر صنعت کی تعمیر کی جا رہی ہے اگر اس کے پاس کلیرنس ہے، تو صنعت کو یہ چھوٹ دی جا سکتی ہے۔

اگر 2006 کے اصولوں کے تحت صنعتی پارک کا اندازہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے نہیں ہوا ہے، تو اس صورت میں اس کے اندر تعمیر کی جا رہی صنعتوں کو عوامی سماعت کرنی ہی ہوگی۔دلیل یہ دی گئی کہ اگر پورے صنعتی احاطے کا اندازہ لوگوں اور ماحولیات پر پڑنے والے اثر کے لئے کیا گیا ہے، تو اس احاطے کے اندر کی الگ الگ اکائیوں کو کلیرنس کے تفصیلی کارروائی، جس میں لوگوں سے رائے و مشورہ بھی شامل ہے، سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن،26 مئی تک وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مرکز میں این ڈی اے کی حکومت کی تشکیل ہو گئی تھی، جس کا منتر اور وعدہ ‘ ایز آف بزنس ‘ کا تھا۔دستاویزوں سے پتا چلتا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے پر کئی صنعتوں کی طرف سے رسمی پیغام بھیجا گیا۔  10 دسمبر کو صنعتوں کی درخواست پر رد عمل دیتے ہوئے مرکزی وزارتِ ماحولیات نے ایک سرکاری اطلاع کی شکل میں اس وقت کے ماحولیات وزیر کے ذریعے منظور کردہ ایک ‘ وضاحت ‘ جاری کی۔

اس وضاحت میں کہا گیا کہ بتائے گئے صنعتی زونوں میں واقع کارخانہ کو لوگوں سے رائے مشورہ کی ضرورت نہیں ہوگی، بھلےہی ان زونوں نے کبھی بھی ماحولیاتی کلیرنس  نہ لیا ہو۔اس کا اثر یہ پڑا کہ صنعتوں کو ‘صفائی’دینے کے نام پر محض ایک سرکاری حکم کے ذریعے قانون کے تحت مندرج  اصولوں کی نئی وضاحت پیش کر دی گئی۔ویدانتا سمیت ملک بھر کی کئی صنعتوں کے لئے یہ بڑی سوغات بن‌کر آئی۔ بعد میں کانفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) نے اس تبدیل شدہ  پالیسی کو اقتدار میں آنے کے ایک سال کے اندر این ڈی اے حکومت کے ذریعے کی گئی ایک اہم اصلاح کے طور پر نشان زد کیا۔

ویدانتا کاپر اسمیلٹر پلانٹ بنیادی طور پر ایس آئی پی سی او ٹی(اسٹیٹ انڈسٹریز پرموشن کارپوریشن آف تمل ناڈو لمیٹڈ)کے توتی کورن صنعتی احاطے کے اندر بنایا گیا تھا۔ یہ احاطہ 2006 کے ماحولیاتی کلیرنس اصولوں کے اثر میں آنے سے پہلے وجود میں آیا۔

اسٹرلائٹ کاپر کا توتی کورن یونٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اسٹرلائٹ کاپر کا توتی کورن یونٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ویدانتا نے 2009 میں اپنے کاپر اسمیلٹر پلانٹ کی توسیع کرنے کے لئے مرکزی وزرتِ ماحولیات سے اجازت مانگی۔ اس وقت یو پی اے حکومت کی وزارت نے عوامی سماعت کی ضرورت کے بغیر ہی اس توسیع کو اجازت دے دی۔یہ اجازت 5 سالوں کے لئے تھی۔ اس مدت کے خاتمہ کی تاریخ قریب آنے پر ایک بار پھر 2013 میں ویدانتا اس کو آگے بڑھانے کے لئے مرکزی وزارت کی پناہ میں گئی۔  وزارتِ نے مئی، 2014 میں (یو پی اے حکومت کے تحت)یہ حکم دیا کہ ویدانتا کی توسیعی اسکیم جیسے معاملوں میں لوگوں سے صلاح و مشورہ کرنا ضروری ہوگا۔

لیکن،دسمبر، 2014 میں این ڈی اے حکومت نے اس فیصلے کو پلٹ دیا اور مارچ، 2015 میں وزارت نے ویدانتا کا ماحولیاتی کلیرنس دسمبر، 2018 تک کے لئے بڑھا دیا۔  ایسا اس وقت کیا گیا، جب مختلف قسم کے صنعتی پارکوں میں منصوبوں کو عوامی شنوائی کی ضرورت کے سوال پر عدالتوں میں بحث چل رہی تھی۔  اس سے کمپنی کو تعمیر ی کام آگے بڑھانے کی اجازت مل گئی۔اس توسیعی کام پر کام شروع ہونے کے بعد اس کے خلاف توتی کورن میں سینکڑوں لوگوں نے احتجاج  کرنا شروع کر دیا۔  یہ احتجاج100 دنوں تک چلتا رہا۔  پھر 25 مئی کو انتظامیہ نے دفعہ 144 کے تحت اس علاقے میں پابندی لگا دی۔ لیکن خبروں کے مطابق اس کے باوجود مظاہرین کی تعداد بڑھ‌کر ہزاروں میں پہنچ گئی، جس سے تشدد کی نوبت آ گئی اور پولیس فائرنگ میں کم سے کم 11 لوگ مارے گئے۔

(یہ مضمون انگریزی روزنامہ بزنس اسٹینڈرڈ میں شائع ہوا تھا،اور یہاں ادارے کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔)