گراؤنڈ رپورٹ :2 اپریل کو ہوئے بھارت بند کے دوران میرٹھ میں گرفتار کئے گئے بچوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دلت ہونے کی وجہ سے پولیس نے ان کو گرفتار کیا۔
‘ چماروں کو زیادہ مستی چڑھ رہی ہے… یہ کہہکر میڈیکل تھانہ پولیس کے افسر بھگا دیتے ہیں، جب بھی میں جیل میں بند اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرنے جاتا ہوں۔میرا بیٹا سچن سینٹ دیوآشرم میں پڑھائی کرتا ہے۔اس کی عمر 15 سال ہے، لیکن دو اپریل کو پولیس نے اس کو گرفتار کر جیل میں بند کر دیا اور اس کی عمر 20 سال لکھ دی۔ ‘
یہ بات بتاتے ہوئے دھرم ویر سنگھ رو پڑتے ہیں۔دھرم ویر اتر پردیش کے میرٹھ شہر کے کلیاگڑھی کی تنگ گلیوں میں بنے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں۔2 اپریل کو ایس سی / ایس ٹی ایکٹ میں سپریم کورٹ کے ذریعے دئے گئے نئی ہدایت کے بعد پورے ہندوستان میں تمام دلت تنظیموں نے بھارت بند کا اعلان کیا تھا۔ کے دوران مختلف ریاستوں میں تشدد دیکھنے کو ملا، جس میں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش بھی شامل ہیں۔دھرم ویر سنگھ کی 60 سالہ بیوی رامیسری دوسروں کے گھر میں صاف-صفائی کا کام کرتی ہیں۔ان کے تین بیٹے ہیں، وہ بھی مزدوری کا کام کرتے ہیں، لیکن اب وہ دھرم ویر کی فیملی کے ساتھ نہیں رہتے۔
تقریباً دو مہینے سے جیل میں بند چھوٹا بیٹا سچن ہی اب ان کی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔ان کی ایک بیٹی بھی ہے، جس کی شادی ہو چکی ہے۔62 سالہ دھرم ویر نے بتایا، ‘میرا بیٹا کوچنگ کے لئے ماسٹر جیکے پاس بات کرنے گیا تھا۔اسی وقت پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا۔ہم کیا کریں؟اس میں غلطی کاسٹ سسٹم کی ہے۔ پولیس نے جاٹو ہے یا چمار ہے، یہ بولکر ہمارے بچوں کو گرفتار کر لیا۔اب بتاؤ 15سال کا بچہ کیا مجرم ہوتا ہے؟ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘میرے بیٹے کو صرف دلت ہونے کی اتنی بڑی سزا مل رہی ہے۔ہمارے گھر کی آمدنی 3ہزارسے 4ہزارروپے مہینے کی ہیں۔سوچا تھا بیٹے کو پڑھا لیںگے تو فیملی کی قسمت بدل جائےگی، لیکن اب اس پر اتنے سارے معاملے لاد دئے گئے ہیں کہ لگتا ہے اب پوری زندگی اسی میں الجھکر رہ جائےگی۔ ‘
سیکنڈری ایجوکیشن کونسل، اتر پردیش کے تصدیق نامہ اور آدھار کارڈ کے مطابق سچن کی پیدائش 25 اگست، 2003 ہیں لیکن ریمانڈ شیٹ میں پولیس نے ان کی عمر 20 سال لکھی ہے۔سچن بالغ مجرم کی طرح میرٹھ جیل میں پچھلے دو مہینے سے بند ہیں۔
پولیس کی ریمانڈ شیٹ کی کاپی کے مطابق، سچن کی عمر 20 سال ہے۔فیملی نے بتایا کہ اسکول اور فیملی کے بیان اور تمام ثبوتوں کو دکھانے کے بعد بھی اس کو ابھی تک نابالغ قرار نہیں دیاگیا ہے۔
ہم نے کلیاگڑھی اور سرائے قاضی دونوں علاقوں کی دلت بستی میں دیکھا کہ تمام لوگ اپنی فائل لئے کھڑے تھے۔اس نے پوچھا تو ایک ہی آواز میں جواب ملا کہ ہمارے لڑکے کو دو اپریل کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔علاقے کے تمام دلت فیملی کی یہی کہانی ہے۔کسی کا بیٹا تو کسی کا بھائی سب ایک ہی معاملے کے تحت جیل میں بند ہیں۔
سرائے قاضی کی رہنے والی 40 سالہ روشنی، چل نہیں سکتی ہیں۔ان کا 14 سالہ بیٹا اجئے دو مہینے سے میرٹھ جیل میں بند ہے۔ان کے شوہر رام پال سلائی کا کام کرتے تھے۔چار سال پہلے جگر خراب ہونے کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔
گھر سنبھالنے کی ذمہ داری 17 سالہ بیٹی پر ہے، جو کرکٹ بال میں سلائی لگانے کا کام کرتی ہے۔آدھارکارڈ اور اسکول کے تصدیق نامہ کے مطابق، اجئے کی پیدائش 20 ستمبر، 2004 ہے۔اس حساب سے وہ بھی نابالغ ہے۔
روشنی نے بتایا، اجئے پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے اور شام کو اسکول سے آنے کے بعد کھیل کود میں پہنے جانے والے لوور بناکر فیملی کی اقتصادی طور پر مدد بھی کرتا ہے۔دو اپریل کو میں نے اجئے کو میری دوائی لانے بھیجا تھا، لیکن وہ واپس لوٹا ہی نہیں۔ ‘
وہ کہتی ہیں،’ہمیں تو دو دن تک نہیں ہی پتا چلا کہ وہ کہاں ہے۔بعد میں پتا چلا کہ اس کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔پولیس افسر بھی صحیح جانکاری نہیں دے رہے تھے۔پھر پتا چلا کہ وہ بچوں والی جیل میں ہے۔ہم ملنے گئے تو ایک درخت کے نیچے بیٹھا رو رہا تھا۔اس نے مجھ سے کہا ماں جلدی یہاں سے باہر نکالو۔ ‘
روشنی کہتی ہیں، ‘میں اپاہج ہوں اور کہیں آجا نہیں سکتی۔بیٹے سے ملنے جیل بھی نہیں جا پاتی۔ہماری فیملی پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔اس نے جیل میں بتایا کہ پولیس نے پوچھا، چمار ہے کیا، حامی بھرنے پر اٹھاکر جیل میں بند کر دیا۔ ‘
وہ کہتی ہیں،’میرے شوہر بھی نہیں ہے اور میں کہاں سے کس کی مدد لوں۔سنا ہے اجئے کے خلاف 10 سے زیادہ معاملے درج کئے گئے ہیں۔اب بتاؤ کیا 12-14 سال کا بچہ اتنے سارے جرم کر سکتا ہے؟ہم چمار ہیں اس لئے یہ سب ہو رہا ہے۔ ‘
یوگی حکومت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے روشن کہتی ہیں، ‘یوگی حکومت اچھی نہیں ہے۔اگر یہ اچھی حکومت ہوتی تو اتنے چھوٹے بچے کو دو مہینے سے جیل میں بند کرکے نہیں رکھا جاتا۔پریواروالے تھانے جاتے تو پولیس والے کہتے ہیں، بھاگو نہیں تو تم کو بھی جیل میں بند کر دیںگے۔افسروں سے ملنے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم نہیں ہے۔میری امید ختم ہو چکی ہے کہ یوگی حکومت میں ہمیں انصاف نہیں ملےگا۔ ‘
کلیاگڑھ میں رہنے والی 35 سالہ سندری گھریلو خاتون ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ان کے 12 سال کے بیٹے ابھیشیک کو دو اپریل کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ان کے شوہر نانک چند مزدوری کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ دو اپریل کو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے پاس پانی پیتے وقت پولیس نے ذات پوچھکر ابھیشیک کو گرفتار کر لیا۔
سندری نے بتایا، میرے بیٹے کو بچوں والی جیل میں رکھا گیا ہے۔سوموار کو ملنے دیا جاتا ہے۔شروعات میں جب گرفتاری ہوئی تھی، تب جیل میں پٹائی بھی ہوتی تھی۔اب پٹائی ہونی بند ہو گئی، لیکن پھر بھی بنا کسی جرم کے دو مہینے سے ابھیشیک جیل میں بند ہے۔ ‘
وہ کہتی ہیں،اب آپ ہی بتائیے، یہ کوئی عمر ہے جیل میں جانے کی۔ کھیلنےکھانے کی عمر میں بچے جیل میں ہیں۔نہ ضمانت ہوتی ہے اور نہ سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں گرفتار کیا ہے۔بیٹے نے بتایا کہ پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے پوچھا کا چمار ہے کیا؟اس کے بعد گرفتار کر لیا۔
ابھیشیک کی ماں نے بتایا، جاٹو سماج کے بچوں کو چن چنکر گرفتار کیا گیا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ یہ بچے جیل میں سڑیں یا تاعمر کچہری کے چکر کاٹیں تاکہ آگے نہ بڑھ پائیں۔یہ حکومت دلتوں کے ساتھ غلط کر رہی ہے۔جو گنہ گار ہے اس کو جیل میں ڈالو، لیکن جس نے کچھ نہیں کیا اس کو کیوں جیل میں ڈالتے ہو؟ ‘
تینوں بچے کے آدھار کارڈ کے حساب سے وہ نابالغ ہیں۔ایف آئی آر درج کرتے وقت پولیس نے ایک ہی طرح کے معاملے سبھی پر لگائے ہیں، چاہے وہ نابالغ ہو یا بالغ۔
دیگر لوگوں کے علاوہ ان تینوں بچوں پر بھی 15 معاملے درج کئے گئے ہیں۔تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 147، دفعہ 148، دفعہ 149، دفعہ 332 ، دفعہ 353، دفعہ 336، دفعہ 435، دفعہ 307 (قتل کرنے کی کوشش)، دفعہ 395 (ڈکیتی)، دفعہ 504، دفعہ120بی (مجرمانہ سازش)، دفعہ 427 کے علاوہ 1932 کی دفعہ 7 اور پروینشن آف ڈیمیج ٹو پبلک پراپرٹی ایکٹ، 1984 (4) جیسی سنگین دفعات ان تینوں بچوں کے خلاف لگائی گئی ہیں۔
متاثر ین نے سوال اٹھایا ہے کہ پولیس کیسے ایک ہی دفعہ کے تحت سبھی کو گرفتار کر سکتی ہے۔
ان کے وکیل ستیش کمار کا کہنا ہے، ’12 سال کے بچوں پر بھی دفعہ 120بی اور 307 لگا دی گئی ہے۔اب بتائیے اتنے چھوٹے بچے سازش، ڈکیتی اور قتل کی کوشش میں شامل ہو سکتے ہیں؟یکساں دفعہ سبھی پر لگانے سے معلوم پڑتا ہے کہ پولیس نے بنا حقیقت اور جانچکے جو دلت کمیونٹی سے دکھا اس پر کوئی بھی دفعہ لگا دیا۔ پولیس کا کام ہے کہ تفتیش کرتے اور پتا لگاتے کون-کون شامل تھا اور کس نے کیا کیا۔بس دلت دیکھ سب کو جیل میں بھر دیا۔ ‘
وکیل ستیش آگے بتاتے ہیں، ‘ نچلی عدالت میں ان نابالغ بچوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔اتنے سارے بےقصور لوگوں کو پھنسانے میں بی جے پی، آر ایس ایس، پولیس اور یہاں تک کی عدلیہ بھی شامل ہے۔ ‘
وہ کہتے ہیں، ‘نچلی عدالت میں ضمانت عرضی کی سماعت کے لئے 14 دن کا وقت مل رہا ہے، جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے کے لئے پہلے سیشن کورٹ سے ضمانت عرضی خارج ہونی چاہیے، لیکن یہاں نچلی عدالت 14 دن کی تاریخ دیتی ہے، مطلب عدلیہ بھی غیر جانبدار نہیں ہے اور دلتوں کو کیسے بھی زیادہ سے زیادہ دن جیل میں رکھا جائے، اس کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، عدالت جو ضمانت خارج کرتی ہے، اس کے تئیں ایک ہفتے تاخیرسے ملتی ہے، تاکہ آگے کی اپیل میں دیری ہو۔جس طرح انتظامیہ نے کام کیا، ایسا لگ رہا تھا کہ انتظامیہ بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے اشارے پر کام کر رہی تھی۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ایف آئی آر میں بھی ذات کا ذکر کیا جو عام بات نہیں ہے۔بچے باہر آ جائیں اس لئے جب کسی افسر کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہنسکرکہتا ہے کہ یہ وہی دو تاریخ کے فساد والے ہیں نا۔
ستیش بتاتے ہیں کہ جو بچے جیل میں بند ہیں۔یہ تمام غریب گھر سے ہیں اور عدالت آنے کے بھی پیسے نہیں ہے ان کے پاس۔
ان کے مطابق،عدالت میں دلت اور اقلیتوں کو انصاف نہیں ملتا۔ابھی اسی جگہ کسی اعلیٰ ذاتی کی ضمانت کی بات ہوتی تو عدالت رات 12 بجے تک کام کرکے ضمانت دے دیتی ہے، لیکن دلتوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ پھر بھی آئین پر بھروسا ہے۔کوئی آدمی برا ہو سکتا ہے، لیکن آئین نہیں۔مجھے امید ہے کہ بڑی عدالت میں انصاف ملےگا۔ ‘
سماجی کارکن اور دلت رہنما ڈاکٹر سشیل گوتم نے بتایا،میرا ماننا ہے کہ ایسا نہ تو انگریز کرتے تھے اور نہ ہی راجامہاراجا۔بچوں پر ایسے معاملے لگائے ہیں، جیسے وہ کوئی باقاعدہ مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل ہوں۔دو اپریل کے تشدد میں اعلیٰ ذاتی کے لوگ شامل تھے اور پولیس نے ان کو موقع واردات سے گرفتار بھی کیا تھا، لیکن بعد میں بی جے پی کے دباؤ میں ان کو چھوڑ دیا گیا۔ ‘
وہ کہتے ہیں، اعلیٰ ذاتی کو چھوڑ دینا اور دلت بچّوں کو دو مہینے سے جیل میں رکھنا، دراصل یہ انتظامیہ کے دوہرے کردار کو دکھاتا ہے۔یہ تمام کام دلتوں کی سماجی اور سیاسی تحریک کو توڑنے کی کوشش ہے۔جس میں منووادی عدلیہ بھی شامل ہے۔ ‘
سشیل گوتم کے مطابق، ‘دلتوں اور ان کے رہنماؤں کو فرضی معاملوں میں پھنسایا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنی تقدیر کی خود تعمیر نہ کر سکیں۔بابا صاحب کی ٹی شرٹ پہنے لوگوں کو بنا ذات پوچھے گرفتار کیا گیا، مطلب یوگی کی پولیس میں بابا صاحب کو لےکر کتنی نفرت بھر دی گئی ہے۔ ‘
وہیں اس بارے میں جب میرٹھ کے ایس پی (کرائم) شیو رام یادو سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، یہ جو گرفتاریاں ہوئی ہیں، یہ سب ماضی میں تشکیل کردہ ایس آئی ٹی کے ذریعے کی گئی ہے۔اب اس معاملے کی تفتیش میں کر رہا ہوں۔جیسےجیسے تفتیش پوری ہوگی حقیقت سب کے سامنے آتے جائیںگے۔ ‘
نابالغ بچوں پر بھی مجرمانہ سازش اور قتل کی کوشش جیسے معاملے درج کئے جانے پر وہ کہتے ہیں، ‘ ہم معاملے کی جانچ کر رہے ہیں اور اگر کوئی بےقصور ہوگا یا کسی کی غلط گرفتاری ہوئی ہوگی، تو اس کو عدالت کی جانکاری میں لائیںگے۔عدالت اس پر مناسب فیصلہ لےگی۔ہمیں جو بھی اپنے بےقصور ہونے کا ثبوت دےگا، ہم وہی رپورٹ عدالت کو سونپیںگے۔ضمانت دینا یا بری کرنے کا کام عدالت کا ہے۔ہم معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کریںگے۔قصوروار کو سزا ملےگی اور بےقصور کو انصاف۔ ‘
Categories: گراؤنڈ رپورٹ