وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت آنے والی انٹرپرائز Broadcast Engineering Consultants India Limited(بی ای سی آئی ایل ) نے 25 اپریل 2018 کو ایک ٹینڈر سوشل میڈیا کمیونی کیشن ہب کے نام سے جاری کیا ہے۔ اس کے ذریعے حکومت فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نظر رکھےگی۔
نریندر مودی حکومت نے پچھلے 4سالوں میں ملک کے تمام اداروں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجلس عاملہ تو ہمیشہ ہی حکومت کے پیچھے چلتی ہے۔ عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں پر لگام کسنے کی کوشش اس حکومت کے ذریعے کی گئی ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا میڈیا کا ایک بڑا حصہ بنا کچھ کہے ہی حکومت کے لئے وقف ہے۔ لے دےکر سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جو حکومت کی گرفت میں ابتک نہیں آ رہا تھا۔ حکومت نے اب اس کا انتظام بھی کر لیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت آنے والی انٹرپرائز بیسل نے 25 اپریل 2018 کو ایک ٹینڈر سوشل میڈیا کمیونی کیشن ہب کے نام سے جاری کیا ہے۔ یہ ٹینڈر سوشل میڈیا اینالٹیکل ٹول کے لئے ہے۔ (رفرینس نمبر بی ای سی آئی ایل (بیسل)/ سوشل میڈیا/ایم آئی بی /02/2018/ بتاریخ 25 اپریل 2018)
یہ ٹول (سافٹ ویئر) حال ہی میں سامنے آئے ،کیمبرج اینالٹکا ٹول جیسا ہی ہے۔ اس ٹول کے ذریعے وہ ایجنسی آپ کے ذریعے بھیجے گئے تمام ای میل، ان کے اٹیچ منٹ کو پڑھ سکتی ہے۔ وہ آپ کے فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، گوگل پلس، انسٹاگرام، لنکڈین اور پلے اسٹور پر نظر رکھےگی۔ یہ ٹول ہر یوزر کے ہرایک اکاؤنٹ پر نظر رکھےگی۔ ٹول اس آدمی کے ماضی میں کئے گئے کمنٹ، مضامین، بھیجی گئی میل کا بھی مطالعہ کرےگا۔ اس بنیاد پر وہ اس آدمی کا مکمل پروفائل تیار کرےگا۔ یہ آن لائن ٹول ہوگا جو لگاتار جانکاری یکجا کرتا رہےگا۔ یہ ڈیٹا مائننگ بھی کرےگا یعنی ڈیٹا کا گہرا تجزیہ بھی کرےگا اور اس کا نتیجہ ایجنسی کے ذریعے حکومت کو دےگا۔
یہ حکومت کو بتائےگا کہ اب کون سی خبریں کس میڈیا میں چل رہی ہیں۔ حکومت کی کس اسکیم پر لوگوں کا کیا رد عمل ہے۔ یہ حکومت کو یہ سجھائےگا کہ کس طرح کی خبریں چلانے سے یا جانکاری دینے سے خبروں کے اس ٹرینڈ کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی خبروں کے لئے وہ مواد بھی دستیاب کروائےگا۔ اس کے لئے 20 ماہر ین کی تقرری کی جائےگی۔ اس ایجنسی کے لوگ دو شفٹ میں کام کریںگے۔ یہ روزانہ 6 رپورٹ وزارت کو طےشدہ فارمیٹ میں دستیاب کروائیںگے اور ہفتے کے ساتوں دن چوبیسوں گھنٹے دستیاب رہیںگے۔ یہ تخمینہ علاقائی ہوگا یعنی ملک کی کس ریاست میں، کن خبروں، واقعات اور اسکیموں پر لوگوں کا کیا رد عمل ہے۔
یہ ہندوستانی زبانوں ہندی، اردو، تیلگو ، ملیالم، کنڑ، بنگالی، پنجابی، تمل اور ہندوستانی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی، چینی، جرمن، فرنچ، عربی میں بھی ڈیٹا کا تجزیہ کرےگا۔ خبروں کے ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے یہ سافٹ ویئر یہ بتائے گا کہ آنے والے دنوں میں ملک یا عالمی میڈیا میں کون سی خبریں سرخیاں (ہیڈلائن) بنیںگی اور ان خبروں کے متعلق جواب میں کون سی خبریں شائع کر ان کو غیر فعال (نیو ٹرالائز) کیا جا سکتا ہے۔ حکومت ہند کی ایک کمپنی نے ٹینڈر نکالا ہے لیکن وزارت اور حکومت ہند میں اس موضوع پر کوئی بات کرنے کو راضی نہیں ہے ۔ جو لوگ اس تعلق سے سوال پوچھ رہے ہیں ان کے فون اور ای میل کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔
یہ ٹینڈر نکالنے سے پہلے وزارت اطلاعات و نشریات میں اس سافٹ ویئر ٹول کے بارے میں گفتگو ہوئی ہوگی۔ فیصلے لئے گئے ہوںگے اور اس کی تعمیل میں یہ ٹینڈر نکالا گیا ہوگا۔ لیکن ابھی سب خاموش ہیں۔ آپ دیکھیںگے کہ یہ ٹول عوام کی پرائیوسی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ای میل ایک ذاتی پیغام ہے۔ پوری دنیا اور قانون کے مطابق بھی اس کو ذاتی پیغام ہی مانا جاتا ہے۔ وہ فیس بک یا ٹوئٹر پر لکھا گیا پیغام نہیں ہے۔ اس ٹول میں ای میل کو بھی عوامی پیغام مان لیا گیا ہے۔
آپ یاد کیجئے کہ حکومت کے ذریعے آدھار اسکیم بھی ایسے ہی شروع کر دی گئی تھی اس کے لئے نہ پارلیامنٹ کی اجازت لی گئی تھی اور نہ قانون میں ضروری ترمیم کی گئی تھی۔ اب فنانس بل کے طور پر آدھار کے حق میں ضروری قانون بنائے جا رہے ہیں۔ اس ٹول کا ٹینڈر نکالنے سے پہلے حکومت میں جو گفتگو ہوئی وہ حکومت، عوام کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہتی۔ ٹینڈر جاری ہونے کے بعد جب کام شروع ہو جائےگا۔ تب حکومت آدھار کی طرح ہی اس کو چور دروازے سے اجازت دلوائےگی۔
پہلی بار یہ ٹینڈر ہندوستانی کمپنیوں کے لئے 10 فروری 2018 میں جاری کیا گیا تھا۔ تب حکومت کو کم از کم 3 ٹینڈر بھی نہیں ملا تھا، اس لئے اس کو دوبارہ ہندوستانی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لئے اپریل میں جاری کر دیا گیا۔ تب ٹینڈر بھرنے کی آخری تاریخ 25 مئی 2018 تھی جس کو بڑھاکر 31 مئی 2018 کر دی گئی۔ جانکاری کے مطابق پچھلی بار فروری کے ٹینڈر کے جواب میں 17 کمپنیوں کے نمائندوں نے نیلامی سے پہلے ہوئی میٹنگ میں حصہ لیا تھا۔ لیکن صرف دو کمپنی کے لوگوں نے ٹیکنیکل بڈ بھری تھی۔ ان کا نام سلور ٹچ اور فورتھ ڈائ مینشن تھا۔ یہ دونوں کمپنیاں اس نیلامی میں انٹری کرنے میں کامیاب رہی لیکن کم از کم تین خریدار کی شرط کی وجہ سے حکومت کو یہ ٹینڈر دوبارہ جاری کرنا پڑا ہے۔
اس علاقے کے جان کار لوگوں کے مطابق، حکومت اس ٹول کے لئے جس سطح کی مہارت کی مانگکر رہی ہے اتنی تکنیکی مہارت کسی ہندوستانی کمپنی کے پاس نہیں ہے۔ اس حکومت کا ابھی صرف ایک سال کا وقت بچا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ پرائیوسی کے قانون، ڈیٹا کی حفاظت، آئی ٹی ایکٹ کو لےکر بھی اس میں مقدمہ بازی ہونا طے ہے۔ ایسے میں کوئی بھی کمپنی اس کام میں اپنا انویسٹ نہیں کرنا چاہےگی۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چھوٹی کمپنی کی آڑ لےکر کوئی بڑی کمپنی اس ٹینڈر پر قبضہکر لےگی۔ اس لوک سبھا انتخاب میں سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ اور کنٹرول کے بی جے پی حکومت کے خرچ پر اپنے لئے استعمال کر لےگی۔ بعد میں جو ہوگا سو ہوگا۔
کچھ لوگوں کا ایسا بھی ماننا ہے کہ موجودہ حکومت وقت وقت پر ایسی خبریں چلاکر لوگوں کی قوت برداشت کی جانچ کرتی رہتی ہے۔ جیسے ابھی حال ہی میں فیک نیوز دینے پر صحافیوں کا پی آئی بی رجسٹریشن رد کرنے کا معاملہ تھا۔ حکومت نے اپنی طرف سے ہدایت جاری کر دی۔ جب مخالفت ہوئی تو بنا کوئی وضاحت کے حکم واپس لے لیا گیا۔ اگر مخالفت نہ ہوتی تو بات آگے بڑھ جاتی۔ راجستھان کی وسندھرا راجے کی حکومت نے بھی ایسا ہی کیا۔ اپنا قانون ملتوی کر دیا۔ لوگوں کا اندازہ ہے کہ اس ٹول کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوگا۔
مئی کے تیسرے ہفتے سے یوروپین یونین میں جنرل ڈیٹا پروٹکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) نافذ ہو گیا۔ اس میں آدمی کی پرائیوسی کا دھیان رکھا گیا ہے اور اس کی ظاہری رضامندی کے بغیر اس کی کوئی بھی ذاتی جانکاری کسی کے ساتھ شیئر نہیں کی جائےگی۔ ایسا کرنے پر کمپنی پر بھاری جرمانہ لگایا جائےگا۔ دوسری طرف ہم اپنے شہری کے اتفاق کے بغیر اس کا حالیہ اور پرانا ڈیٹا نکالکر اس کا پورا پروفائل تیار کر رہے ہیں اور اگر اس کو سرکاری اسکیموں کا علم نہیں ہے یا وہ منفی تاثر یا خیال رکھتا ہے تو اس کو جانکاری دینے کے لئے اور اس کو اپنے لئے مثبت بنانے کی خبریں اور پیغام بھیجتے ہیں۔
حکومت کے مطابق اس سب کا مقصد شہریوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرنا اور ان کو حکومت کی اسکیموں کے بارے میں جانکاری دینا ہے جس سے وہ ڈسپلنڈ اور جان کار شہری بن سکیں۔ لیکن اس ٹینڈر کو پڑھکر صاف ہو جاتا ہے کہ حکومت اس ٹول کے ذریعے اپنے شہریوں کی نگرانی کرنا چاہتی ہے۔ ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور ان کو اپنے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
(مضمون نگار نئی دہلی کی ہمدرد یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر