گراؤنڈ رپورٹ : گھروں میں کام کرنے والوں کے ساتھ غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کو نظر انداز کرنا ان کے زخموں کو اور گہرا بنا رہا ہے۔
کچھ مہینوں پہلے میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا کہ بچنا مشکل ہے۔بچ گئی یہ میری قسمت۔اس سے پہلے 6 گھروں میں کام کرتی تھی، کوئی ایک بھی مجھے دیکھنے نہیں آیا، نہ مدد ہی کی۔ جیسےجیسے علاج ہوا، کچھ وقت بعد لوٹی تو پتا چلا کہ سب نے دوسری کام والی لگا لی۔مدد نہیں کی چلو کوئی بات نہیں پر کام دے سکتے تھے۔جب تک کام آ رہے ہیں، تبھی تک ہم اپنے ہیں، مدد کرنی پڑ جائے تو پرائے۔
مئی کے آخری دن ہیں، تپتی دوپہر میں جنوبی دہلی کی ایک ڈی ڈی اے سوسائٹی کے پارک میں نیم کے نیچے بیٹھی انیتا اپنی رو میں بولے چلی جا رہی ہیں۔انیتا کی عمر 40-42 سال ہے۔بتاتی ہیں کہ یہاں ت تقریباً 16-17سال سے کام کر رہی ہیں۔ان کا شوہر کام نہیں کرتا، اکیلے جیسےتیسے گرہستی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہیں۔ایکسیڈنٹ کے بعد لوٹیں تو 2 کام ملے ہیں، جن سے مہینے کےتقریباً 4 ہزار روپے مل جاتے ہیں۔
انیتا کا دکھ کسی بھی طرح سونی کے دکھ سے کم نہیں ہے۔جھارکھنڈ سے لاپتہ ہوئی 15 سال کی سونی جنوبی دہلی کے ہی ایسٹ آف کیلاش علاقے میں کام کرتی تھی۔گزشتہ دنوں اپنی تنخواہ مانگنے کی وجہ سےسونی کماری کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔حالت یہ ہے کہ سونی کی فیملی والوں کو ان کے قتل سے پہلے تک پتا ہی نہیں تھا کہ وہ دہلی میں ہیں۔
روایتی طور پر گھروں کو سنبھالنے کی ذمہ داری گھر کی خواتین کے حصے میں ہی آتی ہے۔پچھلی کئی دہائیوں میں جس طرح سے خواتین کی دفتروں میں حصے داری بڑھی، ہندوستانی مڈل کلاس کی آمدنی کی سطح میں تبدیلی آئی، گھر سنبھالنے کے لئے گھریلو ملازمین کی ضرورت بھی بڑھتی گئی۔بڑے شہروں کی بات کریں تو دفتر کے کام اور آنے جانے کی دوڑدھوپ کے درمیان کسی طرح توازن بنا رہے جوان جوڑوں اور لڑکے لڑکیوں کی گرہستی صبح شام آنے والی ‘ دیدی ‘ کے بھروسے ہی چل رہی ہے۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق،ملک میں گھریلو ملازمین کی تعداد آزادی کے بعد ایک دہائی میں ملک میں تقریباً 120 فیصد اضافہ ہوا۔1991کے740000کے مقابلے 2001 میں یہ اعداد و شمار 16.6 لاکھ ہو گیا تھا۔آج کی تاریخ میں شہری گھروں میں گھریلو ملازمین کا آنا بےحد عام بات ہے۔دلی مزدور یونین کے ذریعے دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں پانچ کروڑ سے بھی زیادہ گھریلو ملازمین ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔
ہر گھر میں موجود ان خواتین ملازمین پر تب تک کوئی بات نہیں کی جاتی، جب تک کسی روز یہ اخبار کی کسی ہیڈلائن میں جگہ نہیں پا جاتیں۔قومی راجدھانی دہلی اس معاملے میں بھی آگے ہے۔وجہ شاید یہاں کے واقعات کا نسبتاً جلدی خبر بن جانا ہو یا یہاں باہری ریاستوں سے آکر رہ رہی ایک بڑی آبادی کا گھریلو ملازم کے طور پر ذریعہ معاش کمانا ہے، لیکن ہر دو چار مہینے پر کسی نہ کسی گھر سے گھریلو خاتون ملازم پر ظلم کی بات سامنے آ ہی جاتی ہے۔
دہلی کے باہری حصے کا شاہ آباد ڈیری علاقہ۔یہاں تک آتے آتے ‘ ڈلہی ‘ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔اس جگہ کو کسی بھی عام قصبے کے نام سے پکارا جا سکتا ہے، جہاں کاریں کم ہی دکھتی ہیں، دیواریں ‘ ہندی کال سینٹر کے لئے 8ویں اور 10ویں پاس کی ضرورت بتا رہی ہیں اور 12ویں پاس کو نرس بننے کا لالچ دے رہی ہیں۔تنگ گلیوں، کوڑے سے بجبجاتی نالی کے بیچ سے دہلی گھریلو ملازمین کی یونین کی مدد سے ہم اس علاقے میں رہنے والی گھریلو خواتین تک پہنچتے ہیں۔
اس بستی میں ہزار کےآس پاس گھر ہیں، جن میں زیادہ تر مزدور طبقہ ہی رہتا ہے۔ان گھروں کی خواتین پاس ہی روہنی کےقریبی سیکٹر میں کام کرکے اپنی روزی چلا رہی ہیں۔35 سال کی حنیفہ یہی رہتی ہیں اور سیکٹر 25 کے 5 گھروں میں برتن دھونے اور صاف صفائی کا کام کرتی ہیں۔حنیفہ کے شوہر نے ان کو چھوڑ دیا ہے، بیٹی کو 10ویں تک پڑھایا اور اس کی شادی کر دی۔ ساتویں پاس بیٹا ہے جو کوئی خاص کام نہیں کرتا اور حنیفہ پر ہی منحصر ہے۔
اپنی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں پوچھنے پر وہ بتاتی ہیں،صبح تقریباً7بجے اپنے گھر کا کام کرکے کام پر نکلتی ہیں۔آنا جانا پیدل ہی ہوتا ہے۔ہر گھر میں تقریباً ایک گھنٹہ لگتا ہی ہے۔12 یوں ہی بج جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر کسی نے کوئی کام بتا دیا تب وہ کرتے ہیں۔کھانا کب کھاتی ہیں پوچھنے پر وہ پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہتی ہیں،ہم کون سے دفتر میں کام کرتے ہیں جو لنچ ٹائم ملےگا۔اگر کبھی کسی نے دے دیا تو کھا لیتے ہیں، ورنہ گھر لوٹکر ہی روٹی نصیب ہوتی ہے۔
ان کی بات کاٹتے ہوئے آشا کہتی ہیں،
اپنا ڈبا لے بھی جاؤ تو کھانے کا وقت تک نہیں ملتا۔ہمیں انسان تو سمجھا ہی نہیں جاتا۔بنا تیل کے تو مشین بھی کام نہیں دیتی پر میڈم لوگ یہ بات نہیں سمجھتیں۔
آشا بہار سے ہیں اور بیتے کئی سالوں سے اسی بستی میں رہ رہی ہیں۔شوہر کی موت ہو چکی ہے۔گھراور3 بچوں کو خودہی سنبھال رہی ہیں۔وہ بھی پاس ہی ایک کالونی میں کام کرکے مہینے میں تقریباً 5 ہزار روپے کماتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کام کرنے سے کوئی پریشانی نہیں لیکن کئی دفعہ ‘میڈم لوگ ‘کا غلط سلوک خراب لگتا ہے۔وہ بتاتی ہیں،
ہم میں سے کئی لوگ یہاں سے نہیں ہیں تو کئی بار ہاری، بیماری، غمی میں گاؤں گھر جانا پڑتا ہے۔پر یہاں کوئی نہیں سمجھتا۔گاؤں جاؤ تو کسی کو لگاکر جاؤ۔نہیں تو مت جاؤ۔ان کے یہاں برتھ ڈے بھی ہوتا ہے تو مناتے ہیں، ہمارے یہاں کسی کی موت بھی ہو جائے تو معنی نہیں رکھتا۔
یہاں ہم نےتقریباً10سے 12 گھریلو ملازمین سے بات کی، جن میں سے زیادہ تر کی پریشانی ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کو لےکر تھی۔انہوں نے بتایا کہ کئی بار گھروں میں جاتے ہی ان کی ذات ،مذہب ،برادری پوچھی جاتی ہے۔اگر مسلمان ہوتے ہیں، تو کئی لوگ نہیں رکھتے۔
گھروں میں ہونے والے جرائم کی شرح بڑھنے کے بعدحکومت کے ذریعے گھریلو ملازمین کا رجسٹریشن اور پولیس سے تصدیق کروانا ضروری کر دیا گیا تھا۔پولیس تصدیق تو لوگ نہیں کرواتے لیکن ان لوگوں کے شناختی کارڈ کی کاپی ضرور لی جاتی ہے۔حالانکہ یہ اپنے مالک کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی ہیں۔آشا بتاتی ہیں،
پہلے وہ لوگ آدھار کارڈ کی کاپی لے لیتا ہے۔گیٹ پر رجسٹر میں اینٹری کرنا ہوتا ہے کہ کون کب آیا۔یہ ٹھیک بھی رہتا ہے کیونکہ کئی بار لوگ پیسہ دینے سے مکر جاتا ہے تو یہی ثبوت کے طور پر کام کرتا ہے کہ ہم فلاں دن فلاں گھر میں کام کرنے گئے تھے۔
یہ پوچھنے پر کہ کبھی کوئی پیسہ دینے سے مکرا ہے، وہ بتاتی ہیں کہ کچھ لوگ بنا بتائے بنا حساب کئے گھر چھوڑکر چلے جاتے ہیں، ہمیں ان کے بارے زیادہ کچھ پتا بھی نہیں ہوتا۔گیٹ پر گارڈ ان خواتین کے سامان کی پوری چیکنگ کرتے ہیں۔آتےجاتے وقت بیگ، پالیتھن، بٹوا جو ساتھ ہو سب ان کو دکھانا ہوتا ہے۔حالانکہ گارڈ وغیرہ کے برتاؤکو لےکر کسی میں شکایت نہیں ہے لیکن ہر چیز کی تفتیش کو لےکر کئی بارغیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان خواتین ملازمین میں سے ایک مرجینا نے بتایا کہ ایک دن ایک گھر سے ایک گتا کا بڑا کارٹن پھینکنے کو دیا گیا، جس کو لےکر گیٹ پر کھڑے گارڈ نے روک دیا اور متعلقہ گھر میں فون کرکے پوچھنے کے بعد ہی لے جانے دیا۔ان کا کہنا ہے یہ بےکار کی چیز تھی، اس کو لےکر ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
کئی خواتین نے یہ بھی بتایا کہ اگر کسی گھر سے کوئی کچھ کھانے پینے کی چیز دیتا ہے، تب بھی ایسے ہی گارڈ کے ذریعے اس گھرمیں فون کرکے پوچھا جاتا ہے۔اس کی وجہ سے کئی بار خواتین کسی گھر سے کچھ نہیں لےتیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے سیکورٹی کے لحاظ سے ایسا کرنا مناسب لگتا ہو پر یہ اندیکھی چوری کی جانچ کرنے جیسا ہے۔ ہم کسی کے یہاں سے کھانے کا سامان چراکر لے جائیںگے کیا!
30 سال کی ببلی روہنی کے سیکٹر 11 کے 4 گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ببلی کے چار بچّے ہیں، جن کو گھر چھوڑکر وہ کام پر جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ آنے جانے کے وقت کو ملاکر کام میں 8 گھنٹے کے تقریبا وقت لگ جاتا ہے۔ اس وقت بچّے اسکول اور گھر میں رہتے ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی ابھی ڈیڑھ سال کی ہے، اس کو ایک کریچ میں چھوڑتی ہیں۔ ببلی مہینے کے 5 ہزار روپے کماتی ہیں، جس میں بچوں کی فیس، گھر اور آنے جانے کے کرایے کے علاوہ کریچ کا خرچ الگ ہے۔ ایسے میں گھر میں بچوں کو اکیلا کیوں نہیں چھوڑتیں؟
جواب دہلی گھریلو کامگار یونین کی بینا دیتی ہیں،
‘ بستی میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں۔ آپ کے پیچھے سے بچوں کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے، اس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ ابھی بیتے دنوں ہی یہاں ایک دوسری بستی میں آگ لگ گئی تھی۔ اس کے علاوہ اتنی بڑی بڑی نالیاں کھلی ہوئی ہیں، بچّے اکثر ہی ان میں گر جاتے ہیں، کچھ تو ڈوبے بھی ہیں۔ ‘
پونم کا مسئلہ بھی کچھ ایساہی ہے۔ پونم کے شوہر ڈرائیور کا کام کرتے ہیں۔ صبح 9 بجے سے پونم کا پہلا کام شروع ہوتا ہے، دوپہر میں لوٹتے ہوئے 3 بج ہی جاتے ہیں۔ تین گھروں میں کام کرنے والی پونم مہینے کے ساڑھے پانچ ہزار کما لیتی ہیں، لیکن خود آنے-جانے کا کرایہ،بچے کی اسکول فیس، یونیفارم، کاپی کتابوں کا خرچ، آنے جانے کے کرائے کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ بیٹے کو پڑھانا پونم کا خواب ہے کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ اس بستی سے نکلکر وہ اپنے لئے ایک بہتر زندگی بنا لے۔ پونم مہینے کے تقریبا ہر دن کام کرتی ہیں کیونکہ ایک چھٹی کرنے پر بھی پگار سے پیسہ کاٹا جاتا ہے۔
جہاں تک وقت کی بات ہے، تمام خواتین کام کرنے والیاں اسی ایک بات کو لےکر پریشان نظر آتی ہیں۔ آشا کہتی ہیں،
‘ ہمارا بھی گھر بار ہے، کبھی رشتہ دار آتے ہیں، کبھی بچہ بیمار ہو جاتا ہے، لیکن چھٹی کے لئے کہو تو میڈم کہتی ہیں کہ یہی سب کرنا تھا تو کام کیوں پکڑا۔اب بتائیے، کام چھوڑکر بیٹھ جائیںگے تو پیٹ کیسے بھرےگا! ‘
دہلی کے مختلف علاقوں میں نہ جانے کتنی ہی خواتین ان حالات کے باوجود لوگوں کے گھروں میں کام کر رہی ہیں کیونکہ یہی ایک راستہ ہے، جس کے ذریعے پڑھائی کے نام پر محض اپنا نام لکھ پانے والی یہ عورتیں قومی راجدھانی میں اپنی روزی روٹی چلا رہی ہیں۔جنوبی دہلی کا علاقہ باقی شہر سے نسبتاً زیادہ عزت دار مانا جاتا۔ چوڑی سڑکیں، بڑی عمارتیں اور بڑی گاڑیاں، لیکن ان ‘ بڑے ‘ گھر میں کام کرنے والی خواتین کی اپنے ‘ بڑے صاحب اور میڈم ‘ لوگ سے امیدیں بہت چھوٹی ہیں۔
29 سال کی گنی گریٹر کیلاش-2 کے پاس ایک ڈی ڈی اے سوسائٹی کے دو گھروں میں کھانا بنانے کا کام کرتی ہیں۔ گنی کے شوہر ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں، لیکن وہاں تنخواہ کئی کئی مہینوں تک نہیں آتی، اس لئے گھر کی ذمہ داری گنی پر ہی ہے۔ گنی بتاتی ہیں،
‘ میں دو ہی گھروں میں کھانا بنانے کا کام کرتی ہوں، 7 بجے آتی ہوں، جاتے جاتے 11-12 بج ہی جاتا ہے۔ زیادہ تو کچھ پریشانی نہیں ہے لیکن یہ خراب لگتا ہے کہ جب میڈم لوگ کچھ کھانے پینے کو دیتی ہیں تو برتن الگ کر دیتی ہیں۔ میں تو کبھی کچھ لیتی ہی نہیں۔ بتائیے ہم ہی سے کھانا بنواتے ہیں اور ہمارے ہی برتن الگ کرتے ہیں! ‘
امتیازی سلوک کے اس سوال پر ساتھ بیٹھی روبی بھی خاموش نہیں رہ پاتیں۔ 40 سال کی روبی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں،
‘ ایک کپ چائے دیتی ہیں اور 10 کام بتاتی ہیں! ‘ وہ گھروں میں صاف صفائی کا کام کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک بار ایک گھر میں ان کو کھانے کے لئے کئی دن کی رکھی خراب روٹی دی گئی۔
جس وقت روبی نے یہ بتایا وہاں موجود کئی اور خواتین نے اس بات پر حامی بھری کہ اکثر ان کو گھروں سے دیا جانے والا کھانے کا سامان خراب ہوتا ہے، کبھی یہ پرانے رکھے گلے پھل ہوتے ہیں تو کبھی ایسا نمکین جس سے خراب بو اٹھ رہی ہو۔ زیادہ تر خواتین اسی وجہ سے کسی گھر میں کچھ نہیں کھاتیں۔لیکن وہ سب اپنے کام کی وجہ سے 6 سے 7 گھنٹے یہاں رہتی ہیں، اس بیچ کیا کھاتی ہیں؟بھگوتی بتاتی ہیں کہ گھر سے کھانا لاتے ہیں،
اگر وقت مل گیا تو یہی پارک میں بیٹھکر کھا لیتے ہیں۔ بھگوتی کی عمر ت تقریباً 50 سال ہے۔ وہ یہاں 12 سالوں سے کام کرنے آ رہی ہیں لیکن اب صرف 2 کام ہیں، جس سے تقریباً 3 ہزار روپیے ملتے ہیں۔ شوہر کام نہیں کرتے اور بچّے اپنی زندگی میں مشغول ہیں۔
بھگوتی بتاتی ہیں،
‘ کھانے کا کوئی ٹائم نہیں ہے، کہیں بیٹھکر کھا لیا تو کھا لیا۔ اپنے گھر میں بیٹھکر تو کوئی کھانے نہیں دیتا۔ پانی تک تو دیتے نہیں۔ زیادہ تر تو گھر واپس جاکر کھاتے ہیں۔ ایک دن یہی پارک میں بیٹھکر کھانا کھا رہے تھے، پانی نہیں تھا تو سامنے والے گھر میں دروازہ کھٹکھٹاکر مانگ لیا، وہ میڈم اتنا غصہ ہوئیں کہ سو رہے تھے، نیند سے جگا دیا، بھاگ جاؤ یہاں سے۔ یہاں کام کی، کام کرنے والے کی عزّت نہیں ہے۔ ہوگا ان کے پاس پیسہ پر کام تو ہم ہو لوگوں سے چلتا ہے نا۔ پیسہ تو کام نہیں کر دیتا۔ پیسوں کے ساتھ انسانیت بھی ہونی چاہئے۔ ‘
کھانے سے شروع ہوئی امتیازی سلوک کی بات ذات برادری تک پہنچتی ہے۔ یہاں بھی یہ خواتین بتاتی ہیں کہ کئی گھروں میں پہلے مذہب ذات پوچھی جاتی ہے، اگر ان کا دل ہوتا ہے تو کام کرواتے ہیں ورنہ کئی بار منع کر دیتے ہیں۔ روبی مسلم کمیونٹی سے آتی ہیں اور ان کے ساتھ ایسا تجربہ ہوا ہے جہاں ان کا مذہب جاننے کے بعد ان کو کام نہیں دیا گیا۔بھگوتی کے کڑوے تجربہ ان کی بات کو اور تیکھا کر دیتے ہیں، وہ کہتی ہیں،
‘ ذات تو بڑی اونچی ہے ہماری پر بس قسمت اونچی نہیں ہے۔ ‘
بھگوتی کے تجربہ بڑے شہروں کے ان نام نہاد کاسموپالیٹن گھروں کی ذات پات، جاگِير داری اور غیرذمہ دار چہرے کو کھولکر رکھ دیتے ہیں۔کچھ سالوں پہلے بھگوتی کو چکن گنیا ہوا تھا، علاج ہوا، وہ ٹھیک بھی ہوئیں لیکن تب سے ہاتھوں کی انگلیاں سوجی رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،
‘ کبھی کبھی ہاتھ اتنے سوج جاتے ہیں کہ ہاتھ سے چاقو بھی نہیں پکڑ پاتی۔ وزن نہیں اٹھا پاتی لیکن جب کام کرنے باہر آئے ہیں تو کون یہ سب سنتا ہے! علاج کے لئے کوئی پوچھتا تک تو نہیں۔ چھٹی کرو تو ہر دن کا 50 روپیے کٹتا ہے۔ ‘
چھٹی کا نام آتے ہی یہاں بھی وہی بے اطمينانی دکھی، جو شاہ آباد ڈیری علاقے کی خواتین میں دکھی تھی۔ مایا بتاتی ہیں کہ ان کو ایک چھٹی بھی نہیں ملتی۔بھگوتی نے بتایا کہ چھٹی لینا مطلب میڈم کے پاؤں تلے زمین ہٹ جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘ کئی گھر میں 3 چھٹی کی بات ہوتی ہے، لیکن اگر کہیں بیمار ہو گئے، کسی کے یہاں کوئی موت غمی ہوگئی تو اس کو اسی تین چھٹی میں ایڈجسٹ کرو! ارے! یہ سب کوئی بتاکر ہوتے ہیں کہ اس کے حساب سے چھٹی لی جائےگی۔ اگر 3 چھٹی لینے کے بعد نہ آؤ تو پیسہ کٹےگا ہی کٹےگا۔ ‘
ایسے میں کئی خواتین بیماری میں بھی کام کرنے آتی ہیں۔ سیتا (بدلا ہوا نام) کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہے۔ 30 سال کی سیتا تقریباً 4 گھروں میں صاف صفائی اور برتن مانجھنے کا کام کرتی ہیں۔ شوہر کی بیماری کی وجہ سے وہ 3 مہینے کام پر نہیں گئیں، ایسے میں انہوں نے واپس لوٹنے کے بعد 2 مہینے میں محض دو دن کی چھٹی لیں، وہ بھی تب، جب بڑھتی گرمی کے چلتے ان کو الٹیاں اور دست ہوئی۔سیتا جھجکتے ہوئے یہ بھی بتاتی ہیں کہ بیتے سال سردی کے وقت میں دائیں ہتھیلی میں گہری چوٹ لگی تھی، ایک آدھ روز تو گھروں میں کام ہلکا رہا لیکن پھر برتن دھونے کے صابن کے چلتے زخم پک گیا اور تب انہوں نے ہاتھ میں پالیتھن پہنکر گھروں میں کام کیا۔وہ بتاتی ہیں کہ؛
کئی گھروں میں تو دھیان رکھتے ہیں، لیکن زیادہ تر کو ہماری بیماری سے کوئی لینادینا نہیں ہوتا۔ کئی گھروں میں پیسے تو نہیں کٹتے، لیکن چھٹی کے بعد جاؤ، تو دو گنا تگنا کام کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات آتے ہی فوراً گنی بتاتی ہیں، ‘ ہاں، جیسے ہی میں میڈم سے کہتی ہوں کہ کل نہیں آؤںگی، وہ اگلے دن کے لئے بھی تبھی کھانا بنواکر رکھ لیتی ہیں۔ ‘ گنی کی بات سے سب متفق ہیں۔متھلیش، رادھا، انیتا سب ایک ساتھ یہی کہتی ہیں کہ چھٹی کے بعد اگلا دن سب سے بھاری گزرتا ہے۔ ان کی شکایت بس یہی ہے کہ میڈم لوگ بھی تو چھٹی پر جاتی ہیں، کچھ وقت آرام کرتی ہیں، لیکن ہمارا آرام اگلے دن کا جنجال بن جاتا ہے۔سنیتا (بدلا ہوا نام) کی پریشانی تھوڑی الگ ہے۔ ان کی عمر 50 سال کے قریب ہے۔ پہلے ایک اسکول میں کام کرتی تھیں، جو لمبی بیماری کے بعد چھوٹ گیا۔ اب ایک گھر میں صاف صفائی کا کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،
‘ میڈم سب باتوں کا خیال رکھتی ہیں، پیسہ، کپڑا، بیماری، کھانا پینا، لیکن چھٹی ایک دن کی بھی نہیں کرنے دیتیں۔ اب ایسے میں کوئی کیسے کام کرےگا۔ میری مجبوری ہے کہ بیٹی کی شادی کے لئے پیسہ جمع کرنا ہے، تب تک تو کام کروںگی ہی، پھر دیکھا جائےگا۔ ‘
متھلیش جھاڑو پوچھا کا کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار اچانک چھٹی لینی پڑی، واپس آئیں تو میڈم ناراض تھیں، غصے میں باتیں سنائیں اور پھر ٹوائلٹ صاف کروایا، جو ان کا کام نہیں تھا۔کیا کبھی کسی بات پر ڈانٹ کے علاوہ گالی گلوج وغیرہ بھی ہوتی ہے؟روبی بتاتی ہیں، ‘ میڈم لوگوں کا غصہ کرنا عام بات ہے۔ کبھی آنے میں دیر ہو گئی یا کچھ مانگ لیا یا ان کی کسی بات کا جواب دے دیا، تو بس ‘
بھگوتی نے بتایا کہ کئی گھر ایسے بھی رہے جہاں گھر کے مرد گالی دےکر بات کیا کرتے تھے۔ خواتین بھی صحیح سلوک نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب تک برداشت ہوا، تب تک کام کیا لیکن پھر چھوڑ دیا۔ ‘ ہم غریب صحیح، پر عزّت تو ہے۔ بنا بات گالی کون سنےگا! ‘یہ تمام خواتین یا تو ناخواندہ ہیں، یا صرف اپنا نام لکھنا جانتی ہیں۔ برے سلوک، گالی گلوج، چھیڑچھاڑ کو لےکر قانون بنے ہیں، یہ ان میں سے کئی کو نہیں پتا۔ جب ان سے جنسی تشدد یا Sexual harassmentکے بارے میں پوچھا تو وہ خاموش ہو گئیں۔ انہوں نے ایسا کوئی تجربہ ہونے سے انکار کیا، لیکن کئی گھروں میں ‘ ایسا ہوتا ہوگا ‘ کے امکان سے انکار نہیں کیا۔
ہرسال کام کاجی طبقے میں بونس، اپریزل، بھتہ بڑھانے کے بارے میں ڈھیروں گفتگو اور بحث سنائی دیتی ہیں، لیکن اپنے گاؤں فیملی سے دور، بچوں کو گھر چھوڑکر یہاں کام کر رہی یہ خواتین کئی کئی سال تک ایک ہی تنخواہ پر کام کرتی رہتی ہیں۔ کوشل تقریباً 45 سال کی ہیں، گھر میں شوہر کی مارپیٹ کا شکار بھی رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،
‘ اگر وہ 1600 روپے دے رہے ہیں تو ساتھ والے گھروں سے مقابلہ کرتے رہتے ہیں کہ باقی سب سے تو زیادہ ہی ہے۔ کئی بار کچھ اور کام کرنے والیاں آکر کم پیسے پر کام کرنے کو راضی ہو جاتی ہیں، اس سب سے ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے۔ آپ بتاؤ 5 سال سے کام کر رہے ہیں اور 200 روپے بڑھے۔ کہنے کو یہاں سب پیسے والے صاحب ہیں۔ ‘
روبی نے بتایا کہ پیسے بڑھانے کو کہو تو کئی بار لوگ ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ سیتا نے بتایا کہ دو سالوں سے میں ایک ہی تنخواہ پر کام کر رہی ہوں، مہنگائی، خرچ، بچّوں کی فیس، گھر کا کرایا سب بڑھ گئے، لیکن پگار ہی نہیں بڑھی۔ ایک دن ہمت کرکے کہا تو انہوں نے صاف منع کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے مجھے بنا بات اتنی بری طرح ڈانٹا کہ میں رو پڑی۔ اپنی محنت کی کمائی کے لئے اتنا سننا اور سہنا پڑتا ہے۔ روبی یہاں ایک دلچسپ بات بھی بتاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میڈم یاصاحب لوگ پیسے بڑھانے کو کہو تو سامان دے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، جو چاہئے ہمیں بتاؤ ہم دلواتے ہیں۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ روبی کہتی ہیں،
‘ شاید ان کو لگتا ہے کہ سامان تو ایک بار دلانا ہے، پگار تو ہر مہینے دینی ہے۔ ‘
ترپتی لاہری صحافی ہیں اور عالمی ویب سائٹ کوارٹز کی ایشیا چیف ہیں۔ انہوں نے گھریلو خواتین مدد گار کو مرکز میں رکھتے ہوئے ‘ میڈ ان انڈیا ‘ [Maid in India] نام کی کتاب لکھی، جو سال 2017 میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں خاص کر دہلی کے گھروں میں مختلف کام کر رہی خواتین کی کہانی درج ہے۔اس کے لئے ترپتی ڈھیروں کام والیوں سے ملیں اور ان کے تجربے جانے۔ایک انٹرویو میں ترپتی سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ کم تنخواہ کی بھرپائی کپڑے یا سامان دینے کی وجہ کیا ہے۔ ترپتی نے کہا وہ بھی اس کو سمجھ نہیں سکی ہیں کہ جو لوگ اچھی اقتصادی حالت میں لگتے ہیں، وہ دوسرے گھر کے مقابلے میں اتنی ہی تنخواہ کیوں نہیں دیتے۔یہ اٹپٹا ہے۔ کئی ایسے لوگ تھے جو اچھی تنخواہ نہیں دے رہے تھے، لیکن رہنے کی جگہ وغیرہ جیسی سہولیات دی ہوئی تھیں۔
پگار بڑھانے کو لےکر ان خواتین کے تجربے اور کڑوے ہیں۔ کئی بار پگار وقت پر مانگنے یا بڑھانے کو کہنے کی سزا چوری کا الزام کے طور پر ملتی ہے۔سنیتا اپنی بیٹی کے ساتھ ہوا تجربہ بتاتی ہیں،
بیٹی کو ایک گھر میں 9 ہزار روپے مہینے پر کام ملا۔ پورے گھر کی صفائی، کھانا کپڑا وغیرہ سب کام تھا۔ پہلے مہینے انہوں نے 6 ہزار روپے دیتے ہوئے کہا کہ باقی اگلے مہینے میں دے دیںگے۔ دو اور مہینے یہی ہوا، جس کے بعد بیٹی نے کہا تو میڈم بولیں کہ کام ہی کیا ہے میرے گھر میں، 6 ہی کافی ہیں۔ اس کے کچھ دن بعد انہوں نے اس پر چوری کرنے کا الزام لگا دیا۔ کہا میرے گھر سے فلاں چیز غائب ہے۔اس کے بعد بہت توتو میں میں ، جھگڑا ہوا۔ میں نے کہا نکالنا ہے تو کام سے تو آنے سےمنع کردو، سالوں سے یہی کام کیا ہے، چوری کیوں کریںگے پر انہوں نے ہنگامہ کرکے پڑوسیوں کو جمع کر لیا۔ بہت تماشہ ہوا۔ کام تو چھوٹا ہی، پچھلے مہینوں کے بقائے پیسے اور اس مہینے کی تنخواہ بھی گئی۔ کئی بار پیسے مانگنے گئے پر وہ اور ان کے شوہر بے عزت کرتے تھے، سو جانا بند کر دیا۔ محنت کا مول دینے والا کوئی نہیں ہے ۔
سنیتا نے یہ بھی بتایا کہ پیسے مانگنے کو لےکر کئی بار مارپیٹ بھی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو کام نہیں کروانا تو وہ سیدھے منع نہیں کرتے، بلکہ کوئی بہانہ تلاش کرتے ہیں۔سیتا کا بھی ایسا ہی تجربہ رہا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ‘ میں نے ایک گھر میں کام شروع کیا، کچھ دن بعد ان کو کم پگار پر کام کرنے والی کوئی اور لڑکی مل گئی پر مجھے منع کیسے کرتیں سو انہوں نے ایک دن مجھ پر موبائل چوری کا الزام لگایا۔ میں تب دہلی میں نئی تھی، یہاں کے طور طریقے سمجھتی بھی نہیں تھی، تو بس کھڑی روتی رہی۔انہوں نے پولیس بھی بلا لی۔وہ لوگ آ بھی گئے پر ان میڈم سے یہ غلطی ہو گئی کہ جس نمبر کی چوری ہونے کی شکایت کروائی تھی،اسی سے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس نے تو ان کو کچھ نہیں کہا۔ لیکن مجھے تو وہ چور کہہ گئیں۔ ہم جوٹھن بھلےہی دھوتے ہیں، لیکن چوری کرکے اپنی قسمت بدلنے کی نہیں سوچتے۔ ‘
کوشل بھی بتاتی ہیں کہ چوری کا الزام لگاکر کام سے نکالنا بہت عام بات ہے۔ وہ کہتی ہیں،
‘ کام کرنے والوں پر بھروسہ نہیں ہے لوگوں کو۔ کرتے ہیں بہت لوگ غلط کام، ایسا کوئی جو سالوں سے کالونی میں کام کر رہا ہو، چوری کرتے ہوئے کیسے رہےگا۔ ایک میڈم تو اتنا شک کرتی تھیں کہ اپنے کچن میں کیمرا لگوا دیا تھا۔ ‘
نومبر 2017 میں مہاراشٹر کے ایک ادارہ کے ایک انوکھے نام والی مہم نے دھیان کھینچا تھا، اس مہم کا نام تھا رائٹ ٹو پی، [Right to pee] یعنی پیشاب کرنے کا حق۔ ممبئی میں عمومی طور پر خواتین کے لئے صاف اور محفوظ ٹوائلٹ نہ ہونے کو لےکر خواتین کی اس تنظیم نے وزیراعلیٰ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔اربن یعنی شہری علاقے میں پیشاب کرنے کے لئے مناسب جگہ کے نہ ہونے کے چلتے خواتین نے کئی بار آواز اٹھائی ہے۔ ہائی وے پر خواتین کے لئے ٹوائلٹ کی سہولت نہ ہونے کے لئے تو آن لائن پلیٹ فارم پر مہم بھی چلی تھی، لیکن ہمارے گھروں میں کام کرنے والی یہ خواتین ڈھیروں قانونی حقوق کی طرح اس حق سے بھی محروم ہیں۔
کسی بھی گھریلو خاتون ملازم کو جس گھر میں وہ کام کرتی ہے، وہاں ٹوائلٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پیریڈس ہوں یا کبھی پیٹ سےمتعلق کوئی تکلیف، جن گھروں کے باتھروم یہ خواتین صاف کرتی ہیں، ان کا استعمال یہ نہیں کر سکتیں۔بھگوتی کو عمر کی وجہ سے پیشاب سے متعلق پریشانی ہے، جس سے ان کو تھوڑےتھوڑے وقفے پر باتھ روم جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ کیا کرتی ہیں؟ جھینپتے ہوئے وہ بتاتی ہیں،
‘ یہیں کہیں گاڑیوں یا جھاڑیوں کے پیچھے کر لیتے ہیں۔ کبھی لوگ دیکھ لیتے ہیں تو چلّاتے ہیں، پر کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ کوئی جگہ ملی ہوتی تو یہاں پیشاب کیوں کرتے! ‘
کم وبیش ہر عورت نے بتایا کہ ان کو کبھی نہ کبھی دیر تک پیشاب روکنے کی وجہ سے پیٹ درد اور جلن جیسی تکلیف کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ ان کا مشورہ تھا کہ اگر لوگوں کو گھر کا ٹوائلٹ استعمال نہیں کرنے دینا ہے تو کالونی میں ایک ٹوائلٹ کا انتظام تو کروانا چاہئے، لیکن کوئی اس بارے میں سوچتا ہی نہیں ہے۔کیا وجہ ہے کہ اپنے حقوق کے متعلق باخبر ملک کی اعلی اور خوشحال آبادی اپنے گھروں میں کام کر رہے ان کاملازموں کے حق کے متعلق بالکل غیر جانب دار رہتی ہے؟ گھروں میں ہو رہے اس سلوک کی وجہ کیا ہے؟
ترپتی لاہری سے جب یہ پوچھا گیا تھا، تب انہوں نے جواب دیا،
‘ مشکل یہ ہے کہ اس کو غلط سمجھا ہی نہیں جاتا کیوں یہی انہوں نے اپنے گھر میں ہوتا دیکھا یا ان کے آس پاس جو لوگ رہتے ہیں، وہ بھی یہی کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں ہر طرح کے رشتے میں برابری نہیں ہوتی، تو پھر اس رشتے میں کچھ الگ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ‘
ترپتی کی کتاب ‘ میڈ ان انڈیا ‘ میں انہوں نے اس کو اور واضح طور پر کہا ہے، ‘ ممالک کے بیچ میں سرحد باڑ لگاکر دکھائی جاتی ہیں، لیکن طبقوں کے درمیان فرق اس بات سے واضح ہوتے ہیں کہ آپ کہاں بیٹھ سکتے ہیں، کہاں باتھروم جا سکتے ہیں اور کہاں اور کس کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
بےبی کماری لمبے وقت سے گھریلو خواتین ملازموں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے دہلی گھریلو کامگار یونین سے جڑی ہیں۔اس طرح گھریلو خواتین ملازم کے ساتھ ہونے والی جانبداری کی ایک وجہ وہ کلاس ڈفرینس کو مانتی ہے۔وہ کہتی ہیں،
‘ طبقہ فرق یا کلاس ڈفرینس ہمارے سماج کی کڑوی سچائی ہے۔ ایسا کیوں ہے تو اس کا جواب ہے اقتصادی عدم مساوات۔ اور پھر جو اس ملک کے سسٹم کو دیکھ سکتے ہیں۔اس سسٹم میں ایک طرح سے سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو غیر مساوی ترقی کے ذریعے ہی آگے بڑھتا ہے۔سماج کا ایک طبقہ لگاتار محروم رہتا ہے، وہیں دوسرا طبقہ ہوتا ہے جس کے پاس وسائل، اقتصادی انتظام اور ترقی یافتہ ہوتے جاتے ہیں۔ اس کے لئے اقتصادی پالیسیاں تو ذمہ دار ہوتی ہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہ خاصیت کہ لیجئے کہ اس میں غیر مساوی ترقی ہونا ہی ہے۔ اس کو کسی بھی طرح سے پاٹنے کی کوشش کی جائے، تب بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس حکومت سے ایسی کسی کوشش کی امید ہی نہیں ہے، پچھلی حکومتوں نے تھوڑی رعایتیں دینے کی کوششیں کیں، لیکن اب بھی وہ محروم طبقہ وہیں کا وہیں ہے، کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ ‘
کیا کہتا ہے قانون؛
گھریلو ملازموں کے حقوق محفوظ کرنے کے لئے ‘ ڈومیسٹک ورکرس ویلفیئر اینڈ سوشل سکیورٹی بل ‘ بنایا گیا ہے، جس میں ریسیڈینٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن، ضلع سطح سے شروع کرکے ریاست اور مرکزی حکومت کی سطح تک ایک بورڈ بناکر کام کرنے والوں کے حقوق متعین کرنے کی بات کہی گئی ہے، لیکن کئی سالوں سے زیر التوا پڑے اس بل کے اب تک منظور نہ ہونے کی وجہ سے کم از کم مزدوری، طےشدہ کام کے گھنٹے، چھٹی، سماجی تحفظ، مادریت کی چھٹی، پالناگھر، کام کرنے کے ماحول، تنخواہ اور باقی سہولیات سے جڑے کوئی ہدایات نہیں ہیں۔
حالانکہ آندھر پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرل، مہاراشٹر، اڑیشہ، راجستھان اور تمل ناڈو نے گھریلو ملازموں کے لئے قدم اٹھائے ہیں۔ کچھ ریاستوں میں ان کے لئے کم از کم تنخواہ بھی طے کی گئی ہے، کچھ ریاستوں میں ریاستی حکومت نے ان کے لئے ویلفیئر بورڈ بھی تشکیل کی ہیں، لیکن ایک مناسب قانون کے فقدان میں گھریلو کام کرنے والوں کی ایک بہت بڑی آبادی کسی بھی طرح کے مزدور قانون کے بغیر ہی کام کر رہی ہے۔شکتی واہنی تنظیم لمبے وقت سے گھریلو ملازمین اور ان کی اسمگلنگ سے جڑے معاملوں پر کام کر رہی ہے۔ شکتی واہنی کے رشی کانت کہتے ہیں،
گھروں میں کام کر رہی لڑکیوں / خواتین کو پتا ہی نہیں ہے کہ اگر ان کے ساتھ بد سلوکی ہو رہی ہے تو اس کے بارے میں کہاں شکایت کریں، وہ جانتی ہی نہیں ہیں۔ مہاگن سوسائٹی میں ہوئے واقعہ کے بعد غازی آباد کے کلکٹر نے تمام ریسیڈینٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن سے کہا تھا کہ ملازموں سے جڑے اصول وہ اپنے یہاں نوٹس بورڈ پر لگائیں۔ان کام کرنے والوں کو کسی بھی قانون کو لےکر کوئی جانکاری ہی نہیں ہے۔
ملک میں صرف دو ایسے قانون ہیں جو موٹے طور پر ان خواتین کو ‘ مزدور ‘ کا درجہ دیتے ہیں، پہلا Unorganized Workers Social Security Act, 2008، اور دوسرا کام کرنے کی جگہ پر خواتین کے ساتھ جنسی استحصال (Prevention, Prohibition and Prevention) قانون، حالانکہ پہلا ان آرگنائزڈ مزدوروں کا سماجی تحفظ اور فائدے سے جڑے معاملوں میں کام کرتا ہے اور دوسرا کام کرنے والی خواتین کی حفاظت کے لئے لایا گیا تھا، لیکن یہ دونوں ہی ان کے حقوق کو لےکر کسی قانونی خاکہ کی بات نہیں کرتے۔
واضح طور پر ان خواتین کے پاس اپنی شکایتوں کی سماعت کے لئے کوئی قانونی راستہ نہیں ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ سال در سال ان پر تشدد کے معاملے بڑھتے ہی گئے ہیں۔ بیتے سال نوئیڈا کی مہاگن سوسائٹی میں پیسے نہ دینے پر ملازمہ کو گروی بنا لینے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اس طبقے کے لئے آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں۔ وزارت مزدور نے کہا اس زیر التوا بل کے لئے مشورہ مانگے اور جلد سے جلد اس کو منظور کرنے کی بات کہی۔
لیکن جس طرح قانون پارلیامنٹ کے سیشن ہنگاموں کی نذر ہوجاتے ہیں، ایسے میں ملازمین کی آواز نقّارخانہ میں طوطی کی طرح ہے۔ رشی کانت اس بل کو منظور کرنے میں ہو رہی دیری کو حکومت کی لاپرواہی مانتے ہیں۔ان کا کہنا ہے،
میں سمجھ نہیں پاتا اس بل کو پاس کرنے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟ حکومت ہند خاص کر دہلی حکومت، کیونکہ یہاں ایسے ڈھیروں معاملے روز آ رہے ہیں، کوئی قانون کیوں نہیں لےکر آ رہے ہیں۔ مرکزی حکومت میں اس بل کو کیبنیٹ اپروول تک نہیں ملا ہے۔ کوئی قانون نہ لاکر ہم کہیں نہ کہیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم تو تم کو رکھیںگے گھر میں،استحصال کریںگے اور حکومت آنکھ موندے رہےگی۔
میڈیا رپورٹس کی مانیں تو یہ مسودہ پوری طرح تیار ہےاور آئندہ سیشن میں اس بل کے منظور ہونے کا امکان ہے۔حالانکہ حکومت کا رویہ ان ملازمین کی حالت کو لےکر ڈھل مل ہی رہا ہے۔ بین الاقوامی مزدور تنظیم (آئی ایل او) دنیا بھر میں گھریلو ملازمین کے حقوق متعین کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔ آئی ایل او کی 189ویں معاہدہ، جو خاص طورپر گھریلو کام کرنے والوں کے حقوق کی بات کرتی ہے،اس پر حکومت ہند نے دستخط تو کئے ہیں، لیکن اس کو اب تک منظور نہیں کیا ہے۔
آئی ایل او کی نیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر سنیتا ایلوری مانتی ہیں کہ حالانکہ کئی ہندوستانی ریاستوں نے ان کے لئے کم از کم مزدوری کی بات کر رہے ہیں، لیکن اب بھی ان کے مسائل کے لئے مناسب نظام نہیں ہے۔لیکن کیا قانون منظور ہو جانے سے ان مشکلوں کا حل ہو جائےگا؟ مزدوروں کے مدعوں پر پر لمبے وقت سے رپورٹنگ کر رہے اکھل کمار کے مطابق نہیں۔ان کا کہنا ہے،
کاغذات پر اب بھی مزدوروں کے لئے ڈھیروں کڑے قانون بنے ہوئے ہیں، لیکن ان پر عمل کہاں ہو رہا ہے؟ آپ دہلی کی ہی بات کریں تو یہاں مطلوبہ لیبر انسپکٹر تک نہیں ہیں، جو مزدوروں کو لےکر دیے گئے قوانین پر عمل کو متعین کریں۔ تو مجھے لگتا ہے کہ قانون لانے کے ساتھ اس کے عمل کی نگرانی بھی ضروری ہے۔
بے بی بھی ایسا ہی مانتی ہیں۔ چونکہ ان کام کرنے والوں کے سامنے آ رہے مسائل سَماجِياتی ہیں، تو کیا قانون سے ‘ مالک ‘ طبقے کے رویے میں کوئی تبدیلی آئےگی؟ بے بی کہتی ہیں، ‘ اگر جینے کے حقوق کے تحت ان کے لئے کوئی قانون آتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن گھروں میں یہ کام کرتی ہیں، ان میں کوئی تبدیلی آ جائےگی۔اس کے لئے حکومت کو نگرانی رکھنی ہوگی۔ مالک طبقہ ہمیشہ رحم کرتا ہے۔ ڈاکٹر گوپال سنگھ نیپالی کی نظم ہے کہ ؛
داسوں کی پریت خوشامد کی
مالک کا پیار رحم بھر کا
تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ مالک نوکر سے پیار کرنے لگے۔ ہاں، یہ بل آتا ہے تو ہم اس کا استقبال کریںگے، لیکن یہ صحیح سے نافذ ہو حکومت کو اس کے لئے نگرانی کمیٹیاں بنانی ہوںگی، جو لگاتار اس پر نظر رکھیں۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ