دی وائر کی رپورٹ پر جواب دیتے ہوئے میرٹھ پولیس نے کہا کہ پوچھ تاچھ میں نابالغ نے اپنی عمر نہیں بتائی ۔ دلت ہونے کی وجہ سے نابالغوں کی گرفتاری کے الزام پر پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ایس سی ایس ٹی ایکٹ کو لےکر سپریم کورٹ کی نئی ہدایت کے بعد 2 اپریل 2018 کو دلت تنظیموں کے ذریعے ملک بھر میں کئے گئے بھارت بند کے دوران مختلف ریاستوں میں تشدد دیکھنے کو ملا۔ سب سے زیادہ تشدد اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں ہوا۔ ان ریاستوں میں تشدد میں شامل ہونے کے الزام میں ڈھیروں جوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی بند میں میرٹھ کی جیل اور جووینائل ہوم میں 3 دلت نابالغ سنگین دفعات کے تحت تقریباً 2 مہینے سے بند ہیں۔
دی وائر کے ذریعے اس تعلق سے کی گئی رپورٹ پر میرٹھ پولیس نے جواب دیا ہے کہ رپورٹ میں بتائے گئے ابھیشیک اور اجئے، دونوں جووینائل ہوم میں ہیں۔ ٹوئٹر پر دئے گئے جواب میں پولیس کا کہنا ہے کہ ان دونوں نے پوچھ تاچھ کے دوران خود کو نابالغ بتایا تھا اس لئے ان کو قانون کے مطابق Juvenile Justice Boardکے سامنے پیش کرنے کے بعدجووینائل ہوم بھیجا گیا۔ حالانکہ دی وائر نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ اجئے اور ابھیشیک دونوں جووینائل ہوم میں ہیں۔
اس کے علاوہ پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ پوچھ تاچھ کے دوران تیسرے لڑکے سچن یا اس کے کسی رشتہ دار / آدمی یا ادارہ نے سچن کے نابالغ ہونے کے بارے میں نہیں بتایا۔ یہاں تک کہ جب اس کو ریمانڈ میں لینے کے لئے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا، تب بھی اس نے نہیں کہا کہ وہ نابالغ ہے اور نہ ہی اس نے اس بارے میں پیش کئے گئے کسی رکارڈ پر کوئی اعتراض کیا۔
Reply with reference to the story mentioned in The Wire pic.twitter.com/gK4grUbGVA
— meerut police (@meerutpolice) June 6, 2018
پولیس کا کہنا ہے کہ اے ڈی ایم میرٹھ سٹی اور ایس پی میرٹھ سٹی معاملے کی جانچکر رہے ہیں۔ سچن کی عمر کو لےکر کوئی بھی دستاویز یا ثبوت ان کو ملتا ہے، تو وہ عدالت کو اس کے بارے میں مطلع کریںگے۔ پولیس کے اس جواب پر سچن کے بڑے بھائی کرشنا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے بتایا، ‘ ہم کو تو اس کی گرفتاری کے بارے میں 3 اپریل کو پتا چلا تھا۔ اس کے بعد ہم اس سے جیل میں ملنے گئے تھے۔ اس کو میرٹھ کے اسی جیل میں بند رکھا تھا، جہاں تمام بالغ ملزم اور مجرم بند تھے۔ جس دن اس کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، اس دن فیملی کا کوئی بھی آدمی عدالت میں موجود نہیں تھا، اس لئے ہم جانکاری نہیں دے سکتے کہ جج نے اس سے اس کی عمر پوچھی ہوگی یا نہیں۔ ‘
یہ بھی پڑھیں : بھارت بند کے دوران سنگین دفعات کے تحت گرفتار دلت نابالغ دو مہینے سے جیل میں
وہیں سچن کے وکیل اشوک کمار نے دی وائر کو بتایا، ‘ اس معاملے میں ابھی تک فیملی والوں کا بیان درج نہیں ہوا ہے کیونکہ فیملی کے پاس ایسا کوئی دستاویز نہیں ہے، جو عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ آدھار کارڈ کو عدالت ثبوت کے طور پر نہیں مانےگی اور فیملی کی طرف سے کوئی بھی دوسرا دستاویز نہیں دیا گیا ہے، جس سے سچن کو نابالغ ثابت کیا جا سکے۔ ‘
اشوک آگے بتاتے ہیں، ‘ آئیڈیل سچویشن یہ ہے کہ جب بھی کوئی ملزم عدالت میں پیش ہوتا ہے، تو جج کا کام ہے کہ وہ تمام دفعات اور پولیس کے ذریعے دی گئی تمام جانکاریوں کی جانچ کرے، لیکن اصل میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جج پولیس کے لکھے کو ہی صحیح مان لیتے ہیں۔ وہ عموماً تفتیش نہیں کرتے جبکہ ان کو کرنی چاہئے۔ ورنہ پولیس کچھ بھی لکھ دےگی اور وہ سچ مان لیںگے! پولیس نے ریمانڈ شیٹ پر 20 سال عمر اپنی مرضی سے لکھی ہے جبکہ ان کو یہ جانچنا چاہئے کہ جس کو گرفتار کیا ہے اس کی اصل عمر کیا ہے۔ ویسے اس طرح کے معاملوں میں عدالتوں میں جج ملزم سے سوال و جواب کریں، ایسا استثنائی طور پر ہی ہوتا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہوتی ہے اور بڑی تعداد میں پیشی ہوتی ہے۔ ‘
میرٹھ پولیس کا رد عمل اب تک صرف گرفتار کئے گئے بچوں کی عمر کو لےکر چھڑے تنازعے تک ہی محدود ہے۔ غور طلب ہے کہ پولیس نے اب تک سچن کی فیملی کے الزامات کی تردید نہیں کی، جس میں سچن کی گرفتاری کی وجہ اس کے دلت ہونے کو بتایا گیا ہے۔ حالانکہ پولیس نے دی وائر کی رپورٹ میں بتائے گئے اس پہلو پر کوئی وضاحت نہیں دی ہے کہ اسکول جانے والے نابالغ بچوں پر کس بنیاد پر ڈکیتی، قتل کی کوشش اور مجرمانہ سازش جیسے معاملے درج کئے گئے ہیں۔
Categories: فکر و نظر