اس وقت ہندوستان کے بینکنگ نظام میں آئے بحران نے ملک کو اور کمزور بنا دیا ہے۔ اگر ایشیا مالی بحران میں گھر جاتا ہے تو ہندوستان کی حالت سنگین ہوگی۔
2015 میں ایک انتخابی ریلی میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ ایک خوش قسمت وزیر اعظم ہیں، جس کے آنے سے کچے تیل کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں اور اس سے حکومت کو معیشت کو پٹری پر لانے میں مدد ملےگی۔ 4 سال کے بعد یہ حالت ٹھیک الٹی ہو گئی ہے۔ کچے تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے جس کا معیشت پر تو برا اثر پڑنے لگا ہے، ساتھ ہی یہ مودی کی 2019 میں انتخابی جیت کے امکانات کو دھکا پہنچا سکتی ہے۔ ان چار سالوں کے دوران سب سے خراب بات جو ہوئی، وہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے تیل کی کم قیمت کا کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا۔
16-2015 میں 7.9 فیصدی جی ڈی پی سے گرکر18-2017 میں تقریباً 6.6 فیصدی پر آ جانا اس کا سب سے برانتیجہ ہے۔18-2017 کی آخری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں اضافہ ہوا ہے لیکن تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت جی ڈی پی کی اس شرح کو شاید قائم نہ رکھ پائے۔ کچے تیل کی قیمت میں ہر 10 ڈالر کے اضافے کے ساتھ جی ڈی پی میں 0.3 فیصدی تک کی کمی، چالو کھاتہ گھاٹے میں 0.4 فیصدی کی گراوٹ اور صارفین کی افراط زر(Inflation Rate) کی شرح میں 0.6 فیصدی کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ بڑھتے ہوئے ڈیزل کے دام کا اثر ہر چیز کی قیمت پر پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے اگلے 6 مہینوں میں معیشت میں کئی اور برے نتائج دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔مارکیٹ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ 2019 آتے آتے ایک ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپے کی قیمت 70 تک پہنچ سکتی ہے۔ ایشیائی کرنسیوں میں ہندوستانی روپے کی کارکردگی اس سال سب سے خراب رہی ہے۔ اس مالی سال میں ایکوٹی میں Foreign Institutional Investments (ایف آئی آئی) پوری طرح سے خالی رہی ہے۔
صحیح کہا جائے تو ایشیا کی تمام معیشت کا یہی حال بنا ہوا ہے۔ نوبل انعام پانے والے ماہر اقتصادیات پال کرگ مین نے حال ہی میں کئی ٹوئٹ کئے ہیں، جس میں انہوں نے ایشیائی کرنسیوں میں اچانک آئی گراوٹ کو ابھرتی ہوئی معیشت میں سرمایہ کی رفتار کی کمی سے جوڑکر دیکھا ہے۔ یہ بھلےہی اس سطح کا نہیں لیکن کچھ کچھ 1990 کی دہائی کے آخری دور میں ایشیا میں آئے اقتصادی بحران جیسا ہے۔ حالانکہ مدعا یہ ہے کہ اگر اس کا دائرہ بڑھتا ہے تو ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں رہ سکتا۔ کئی سارے عالمی واقعات ایک ساتھ بے ترتیب طریقے سے ہو رہے ہیں۔ امریکہ اپنے سود کی شرح میں اضافہ کر رہا ہے جس سے سرمایہ کی رفتار امریکی بانڈ کو اور بہتر کر رہا ہے۔
امریکی فیڈرل ریزرو نے اپنی بیلنس شیٹ کو (زیادہ پیسے چھاپکر) 2008 کے بیچ میں 800 ارب ڈالر سے پھیلا کرکے 2016 میں 4.5 کھرب تک کر لیا تھا۔ وہ کچھ سالوں میں معیشت میں موجود اضافی لکویڈٹی (Excess Liquidity)کو ختم کرنے کے عمل میں ہے۔ کسی کو نہیں پتا کہ کھربوں ڈالر کو اس طرح سے عالمی معیشت سے باہر نکال لینے پر ایشیائی معیشت پر اس کا کیا اثر پڑےگا جو کہ ابتک اس کی وجہ سے فائدے میں تھی۔ یہ رقم ان ممالک میں ریئل اسٹیٹ، اسٹاک مارکیٹ، سونا، کچا تیل اور اشیا میں لگی ہوئی تھی۔
چونکہ ڈالر ایک مضبوط کرنسی والی حالت میں ہے اور امریکی معیشت کی بنیاد ان ابھرتی ہوئی معیشت سے کہیں زیادہ مضبوط ہے، اس لئے وہ معیشت سے اتنے بڑے پیمانے پر لکویڈٹی کو نکال دینے کے بعد مختلف جائیداد رکھنے والے طبقوں میں آنے والی غیر یقینی صورت حال کو سنبھالنے کا مادہ رکھتا ہے۔ اس کے بہ نسبت چھوٹی معیشت کو مالی بازار میں ہونے والی ہلچل کو زیادہ جھیلنا پڑےگا۔ ٹرمپ حکومت کی طرف سے کئی ترقی یافتہ اور کئی ترقی پذیر ممالک پر ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں کو تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے عالمی سطح پر کاروبار اور پیداوار میں کمی آ سکتی ہے۔ اس سے عالمی معیشت کی غیر یقینی اور بڑھ سکتی ہیں۔ 1990 کی دہائی جیسے حالات بننے کے بارے میں کرگ مین(Krugman) کا انتباہ ممکن ہے ان باتوں کو خیال میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
ہندوستان اس غیر یقینی صورت حال سے اچھوتا نہیں ہے۔ خیریت اسی میں ہے کہ مودی اور ان کے صلاح کار BRICS میں ہندوستان کو واحد چمکتی ہوئی معیشت کہنا بند کریں، جو کہ وہ 2015 سے کہتے آ رہے ہیں۔ سچائی کچھ اور ہی ہے۔ مانا کہ ایئر انڈیا کے لئے عالمی حصےداری کی فروخت کے عمل میں جاری کئے گئے ٹینڈر کی شرطیں خراب تھیں، پر اس میں بولی نہیں لگنے کے پیچھے ایک بڑاپیغام چھپا ہوا تھا۔ اس سے پہلے عالمی تیل کمپنیوں نے بھی ہندوستان کے آئل بلاکس کی کھوج میں کم دلچسپی دکھائی تھی۔ دنیا بھرکے سرمایہ کار ہندوستان میں گھریلو نجی سرمایہ کاری کے پھر زور پکڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ این ڈی اے کے 4سالوں میں ابتک نجی سرمایہ کاری پروان نہیں چڑھی ہے۔
اس وقت ہندوستان کے بینکنگ نظام میں آئے بحران نے ملک کو اور کمزور بنا دیا ہے۔ اگر ایشیا مالی بحران میں گھر جاتا ہے تو ہندوستان کی حالت سنگین ہوگی۔ حال ہی میں آئی بلوم برگ کی رپورٹ میں موڈیز انویسٹر سروس کے تجزیے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں ہندوستان اور انڈونیشیا کو باہری سیکٹر کے نقطہ نظر سے سب سے کمزور معیشت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ جب مودی انڈونیشیا میں اس بات کا ذکرکر رہے تھے کہ موڈیز نے کیسے 13 سالوں میں پہلی بار 2016 میں ہندوستان کی معیشت کو بڑھتے ہوئے دکھایا ہے، تو وہیں ان کے صلاح کار ان کو موڈیز کی اس نئی رپورٹ کے بارے میں بتانے سے چوکے، جس میں موڈیز نے ہی ہندوستان کے باہری سیکٹر کو اپنے ایشیائی ہم منصب کے مقابلے میں سب سے کمزور دکھایا ہے۔
موڈیز کے مالی بحران کی حالت میں غیر ملکی کرنسی ذخیرے میں کتنی کمی ہو سکتی ہے، اس کی بنیاد پر ہندوستان کی کمزوری کا تجزیہ کیا ہے۔ اس کو ایک سال کے اندر لوٹائے جانے والے غیر ملکی کرنسی ذخیرے کے تناسب کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے معاملے میں 74 فیصدی غیر ملکی کرنسی ذخیرہ ڈالر دین داریوں کی صورت میں ہیں، جن کو ایک سال کی Residual Maturityملی ہوئی ہے۔ اس میں شارٹ ٹرم قرض (ایک سال کے اندر لوٹائے جانے والا) اور ایک سال کے اندر لوٹایا جانے والے این آر آئی ڈپازٹ بھی شامل ہیں ۔ یاد کیجئے 2013 کے غیر ملکی کرنسی کی ادائیگی کے توازن کے بحران کا زمانہ ، جب رگھو رام راجن کو این آر آئی صارفین کی حوصلہ افزائی کرنی پڑی تھی اور ریزرو بینک کو Exchange rate کی غیر یقینی صورت حال کا جوکھم اٹھانا پڑا تھا۔
اگر تیل کی قیمت اور بڑھتی ہے، ڈالر کی کم بنی رہتی ہے اور اگلے کچھ سہ ماہی میں ایکسپورٹ نہیں بڑھتا ہے تو ریزرو بینک کو شاید ایک بار پھر این آر آئی لوگوں کے ساتھ یہ قدم اٹھانا پڑے۔ حال ہی میں ریزرو بینک نے سرکاری قرض میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنایا اور ایف آئی آئی کو صرف ایک سال کی میچیورٹی پر قرض خریدنے کی اجازت دی۔ایسا ایشیائی معیشت سے سرمایہ کی روانی کو باہر جانے سے روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔اس سال سرکاری قرض میں سے پانچ ارب ڈالر کے ایف آئی آئی نکاسی نے بے چینی اور بڑھا دی ہے ۔
سب سے بڑا مسئلہ آج کا یہ ہے کہ عالمی یا پھر ایشیائی مالی انتظام میں کوئی بھی بحران اصل معیشت کو کچھ سالوں کے لئے گہرا دھکا پہنچا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان بھی ایسے علاقائی یا پھر عالمی معاشی بحران سے اچھوتا نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ 2008 کے عالمی بحران سے اگر ہندوستان جلدی نکل سکا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے انفارمل اقتصادی اور معاشی ڈھانچے پر اس بحران کا اثر بہت کم پڑا تھا۔ اس بار ایسا نہیں ہوگا۔
Categories: فکر و نظر