خبریں

’اسلام سے زیادہ فیمنسٹ کوئی مذہب ہے ہی نہیں ‘

انٹرویو:اسلام اور فیمنزم کا تو مطلب یہی ہے کہ اسلام سے زیادہ فیمنسٹ کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔

Pathbreakers_Exibition

حال ہی میں دہلی میں’پاتھ بریکرز:20 ویں صدی میں ہندوستان کی مسلمان عورتیں‘(Path breakers: The Twentieth Century Muslim Women of India)کے عنوان سےایک مذاکرہ  (Colloquium)منعقدکیا گیا تھا۔اس موقع پر  تصویروں کی  ایک نمائش بھی لگائی گئی تھی جس میں بیسویں صدی کی مسلمان عورتوں کی تصویروں کے ساتھ ان کے تعارف  کو پیش کیا گیا۔اس پروگرام کا مقصد ان مسلمان عورتوں کو یاد کرنا تھا جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں ایک نمایاں رول ادا کیااورسماج کے فرسودہ اصولوں کو توڑا۔

پروگرام کی خاص بات بھی یہی تھی کہ  مسلم عورتوں کے جس ٹیگ لائن کے ساتھ یہ پروگرام کیاگیا اور نمائش لگائی گئی ان میں سےکئی ناموں کا حوالہ دے کر کہا جا سکتا ہےکہ یہ وہ  عورتیں تھیں جن کے ذہن میں یہ تھا ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔اگر ان کے ذہن میں ان کا مذہب نہیں تھا تو پھر ان کے نام کےساتھ مسلم جوڑ کر کسی مخصوص مذہب کو ڈسکس کیا جانا کہاں تک صحیح ہے ؟

پروگرام میں کہا گیا کہ ان عورتوں نے روایتوں کو توڑتے ہوئے اپنی الگ راہ بنائی تھی،وہ مساوی حقوق میں یقین رکھتی تھیں۔ یہ باتیں اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں، لیکن کیا یہ عورتیں کسی ایسے بیک گراؤند سے آتی ہیں جہاں عورتوں کو اپنی پہچان کے لیے بھی مسلسل جدو جہد کرنا  پڑتا ہے۔اتفاق سے جواب بہت خوش کن نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس پروگرام کے تحت  کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی؟ اس پروگرام میں جس ’اصلی آزادی ‘کا ذکر کیا گیا ،اس سے پروگرام کا تھیم ہی میل نہیں کھاتا ؟آئیڈیا، عنوان ، اور ان عورتوں کے انتخاب میں کیا وہ آزادی نظر آتی ہے؟ حالانکہ اسی پروگرام میں سوال بھی اٹھائے گئے کہ ان مسلم عورتوں کی شناخت کیا ہندوستانی عورتوں سے الگ ہیں؟ ان عورتوں کے ساتھ  ان کا مذہب ہی نہیں  جوڑا گیابلکہ باقاعدہ ایک سیشن ’Islam and Feminism ‘کو بھی اس پروگرام میں جگہ دی گئی۔ جس میں عورتوں کے حقوق پر بات کرتے ہوئےپیغمبر کی زندگی کو بھی ڈسکس کیا گیا۔

یہاں کہا گیا کہ حلالہ جیسی رسومات صرف اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں۔لوگوں نے مسلمانوں کو اپنی چڑھ بنا لی ہے اس لیے اس طرح کی بے کار باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔اس پروگرام میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ Feminismیعنی تا نیثیت کا بوجھ اکیلے اسلام کے کندھے پر کیوں ہے؟’

ان باتوں کی اپنی الجھن ہے،اس کے باوجودشاید یہ  اچھی بات تھی کہ پروگرام میں مانا گیا کہ ؛ ’پدری ذہنیت  یعنی Patriarchyکا ’مذہب‘سے کوئی لینا دینا نہیں، ہر مذہب کی عورتیں اس کی شکار ہیں ، اس لیے مذہب کی بات  نہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو دیکھا جانا چاہیے۔‘

اسلام میں تین طلاق اور حلالہ جیسی چیزوں کو عورت  مخالف رسومات کہتے ہوئے شرکاء نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ان موضوعات  کو لے کر کسی دوسرے مذاہب پر بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ مذہب کو الگ کر کے عورتوں کے مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کسی خاص مذہب کو نشانہ بنانا صحیح نہیں ہے۔تعجب اس بات پر ہے کہ یہاں کہی گئی بیشتر  باتوں کی روشنی میں  خود اس پروگرام کا عنوان اپنی ضد بنتا نظر آیا ۔

syeda hameed

سیدہ سیدین حمید

اس پروگرام کو اس طرح دیکھتے ہوئے شاید اس بات کی ضرورت تھی کہ آرگنائزر سے کچھ سوال کیے جائیں ،اس لیے بعض باتوں کی وضاحت میں مسلم وومین فورم کی صدر اور آرگنائزرس میں سے ایک سیدہ سیدین حمیدسے بات چیت ملاحظہ فرمائیں ؛

  • یہاں 21 عورتوں کومسلم وومین آف انڈیا کےطور پر پیش کیا گیا،حالانکہ اسی پروگرام میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کو اپنے مذہب کا احساس نہیں تھا ، وہ جن کے ساتھ کام کر رہی تھیں انھوں نے ان کو بطور مسلمان نہیں دیکھا،کسی کے ذہن میں اس وقت مذہب نہیں تھا،پھر انھیں مذہبی شناخت کے ساتھ دیکھنا کہاں تک صحیح ہے؟

یہ آپ کو کس نے کہا کہ ان کو مذہب کا احساس نہیں تھا۔ان کو مذہب کا ہم سے ،آپ سے، سب سے زیادہ احساس تھا،وہ پورے طور پر مسلمان تھیں۔ بات یہ ہے کہ شناخت کیا ہے؟ شناخت یہ ہے کہ وہ نمازی تھیں، روزے دار تھیں ، اسلام کے ہر ارکان پر عمل کرتی تھیں۔ یہ کہنا کہ ان کی شناخت مسلمان نہیں تھی تو صرف یہ ہے کہ وہ برقعہ نہیں اوڑھتی تھیں ،میری ماں بھی برقعہ نہیں اوڑھتی تھیں ،وہ پانچ وقتہ نمازی تھیں۔ مطلب انھوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم مسلمان ہیں تو مسلمان عورتوں میں کام کریں گے۔

وہ کرتی تھیں ،ہر ایک کے لیے کرتی تھیں،کیوں کہ مسلمان عورتیں عام طور پر جب وہ کرتی ہیں تو یہ نہیں کہتیں کہ ہم مسلمان ہیں تو مسلمانوں  کے لیےکام  کریں گے، اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ بلا تفریق مذہب ،مثلاًاگر پاکستان سے لٹے ہندو یہاں آئے اور شرنارتھی کیمپ میں وہ دم توڑ رہے تھے تو بیگم انیس قدوائی ان کے لیے کام کر رہی تھیں۔ وہ یہ نہیں سوچ  رہی تھیں کہ یہ کون ہیں،بس  ایک ضرورت مندہے، تکلیف میں ہیں،ان کے ساتھ  ہندو بھی تھے ،مسلمان بھی۔تو مطلب صرف اتنا تھا ، اس کو جو آپ نے انٹرپریٹ کیا وہ بالکل غلط ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور فیمنزم کا سیشن بھی صحیح تھا ،حالاں کہ یہاں یہ بات بھی کہی گئی کہ عورتوں کے مسائل کو کسی مذہب کے ساتھ جوڑکر نہیں دیکھنا چاہیے؟

اسلام اور فیمنزم کا تو مطلب یہی ہے کہ اسلام سے زیادہ فیمنسٹ کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔اس لیے اس کا سبجیکٹ تھا اسلام اینڈ فیمنزم ۔آپ  اچھا کر رہی ہیں کہ سوال اٹھا رہی ہیں۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اسلام سے زیادہ اینٹی فیمی نسٹ اور اینٹی جینڈر کوئی مذہب نہیں مانا جاتا،عام لوگوں کے ذہن میں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ عورت کے حقوق کسی مذہب نے نہیں دئے ہیں،تو بالکل الٹی بات ہے ،اسلام میں عورت کا جھنڈا اٹھایا  حضرت فاطمہ ،حضرت زینب،حضرت کلثوم ، حضرت خدیجہ ،یہ ہیں ہماری رہبران قوم ۔ اینٹی وومین جو پروپیگنڈہ ہے ،اس کو ہم پورے طور پر  جواب دے رہے ہیں۔

اس میں کوئی عورت ایسی نہیں تھی کہ جو اسلام  کے خلاف تھی،کچھ عورتیں ایسی ہیں جن  کو بذات خود جانتی ہوں۔ یہ ہے کہ برقعہ اتار دیا تھا انھوں نے اور برقعہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ اسلام میں یہی ہے کہ Modestyہونی چاہیے۔ تو میں اس لیے یہ کہتی ہوں کہ شناخت، ان کی شناخت کیا ہے ؟ آپ کی شناخت کیا ہے؟ کیا برقعہ اوڑھتی ہیں آپ، حجاب کرتی ہیں یا آپ کی شناخت یہ ہے کہ آپ اسلام کے ہرارکان پر عمل کرتی ہیں۔ آپ روزہ رکھتی ہیں ،آپ نماز پڑھتی ہیں، آپ زکوۃ دیتی ہیں ،ہو سکتا ہے تو آپ عمرہ کے لیے یا حج کے لیے جاتی ہیں۔ آپ غریبوں کی امداد کرتی ہیں ،یہ ہے اسلام۔

Muslim Women

  • ان عورتوں کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا ہے؟ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کم و بیش ہر عورت ایک خاص بیک گراؤنڈ سے آتی ہے۔ مثال کے طور پر رضیہ سجاد ظہیر، صفیہ جاں نثار اختر، صالحہ عابد حسین کو ہی لے لیجیے۔صالحہ عابد حسین تو مولانا حالی کی پر نواسی ہیں،ان کے والد اپنے زمانے کا ایک نمائندہ رسالہ عصر جدید نکالتے تھے۔ایک خاص طرح کا اسٹیبلش  بیک گراؤنڈ ہےتو کیا ہم ان کو پاتھ بریکرکہہ سکتے ہیں جبکہ ایک عام مسلمان عورت کو آج بھی تعلیم حاصل کرنے جیسے بنیادی حقوق کے لیے بھی جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔

 ان کا انتخاب ؛ یہ ہم نے تسلیم کیا ہے یہ خاص کلا س کی خواتین تھیں مگر یہ تو ہم ایکPhaseمیں کریں گے نہ۔ ہمارے پاس گیلری میں صرف اتنی جگہ تھی کہ ہم 21 عورتوں کو فیچر کر سکیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ It is a phase, we are doing this only part one of the exhibition.تو اور اس میں بہت سی عورتیں، اگر آپ نے جمال قدوائی کو سنا ہے،  انھوں نے کہا تھا کہ وہ جو کام کر رہے ہیں ،وہ اپنے گاؤں میں ، اس میں ایسی خواتین ہیں جو آج Path breakers ہیں ۔ تو یہ تو ایک Phaseہیں ۔آپ نوجوان ہیں ، آپ اس مشن کو لے کر آگے بڑھیےاور وہ آگے بڑھیں ۔ ہم نے تو ایک دروازہ کھول دیا ہے ۔اب اس کے آگے ایک بہت بڑی  شاہ راہ ہے۔

  • اس فہرست میں ایک بڑا نام عصمت چغتائی کا شامل نہیں ہے جبکہ صالحہ عابد حسین کو شامل کیا گیا ہے جنھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس طرح کی بات کہی تھی کہ ؛ میں پردے کی سختی کی بالکل قائل نہیں ہوں۔ ‘پھر کہتی ہیں کہ ‘پردہ ایسا ہو کہ عورت ہر کام کر سکے۔بس اپنے مذہب اسلام سے بے بہرہ نہ ہو ۔ننگے پن سے دور رہے۔میں ایک حد تک عورت کی آزادی کی قائل ہوں۔ وہ حد جو مذہب اور اخلاق سے دوری ہو جائےوہ حد میرے یہاں نہیں ہے۔ عورت اپنے حدود کے ساتھ ہر محکمے میں ملازمت کر سکتی ہے۔ ‘ یہاں صالحہ عابد حسین تو عورت کی حدود بھی طے کر رہی ہیں تو کیا انھیں پاتھ بریکر کہا جا سکتا ہے؟

بالکل کہا جا سکتا ہے ، جس نے یہ کہا  ، جس نے اس وقت کہا، جس طرح سے انھوں نے پردے کی بات کی ؛ یہ آپ نے، انھوں نے 50 کتابیں لکھیں۔ آپ ان کی ایک رائٹنگ کوٹ کر رہی ہیں ، انھوں نے 50 کتابیں لکھیں جس میں انھوں نے عورتوں کی Individualityعورتوں کی Sexuality،عورتوں کا مردوں پر Dependنہ ہونا، اس کی پہل کی۔انھوں نے تین طلاق کی جو ایک طلاق بدعت ہے ، اس کی سختی سے انھوں نے مخالفت کی ۔ یہ سب پاتھ بریکر ہی تو ہیں اور کیا ہیں ۔ جنھوں نے اپنی فکر کو شناخت کا ذریعہ بنایاوہ پاتھ بریکر ہی تو ہیں اور کیا ہیں۔ جہاں تک عصمت چغتائی کا سوال ہے تو عصمت چغتائی پر تو اتنا لکھا جا چکا ہے کہ ہم نے ان کو، یقیناً وہ بہت بڑی ان کی ہستی ہے مگر عصمت چغتائی کو امریکا تک لوگ جانتے ہیں ۔

  • لیکن جاننے کی حدتک تو لوگ رضیہ سجاد ظہیر کو بھی جانتے ہیں ،صالحہ عابد حسین کو بھی جانتے ہیں ،درمیان میں ہی…

بالکل نہیں جانتے۔ صالحہ عابد حسین کو، میرے خیال میں تمل ناڈو میں جائیں گے تو کوئی  نہیں جانتا ۔ مگر تمل ناڈو میں سب ان کو جانیں گے، عصمت چغتائی کو ۔ ہاں سب جانیں گے ۔ خیر وہ تو میرے والد کی چھوٹی بہن تھیں۔ اس لیے میں ان کو ؛ میں نے اپنی ماں کو نہیں رکھا کیونکہ میری ماں پاتھ بریکر نہیں تھیں۔  مگر یہ عورتیں پاتھ بریکر تھیں۔تو اس لیے آپ کہہ سکتی ہیں کہ ان کو کیوں رکھا ، ان کو کیوں نہیں رکھاBut you have to operate within limit.اب یہ Exhibitionنے ایک دروازہ کھول دیا ہے ،اس کو آگے لے کر جائیں گی۔اور کوئی سوال؟

  • ان عورتوں کے انتخاب میں توازن برقرار رکھنے کے لیے کاسٹ کی کوئی کیٹگری بنائی گئی ہے یا پھر یہ سامنے کے سارے اشرافیہ مسلمان ہی ہیں؟

جی  پہلے دور میں انہیں ہی رکھا گیا کیونکہ ہم اور لوگوں  تک پہنچ نہیں سکے ۔ انھیں کوہم نے بڑی مشکل سے نکالا۔ کون جانتا تھا کہ صدیقہ قدوائی کون ہیں؟ کون جانتا تھا کہ شریفہ حامد علی کون ہیں؟ ان کو ہم نے نکالا، اب اور کو نکا لیں گے۔ صرف اشرافیہ  پر اپنے آپ کو مبنی نہیں کریں گے ۔ مطلب ہم کریں گے یا کوئی اور کرے گا بٹ آئی تھنک آپ کی بات بالکل جائز ہے ۔ اس سے کوئی اختلاف مجھے نہیں ہے مگر صرف میں اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ یہ ہم نے ایک شروعات کی ہے ،اس سے آگے جاکر آپ ،میں سمجھتی ہوں اگر اس کو لے کر آگے چلیں تو ایسی ایسی مسلمان ، جو مسلمان عورتوں کا ایک امیج بنا ہوا ہے کہ وہ صرف برقعہ اوڑھے ہوئے لائن میں کھڑی ہوتی ہیں ،اپنی انگلی پر ووٹنگ کا انک لگائے ہوئے ،جو ہم دیکھتے ہیں یا جلوس نکال کر کہتی ہیں ہزاروں کی تعداد میں رام لیلا میدان میں نکلتی ہیں ،کہتے ہوئے کہ ہم تو Triple Talaqچاہتے ہیں ،مسلمان عورت کی صرف و ہی شناخت نہیں ہے۔