فکر و نظر

میں بی جے پی کیوں چھوڑ رہا ہوں؟

بی جے پی کے نیشنل  جنرل سکریٹری رام مادھو کی ٹیم کا حصہ رہے شوم شنکر سنگھ کہتے ہیں، ‘ میں 2013 سے بی جے پی کا حمایتی  تھا کیونکہ نریندر مودی ملک کے لئے امید کی کرن کی طرح لگتے تھے اور مجھے ان کی وکاس  کے نعرے پر اعتماد تھا۔ اب وہ نعرہ اور امید دونوں جا چکے ہیں۔ ‘

فوٹو: فیس بک

فوٹو: فیس بک

میری زندگی کے حساب سے کہوں تو ملک میں اس وقت سیاسی بحث و مباحثہ  اپنی سب سے نچلی سطح پر ہے۔ ایسی تفریق  ہے کہ آپ یقین نہیں کر پائیں‌گے۔ لوگ اپنی پارٹی کو حمایت دیتے رہیں‌گے بھلےہی ان کو کتنے ہی ثبوت دے دیجئے۔ جب یہ تصدیق بھی ہو جائے کہ وہ فیک نیوز پھیلا رہے ہیں، تب بھی کسی طرح کا افسوس دیکھنے کو نہیں ملتا۔یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کے لئے تمام سیاسی پارٹی ، ووٹرس، حمایتی یکساں طورپر ذمہ دار ہیں۔

بی جے پی  نے بےحد موثر پروپیگنڈہ  کے ساتھ کچھ خاص طرح کے پیغام پھیلانے کا کام بخوبی کیا ہے اور یہی وہ وجہ ہےکہ  میں پارٹی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم اس بارے میں بات شروع کریں اس سے پہلے میں سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی پارٹی صرف بری یا صرف اچھی نہیں ہوتی۔ ہر حکومت کچھ نہ کچھ اچھا کرتی ہے، تو کہیں غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ حکومت بھی اس سے الگ نہیں ہے۔

اچھائیاں

سڑک کی تعمیر پہلے کی بہ نسبت تیزی سے ہوئی ہے۔ حالانکہ سڑکوں کی لمبائی ناپنے کے طریقے میں تھوڑی تبدیلی ہوئی ہے، لیکن باوجود اس کے سڑک تعمیر میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

بجلی کے کنکشن بڑھے ہیں۔سبھی گاؤں تک بجلی پہنچی ہے اور لوگوں کو اب زیادہ وقت کے لئے بجلی مل رہی ہے۔ (کانگریس نے بھی 5 لاکھ سے زیادہ گاؤں تک بجلی پہنچائی تھی اور مودی نے تقریباً 18 ہزار گاؤں تک بجلی پہنچائی ہے۔ اس کو آپ جس طرح دیکھنا چاہیں، دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی آزادی کے بعد سے لوگوں کو جتنے گھنٹے بجلی ملتی تھی، اس میں اضافہ تو ہوا ہے، لیکن ہم دیکھیں تو بی جے پی کے دورحکومت کے دوران زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔)

کرپشن کم ہوا ہے۔وزارت کی سطح پر بد عنوانی کا کوئی بڑا معاملہ سامنے نہیں آیا ہے (ایسا یو پی اے-1 کے وقت میں بھی ہوا تھا)لیکن نچلی سطح پر حالت ویسی ہی ہے اور معاملے بڑھے ہی ہیں۔ تھانے دار، پٹواری وغیرہ پر کسی کا قابو ہی نہیں ہے۔

سوچھ بھارت مہم یقینی طور پر کامیاب ہوئی ہے۔پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹوائلٹ  بنے ہیں ، لوگوں کے من  میں صفائی کو لےکر بیداری آئی ہے۔

اجولااسکیم ایک اچھی کوشش ہے، حالانکہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کتنے لوگوں نے دوسرا سلینڈر خریدا۔ پہلا سلینڈر اور چولہا مفت دیا گیا تھا، لیکن اب اس کا دام دینا ہوگا۔ سلینڈر کی قیمت حکومت بدلنے کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے، اب ایک سلینڈر 800 روپے سے زیادہ کا مل رہا ہے۔

شمال مشرق سے کنیکٹوٹی بڑھی ہے۔ ریل، سڑک، فضائی تمام ذرائع میں اضافہ ہوا ہے۔ اور سب سے اہم ہے کہ اب میں اسٹریم کے نیوز چینلوں پر اس شعبہ  کی بات ہوتی ہے۔

قانون اور انتظامیہ کی حالت علاقائی پارٹیوں کی وجہ سے بہتر ہوئی ہے۔

اس فہرست میں آپ،جس کو اس حکومت کی کامیابی مانتے ہیں،اس کو نیچے کمنٹ میں لکھ کر جوڑ سکتے ہیں۔ ویسے کامیابیاں ہمیشہ متضاد ہوتی ہیں اور ناکامیابیاں اصل ہوتی ہیں۔

برائیاں

کسی ملک اور نظام کو بننے میں دہائی لگتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی کی سب سے بڑی ناکامی یہی رہی کہ اس نے کئی بہت اچھی باتوں کو بےحد  کمزور بنیاد پر ختم کر دیا۔

انتخابی بانڈ:یہ بنیادی طور پر بد عنوانی کو جائز بناتا ہے اور کارپوریٹ اور غیر ملکی طاقتوں کو ہماری سیاسی جماعتوں کو خریدنے کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ یہ بانڈ انام ہیں،یعنی مان لیجئے کوئی کارپوریٹ یا میں ہی کہوں کہ فلاں پالیسی لائیے، میں 1000 کروڑ روپے کا انتخابی بانڈ دوں‌گا، تو اس کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔ یہاں کسی بےنام ذرائع پر سوال اٹھانے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی صاف ہوتا ہے کہ وزارت کی سطح پر بد عنوانی کیوں گھٹی ہے۔اب یہاں کسی فائل یا حکم کے بارے میں سودا نہیں ہوتا، یہ امریکہ کی طرح ہے۔سیدھے پالیسی بنانے کی سطح پر بات ہو رہی ہے۔

پلاننگ کمیشن رپورٹ:یہ ڈیٹا کا سب سے بڑا ذریعہ  ہوا کرتی تھی۔ وہ سرکاری اسکیموں کو آڈٹ کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ کہاں کیا چل رہا ہے۔ اس کے جانے سے آپ کے پاس کوئی آپشن  نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ حکومت جو بھی ڈیٹا آپ کو دے، آپ اس پر اعتماد کریں۔ (کیگ آڈٹ کافی دیر بعد آتے ہیں۔ )پلاننگ کمیشن  میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک تھنک ٹینک اور پی آر ایجنسی  کی طرح کام کرتا ہے۔ اسکیم بنانے یا نہ بنانے کا اصول بنا پلاننگ کمیشن کو برخاست کئے ہوئے بھی بنایا جا سکتا تھا۔

سی بی آئی اور ای ڈی کا غلط استعمال :جہاں تک میں نے دیکھا ہے ان اداروں کا استعمال سیاسی مقاصد سے کیا جاتا رہا ہے، لیکن اگر ایسا نہیں بھی ہے، تب بھی یہ ڈر کہ اگر مودی / شاہ کے خلاف کچھ بولنا سی بی آئی اور ای ڈی کو اپنے پیچھے بلانے کی دعوت دینے جیسا ہے، سچ ہے۔ یہ کسی بھی احتجاج کو کچلنے کے لئے کافی ہے۔احتجاج، جو جمہوریت کا اٹوٹ حصہ ہے۔

اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ کالکھو پل کے سوسائڈ نوٹ، جج لویا کی موت، سہراب الدین کے قتل کی جانچ نہ ہونا، ایک ایم ایل اے، جس پر ریپ کا الزام ہے، جس کے رشتہ دار پر متاثرہ لڑکی کے والد کے قتل کا الزام ہے،اس کا بچاؤ کرنا۔ اس معاملے میں ایک سال تک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔

نوٹ بندی:یہ ناکامیاب  رہی، لیکن اس سے بھی برا بی جے پی کا یہ منظور نہ کرنا رہا کہ یہ قدم ناکام ہوا ہے۔اس کی وجہ سے  ٹیرر فنڈنگ گھٹنے، نقد کا کم استعمال ہونے، بد عنوانی ختم ہونے جیسی تشہیر بےتکی تھی۔ اس سے کتنے ہی کاروبار ختم ہو گئے۔

جی ایس ٹی کا عمل:یہ بہت جلد ی میں  نافذ کیا گیا اور اس سے کاروبار کو نقصان ہوا۔ اس کی  شکل، مختلف چیزوں پر الگ الگ شرحیں، فائلنگ کا مشکل عمل …امید ہے کہ وقت کے ساتھ یہ ٹھیک ہو جائیں‌گے لیکن اس سے نقصان تو ہوا ہے۔ بی جے پی کا اس ناکامی کو نہ ماننا صرف ان کے گھمنڈ کو  دکھاتا ہے۔

گڑبڑ غیرملکی پالیسی لیکن دکھاوا پورا:چین کا سری لنکا میں بندرگاہ ہے، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی اس کی دلچسپی ہے۔ہندوستان اس سے گھرا ہوا ہے، مالدیپ کی ناکامی (ہندوستان کی ناکام غیرملکی پالیسی کی وجہ سے وہاں اب ہندوستانی مزدوروں کو ویزا نہیں مل رہا ہے)اور ان سب کے درمیان مودی جی غیر ملکی دوروں پر ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ 2014 سے پہلے دنیا میں ہندوستانیوں کی کوئی عزت نہیں تھی اور اب ان کی بےحد عزت ہو رہی ہے۔ (یہ بکواس ہے۔ ہندوستانیوں کو غیر ممالک میں مل رہی عزت بڑھتی معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کا نتیجہ ہے۔ یہ مودی کی وجہ سے تو بالکل بھی نہیں بڑھی ہے۔ حالانکہ بیف کی وجہ سے  ہوئی لنچنگ، صحافیوں کو مل رہی دھمکیوں وغیرہ کی وجہ سے  کم ضرور ہوئی ہو سکتی ہے۔)

ناکام ہوئی اسکیمیں/ناکامیابی نہ قبول کرنا /اصلاح نہ کرنا:ایم پی آدرش گرام یوجنا، میک ان انڈیا، کوشل وکاس،فصل بیمہ(بھرپائی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت نے صرف بیمہ کمپنیوں کی جیبیں بھری ہیں)۔ بےروزگاری اور زراعتی بحران سے نہ نمٹ پانا۔ہر اصل مسئلہ کو اپوزیشن  کا اسٹنٹ بتانا۔

پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ : کانگریس کے وقت میں مودی اور بی جے پی کے تمام وزیر ایک سر میں پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں کے لئے حکومت کی تنقید کرتے نظر آتے تھے، لیکن اب جب وہ خود اقتدار میں ہیں تب وہ ان بڑھتی قیمتوں کو جائز ٹھہرا رہے ہیں، وہ بھی تب جب کروڈ آئل کی قیمت کانگریس حکومت کے مقابلے میں کم ہے۔ یہ بالکل قابل قبول نہیں ہے۔

اہم بنیادی مدعوں کو نظر انداز کرنا :تعلیم اور صحت،تعلیم کے شعبے میں کچھ بھی نہیں ہوا ہے، جو اس ملک کی ناکامی ہے۔اے ایس ای آر کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سرکاری اسکولوں کا معیار گر رہا ہے اور اس بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔صحت کے شعبے میں بھی گزشتہ 4 سالوں میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے، اس وقت آیوشمان بھارت  کا اعلان ہوا تھا۔ایسی اسکیم جو مجھے ‘ کچھ نہیں ہوا کے ڈر ‘سے زیادہ ڈراونی لگتی ہے۔ بیمہ اسکیموں کا برا حال ہے اور ہم بالکل امریکہ کی راہ پر ہیں، جو ہیلتھ کیئر کے لئے بدنام ہے۔ (مائکل مور کی سکو دیکھیں)

آپ اپنی سمجھ‌کی بنیاد پر اس میں کچھ ترمیم و اضافہ کر  سکتے ہیں، لیکن میری سمجھ یہ کہتی ہے۔ انتخابی بانڈ کا مدعا بےحد سنگین ہے اور مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ اس کو خارج کر دے‌گا۔ حالانکہ ہر حکومت کی کچھ ناکامیاں ہوتی ہیں، کچھ غلط فیصلے ہوتے ہیں، لیکن میرے لئے کسی بھی بات سے بڑا مدعا اخلاقیات کا ہے۔

خوفناک چہرہ

اس حکومت کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ اس نے قومی سطح پر ہونے والی بحثوں اور بات چیت  کو ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت برباد کیا ہے۔ یہ ناکامی نہیں ہے۔ یہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔

اس نے میڈیا کے وقار کو ٹھیس پہنچایا ہے، اس لئے صحافیوں کے ذریعے کی جا رہی کسی بھی تنقید کو یہ کہہ‌کر خارج کر دیا جاتا ہے کہ اس کو بی جے پی سے پیسہ نہیں ملا یا وہ کانگریس کی نوکری پر ہے۔ میں کئی ایسے صحافیوں کو جانتا ہوں، جن کے بارے میں یہ الزام بالکل غلط ہیں، لیکن یہاں کسی الزام یا شکایت پر غور نہیں کیا جاتا۔جس شخص نے مدعا اٹھایا اس کو نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور مدعا کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔

اس بات کو عوام کے من میں بٹھا دیا گیا کہ 70 سال میں کچھ نہیں ہوا۔ یہ واضح طور پر جھوٹ ہے اور اس سے تیار ہوئی ذہنیت ملک کے لئے ہی نقصاندہ ہوگی۔اس حکومت نے ٹیکس دینے والوں  کے 4000 کروڑ روپے   اشتہار پر خرچ کیا ہے اور اب یہ ٹرینڈ بن جائے‌گا۔ کام کم، تشہیر زیادہ۔ مودی پہلے شخص نہیں ہیں، جس نے سڑکیں بنوائی ہیں۔کچھ سب سے اچھی سڑکیں جن پر میں نے سفر کیا ہے، وہ مایاوتی یا اکھلیش یادو نے بنوائی تھیں۔ ہندوستان میں آئی ٹی شعبہ 1990 کی دہائی سے ہی ترقی یافتہ ہونے لگا تھا۔آج کے حالات کی بنیاد پر ماضی میں کئے گئے کاموں کو ناپنا اور پرانے رہنماؤں کو کمتر ثابت کرنا آسان ہے۔

مثلاً، کوئی پوچھے‌گا، ‘ کیوں کانگریس 70 سالوں میں ٹوائلٹ  نہیں بنا پائی؟ اتنا بھی نہیں کر سکے وہ۔ ‘یہ بات منطقی لگتی ہے اور میں بھی تب تک اس پر یقین کرتا تھا، جب تک میں نے ہندوستان کی تاریخ پڑھنا شروع نہیں کیا تھا۔ 1947 میں جب آزادی ملی، تب ہم بےحد غریب ملک تھے۔ ہمارے پاس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے نہ وسائل تھے، نہ پیسہ۔ اسی مسئلہ سے نمٹنے کے لئے نہرو نے اشتراکیت کا راستہ چنا اور پبلک سیکٹر  انڈر ٹیکنگس(پی ایس یو) شروع کئے۔ ہمارے پاس اسٹیل بنانے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، اس لئے روس کی مدد سے رانچی میں ہیوی انجینئرنگ کارپوریشن قائم کیا گیا، جس سے ہندوستان میں اسٹیل بنانے کی مشینیں بننا شروع ہوئیں۔

 یعنی بنا اس کے ہمارے پاس اسٹیل نہیں ہوتا، یعنی کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں۔ یعنی ایجنڈہ یہ تھا کہ بنیادی صنعت اور انفراسٹرکچر تیار کیا جائے۔ اس وقت لگاتار قحط پڑتے تھے، سال دو سال میں ایسا ہوتا کہ بڑی تعداد میں لوگ بھوکوں مر جاتے۔اس وقت ترجیح لوگوں کے لئے کھانا مہیا کرانا تھا، ٹوائلٹ  کسی لگزری  کی طرح تھا،جس کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔اس کے بعد گرین ریولیوشن(Green Revolution)  ہوا اور 1990 کی دہائی تک اناج کی کمی تقریباً ختم ہی ہو گئی۔اب تو حالت یہ ہے کہ اس کی بہتات سے مسئلہ کھڑا ہے۔ تو ٹوائلٹ  والی بات اس طرح ہے کہ آج سے 25 سال بعد آپ کہیں گے کہ مودی ملک کے سب گھروں میں ایئرکنڈیشنر کیوں نہیں لگوا سکتے تھے۔ آج کی تاریخ میں یہ لگزری  لگتا ہے، ٹھیک ایسے ہی اس وقت ٹائلٹ  لگزری  تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا قریب12-10 سال پہلے ہو جانا چاہیے تھا، لیکن یہ کہنا کہ 70 سال میں کچھ نہیں ہوا، سراسر جھوٹ ہے۔

فیک نیوز کی تشہیر اور اس پر بھروسہ:یہاں بی جے پی مخالف فیک نیوز بھی شامل ہے، لیکن بی جے پی کی حمایت اور حزب مخالف کی مخالفت میں چل رہی فرضی خبریں ا س کے تناسب میں کہیں زیادہ ہے اور اس کی پہنچ بھی زیادہ ہے۔ اس میں سے کچھ حامیوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں، لیکن اس کا زیادہ تر حصہ پارٹی کے اندر سے ہی آ رہا ہے۔یہ کبھی کبھی حاسد ہوتی ہیں، تو کبھی پولرائزیشن کرنے والی، جو اس کو اور خراب بنا دیتا ہے۔ ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ حکومت کے ذریعے حمایت یافتہ   آن لائن نیوز پورٹل سماج کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ہندو خطرے میں ہے:انہوں نے لوگوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ ہندوؤں اور ہندو مذہب کو خطرہ ہے اور خود کو بچانے کے لئے صرف مودی ہی واحد آپشن ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اس حکومت کے آ جانے سے ہندوؤں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، سوائے اس کے کہ لوگوں کی ذہنیت بدل گئی ہے۔ کیا ہم ہندو 2007 میں خطرے میں تھے؟ کم سے کم میں تو تب روز اس بارے میں نہیں سنتا تھا اور تب سے اب تک ہندوؤں کی حالت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے، بس ڈر پھیلا نا  اور نفرت بڑھ گئی ہے۔

حکومت کے خلاف بولا تو اور آپ غدار وطن ہیں اور حال ہی میں شروع ہوئے نئے پروپیگنڈہ کے حساب سے اینٹی ہندو یعنی ہندو مخالف بھی۔ اس طرح کے نام اور لیبل دینے سے حکومت کی جائز تنقید بھی بند ہو جاتی ہے۔ اپنی حب الوطنی ثابت کرنی ہے، ہرجگہ وندےماترم گائیے(بھلےہی بی جے پی کے رہنما خود اس کے بول نہ جانتے ہوں، لیکن وہ آپ کو یہ گانے کے لئے مجبور کریں‌گے)۔ مجھے اپنے راشٹر وادی  ہونے پر فخر ہے اور میرا راشٹر واد  مجھے کسی کے کہنے پر اپنے کو وطن پرست ثابت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جب بھی موقع ہوگا، یا میرا من  ہوگا میں فخر سے اپنا قومی ترانہ اور قومی گیت گاؤں‌گا لیکن میں کسی کی خواہش کے مطابق اس کو نہیں گاؤں‌گا۔

بی جے پی رہنماؤں کے ذریعے چلائے جا رہے اخبار چینلوں کا واحد کام ہندومسلم، نیشنل اینٹی نیشنل، ہندوستان پاکستان پر بحث کرتے ہوئے ضروری مدعوں پر منطقی بحثوں کو درکنار کر پولرائزیشن کرنا ہے۔آپ سبھی  انھیں جانتے ہیں کہ یہ کون ہیں اور کس بحث باز کو زہریلا پروپیگنڈہ  پھیلانے کے لئے انعام مل رہا ہے۔

پولرائزیشن:وکاس غائب ہو چکا ہے۔ اگلے انتخاب کے لئے بی جے پی کی حکمت عملی پولرائزیشن اور نام نہاد راشٹر واد  کو بڑھاوا دینا ہے۔مودی جی خود اپنی تقریروں میں یہ کہہ چکے ہیں ۔جناح، نہرو، بھگت سنگھ سے جیل میں نہیں ملے تھے کانگریس رہنما (یہ فرضی خبر تھی، جو وزیر اعظم خود پھیلا رہے تھے)، مودی کو گجرات میں ہرانے کے لئے کانگریس رہنما پاکستانی رہنماؤں سے ملے تھے، یوگی جی کی تقریر جہاں انہوں نے مہارانا پرتاپ کو اکبر سے زیادہ عظیم بتایا، جے این یو کے طالب علم اینٹی نیشنل ہیں جو ہندوستان کو ؛ٹکڑےٹکڑےچورچور کر دیں‌گے۔یہ سارا پروپیگنڈہ ایک خاص مقصدسے بنایا جا رہا ہے، بانٹو اور انتخاب جیتو۔ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جو میں اپنے رہنما سے سننا چاہتا ہوں اور میں ایسے کسی رہنما کی حمایت نہیں کرتا جو سیاسی فائدے کے لئے ملک کو فسادات کی آگ میں جلنے دے۔

یہ محض کچھ مثال ہیں کہ کیسے بی جے پی قومی بحث  کو کنارے کر رہی ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جس کے لئے میں یہاں آیا تھا، وہ تو بالکل نہیں، جس کی میں حمایت کرتا ہوں۔ اس لئے میں بی جے پی سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔

ضمیمہ : میں 2013 سے بی جے پی کو سپورٹ  کرتا تھا کیونکہ نریندر مودی ملک کے لئے امید کی کرن کی طرح لگتے تھے اور مجھے ان کے وکاس  کے نعرے پر یقین  تھا۔ اب وہ نعرہ اور امید دونوں جا چکے ہیں۔ نریندر مودی اور امت شاہ کی منفی سوچ  اب میری مثبت سوچ سے زیادہ ہو گئی ہے، لیکن یہ فیصلہ ہر ووٹر کو خود کرنا چاہیے ۔ یہ جان لیجئے کہ تاریخ اور سچائی پیچیدہ ہے۔معمولی سے پروپیگنڈہ  پر یقین کر لینا اور بنا کوئی سوال کئے بھروسا کرتے جانا بےحد غلط ہے۔یہ اس ملک اور جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔

انتخاب آ رہے ہیں اور آپ سبھی کو فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے لئے مبارکباد۔ میں صرف یہی امید کرتا ہوں کہ ہم سبھی ساتھ میں خوشگوار طریقے سے رہیں‌گے اور کام کریں‌گے۔اور اس ملک کو بہتر، طاقت ور، غریبی سے  آزاد اور ترقی یافتہ ہندوستان بنانے میں اپنا سپورٹ  دیں‌گے۔ ہمیشہ یاد رکھیے، دونوں ہی طرف اچھے لوگ ہیں، ایک ووٹر کو ان کا ساتھ دینا ہوتا ہے اور ان کو ایک دوسرے کا، بھلےہی وہ الگ الگ سیاسی پارٹیوں کا حصہ ہی کیوں نہ ہوں۔

(شوم شنکر سنگھ نے کئی نارتھ ایسٹ  ریاستوں میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں کام کیا ہے۔ وہ بی جے پی کے سینئر رہنما رام مادھو کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ )