بابا رام دیو نے نہ صرف مندر کی اس زمین کو غیر قانونی طریقے سے لیز پر لیا ہے، بلکہ راجستھان کی وسندھرا راجے حکومت اصولوں کی خلاف ورزی کر اس کے ریگولیشن کی تیاری میں ہے۔
یوگ گرو سے کاروباری بنے بابا رام دیو کے راجستھان میں مجوزہ ‘ ڈریم پروجیکٹ ‘ اصولوں کا قبرستان ثابت ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاست کی وسندھرا راجے حکومت اصولوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے کے بجائےریگولیشن کے راستے تلاش کررہی ہے۔ کئی محکمہ جات کے بڑے افسر اس کے لئے اپنا دماغ کھپا رہے ہیں۔ مشرقی راجستھان کےکرولی ضلع میں 401 بیگھہ زمین پر بننے والے اس پروجیکٹ میں یوگ پیٹھ، گروکل، آیورویدیک ہسپتال، آیورویدیک دوائیوں کا پروڈکشن مرکز اور گئوشالہ کی تعمیر ہونا ہے۔
اس کا سنگ بنیاد 22 اپریل کو وزیراعلیٰ وسندھرا راجے اور سوامی رام دیو کے ہاتھوں پڑ چکا ہے، لیکن ابھی تک کام شروع نہیں ہو پایا ہے۔ وجہ ہے زمین کی زراعت سے کامرشیل زمرہ میں ریگولیشن نہیں ہونا۔ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ دفتر میں تعینات ایک سینئر آئی اے ایس افسر اس معاملے میں کئی دنوں سے چکرگھنّی ہو رہے ہیں۔ وہ دیواستھان اور قانون محکمے کے اعلیٰ افسروں سے کئی دور کی گفتگو کر چکے ہیں، لیکن زمین کی ضابطگی کا کوئی راستہ نہیں نکل رہا۔
شہری ترقی وزیر شری چند کرپلانی، دیو استھان وزیر راج کمار رنوا اور چیف سکریٹری ڈی بی گپتا کی بیٹھک کے بعد آخرکار معاملے کو وزیراعلیٰ کے سپرد کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔’ دی وائر ‘نے جب اس پورے معاملے کی جانچ کی تو سامنے آیا کہ اس پروجیکٹ کی بنیاد ہی اصولوں کو دفنا کر رکھی گئی ہے۔رام دیو کے بھارت سوابھیمان ٹرسٹ نے یہ زمین 11 اگست، 2016 میں شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ سے لیز پر لی ہے، جو قانون کی نظر سے غیر قانونی ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 50 الگ الگ خسرہ نمبر میں بنٹی یہ زمین شری گووند دیو جی مندر کے نام ہے۔
مندر کے نام زمین کا مطلب یہ ہے کہ زمین مندر میں لگی مورتی کی ہے۔ اصولوں کے مطابق اس زمین کو مندر کا ٹرسٹ نہ تو بیچ سکتا ہے اور نہ ہی غیر زراعتی کام کے لئے لیز پر دے سکتا ہے۔راجستھان ہائی کورٹ کے وکیل وبھوتی بھوشن شرما اسی بنیاد پر لیز ڈیڈ کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،مندر کی مورتی کے نام درج زمین پر صرف بھگوان کا حق ہوتا ہے۔مندر کے پجاری یا مندر سے جڑے ٹرسٹ کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا۔وہ اس زمین کو نہ تو کسی کو بیچ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو لیز پر دے سکتے ہیں۔
ریونیو معاملوں کے وکیل ہمانشو سوگانی بھی یہی دوہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،قانون مندر کی مورتی کو نابالغ مانتا ہے اور راجستھان کاشت کارایکٹ-1955 کی دفعہ 46 کے اہتمام اس پر نافذ ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق نابالغ کی کھاتےداری زمین پر کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا۔ اسی قانون کی دفعہ 45 بھی صاف طور پر اس کی وضاحت کرتی ہے۔ مقامی ریونیو کورٹ سے لےکر سپریم کورٹ تک سب اس پر مہر لگا چکے ہیں۔ ایسے میں شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کی طرف سے سوامی رام دیو سے جڑے اداروں کو زمین غیر زراعتی کام کے لئے لیز پر دینا جائز نہیں ہے۔ ‘
اصل میں ریاستوں کے وقت راجستھان کے زیادہ تر مندروں کو خدمات و عبادت کے لئے زراعتی زمین دی گئی۔ عام بول چال کی زبان میں اس کو ‘مندر معافی ‘ کی زمین کہا جانے لگا جو ابھی تک رائج ہے۔اس وقت کے ریونیو ریکارڈ میں اس کی کھاتےداری میں مندر مورتی کے علاوہ پجاری کا نام بھی ہوتا تھا۔ ان میں سے کئی پجاریوں نے زمین کو اپنے نام منتقل کر اس کو خرد-برد کر دیا، لیکن 1991 کے بعد اس پر بھی پابندی لگ گئی۔
ریونیو محکمے کے ایک سینئر افسر بتاتے ہیں، کئی پجاریوں نے زمین پر قبضے کو بنیاد بناکر راجستھان کاشتکاری ایکٹ-1955 کی دفعہ 19 میں گلی نکال اس کو اپنے نام کروا لیا۔ جب ایسا زیادہ ہونے لگا تو ریونیو محکمے نے 1991 میں ایک سرکلر نکال کر صاف کیا کہ مستقبل میں پجاریوں کے نام زمین منتقل نہ کی جائے۔ یہی نہیں جن کی منتقلی ہو چکی تھے ان کو بھی منسوخ کیا گیا۔ ‘
افسر آگے کہتے ہیں،ریاست میں مندر معافی کی زمینوں پر راجستھان ا راضی اصلاح و جاگیر بازیابی قانون-1952بھی نافذ ہوتا ہے۔اس کی دفعہ 10 کے مطابق بھی مندر معافی کی زمین پر مندر کی مورتی ہی معافی دار یعنی کھاتےدار ہے۔ کسی بھی آدمی کو مندر معافی کی زمین کو بیچنے یا لیز پر دینے کا قانونی حق نہیں ہے۔ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کی طرف سے زمین کو لیز پر دینا غیر قانونی ہے۔ ‘
قانون کے نظریے سے یہ صاف ہے کہ مندر معافی کی زمین کو کوئی بھی مندر یا ٹرسٹ لیز پر نہیں دے سکتا۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے سوامی رام دیو سے جڑے بھارتی سوابھیمان ٹرسٹ کو یہ زمین لیز پر کیسے دی۔اس بارے میں ریونیو معاملوں کے سینئر وکیل انل مہتہ بتاتے ہیں، کئی بار حکومت کی اجازت سے مندر معافی کی زمین مفاد عامہ سے جڑا کوئی مقصد بتاکر لیز پر دی جاتی۔ ویسے قانون کے مطابق مندر معافی کی زمین غیر زراعتی کام کے لئے لیز پر نہیں دی جا سکتی۔ ‘
تعجب کی بات یہ ہے کہ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے مندر کی زمین کو بھارت سوابھیمان ٹرسٹ کو لیز پر دینے سے پہلے حکومت سے بھی کوئی اجازت نہیں لی۔ ایک لاکھ روپے کے اسٹامپ پیپر پر ہوئی اس لیز ڈیڈ پر بھارتی سوابھیمان ٹرسٹ کی طرف سے مہامنتری اجئے آریہ جبکہ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کی طرف سے انتظامیہ کمیٹی کے رام جی لال، پرشوتم سنگھل، مہادیو پرساد، جگدیش پرساد، دیوی لال، ویریندر اور رمیش چند گپتا کے دستخط ہیں۔
ڈیڈ کے مطابق بھارتی سوابھیمان ٹرسٹ کو تین سال کے لئے لیز ملی ہے۔ ا س کے عوض میں اس کو شری گووند دیو جی مندر کی خدمت و عبادت کے لئے ٹرسٹ کو ہر مہینے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔اس رقم میں ہرسال دو فیصد کا اضافہ ہوگا۔ ڈیڈ میں یہ بھی شرط ہے کہ زمین کا استعمال ‘ عوامی مفاد ‘ کے لئے ہوگا اور پتنجلی نام کے ساتھ گوونددیوجی کا بھی ذکر ہوگا۔
لیز ڈیڈ میں ‘عوامی مفاد ‘کی شرط کو وکیل ہمانشو سوگانی بےمطلب کا قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اصولوں کے مطابق مندر معافی کی زمین کا غیر زراعتی کام کے لئے استعمال ممنوع ہے۔ اب سوامی رام دیو سے جڑے ٹرسٹ نے یہ زمین زراعت کرنے کے لئے تو لی نہیں ہے۔ وہ اعلان کر چکے ہیں کہ یہاں یوگ پیٹھ، گروکل، آیورویدیک ہسپتال، آیورویدیک دوائیوں کا پروڈکشن مرکز اور گئوشالہ کی تعمیر ہوگی۔ اس زمین میں یہ سب نہیں بن سکتے۔ ‘
سوامی رام دیو کے اس ڈریم پروجیکٹ کی زمین کی لیز ہی غیر قانونی نہیں ہے، اس کے آگے کا عمل بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ دراصل، فی الحال اس زمین کی کیفیت ، زراعت زمرہ کی ہے۔ اس پر کسی بھی قسم کی تعمیر تب تک نہیں کی جا سکتی جب تک اس کی ضابطگی تجارتی زمرہ میں نہ ہو جائے۔
عام زراعتی زمین کا تو تجارتی زمرے میں ضابطگی ہو جاتی ہے، لیکن مندر کی زمین کی قدرت بدلنے کا قانون میں کوئی اہتمام نہیں ہے۔یہاں سوال یہ بھی کہ اس زمین کی ضابطگی کی درخواست بھارت سوابھیمان ٹرسٹ نے کیا ہے یا شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے۔ راجستھان ہائی کورٹ میں وکیل تنویر احمد کے مطابق یہ دونوں ہی ضابطگی کے مجاز نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں،ضابطگی کے لئے درخواست وہی کر سکتا ہے جس کا نام سرکاری ریکارڈ میں ہو۔ مندر معافی کی زمین ہونے کی وجہ سے ریکارڈ میں یہ مندر مورتی کے نام درج ہے۔ وہ درخواست کر نہیں سکتے اور باقی کوئی بھی اس کے لئے مجاز نہیں ہے۔ ‘تنویر احمد آگے کہتے ہیں، چونکہ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے زمین کو لیز پر دے دیا ہے اس لئے وہ تو ضابطگی کے لئے درخواست کر نہیں سکتا۔ جس بھارت سوابھیمان ٹرسٹ نے اس کو لیز پر لیا ہے اس کو ایسا حق نہیں ہے، کیونکہ سرکاری رکارڈ میں اس کے نام زمین نہیں ہے۔ عام طور پر اس طرح کی درخواست فوراً نامنظور کر دئے جاتے ہیں۔ ‘
ریونیو معاملوں کے وکیل ہمانشو سوگانی اس کو اور واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں، راجستھان میں زراعتی زمین پر کسان کو صرف زراعت کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس پر مالکانہ حق حکومت کا ہی ہوتا ہے۔اس کا اگر تجارتی زمین میں ضابطگی ہو جائے تو ملکیت حکومت سے آدمی یا اس کی کمپنی / ادارہ کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ اگر حکومت مندر کی زمین کی ضابطگی کرتی ہے تو یہ سوامی رام دیو کے ٹرسٹ کی جائیداد ہو جائےگی۔ ‘
اس سوال پر کہ اصول نہیں ہونے کے باوجود حکومت بھارت سوابھیمان ٹرسٹ کو لیز پر ملی زمین کی ضابطگی کیوں ماتھاپچی کر رہی ہے، حکومت کی طرف سے کوئی بھی جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔دیومندر وزیر راج کمار رنوا صرف اتنا کہتے ہیں کہ جو بھی ہوگا اصولوں کے دائرے میں ہی ہوگا۔ شہری ترقی وزیر شری چند کرپلانی بھی یہی دوہراتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاستی کانگریس کے رہنما بھی اس مسئلے پر تبصرہ کرنے سے بچ رہے ہیں۔
401 بیگھہ زمین کی لیز ڈیڈ اور ا س کی ضابطگی سے جڑے سوال پوچھنے کے لئے ‘دی وائر ‘نے شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کی انتظامیہ کمیٹی میں شامل تین اہلکاروں سے رابطہ کیا، لیکن ان میں سے ایک بھی ‘آن رکارڈ ‘ جواب دینے کے لئے راضی نہیں ہوا۔ ہاں، انہوں نے نام اجاگر نہیں کرنے کی شرط پر اس ‘ ڈیل ‘کے پس منظر کے بارے میں ضرور بتایا۔
ایک اہلکار اس کو مجبوری میں کیا ہوا معاہدہ بتایا۔ وہ کہتے ہیں، ‘مندر کے نام کل 750 بیگھہ زمین ہے، لیکن یہ مندر کے کام نہیں آ رہی تھی۔ زیادہ تر پر دوسرے لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ ہم کئی سال سے کوشش کر رہے تھے کہ اس زمین کو حکومت قبضے میں لے لیکن افسروں نے قانونی رکاوٹ بتاکر اس سے انکار کر دیا۔ اب ہم یا تو اس پر غیرقانونی قبضہ ہونے دیتے یا اس کو کسی اور کو سونپ دیتے۔ ‘
اس سوال پر کہ زمین پر سوامی رام دیو کی نظر کیسے پڑی، شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کے دوسرے اہلکار کہتے ہیں، ‘بابا رام دیو کے نجی سکریٹری اجئے آریہ کرولی ضلع کے ہنڈون سٹی کے رہنے والے ہیں۔ بھارت سوابھیمان کے مہامنتری بھی وہی ہیں۔ ان کو اس زمین کے بارے میں پہلے سے جانکاری تھی۔ ہمارے کچھ دوست ان سے ملے اور انہوں نے ہماری ملاقات بابا رام دیو سے کروائی۔ کئی دور کی بات چیت کے بعد ہمارے درمیان معاہدہ ہوا۔ ‘
ایک ہندی روزنامہ کے مقامی نامہ نگار ونود شرما بھی دونوں افسران کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، سوامی رام دیو کے نجی سکریٹری اجئے آریہ نے زمین کے اس معاہدے میں اہم کردار نبھایا۔ انہوں نے ہی شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کے اہلکاروں کی دو بار رام دیو سے ملاقات کروائی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مندر کی زیادہ تر زمین غیرقانونی قبضہ کی بھینٹ چڑھ چکی تھی اور ٹرسٹ کسی نہ کسی کو اس کو سونپنا چاہتا تھا۔ ‘
شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کے اہلکاروں کو امید ہے کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود یہ پروجیکٹ ضرور پورا ہوگا۔ زمین کو ہموار کرنے کےکام کی نگرانی کر رہے سوامی رام دیو کے نمائندہ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔ان میں سے ایک کہتے ہیں، ‘بابا اس پروجیکٹ میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب پیچھے نہیں مڑ سکتے۔ یہاں اتنا وقت اور پیسہ خرچ ہو چکا ہے کہ اس کی بھرپائی پروجیکٹ پورا ہونے سے ہی ہوگی۔ ‘
سوامی رام دیو کا رسوخ اور ان میں وزیراعلیٰ وسندھرا راجے کی عقیدت کسی سے چھپی نہیں ہے، لیکن حکومت کے لئے اصولوں کو کنارے کر کوئی بھی کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ایسے میں جب وزیر اور افسروں نے اس معاملے میں ہاتھ کھڑے کر دئے ہیں تب یہ دیکھنا مزےدار ہوگا کہ وزیراعلیٰ راجے اصولوں میں کونسی گلی نکال کر اس کام کو انجام تک پہنچاتی ہیں۔
تذکرہ یہاں تک ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں سوامی رام دیو کو منع نہیں کرےگی چاہے اصول ہی کیوں نہ بدلنے پڑیں۔ اگر ایسا واقعی میں ہوتا ہے تو یہ حکومت کے لئے شہد کی مکھی کے چھتے میں ہاتھ دینے جیسا ہوگا۔غور طلب ہے کہ مندر معافی کی زمین پر مالکانہ حق کے لئے ملک بھر کے پجاری تحریک پر ہیں۔ اس تحریک کو ٹھنڈے چھینٹے دینے کے لئے حکومت نے ایک کابینہ سب کمیٹی بنا رکھی ہے۔
تحریک سے جڑے شتروگھن شرما کہتے ہیں، راجستھان کے ہزاروں پجاری فیملی مندر معافی زمین کو لےکر جدوجہد کر رہےہیں۔حکومت ہمیں تو ٹھینگا دکھا رہی ہے، لیکن سوامی رام دیو کو اسی طرح کی زمین کیسے لیز پر دے دی گئی۔ اگر ہمیں زمین لیز پر دینے اجاازت نہیں ہے تو شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کو یہ چھوٹ کیسے مل گئی؟ ‘
Categories: گراؤنڈ رپورٹ