بہار میں ان دنوں رونما ہو رہے سیاسی واقعات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان 2013 کے پہلے جیسا تال میل تھا، ویسا اب نہیں رہا اور اس بار بی جے پی-جے ڈی یو اتحاد کی عمر بھی بہت لمبی نہیں رہنے والی ہے۔
گزشتہ دنوں مرکز کی مودی حکومت کی نوٹ بندی کے فیصلے کی تنقید کر جے ڈی یو مکھیا اور بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچا دی تھی۔اب انہوں نے عالمی یومِ یوگا پر بی جے پی کے سینئر رہنماؤں اور مرکزی وزراکی طرف سے منعقد یوگ کیمپ میں غیرحاضر ہوکر اور گنگا کی صفائی اور آبی راستہ بنانے کے منصوبہ پرناراضگی کا اظہار کر پھر ایک بار سیاسی فضا میں گرمی لا دی ہے۔
اس بیچ، لوک سبھا انتخاب میں سیٹوں کی تقسیم اور بہار میں این ڈی اے کے چہرے کو لےکر دونوں پارٹیوں میں گتھم گتھا بھی جاری ہے۔سوموار کو جے ڈی یو ترجمان سنجےسنگھ نے سیٹ کی تقسیم پر بڑا بیان دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر بی جے پی کو معاون پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہے تو وہ اکیلے 40 سیٹوں پر انتخاب لڑ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ہر پارٹی کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر بی جے پی خود سے فیصلہ لینا چاہتی ہے تو لے سکتی ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جے ڈی یو اکیلے انتخاب لڑنے کو لےکر پر اعتماد ہے کیونکہ پارٹی میں یکجہتی ہے اور عوامی حمایت بھی۔ ‘یہ سیاسی واقعات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان 2013 کے پہلے جیسا تال میل تھا، ویسا اب نہیں رہا اور اس بار بی جے پی-جے ڈی یو اتحاد کی عمر بھی بہت لمبی نہیں ہونے والی ہے۔
اتوار کو نتیش کمار نے پٹنہ میں منعقد ایک پروگرام میں مرکزی وزیر ہرش وردھن کی موجودگی میں گنگا صفائی اور آبی راستہ بنانے کے منصوبہ کی خامیاں گنوائیں۔انہوں نے کہا، ‘ گنگا کی صفائی کا ہدف تب تک حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک مناسب پانی کی روانی یقینی نہیں بنائی جا تی۔ ‘
نتیش کمار نے آگے کہا، ‘جب تک گاد کے مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ہے، تب تک آبی راستہ تیار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ مدعا وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر نتن گڈکری سمیت دوسرے مرکزی وزراکے سامنے اٹھاتے رہے ہیں۔دو سال پہلے نوٹ بندی کو جرات مندانہ فیصلہ بتانے والے نتیش کمار نے 27 مئی کو کہا تھا، ‘میں نوٹ بندی کا حامی تھا لیکن سوال ہے کہ اس سے کتنے لوگوں کو فائدہ ہوا؟ کچھ متاثر ین نے نقدی ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کر دیا۔ ‘
موقع پر موجود ڈپٹی سی ایم سشیل کمار مودی نے ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی، لیکن تب تک خاصا ڈیمیج ہو چکا تھا۔ادھر، بہار کو خصوصی درجہ دینے کی اپنی ڈیڑھ دہائی پرانی مانگ کو انہوں نے اچانک دوبارہ دوہرانا شروع کر دیا ہے، تو دوسری طرف ان کی پارٹی لوک سبھا انتخاب میں جے ڈی یو کو زیادہ سیٹ دینے اور ریاست میں نتیش کمار کو این ڈی اے کا چہرہ بنانے کے لئے لگاتار دباؤ بنا رہی ہے۔
سیاسی حلقوں میں ان ساری ہلچل کو جے ڈی یو کی سوچی-سمجھی حکمت عملی مانی جا رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جب بد عنوانی کے مدعےپر نتیش کمار نے آر جے ڈی سے اتحاد ختم کر بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی تھی، تب بی جے پی مضبوط حالت میں تھی۔ لیکن، حال میں جتنے بھی ضمنی انتخاب ہوئے اس میں بی جے پی کا مظاہرہ مایوس کن رہا۔ اس سے صاف ہے کہ بی جے پی کی عوامی حمایت گھٹ رہی ہے اور جے ڈی یو کو لگ رہا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے بی جے پی کو دباؤ میں رکھ سکتی ہے۔
ایک سال پہلے کی ہی بات ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر دوبارہ سی ایم بنے نتیش کمار نے ایک پریس کانفرنس کیا تھا۔ اس پریس کانفرنس میں 2019 کے انتخاب کو لےکر سوال پوچھا گیا تو انہوں نے پراعتما لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا تھا، ‘مودی جی سے مقابلہ کرنے کی طاقت کسی میں ہے نہیں۔ ‘لیکن، آج صحافی ان سے اس طرح کے سوال پوچھ نہیں رہے ہیں اور پوچھ بھی رہے ہیں تو نتیش کمار ان سوالوں کو ٹال رہے ہیں۔
شاید ان کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہوگا کیونکہ تمام مدعوں کو لےکر ملک بھر کی عوام ناراض ہے۔جے ڈی یو ترجمان سنجے سنگھ نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ‘سال 2014 اور 2019 میں بہت فرق ہے۔ مدعے پر مبنی سیاست ملک میں جگہ بنا رہی ہے۔ 2014 کے انتخاب کے مدعے الگ تھے اور 2019 کے انتخابی مدعے الگ ہیں۔ بی جے پی کو یہ اچھے سے پتا ہے کہ نتیش کمار کے بغیر وہ بہار جیت نہیں سکےگی۔ ‘
دراصل، گزشتہ سال بی جے پی کے ساتھ دوبارہ اتحاد کرنے کے بعد جے ڈی یو دو مورچوں پر کمزور ہوئی ہے۔ اوّل تو سنگھ آزاد ہندوستان کا نعرہ دینے کے بعد بی جے پی کے ساتھ حکومت بنا لینے سے نظریاتی سطح پر جے ڈی یو کو نقصان ہوا ہے۔عام لوگوں میں یہ پیغام گیا ہے کہ جے ڈی یو کا نظریہ سمجھوتہ پرست ہے۔ آر جے ڈی کی طرف سے اس کو لےکر جب بھی جے ڈی یو پر حملہ بولا جاتا ہے تو ان کے پاس ا س کے بچاؤ میں بولنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ لہذا وہ یا تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں یا پھر چارہ گھوٹالہ کا مدعا اچھال دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بد عنوانی کے مدعے پر اتحاد ختم کرکے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد بی جے پی کے وزراء اور رہنماؤں پر بد عنوانی کے کئی الزام سامنے آ چکے ہیں لیکن جے ڈی یو رہنما خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔ اس کو لےکر بھی آر جے ڈی حملہ آور ہے اور وہ عوام کویہ اعتماد دلانے میں کامیاب ہو رہا ہے کہ نتیش کمار بےانتہا مفادپرست ہیں۔بد عنوانی کے مدعے پر جے ڈی یو نے ابھی تک بی جے پی کی تنقید نہیں کی ہے۔ بی جے پی صدر امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کی کمپنی کے کاروبار میں بےتحاشہ اضافے پر جب نتیش کمار سے سوال کیا گیا تھا، تو انہوں نے سوال کو ٹالنے کے اندازے میں کہا تھا، ‘ میں نے اخبار نہیں پڑھا ہے۔ ‘تب سے اب تک بی جے پی میں بد عنوانی کے مدعے پر جے ڈی یو کا کوئی بھی رہنما کچھ بول نہیں رہا ہے۔
بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے سے نتیش کمار کو دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹ ان کے اکھاڑے سے کھسک گیا ہے اور ان کے سیکولر رہنما کی امیج تار-تار ہوئی ہے۔شاہ-مودی کی بی جے پی کے ساتھ حکومت چلا رہے نتیش کمار ابھی خود کے سیکولر رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو لوگ ان کے دعویٰ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
ایک سیاسی تجزیہ کار بتاتے ہیں،’شاہ-مودی کی بی جے پی کے ساتھ اتحادی حکومت چلانے والا کوئی رہنما اگر یہ کہتا ہے کہ وہ سیکولر ہے تو لوگ اس کو مضحکہ خیز مانیںگے۔ کیونکہ ابھی کی بی جے پی کا واحد مقصد فرقہ وارانہ پولرائزیشن کر ووٹ بینک تیار کرنا ہے۔ بہار میں رام نومی کے دوران ہوئے فرقہ وارانہ تشدداور اس پر بی جے پی رہنماؤں کا رد عمل آپ دیکھ لیجئے، تو تصویر صاف ہو جائےگی۔ ‘
سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کی عوامی حمایت اگر گھٹےگی تو اس کی معاون پارٹیوں کی عوامی حمایت کھسکنا طے ہے۔ اس لئے جے ڈی یو کے لئے زیادہ دنوں تک بی جے پی کے ساتھ رہنا سیاسی طور پر نقصان دہ ہے۔ لیکن، جے ڈی یو کے لئے فوراً کوئی فیصلہ لینا بہت مشکل ہے۔
موجودہ سیاسی منظرنامہ کے مدنظر فوری قدم کے طور پر جے ڈی یو بی جے پی پر دباؤ بنائے رکھےگی، تاکہ بی جے پی کو یہ احساس نہ ہو کہ جے ڈی یو اتحاد جاری رکھنے کو مجبور ہے۔ اس سے جے ڈی یو کو یہ فائدہ ہوگا کہ بی جے پی نتیش کمار کو زیادہ توجہ بخشےگی۔طویل مدتی حکمت عملی کے تحت نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کر سکتے ہیں، لیکن اسی صورت میں جب کسی بھی طرح اقتدار ان کے ہاتھوں میں رہے۔
اقتدار میں بنے رہنے کے لئے تمام پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی نتیش کمار کی تاریخ رہی ہے۔ 1992 میں دہلی کے بہار بھون میں اس وقت کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو کی جھڑکی سننے کے بعد انہوں نے لالو کے ساتھ سیاست نہیں کرنے کی قسم کھائی تھی، لیکن بی جے پی سے الگ ہوکر انہوں نے آر جے ڈی کے ساتھ حکومت بنائی۔
اسی طرح، 2013 میں نریندر مودی کو وزیر اعظم عہدے کا امیدوار بنائے جانے کے بعد انہوں نے کہا تھا، ‘سیاست میں کچھ چیزیں اقتدار اور حکومت سے اوپر ہوتی ہیں۔ اس انسان (نریندر مودی) کا نام سنکر کروڑوں اقلیتوں میں ڈر اور شک کا ماحول بن جاتا ہے۔ اس آدمی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ‘اس کے بعد بی جے پی سے اتحاد ختم کر آر جے ڈی کے ساتھ ملکر حکومت بنائی تھی۔ انہوں نے سنگھ آزاد ہندوستان بنانے کا بھی نعرہ دیا تھا۔ آج وہ بی جے پی کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔اس لئے آنے والے وقت میں بھی وہ سی ایم بنے رہنے کے لئے سمجھوتہ کریںگے لیکن اس کے لئے ان کو پختہ زمین کا انتظار ہے۔
حالانکہ، گزشتہ دنوں ایل جے پی کے مکھیا رام ولاس پاسوان، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی)صدر اپیندر کشواہا کے ساتھ نتیش کمار کی نزدیکیاں بڑھنے لگی تھیں تو کہا جا رہا تھا کہ نتیش کمار غیرآر جے ڈی اور غیربی جے پی اتحاد کے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ لیکن، ایل جے پی اور آر ایل ایس پی کے پاس ویسی عوامی حمایت نہیں ہے کہ تیسرے راستے کے طور پر ابھر سکے۔ ایسے میں ایسا کچھ کرنا سیاسی خودکشی ہی ہوگی۔
فی الحال، بہار میں سیاست کا محور بی جے پی اور آر جے ڈی کے اردگرد ہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کے بعد ان کے پاس آر جے ڈی کے ساتھ دوبارہ حکومت بنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔لیکن، آر جے ڈی رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ جے ڈی یو فیصلہ کن فیصلہ لے سکے۔ الٹے تیجسوی یادو ہر موقع پر نتیش کمار کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ ان کے لئے آر جے ڈی کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔کل ملاکر بہار کی سیاسی تصویر فی الوقت دھندلی ہی دکھ رہی ہے۔ تصویر سے دھول ہٹنے میں 2019 کے لوک سبھا انتخاب تک کا وقت لگےگا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔)
Categories: خبریں