فی الحال تو کانگریس دہلی کی سیاست میں واپس اپنے قدم جمانے کے موقعے تلاش کر رہی ہے۔غورطلب ہے کہ کانگریس کے روایتی ووٹرس نے 2015 کے الیکشن میں عآپ کا دامن تھام لیا تھا۔
اس وقت حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کے بیچ جس اتحاد کے چرچے پورے ملک میں چل رہے ہیں، فی الحال تو وہ دور کی کوڑی ہی لگ رہا ہے۔ اس اتحاد کا اصلی امتحان سالِ رواں کے آخر یعنی دسمبر ماہ میں ہونے والا ہے جب مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ و راجستھان میں الیکشن ہوں گے۔ ان انتخابات میں اگر کانگریس کو فتح نصیب ہوتی ہے تو یہ کانگریس اور اس کے کارکنان کے لیے یقیناً بہت حوصلہ افزا اور ان میں روح پھونکنے والی ہوگی۔ ‘ہم بھاجپا کو ٹکر دے رہے ہیں’، اس خیال میں ہی غیر این ڈی اے پارٹیوں یعنی بہوجن سماج پارٹی، ترنمول کانگریس اور سماجوادی پارٹی نیز تیسرے مورچے کی دیگر اہم پارٹیوں کو قابو میں رکھنے کا ہر امکان موجود ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ تیسرے مورچے کی کوئی بھی پارٹی ایک مضبوط کانگریس دیکھنے کی خواہش مند نہیں ہے، جس سے وہ سن 2019 میں بھی 1996 والے متحدہ مورچے کا تجربہ دوہرا سکیں۔ حالانکہ یہ ان کی اضافی توقع ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایس پی، بی ایس پی و ترنمول کانگریس جیسی پارٹیاں قومی سیاست میں کانگریس کو ایک اہم رول ادا کرتے ہوئے دیکھنے کی قطعی خواہشمند نہیں ہیں۔
مدھیہ پردیش کی ہی بات کریں تو کانگریس یہاں اقتدار پر دعویٰ پیش کر رہی ہے لیکن بی ایس پی و ایس پی بھی یہاں اپنی طاقت دکھانا چاہتی ہیں۔ پردے کے پیچھے ان کے حساب کتاب سے کانگریس کو انہیں 20 سیٹیں دینی چاہیے اور تب ہی اتر پردیش کے اگلے الیکشن میں تال میل ہو سکتا ہے۔ اِدھر کانگریس کی پریشانی یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں ہر اسمبلی سیٹ پر اس کے چار پانچ اچھے امیدوار ہیں، جنہیں نظر انداز کر کے ایس پی، بی ایس پی یا گونڈوانہ گومانتک پارٹی کو سیٹ دینا آسان کام نہیں ہے۔ اسی لیے مایاوتی نے پہلے ہی کہہ دیا کہ ایم پی میں اتحاد نہیں ہوگا۔ راہل اور سونیا گاندھی کی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔
اصل میں ایس پی، بی ایس پی و جی جی پی مدھیہ پردیش کے مختلف حصوں میں اپنا اثر رکھتی ہیں۔ صوبے میں بر سرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2013 کے الیکشن میں 165 سیٹیں جیتی تھیں، جبکہ کانگریس محض 58 نشستوں ہر سمٹ کر رہ گئی تھی۔ اس وقت بی ایس پی کے ہاتھ اسمبلی کی محض چار سیٹیں آئیں، جبکہ ایس پی و جی جی پی کو ایک مقام پر بھی فتح نصیب نہی ہوئی، لیکن اِن پارٹیوں کا اثر اُن 53 سیٹوں پر صاف نظر آیا جو ووٹ تقسیم ہو جانے کی وجہ سے بھاجپا کی جھولی میں چلی گئیں۔ اس سے بالکل صاف ہے کہ اگر ان پارٹیوں کا کانگریس کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے، تو بھاجپا کو بُندیل کھنڈ و مشرقی مدھیہ پردیش کی اِن 53 ودھان سبھا سیٹوں کو جیتنے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔
کشمیر کا معاملہ و مسئلہ اور پیچیدہ ہے۔ کم لوگوں کو پتہ ہے کہ کشمیر میں کانگریس جموں، لداخ اور وادی کشمیر کے خیموں میں منقسم ہے۔ لال سنگھ جیسے زبان دراز و سخت گیر نیتا سن 2014 تک کانگریس میں ہی تھے۔ دراصل کانگریس نے ایک حکمت عملی کے تحت پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس کے ساتھ مل کر سرکار بنانے سے پرہیز کیا، جبکہ پہلے وہ الگ الگ موقعوں پر ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ وہاں سرکار بنا چکی ہے۔ دراصل کانگریس کو کشمیر کی سنگین صورتِحال، مرکز کے دبدبے نیز جا و بے جا مداخلت، ہر معاملے میں سیاست و پاکستان کی جانب سے بھی مسلسل در اندازی نیز مسائل پیدا کرنے جیسے حقائق کا بخوبی علم تھا، لہٰذا ‘وسیع تر قومی مفاد’ میں اس قدیمی پارٹی نے وہاں حکومت سازی کی کوئی کوشش نہیں کی۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور وہاں کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کے بیچ مسلسل جاری رہنے والی جنگ سے فاصلہ بنائے رکھنے کے کانگریس کے فیصلے کی کافی تنقیدہوئیں، خاص طور سے اس لیے بھی کہ کسی دوسرے صوبے میں بھی لیفٹننٹ گورنر نے اسی طرح کا انداز اختیار کرنا شروع کر دیا۔ لیکن صاف ظاہر تھا کہ پُڈوچیری اور وہاں کے وزیرِ اعلیٰ وی ناراین سوامی کی قابل رحم حالت آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر راہل گاندھی کی اولیت میں شامل نہیں ہے۔
کانگریس کے معاملے میں غیر جانب دار رہتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اروند کیجریوال کی غیر روایتی اور ہلّہ بول قسم کی سیاست اس قدیم پارٹی کی طرز سیاست سے میل نہیں کھاتی ہے۔ کانگریس ابھی بھی سیاست کے قدیم اصولوں و روایات کا احترام کرتی ہے اور ویسٹ مِنسٹر طرزِ جمہوریت سے اس کی وابستگی ہے۔ کانگریس کا سیاسی ‘لوک لجّا’ اور ‘مریادا’ والا نظریہ کہتا ہے کہ ایک بر سرِ اقتدار وزیرِ اعلیٰ کا احتجاج علامتی اور وقتی ہونا چاہیے۔ اس نقطہِ نظر سے عدالت کے ذریعے حراست میں لیے جانے کی صورت تو شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ شہرت پانے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنا، اپنے معیار سے کم تر سطح پر چلے جانا اور مخالفین پر بے طرح سنگین الزامات لگائے جانے جیسے عوامل کو پارٹی پوری طرح درکنار کرتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس تناظر میں کانگریس اور آپ کے سیاسی نظریات و عمل دو متضاد سمتیں ہیں۔
دہلی کی سیاست کے معاملے میں کانگریس کے ذریعے کسی پختہ پالیسی کو اختیار کرنا بہت ہی الجھن بھرا ہے۔ ایسے میں مرکز کی بھاجپا سرکار کہیں کیجریوال سرکار کو برخاست کر دے تو کانگریس ایک عجیب گومگوکی کیفیت میں مبتلا ہو جائے گی۔ آیا وہ شہادت کی متمنی دہلی سرکار کی حمایت کرے یا کوئی دوسری راہ اختیار کرے کہ اس قدم کی حمایت یا مخالفت میں ہر کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہوگا۔
فی الحال تو کانگریس دہلی کی سیاست میں واپس اپنے قدم جمانے کے موقعے تلاش کر رہی ہے کہ کیسے دہلی کے مسلم عوام، کمزور طبقات اور تجارت پیشہ لوگوں کو متاثر کر اپنی طرف راغب کیا جا سکے۔ یہ اس کے وہی ووٹرس ہیں جنہوں نے 2015 کے چناو میں کانگریس کا ہاتھ چھوڑ کر آپ کا دامن تھام لیا تھا۔ کانگریس صدر کی رہائش گاہ 24 اکبر روڈ اور دین دیال اُپادیاے مارگ (دہلی) پر واقع پارٹی کے دفتر راجیو بھون میں بیٹھے پارٹی کے ذمہ دار اُس چناو میں ایک بھی سیٹ نہ ملنے جیسی ذلت آمیز شکست کو بھول نہیں پائے ہیں۔ امرِ واقعہ تو یہ ہے کہ عآپ کی آندھی میں کانگریس کے زیادہ تر جغادری نیتا اپنی ضمانت تک نہ بچا پائے تھے۔ دہلی ودھان سبھا کی 70 سیٹوں میں سے صرف چاندنی چوک، مٹیا محل، مصطفیٰ آباد، سیلم پور، بادلی، لکشمی نگر، جنگ پورا اور گاندھی نگر یعنی گنتی کی سیٹوں پر ہی کانگریسی امیدوار اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب ہو پائے تھے۔
دہلی کی سیاست میں اختیارکردہ ماہرانہ خموشی کے کانگریس کے لیے اپنے مفاہیم ہیں۔ مستقل جاری اس جنگ میں اگر کیجریوال کو شکست ہو جاتی ہے تو چناو جیتنے کے نقطہ نظر سے بھاجپا کانگریس سے زیادہ فائدے میں رہے گی۔ تیسرے مورچے کے کچھ قد آور نیتا جیسے ممتا بنرجی، چندرا بابو نائیڈو، پی وِجین اور ایچ ڈی کمارسوامی حزب اختلاف کے اتحاد کی آڑ میں کیجریوال کے تئیں اپنا جھکاو پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔ دہلی کی سیاست میں کوئی بھی ہنگامہ خیز قدم، ممکنہ فاتح کے لیے بہت امکانات رکھتا ہے، جبکہ دور سے دیکھنے والے ناظر کے لیے یہ شکست کا عندیہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں کانگریس کو بہت تیزی سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر