بعض لوگوں کو یہ موازنہ کچھ عجیب لگ سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹیوں کے پروردہ ہیں۔ دونوں کا عروج لبرل اور سیکولر طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہوا ہے۔
ترکی ہمیشہ سے اہل ہند کے لئے، خاص طور پر یہاں کے مسلمانوں کے لئے، دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔کوئی 15 سال قبل جب وہاں کی سیاست میں رجب طیب اردگان کو عروج حاصل ہوا تو پوری دنیا کی نظریں ترکی پر مرکوز ہو گئیں۔ اردگان ایک اسلامی تحریک کے پروردہ تھے اور ایک ایسے ملک کے لیڈر بن کر ابھرے تھے جہاں سیکولرزم اپنی انتہائی شکل میں موجود تھا۔ 2003 میں اردگان کے اقتدار سنبھالتے ہی مغرب خاص طور پر فکر مند نظر آیا تھا۔ کیونکہ ترکی ناٹو کا اکیلا مسلمان ممبر تھا، اسرائیل سے اس کے خصوصی تعلقات تھے اور یوروپین یونین کی رکنیت کا خواہش مند واحد مسلمان ملک تھا۔
15 کے اقتدار کے بعد اردگان نے مغرب کے اُن خدشات کو تو دور کر دیا جن کا اظہار ابتداً مغربی راجدھانیوں میں ہوا تھا کہ ایک اسلام پرست سے معاشی اور فوجی تعاون کس طرح حاصل کیا جا سکے گا۔ اسرائیل-فلسطین قضیہ پر اپنی آزادانہ رائےرکھنے اور اس پر اصرار کرنے کے باوجود نہ امریکا کو، اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک کو، ترکی کے ساتھ معاملات کرنے میں کوئی بڑی دشواری پیش آئی۔
مگر پچھلے ہفتے آئے صدارتی اور پارلیامانی انتخابات کے نتائج کے بعد دنیا ایک نئی تشویش سے دو چار ضرور ہو گئی ہے۔ اردگان ایک سیاسی رہنما سے زیادہ ایک ڈکٹیٹر کے طور پر ابھرے ہیں۔ انہوں نے ملک کے بنیادی سیاسی ڈھانچے کو بدل دیا ہے۔ ملک پارلیامانی جمہوریت سے صدارتی طرز حکومت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ جاتا رہا ہے۔ اب اقتدار کا سرچشمہ صدر مملکت ہے اور پارلیامنٹ کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ وزیروں، ججوں اور تمام اہم عہدوں پر نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس آچکا ہے۔ یہاں تک کہ فوج بھی حقیقی معنوں میں صدر رجب طیب اردگان کے ماتحت ہو چکی ہے۔
بالفاظ دیگر ترکی اب دوسرا روس بن چکا ہے جہاں ولادمر پتن ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور کسی بھی طرح کے اختلاف کو برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ اردگان کی سیاست بھی کچھ اسی طرز کی ہے جہاں انہوں نے اپنے مخالفین کے لئے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ الیکشن ایمرجنسی قوانین کے تحت کرائے جس کا نفاذ انہوں نے 2016میں اپنے خلاف فوجی بغاوت کو کچلنے کے بعد کیا تھا۔
یہی نہیں الیکشن سے پہلے سینکڑوں کی تعداد میں صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ جو بچ رہے وہ یا تو ان کے ہم خیال تھے یا پھر اتنے ڈرے ہوئےیا دبے ہوئےتھے کہ وہ کوئی موقف اختیار کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ اردگان کے سیاسی مخالفین بھی ہزاروں کی تعداد میں پابند سلاسل ہوئےیہاں تک کہ اپوزیشن کے ایک مضبوط صدارتی امیدوار کو جیل میں رہتے ہوئے الیکشن لڑنا پڑا۔52 فی صد ووٹ لے کر اردگان سیکنڈ راؤنڈ میں جائے بغیر ایک بار پھر ترکی کے صدر بن تو گئے مگر ان کی ساکھ کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے الیکشن کے دوران سرکاری ذرائع ابلاغ کا بیجا استعمال کیا اور تمام حکومتی ادارے، بشمول الیکٹورل کمیشن، ان کے ‘الیکشن ایجنٹ’ کی طرح کام کرتے رہے۔ یوروپین یونین اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے جو الیکشن آبزرورس آئے تھے انہوں نے بھی بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔
2003 میں جب اردگان پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تو داخلی طور پر انہیں بہت سارے چیلنجز کا سامنا تھا جن میں سب سے اہم وہاں کی فوج کو قابو میں کرنا تھا جو سیکولرزم کی خود ساختہ گارجین بنی ہوئی تھی اور اسے بچانے کے نام پر بار بار منتخب شدہ حکومت کا تختہ پلٹتی رہی تھی۔98 فی صد مسلم آبادی والے ملک میں سرکاری سطح پر اسلام سے کسی بھی طرح کی وابستگی جرم مانی جاتی تھی۔ اس کی دو مثالیں قابل ذکر ہیں۔ 90 کی دہائی میں ایک خاتون ممبر آف پارلیامنٹ کی رکنیت اس لئے ختم کر دی گئی تھی کہ ایک دن وہ سر ڈھک کر پارلیامنٹ چلی گئی تھی۔اسی طرح 2007 میں جب اردگان کی اسلام پرست جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے لیڈر عبداللہ گُل ملک کے صدرمنتخب ہوئےتو ان کی تقریب حلف برداری میں ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو اس لئے مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ وہ تینوں حجاب کرتی تھیں۔ انہیں دنوں یہ خبر بھی آئی تھی کہ ان کی دونوں بیٹیوں نے مغرب میں تعلیم اس لئے حاصل کی تھی کیونکہ اپنے ملک کی کسی یونیورسیٹی میں حجاب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اس پس منظر میں اردگان کے سامنے جو اڑچنیں آئیں وہ قابل فہم ہیں۔ انہیں ایک طرف فوج سے نبرد آزما ہونا پڑا جو رہ رہ کر ان کے خلاف سازشیں کرتی رہی تو دوسری طرف سیکولرزم کا علم بردار وہاں کا دانشور طبقہ جس کے حلق سے ایک اسلام پرست کا اترنا محال تھا۔ اردگان اگر ان سب کے باوجود کامیاب ہوتے رہے تو اس کے پیچھے صرف اور صرف ان کی زبردست عوامی مقبولیت تھی جو انہیں ایک طرف وہاں کے بزنس کلاس اورعام شہری باشندوں سے ملی تو دوسری طرف دیہی آبادی سے۔
یہی وجہ ہے کے 2002 سے لے کر اب تک ترکی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں ان کی پارٹی کو زبردست کامیابیاں ملتی رہی ہیں۔ مگر ان کامیابیوں کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی شخصیت متنازعہ رہی ہے۔ ترکی میں ایک بہت بڑا حلقہ ایسا موجود ہے جو ان کے نظریات کا حامی نہیں اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ اگر انہوں نے ایک نیم فاشسٹ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ نہ کیا ہوتا تو ان کے لئے دوبارہ صدر بن پانا اور پارلیامنٹ میں اکثریت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اردگان کے عروج اور ان کی سیاست پر غور کیا جائے تو ان میں اور ہمارے وزیراعظم نریندر مودی میں بہت ساری مماثلتیں نظر آئیں گی۔ گو کچھ لوگوں کو یہ موازنہ کچھ عجیب لگ سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹیوں کے پروردہ ہیں۔ دونوں کا عروج لبرل اور سیکولر طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہوا ہے۔
جس طرح 82 فی صد ہندو آبادی کے ساتھ ہندوستان ایک ‘سیکولر’ ملک ہے اسی طرح 98 فی صد مسلم آبادی کے ساتھ ترکی بھی ایک سیکولر ملک ہے۔ مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹی کا لیڈر ہونے کے ناطے دونوں کے لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسی بات کی جائے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔چنانچہ مودی نے ‘وکاس’ کا نعرہ دیا۔ دیکھا جائے تو یہ نعرہ اتنا نیا بھی نہیں تھا کیونکہ ان سے پہلے اردگان یہ نسخہ آزما چکے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ جہاں اردگان کی کامیاب معاشی پالیسی ان کی مقبولیت کا سبب بنی وہیں مودی کی معاشی پالیسی محض ایک نعرہ ثابت ہوئی۔
مودی ہی کی طرح اردگان کے چاہنے والے بھی ان کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں۔ جس طرح مودی نے مڈل کلاس ہندوؤں کے سامنے ہندو پہچان اور ہندو نیشنلزم کو بڑھاوا دیا اسی طرح اردگان بھی یہ کام 15 سال پہلے کر چکے تھے۔ انہوں نے ٹرکش نیشنلزم کو ابھارا اور ترکوں کو ان کا کھویا ہوار وقار واپس دلانے کا خواب دکھایا۔حالیہ الیکشن میں انہوں نے ایک نیم فاشسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا۔ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی خود ایک فاشسٹ تنظیم کا سیاسی فرنٹ ہے اور ایک دوسری فاشسٹ پارٹی شیو سینا جس سے گو کہ آجکل اس کی سیاسی رسّہ کشی چل رہی ہے اس کی فطری حلیف۔ میڈیا کے ساتھ دونوں کا رویہ تقریباً ایک جیسا ہے۔
نریدرمودی اور ان کی حکومت کے بارے میں عام طور پر یہ بات آجکل ہو رہی ہے کہ اس نے میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ کیا اخبارات، کیا پرائیویٹ ٹی وی چینل اور کیا سرکاری ذرائع ابلاغ سب کے سب مودی کے گن گان میں لگے ہیں۔ جو ذرا بھی مزاحمت کر رہا ہے اسے معتوب کیا جارہا ہے۔اردگان یہ سارے کام بہت پہلے کر چکے ہیں۔ سرکاری میڈیا ہو کہ پرائیویٹ سب پر ان کا زبردست قبضہ ہے جسے انہوں نے کھل کر اس الیکشن میں استعمال بھی کیا۔
12 سال وزیراعظم رہنے کے بعد اردگان نے 2014میں صدر بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر پارلیامانی جمہوریت میں صدر کے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں لہٰذا پچھلے سال انہوں نے ایک ریفرنڈم کروا کر ملک کے سیاسی ڈھانچے کو ہی تبدیل کر دیا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ماضی میں بھارتیہ جنتا پارٹی صدارتی طرز حکومت کی پر زور حمایتی رہی ہے۔ مودی نے 2014 کا الیکشن صدارتی انداز میں ہی لڑا۔ کون جانے ان کی پارٹی کب دوبارہ یہ راگ الاپنے لگ جائے۔
Categories: فکر و نظر