جب آپ ایک کمیونٹی سے نفرت کرتے ہیں یا آپ کو ٹرینڈ کیا جاتا ہے کہ ایک کمیونٹی سے نفرت کرو تو پھر آپ کسی سے بھی نفرت اور تشدد کرنے کے لئے ٹرینڈ ہو جاتے ہیں۔
جس بھیڑ کے خطرے کے بارے میں4سال سے لگاتار آگاہ کر رہا ہوں، وہ بھیڑ اپنی سنککے انتہا پر ہے یا کیا پتہ ابھی اس بھیڑ کی انتہا اور دکھنا باقی ہی ہو۔ کبھی گئو رکشا کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کی افواہ کے نام پر کسی کو گھیر لینا، مار دینا، آسان ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے لگتا تھا کہ صرف فرقہ وارانہ بھیڑ ہے مگر اب آپ کے سامنے کئی قسم کی بھیڑ ہے۔ اخلاق کے واقعہ سے شروع ہوئی بھیڑ کی یہ سنک الور اور پلول ہوتی ہوئی اب آسام سے لےکے دھلیا تک پھیل چکی ہے۔
اس نے مسلمان کو ہی مارا ایسا نہیں ہے، اس نے ہندوؤں کو بھی مارا۔ صحافی شیوم وج نے لکھا ہے کہ وہاٹس ایپ سے پھیل رہی بچہ چوری کی افواہ نے پچھلے مئی سے لےکر اب تک 29 لوگوں کی جان لے لی۔ آپ کو ابھی بھی لگتا ہے کہ یہ بھیڑ جھوٹ ہے، جھوٹ ہے تو پھر آپ کو وزیر خارجہ سشما سوراج کے ٹوئٹر ہینڈل پر جانا چاہیے۔
Friends : I have liked some tweets. This is happening for the last few days. Do you approve of such tweets ? Please RT
— Sushma Swaraj (@SushmaSwaraj) June 30, 2018
جہاں ایک سینئر اور وزیر خارجہ کے عہدے پر بیٹھی وزیر کے بارے میں اتنی گالیاں لکھی جا رہی ہیں کہ ان کا ذکر کرنا یہاں ٹھیک نہیں رہےگا۔ غیرملکی دورے سے لوٹنے پر سشما سوراج نے ٹوئٹر پر دی جا رہی گالیوں کو لےکر آن لائن پولنگ شروع کر دی۔ 57 فیصدی نے اس کو غلط مانا مگر 43 فیصدی نے مانا کہ گالی دینے کی زبان صحیح ہے۔ ان میں سے کچھ کو ان کی کابینہ کے وزیر بھی فالو کرتے ہیں۔ 24 جون کو سشما سوراج نے پہلی بار ٹوئٹ کیا تھا۔ 2 جولائی تک ان کی حمایت میں کسی بھی کابینہ وزیر نے بیان تک نہیں دیا نہ ہی گالی دینے کی اس تہذیب کی مذمت کی۔
بے شک آج ملک کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے سشما سے بات کی ہے اور مذمت کی ہے۔ ایک کابینہ وزیر بھی اس طرح کے ٹرول کے سامنے اکیلی ہیں۔ بے بس ہیں۔ یہ بھیڑ ایسی ہے جو اپنی سنک کو نظریہ سمجھ بیٹھی ہے۔ یہ خود سے متفق نہیں ہونے والے کے خلاف مشتعل تو ہے ہی لیکن حامیوں میں سے عدم اتفاق کے ذرا سی آواز پھوٹنے پر اس کا بھی وہی حال کرتی ہے۔ یہ بے لگام بھیڑ ہوا سے نہیں آتی ہے، اس کو ایک بند کمرے میں سیاسی حکمت عملی کے تحت آزاد کیا جاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس کا ہیرو کون ہے۔ کس نے اس زبان کو سیاست کے اندر اہمیت دی ہے۔ آپ اس کا نام جانتے ہیں۔ ہندو اخبار نے لکھا ہے کہ سشما کو گالی دینے والے کئی لوگ بی جے پی کے حمایتی ہیں اور ممبر بھی۔آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہاٹس ایپ یونیورسٹی میں افواہوں اور جھوٹ کو کون پھیلا رہا تھا اور پھیلانے والے کی سیاست اور نظریہ کیا ہے۔ کم سے کم وزیر اعظم سشما سوراج کی حمایت میں اس تہذیب کی مذمت کر سکتے تھے۔ 30 جون کو کسی ورلڈ سوشل میڈیا ڈےپر ان کو ٹوئٹ کرنا یاد رہا مگر سشما سوراج کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں۔
Greetings on #SocialMediaDay! The world of social media has played a key role in democratising our discourse and giving a platform to millions of people around the world to express their views and showcase their creativity.
— Narendra Modi (@narendramodi) June 30, 2018
وزیر اعظم بھی کب جھوٹ بول دیں پتہ نہیں، جیل میں بھگت سنگھ سے کسی کانگریسی رہنما کی ملاقات نہیں کرنے کو لےکرجھوٹ بول دیا، جس پر آج تک صفائی نہیں دی۔ تمام برائیوں کے بعد بھی ہندوستان کی سیاست کی زبان کبھی اتنی بری اور نچلی سطح کی نہیں رہی۔ اب یہ ادارہ جاتی شکل لے چکی ہے۔ آپ نے گوری لنکیش کے قتل کے وقت اس زبان کا نمونہ دیکھا تھا، پھر بھی بہت سے لوگ خاموش رہ گئے، تب بھی خاموش رہ گئے جب بتایا گیا کہ ایسی زبان بولنے والوں کو وزیر فالو کر رہے ہیں۔ کیا آپ کبھی اس ہندوستان کو پسند کریںگے جہاں افواہوں کے پیچھے دوڑتی بھیڑ کسی کو دوڑاکر مار رہی ہو؟
مہاراشٹر کے دھلے میں بچہ چوری کی افواہ پھیل گئی۔ ساکری تحصیل کے راعین پاڑہ گاؤں میں اتوار کا بازار لگا تھا۔ وہاں بس سے 5 لوگ اترتے ہیں، ان میں سے ایک کسی بچی سے بات کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، تبھی لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ یہ بچہ چور ہو سکتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے یہاں افواہ چل رہی تھی کہ علاقے میں بچہ چور آئے ہیں۔ بس لوگوں نے اس شک کو ثبوت مان لیا اور پانچوں کو گھیرکر مارنا شروع کر دیا۔ بازار میں بھی مارا اور پھر ان کو پنچایت بھون میں بھی لے گئے۔ وہاں بند کمرے میں اتنا مارا کہ پانچوں وہیں مر گئے۔ 23 لوگ گرفتار ہیں۔ مرنے والے پانچوں گوساوی کمیونٹی کے ہیں۔ غریب فیملی کے لوگ ہوتے ہیں جو بھیک مانگ کر اپنی زندگی چلاتے ہیں۔ ان کے نام ہیں بھرت شنکر بھوسلے، داداراؤ شنکر بھوسلے، راجو بھوسلے، بھرت مالوے اور اننگو انگولے۔ یہ جان کی خیر مانگتے رہے مگر بھیڑ کو ہوش ہی نہیں تھا۔
یہ سب خبریں چل رہی ہیں، مگر آپ سوچیے کہ لاکھوں کروڑوں فون میں وہاٹس ایپ کے ذریعے افواہیں پھیل رہی ہیں۔ انتظامیہ کا انتباہ ہر فون میں ہر لوگ تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ دھلے کی خبر کی پورے مہاراشٹر میں ہونے کے بعد بھی مہاراشٹر کے ہی ناسک میں بھیڑ پاگل ہو گئی۔
مالیگاؤں میں اگر پولیس فعال نہ ہوئی ہوتی تو 4 لوگوں اور ایک بچے کے ساتھ کیا ہوتا آپ تصور کر سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق آدھی رات سے تھوڑا پہلے کوئی کال آتا ہے کہ مشتبہ لوگ مالیگاؤں میں ایک بچے کو لے جا رہے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی بھیڑ نے اس کو گھیر لیا۔ پولیس کے لئے بھی اس بھیڑ میں گھسکر ان چار لوگوں کو چھڑا پانا آسان نہیں رہا ہوگا۔ بھیڑ کا غصہ افواہ کی بنیاد پر تھا اور محض افواہ کی بنیاد پر اتنے لوگ قانون ہاتھ میں لینے کے لئے باہر آ گئے تھے۔ پولیس نے جن چار لوگوں کو بچایا ہے وہ پربھنی ضلع کے ہیں، اور مالیگاؤں آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک دو سال کا بچہ تھا۔ بچہ انہی کا ہے۔
جب آپ ایک کمیونٹی سے نفرت کرتے ہیں یا آپ کو ٹرینڈ کیا جاتا ہے کہ ایک کمیونٹی سے نفرت کرو تو پھر آپ کسی سے بھی نفرت اور تشدد کرنے کے لئے ٹرینڈ ہو جاتے ہیں۔ تشدد آپ کے سیاسی اور سماجی سلوک کا حصہ بن جاتا ہے۔ 30 جون کو چنئی میں بھی بہار کے دو لوگوں کو بچہ چور سمجھکر بری طرح پیٹ دیا گیا۔ گوپال ساہو اور بنود بہار میٹرو میں کام کرنے والے مزدور ہیں اور سڑک پار کرتے ہوئے ایک بچے کو روک رہے تھے مگر لوگوں نے بچہ چور سمجھ لیا۔
آسام کی کربی آنگلانگ ضلع میں نلوتپل اور ابھجیت کے انصاف کے لئے فیس بک میں ایک گروپ بھی بنا ہے جس کو 60000 سے زیادہ لوگ فالو کر رہے ہیں۔ 8 جون کو نلوتپل داس اور ابھجیت ناتھ پکنک سے لوٹ رہے تھے، مگر پنجری میں ایک بھیڑ نے ان کی جیپ روکی اور اتارکے مارنا شروع کر دیا۔ دونوں آسام کے ہی رہنے والے تھے تو اہومیا میں بھی لوگوں سے کہا کہ وہ بچہ چور نہیں ہیں۔ لیکن بھیڑ نے دونوں کو مار دیا۔ اس واقعہ کے ٹھیک پہلے حیدر آباد پولیس نے الرٹ جاری کیا تھا کہ سوشل میڈیا میں بچہ چوری گینگ کو لےکر افواہ اڑائی جا رہی ہے۔ وہاں بھی بھیڑ نے تین لوگوں کو گھیرکر مار دیا۔ اس کے علاوہ 10 لوگوں کو بھیڑ نے درخت اور بجلی کے پول سے باندھکر بری طرح پیٹا تھا۔
اس کے شکار چاہیں ہندو ہوں یا مسلمان زیادہ تر غریب لوگ ہیں۔ کتنی آسانی سے کسی نے افواہوں کے ذریعے غریبوں کو افواہوں میں الجھا دیا ہے۔ جنوبی تریپورہ میں افواہوں سے لڑنے کے لئے وہاں کی حکومت نے انتظام کیا تھا۔ سکانت چکرورتی کو 500 روپے کی دہاڑی پر رکھا گیا تھا۔ سکانت جس گاڑی سے جا رہے تھے اس پر لاؤڈسپیکر بھی لگا تھا جس سے وہ اناؤنس کر رہا تھا کہ ایسی افواہوں سے باخبر رہیں۔ افواہ پھیل گئی کہ ایک بچےکو کڈنی نکالکر پھینک دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں اور پولیس میں ہی جھڑپ ہو گئی۔ کڈنی اسمگلر سے لےکر بچہ چور گروہ کی باتیں ہونے لگیں۔ اسی جھگڑے میں سکانت پھنس گیا اور مارا گیا۔ جون کے مہینے میں ہی 10 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
2017 میں جھارکھنڈ میں ایسی ہی افواہ اڑی بچہ چوری کے گروہ کی۔ ہلدی پوکھر سے راج نگر جا رہے نعیم، سجو، سراج اور حلیم کو 100 سے بھی زیادہ لوگوں نے گھیر لیا اور اتنا مارا کہ نعیم، سجو اور سراج کی موت ہو گئی۔ اسی رات سابق سنگھ بھوم میں وکاس، گنیش اور گوتم کو بھیڑ نے گھیر لیا۔ ان تینوں کو مار دیا۔ کیا ہندو کیا مسلمان، ہندوستان میں نیشنل سلیبس نے ایک ایسی بھیڑ ہرجگہ تیار کر دی ہے جو کسی کو بھی مار سکتی ہے۔ جھارکھنڈ میں ایک درجن سے زیادہ ماب لینچگ کا واقعہ ہو چکا ہے۔
ایک ویڈیو میں قاسم نام کا جوان کھیت میں زخمی پڑا ہے۔ ان سے آدھی عمر کے بچےان کو مار رہے ہیں۔ خود کو گئو رکشک سمجھکر قانون سے اوپر سمجھنے والے ان لڑکوں نے قتل کا سبق کہاں سے سیکھا، کس سیاست سے سیکھا۔ بہت لوگ آج بھی اس حقیقت کو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بھیڑ نے زمین پر پڑے قاسم کو پانی تک نہیں دیا۔ دہلی سے 70 کلومیٹر دور یوپی کے ہاپوڑ میں بھی ایسا ایک واقعہ کے ہونے کا چرچا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ گئو کشی کی افواہ کی وجہ سے بھیڑ نے 45 سال کے قاسم کو گھیر لیا اور مار دیا۔ 65 سال کے سمیع الدین زخمی ہو گئے۔ پولیس جانچکر رہی ہے۔
نیشنل کرائم برانچ بیورو کے مطابق 2016 میں 63 ہزار سے زیادہ بچے غائب ہو گئے تھے۔ یہ سارے چوری کے معاملے نہیں ہیں مگر تب تو اس طرح کی افواہ ہوا میں نہیں تھی اور لوگ قتل نہیں کر رہے تھے۔ ہمارے پاس اس طرح کی بھیڑ کی ذہنیت کو لےکر کوئی مکمل اسٹڈی نہیں ہے، نہ ہو رہا ہوگا ورنہ اس کے رجحان پر بات ہو سکتی تھی۔
(بہ شکریہ این ڈی ٹی وی انڈیا)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر