آخر ایسے لوگ کہاں ہیں، جن کی تقلید کی جا سکے؟ اگر میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ ایک اچھا شہری بنے جو اعلیٰ قدروں کے لئے آواز اٹھا سکے، تو آخر اس موجودہ نسل میں وہ لوگ کہاں ہیں، جن کی طرف دیکھا جا سکتا ہے؟
حال کے کچھ واقعات پر نظر ڈالیں، تو وہ ملک کے سامنے ایک بڑے مسئلے کی طرف ہمارا دھیان کھینچتے ہیں۔ کرناٹک انتخاب، پارلیامنٹ سیشن میں کام کاج کا نہ ہو پانا، بد عنوانی کے الزامات کو لےکر دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے ٹرائل کورٹ کے دو ججوں کی معطلی، پنجاب نیشنل بینک، آئی سی آئی سی آئی بینک اور ایکسس بینک وغیرہ سے جڑے مسئلے،ہاسپٹلوں کے ذریعے لاکھوں کا بل بنانا اور غلط علاج کرنا اور کٹھوعہ اور اناؤ ریپ معاملہ، جس میں پولیس بھی مبینہ طور پر ملوث تھی ؛ یہ سب ایسے کچھ واقعات ہیں، جن کو ملاکر پڑھنے سے مستقبل کے ہندوستان کی تشویش ناک تصویر ابھرتی ہے۔
یہ ماننا غلط نہیں ہوگا کہ یہ چھٹ پٹ یا استثنائی طور پر ہونے والے واقعات نہیں ہیں، بلکہ بنیادی سماجی وسیاسی ڈھانچے اور ثقافتی ناکامیوں کا نتیجہ ہیں۔اس نے اس بڑے سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا اقتدار میں بیٹھے لوگوں میں ضمیر جیسی کوئی چیز بچی ہے اور کیا وہ ان فرائض پر عمل کرتے ہیں، جس کے لئے ان کو پیسے ملتے ہیں؟ میں یہاں ان معاملوں کے اسباب کو نشان زد کرنے کے لئے کچھ تجربات کا حوالہ دے رہا ہوں۔
کچھ مہینے پہلے، میں دو سینئر سرکاری افسروں کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ چونکہ میں ان میں سب سے جونیئر تھا اس لئے میں نے ایڈمنسٹریشن میں تبدیلی کے سوال پر ان کی صلاح لینے کی آزادی لی، خاص کر یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کے پاس سرکاری کام کاج کا وسیع تجربہ ہے۔میں نے پوچھا، ‘اگر لوگ کسی تنظیم میں گڑبڑی اور بدانتظامی دیکھتے ہیں، تو ان کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا ان کو اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے یا خاموش رہ جانا چاہیے؟ ‘
پہلے نے جواب دیا؛راجیندر جی، یاد رکھیے، پہلی چیز یہ ہے کہ آرگنائزیشن کو جھنجھوڑنے سے اچھا ہے، آرگنائزیشن کے حساب سے خود کو ‘ ایڈجسٹ ‘ کرنا۔ ‘ انہوں نے آگے بتایا کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، خود کو آرگنائزیشن کے حساب سے ڈھال لیتے ہیں۔ حال ہی میں اپنے شعبےمیں اعلیٰ عہدے پر ان کی تقرری کی گئی تھی۔دوسرے افسر کی صلاح تھی،اپنی مدت سے پورا کیجئے اور اگلے عہدے کے لئے ملنا-جلنا، گھیرابندی شروع کر دیجئے۔ مصلح بننے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے بھی آرگنائزیشن کا وجود تھا اور اور آپ کے بعد بھی اس کا وجود رہےگا۔ اس نظام کو چاپلوسوں کی ضرورت ہے، جو اپنے سینئر کا ‘خیال’رکھ سکیں۔ ‘
اگر اعلیٰ ترین افسروں کی سوچ اور کام کرنے کا یہ طریقہ ہے، تو پھر اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لیے ضمیر کی آوازیا نیت کہاں ہے اور پھر ہندوستان میں تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ زیادہ تر لوگ بڑے کرداروں کا خواب دیکھتے ہیں اور اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانے اور کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نبھانا ترجیح میں سب سے پیچھے ہے۔ یہ سب چھنکر نچلی سطحوں تک پہنچ گیا ہے، جس نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا ہے، جہاں لوگ اپنے بنیادی فرائض کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اونچے عہدوں تک پہنچتے ہیں۔
مجھے نیشنل ایجوکیشن پالیسی کمیٹی کے ممبر کے طور پر ہوئی گفتگو یاد آتی ہے۔ جو کوئی بھی ان پٹ دینے کے لئے آیا، اس نے فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے بارے میں بات کی اور اس کو اپنانے کی پرزور وکالت کی۔لیکن، جن لوگوں نے بھی یہ صلاح دی، ان میں سے کوئی بھی فن لینڈ کےتعلیمی نظام کی کامیابی کی حکومت نہیں بتا پائی۔ مجھے آخر میں یہ تبصرہ کرنا پڑا ‘ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کامیابی کے پیچھے وہاں کی عام تہذیب کا ہاتھ ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی چیز کے لئے پیسے ملتے ہیں، تو اس کو پورا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ‘
کیا ایسا ہمارے ملک میں بھی ہوتا ہے؟ ذراکہانی کے دوسرے پہلو کی طرف بھی دیکھیے۔ اگر آپ وہ کام کرتے ہیں، جس کے لئے آپ کو پیسے ملتے ہیں، اگر آپ سسٹم کو جھنجھوڑتے ہیں اور اس میں بڑی تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں یا بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، تو آپ کو یا تو الگ تھلگ کر دیا جائےگا یا آپ کا تبادلہ کر دیا جائےگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے خلاف جھوٹا معاملہ درج کر دیا جائے۔
یہاں نیشنل فاماسیوٹکلس پرائسنگ اتھارٹی کے سربراہ کے تبادلے کے معاملے کو لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اور کچھ نہیں، بس اپنا کام کیا تھا اور صنعت میں منافع خوری پر نکیل کسنے کی کوشش کی تھی۔یا پھر اس خاتون پولیس افسر کے معاملے کو لیجئے، جس نے بلندشہر میں آمدورفت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے لئے مقامی رہنماؤں پر کارروائی کی تھی اور اس کے انعام کے طور پر اس کا تبادلہ کر دیا گیا۔
یہ چیزیں خراب مثال پیش کرتی ہیں،ایڈمنسٹریشن کے اندر کے ایماندار اور بہادر لوگوں کو اس طرح پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو اس نظام کو چھوڑ دیتے ہیں یا ان کو حاشیے پر کر دیا جاتا ہے۔ آخر میں وہ یا تو جھک جاتے ہیں یا ہار مان لیتے ہیں۔زیادہ تر لوگ کسی جنون یا سروکار کے تحت نہیں، بلکہ بس ایک عدد تنخواہ کے لئے کام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی تنخواہ کو گنوانا نہیں چاہتے۔ وہ اس کی جگہ صورت حال کے مطابق خود کو ڈھال لینے (ایڈجسٹ کر لینے) میں ہی اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔
تیزی سے بڑھتی آبادی نے بھی اس میں رول ادا کیا ہے اور یہاں ایک اچھی مثال ہے 2015 میں اترپردیش حکومت نے 368 عہدوں کے لئے اسامی نکالی تھی اور 23 لاکھ لوگوں نے چپراسی کی نوکری کے لئے درخواست دیا، جس کے لئے اسکولی تعلیم اور سائیکل چلانے کی اہلیت مطلوب تھی۔امید واروں میں سے 1.5 لاکھ گریجویٹ، 25000 پوسٹ گریجویٹ اور 250 سے زیادہ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی)تھے۔ ہر عہدے کے لئے 6250 امید وار تھے اور ایسی بھیڑ میں کامیابی کا راستہ بدعنوانی سے ہوکر جاتا ہے۔ ظاہر ہے، جب آپ کسی نوکری کو پانے کے لئے پیسے خرچ کرتے ہیں، تو پیسے کمانے میں بھی آپ کو کوئی جھجک نہیں ہوگی۔
عدلیہ کی ناکامی کا بھی اس میں کردار ہے۔ یہ ایک ناکام نظام ہے، جس میں مجرم اور بدعنوان لوگ پناہ پاتے ہیں۔ یہاں ضمانت اور مہلت (بیل اور اسٹے) لے لینا آسان ہے، لیکن فیصلہ آسانی سے نہیں آتا۔ معاملے دہائیوں تک گھسٹتے رہتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غلط لوگ مزے میں رہتے ہیں اور صحیح لوگ پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔آخر ایسے لوگ کہاں ہیں، جن کی تقلید کی جا سکے؟ یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا بچہ ایک اچھا شہری بنے جو بہترین قدروں کے لئے آواز اٹھا سکے، تو آخر اس موجودہ نسل میں ایسےلوگ کہاں ہیں، جن کی طرف دیکھا جا سکتا ہے؟
دکھ کی بات ہے کہ آج جگاڑ ہی سچ ہے۔ ہم 21ویں صدی میں 19ویں صدی کے قابل تقلید لوگوں کی مثال کب تک دیتے رہیںگے؟یہاں یوپی کے جس معاملے پربات کی گئی، اس میں 23 لاکھ امید وار میں سے صرف 398 کو نوکری ملی، جن میں سے تمام برابر یا دوسرے سے زیادہ لائق تھے۔ باقی بچے ہوئے 2299632 امید وار کے لئے کیا کوئی اہتمام ہے؟
جب تک ہم بچے ہوئے لوگوں کے ذریعہ معاش کے سوال کا حل نہیں کھوج پائیںگے، تب تک ہمیں بھوکے پیٹ والوں کو نصیحت دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ذمہ داری ٹاپ پر بیٹھے لوگوں کی ہے اور حل ہر شہری کو فائدےمند روزگار مہیا کرانا ہے۔ سب سے بڑھکر ہر کام کرنے والے ہندوستانی کو فن لینڈ کی تہذیب کے ایک پہلو کو اپنانے کی ضرورت ہے ،جس چیز کے لئے آپ کو پیسے ملتے ہیں، وہ کام کرکے دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ‘اسی سے ہم ویسے قابل تقلید لوگوں (رول ماڈلس) کی امید کر سکتے ہیں، جو ایک نسل کو ترغیب دے سکیں، نہیں تو ہمیں سب سے برے کے لئے تیار رہنا چاہیے، جو ابھی آنے والا ہے۔
Categories: فکر و نظر