خبریں

جموں و کشمیر : آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کے ریپ والے ٹوئٹ پر ہوا ڈسپلنری ایکشن

2010 بیچ کے یو پی ایس سی کے ٹاپر فیصل نے ریپ  کے بڑھتے واقعات کو لےکر ایک ٹوئٹ کیا تھا، جس پر ان کو مرکزی حکومت کےڈپارمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ  (ڈی او پی ٹی) کے ذریعے نوٹس بھیجا گیا ہے۔ فیصل نے ٹوئٹر پر نوٹس شیئر  کرتے ہوئے لکھا کہ جمہوری‎ ہندوستان میں نوآبادیاتی رجحان سے بنائے اصولوں کے ذریعے اظہار  آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

شاہ فیصل (فوٹو بشکریہ : فیس بک / ٹوئٹر)

شاہ فیصل (فوٹو بشکریہ : فیس بک / ٹوئٹر)

نئی دہلی : 2010 بیچ کے یو پی ایس سی کے ٹاپر شاہ فیصل کو ریپ کے بڑھتے واقعات پر کیا گیا ایک ‘ طنزیہ ‘ ٹوئٹ بھاری پڑا ہے۔ اس ٹو ئٹ کی وجہ سے  مرکزی حکومت کے ڈپارمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ (ڈی او پی ٹی) کے کہنے پر جموں و کشمیر حکومت نے فیصل کے خلاف انضباطی کارروائی کی شروعات کر دی ہے۔ فیصل کو حکومت کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس میں جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ذریعے کہا گیا ہے، ‘ آپ مبینہ طور پر اپنی سرکاری ذمہ داریوں کو بنھانے  میں پوری ایمانداری اور وفاداری بنائے رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں اور ایک سرکاری ملازم کے طور پر یہ غیر مناسب رویہ  ہے۔ ‘ واضح  ہو کہ 22 اپریل کو فیصل نے ٹوئٹ کیا تھا،

‘ پدری نظام  + آبادی + ناخواندگی الکوہل  + پورن  + ٹیکنالوجی + انتشار = ریپستان! ‘

twitter-shah-faesal

حالانکہ یہ ابتک واضح نہیں ہے کہ یہ ٹوئٹ کس طرح سرکاری اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس میں ان کے ذریعے اس ٹوئٹ پر دئے گئے ایک جواب کا اسکرین شاٹ بھی ساتھ تھا۔

ان کے اس ٹوئٹ پر p7eiades @نے جواب میں وکی پیڈیا پیج کا ایک لنک دیا جس میں ‘ پورنوگرافی اور جنسی تشدد ‘ کے اثر کے بارے میں لکھا تھا۔ اس پر فیصل نے جواب میں ایک نیوز رپورٹ کا لنک پوسٹ کیا جس میں ایک پورن ایڈکٹ کے ذریعے ماں کا ریپ  کرنے کی خبر تھی، جس کو شیئر  کرتے ہوئے فیصل نے لکھا کہ تھیوری اور پرکٹیکل میں فرق ہوتا ہے۔

فیصل نے ان کو ملا یہ نوٹس سوشل میڈیا پر شیئر  کیا اور لکھا کہ جنوبی ایشیا میں ریپ  کے بڑھتے واقعات کے خلاف کئے گئے ایک طنزیہ ٹوئٹ کے خلاف میرے باس کی طرف سے لو لیٹر آیا ہے۔ یہی المیہ ہے کہ نوآبادیاتی رجحان سے بنائے گئے سروس  اصولوں کے ذریعے جمہوری‎ ہندوستان میں اپنے من کی بات کہنے کی آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

فیصل نے یہ بھی صاف کیا کہ وہ اس کو اس لئے شیئر  کر رہے ہیں کیونکہ وہ اصولوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ فیصل جموں و کشمیر حکومت کی سیاحت محکمہ میں کام کر رہے ہیں اور فی الحال ماسٹرس ڈگری کے لئے امریکہ میں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو تنقید کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ اس ٹوئٹ کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ اس تنازعہ کی وجہ سے  ان کی نوکری مشکل میں پڑ سکتی ہے، تب انہوں نے کہا، ‘ جس طرح کی بحث میں نے شروع کی ہے، وہ بڑی بات ہے۔ مجھے نوکری جانے کا ڈر نہیں ہے۔ دنیا امکانات سے بھری ہے۔ ‘

دی وائر سے بات کرتے ہوئے فیصل نے کہا، ‘ اس طرح کے قدم اخلاقی عمل کے اصولوں کی وجہ سے  اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا، جب کسی سرکاری ملازم کے طور پر  عمل نہ کیا ہو، دوسرا حکومت کی پالیسی کی تنقید پر۔ اب اس کا معنی کس طرح نکالا جا رہا ہے، یہ اس پر منحصر کرتا ہے۔ اگر ہم لوگوں کے اظہار کی آزادی کو عزت دینے پر سنجیدہ نہیں ہیں تو کسی بھی طرح کے عمل کو سرکاری ملازم کے عمل کے خلاف اور سرکاری پالیسی کی تنقید سمجھا جا سکتا ہے۔ ‘

ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ جب مرکز کے ذریعے آل انڈیا سول سروس ریگولیشن ،1969 کا حوالہ دیتے ہوئے کسی سرکاری افسر کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اسی سال فروری میں وزارت داخلہ  کے ذریعے آئی پی ایس افسر بسنت رتھ کو خطرناک طور پر سرکار کے تئیں تنقیدی کالم لکھنے کی وجہ سے ڈسپلن میں رہنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

حالاں کہ وزارت داخلہ کے سروس ریگولیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر افسر اپنے نجی خیالات کے طور پر کچھ لکھ رہے ہیں تو ان کے لکھنے پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔فیصل کہتے ہیں پرسنل اور پروفیشنل کے بیچ ایک باریک فرق ہوتا ہت ۔ہر بار جب ہم کچھ بولیں  تو یہ وارننگ دینا مشکل ہے کیوں کہ اس سے اس بات کے معنی نہیں رہیں گے ۔میرا کہنا ہے کہ کسی افسر کو سرکاری اور غیرسرکاری جیسے زمروںمیں نہیں بانٹا جا سکتا۔

فیصل مانتے ہیں کہ سرکاروں کو سرکاری ملازم سمیت سبھی طرح کی تنقید کے لیے تیار رہنا چاہیے۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ؛ہم ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جب بولنے کی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیا جارہا ہے ۔لیکن سرکاری ملازموں کے بولنے کی آزادی کے بارے میں شاید ہی کبھی بات ہوتی ہے ۔یہ ہمارے وقت کے خلاف ہے ۔سرکار کو سرکاری ملازموں سمیت ہر طرح کی تنقید کے لیے تیار رہنا چاہیے۔فیصل اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اگر کوئی فرد اپنے خیالات سے سماج میں تشدد نہیں پھیلا رہا ہے ،امن و سکون کے لیے خطرہ نہیں بن رہا تو اس کو بولنے کی آزادی ملنی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد سرکاری ملازمین‎ کے لئے اظہار کی آزادی کی کمی کو سامنے لانا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ سماج کا ایک بڑا طبقہ سرکاری ملازمین‎ کا ہے لیکن ہم عام طور پر اس کے بارے میں بات نہیں کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ ہے اور ملازمین‎ کو اس پر عمل کرنا ہے۔ میں اس ٹوئٹ کے ذریعے یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ملازم بھی اسی سماج سے آتا ہے۔ وہ بڑے اخلاقی مدعوں  سے الگ نہیں رہ سکتا ہے۔سرکاری ملازم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عام  چیزوں سے الگ رہے۔ میرا ماننا ہے کہ میں نے مناسب احتیاط کے ساتھ اظہار آزادی کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً میں نے کبھی بھی سرکاری پالیسی کی تنقید نہیں کی ہے۔ ‘

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے فیصل نے کہا کہ ریپ  حکومت کی پالیسی کا حصہ نہیں ہے کہ اس کی تنقید کرنے پر اس کو سرکاری پالیسی کی تنقید مانی جائے اور کارروائی کی جائے۔ اگر ایسا ہے تو میں مانتا ہوں کہ میں قصوروار ہوں۔ ‘

Omar-Abdullah-Shah-Faisal-Tweet

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ڈی او پی ٹی کے ذریعے فیصل کو نوٹس بھیجنے پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈی او پی ٹی شاہ فیصل کو سول سروسیز  سے نکال پھینکنے کے لئے مستحکم ہے۔ اس صفحہ کی آخری لائن میں فیصل کی وفاداری اور ایمانداری پر سوال حیرت انگیز   ہیں۔ ایک طنزیہ ٹوئٹ بےایمان کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ اس کو کس طرح کرپٹ  بناتا ہے؟