ایڈوائزری میں دو دن قبل جاری عدالتی حکم کی جھلک بھی تھی۔مگر جو ہوشیاری حکومت نےکی تھی کہ اس میں گئو رکشکوں ذکر نہیں تھا۔سارا زور صرف بچہ چوری کی افواہوں پر تھا،حیرت ہےکہ سپریم کورٹ نے حکومت کی اس ہوشیاری کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
سپریم کورٹ کا تازہ ترین فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعہ عدلیہ نے ماب لنچنگ اور ہیٹ کرائم کی روز افزوں وارداتوں کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور حکومت کی ذمہ داریاں طئے کی ہیں۔ ساتھ ہی گئو رکشکوں کے ذریعہ پھیلائی جا رہی دہشت اور تشدد کی وارداتوں کو “ناقابل قبول” کہا ہے۔ یہ ایک بڑی راحت ہے جو ایسے وقت میں آئی ہے جب بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی اور ریاستی سرکاریں نہ صرف یہ کہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نہیں نبھارہی ہیں بلکہ اکثرہجومی تشدد کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ یہی نہیں اپوزیشن پارٹیاں بھی کھل کر ایک مسلسل ظلم کے خلاف سامنے نہیں آرہی ہیں۔
چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے اس سلسلے میں الگ سے ایک قانون لائے جانے کا مشوره بھی دیا ہے جس کی افادیت سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا ہے مگر ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا کہ کیا واقعی ماب لنچنگ، اور ہیٹ کرائم جیسی اصطلاحات ہماری روزانہ کی بول چال کا حصّہ اس لئے بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس ایسے قوانین کا فقدان ہے جو قتل و غارت گری یا نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے سے قاصر ہیں۔
میڈیا میں بھی اس مشورے کو اس طرح اچھالا جا رہا ہے جیسے حکومت اس پر عمل کرتے ئے ایک نیا قانون لے آئے تو ملک میں گزشتہ چار سالوں سے جاری ماب لنچنگ اور ہیٹ کرائم کی دیگر وارداتیں یکسر قصہ پارینہ ہو جائیں گی۔ غور طلب ہے کہ ہمارے پاس قتل کے ملزم سے نپٹنے کے لئے دفعہ 302 موجود ہے۔ اسی طرح دفعہ 153 اے بھی موجود ہے جو رنگ و نسل، مذہب، زبان یا علاقے کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ سیاسی عزم کا ہے جو اہل اقتدار کے یہاں موجود نہیں۔ ایسے میں جو بھی قانون بنا لیا جائے ناکافی ہوگا۔
ججوں نے ماب لنچنگ کے واقعات کو ایک “ہولناک عمل” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ “موبوکریسی” یعنی ہجومی نظام پر قدغن لگانا اور نظم ونسق نافذ کرنا سرکار کا کام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ”خوف و ہراس اور بد نظمی کے حالات میں سرکار کو مثبت قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ تشدد کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ کوئی بھی شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ہے”۔ سپریم کورٹ نے خود ساختہ گئورکشکو ں کی زیادتیوں کو روکنے اور پر تشددواقعات کی روک تھام کے لئے کچھ ہدایات بھی جاری کیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے 4ہفتے کا وقت دیاہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں جاری فیصلے میں بھی عدالت عظمیٰ نے ان معاملوں کو لے کر سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا اور ریاستی سرکاروں کو نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام کے سلسلے میں نوٹس جاری کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ ہر ضلع میں ایک سینئر پولیس افسر کو “نوڈل افسر”کے طور پر تعینات کیا جائے جس کا کام گئو رکشکوں کی حرکتوں پر روک لگانا ہو۔
کئی مہینے گزر گئے۔کسی بھی ریاست نے نہ نوڈل افسر بحال کیا نہ ہی ماب لنچنگ کی وارداتوں پر روک لگانے کی کوئی کوشش کی۔ بلکہ یہ وارداتیں ایک وبا کی طرح ملک میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتی رہیں۔ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی اور کانگریسی لیڈر تحسین پوناوالا و دیگر نے اسی بنیاد پر توہین عدالت کی عرضداشتیں پیش کی تھیں ،جس کے جواب میں 3 جولائی کو سپریم کورٹ کے اسی تین رکنی بنچ نے ایک بار پھر سے ریاستوں کو نوٹس جاری کیا یہ کہتے ہوئے کہ اس طرح کے حادثات پر قابو پانا ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ لاء اینڈ آرڈرکامعاملہ ہے جو ریاست کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اُس دن عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا جو دو ہفتے بعد اب 17 جولائی کو آیا ہے۔
ہماری حکومتوں کو قانون اور عدلیہ کا کتنا پاس ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 3جولائی کو عدالتی احکامات کے دو دن بعد ہی مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی سرکاروں کو ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں ماب لنچنگ کی وارداتوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ سے کہا گیا کہ وہ افواہوں اور ماب لنچنگ کی واداتوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس کام کے لئے تمام ضلعی حکام کو ہدایت دی جائے کہ ان علاقوں کی نشان دہی کریں جہاں اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ عوام کے اندر بیداری پیدا کی جائے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں۔ ایڈوائزری میں افواہ پھیلانے والوں کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا تھا کہ کسی جگہ بچہ اٹھائے جانے کی کوئی واردات حقیقتاً پیش آئے تو فوراً اس کی انکوائری کی جائے اور قصورواروں کو کڑی سزا دی جائے۔
ایڈوائزری کو پڑھ کر ایسا لگا تھا کہ حکومت واقعی حرکت میں آگئی ہے۔ اس ایڈوائزری میں دو دن قبل جاری عدالتی حکم کی جھلک بھی نظر آرہی تھی۔ مگر جو ہوشیاری مرکزی حکومت نے کی تھی وہ بھی فوراً ہی ظاہر ہو گئی۔ اس ایڈوائزری میں گئو رکشکوں کا یا ان کے ذریعہ انجام دیے جانے والے ہیٹ کرائم اور ماب لنچنگ کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ سارا زور صرف بچہ چوری کی افواہوں پر تھا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ماب لنچنگ پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ حیرت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی اس ہوشیاری کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
غور کیا جائے تو بچہ چوری کی افواہ پر جمع بھیڑ اور گئو رکشکوں کے ذریعہ جمع کی گئی بھیڑ میں واضح فرق ہے۔اول الذکر کا تعلق ایک اچانک پیدا کئے گئے غصّہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ غیر منظم قسم کا جرم ہے جس میں چند شر پسند عناصر سوشل میڈیا کے ذریعہ دور افتادہ مقامات پر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کچھ مشتبہ افراد علاقہ میں گشت کر رہے ہیں جن کا کام بچہ اٹھا کر لے جانا ہے۔ اس اطلاع پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں اور جو بھی اجنبی انھیں ملتا ہے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ڈائن، چُڑیل یا بچہ چور کہہ کر کسی کی جان لینے کے چھُٹ پُٹ واقعات ملک میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں۔ یہ بات تحقیق طلب ہے گزشتہ دو سے تین ماہ میں اچانک اس میں اتنی شدّت کس طرح آگئی ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے مئی اور جون میں انجام دیے گئے ماب لنچنگ کے کل 16 واقعات کی تفصیل چھاپی ہے۔ ان میں اتر پردیش میں ہاپوڑ کے ایک واقعے کو چھوڑ کر سب کے سب بچہ چوری کی افواہ کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔
بچہ چوری کی افواہ کے برعکس گائے کے نام پر یا کسی مذہبی جلوس کے دوران کیا جانے والا تشدد ایک منظم جرم ہے کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے لئے بھیڑ کسی وقتی غصّہ کے نتیجے میں جمع ہو جاتی ہے بلکہ اس پر کافی محنت کی جاتی ہے۔ مسلمانوں، دیگر اقلیتوں یا دلتوں کے خلاف پہلے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں یا کوئی بہانہ تلاش کیا جاتا ہے۔ پھر ایک خاص طرح کا ماحول بنا کر ہندوؤں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں اور انھیں حملے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔عام طور پر ماب لنچنگ میں حصہ لینے والے افراد معروف تنظیموں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی حرکتوں پر شرمندہ نہیں ہوتے ہیں نہ ہی انھیں چھپاتے ہیں بلکہ اکثر واردات کے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور کس کی شہ پر کام کر رہے ہیں پوری دنیا کو پتا ہے۔
تشار گاندھی اور تحسین پونا والا کی عرضداشتیں اصلاً گئو رکشکوں کے تشدد سے متعلق تھیں جنہیں مرکزی حکومت نے تین جولائی کو سپریم کورٹ کی سفارشات کے باوجود اپنی ایڈوائزری میں نظر انداز کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج حکومت کے اس امتیازی رویہ کا نوٹس لیں گے۔ وہ منظم اور غیر منظم جرم کے فرق کو بھی اپنے سامنے رکھیں گے اور آئندہ کوئی ایسا فیصلہ سنائیں گے جس سے سماج کے کمزور طبقے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا صحیح معنوں میں ازالہ ہو سکے۔
Categories: فکر و نظر