اب صرف چند گھنٹوں کا انتظار اور! انتخابات کے نتائج یہ بات صاف کردیں گے کہ کیا اردو بولنے والے اب بھی اپنی پرانی سیاسی بساط پر تکیہ کریں یا اب وقت آگیا ہے کہ ایک نئی قیادت کو سامنے لانا ہوگا۔
تقسیم کے وقت ، ہندوستان کے وہ گھرانے جنہوں نے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا گھر بنایا، پہلے مہاجر، اور اب اردو بولنے والی کمیونٹی یا قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اردو بولنے والوں کی سب سے بڑی آبادی ، پاکستان کے سب سے بڑے شہر، کراچی میں بستی ہے۔حالانکہ حالیہ مردم شماری میں ان کی آبادی کا تناسب قدرے کم بتایا گیا ہے۔اس کی وجہ سے کراچی اور اسلام آباد میں کافی وبال بھی مچا۔ان سب کے باوجود، ملک کے باقی شہروں کے مقابلےکراچی میں اردو بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
تقسیم کے وقت،ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق، کراچی کی آبادی 7 لاکھ تھی۔ تقسیم کے بعد،شہر کی آبادی11 لاکھ تک جا پہنچی۔گزشتہ سال کی مردم شماری کے مطابق، کراچی کی آبادی 16 ملین ہے۔ مگر غیر سرکاری حلقے،اس تعداد کو کم بتاتے ہیں اور مانتے ہیں ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی 26 ملین تک جا پہنچی ہے۔ملک کی باقی قومیت کے مقابلے میں ، اردو بولنے والوں میں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ ملکی سیاسی اور انتظامی امور کی قیادت میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ ملک کے سربراہ ہونے سے لےکر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تک، اردو بولنے والوں نے اپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔
مگر آج اتنی مضبوط کمیونٹی سیاسی بحران کا شکار نظر آرہی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس زوال کا براہ راست تعلق، مہاجر قوم کی واحد سیاسی پارٹی کے بحران سے ہے۔متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) ، جو ابتدا میں مہاجر قومی مومنٹ کے نام سے جانی جاتی تھی،30 سال پہلے، اردو بولنے والوں یا مہاجر قوم کے سیاسی اور سماجی حقوق دلانے کے لئے میدان میں آئی۔ اس جماعت نے نہ صرف کراچی شہر میں کئی دہائیوں تک راج کیا بلکہ قومی اسمبلی میں بھی پاور بروکر کے نام سے جانی جاتی تھی۔
اس پارٹی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ملک کے جاگیردارانہ نظام کے برخلاف، اس نےمہاجر متوسط طبقے سے پڑھے لکھے سیاسی لیڈر قومی دھارے میں شامل کئے۔مگر2سال قبل، پارٹی کے بانی الطاف حسین کے ملک دشمن بیانات نے پارٹی کو کئی قانونی ، سیاسی اور اخلاقی مشکلات میں لا کھڑا کردیا۔ جس کی وجہ سے جماعت ، نہ صرف اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی بلکہ اُس کے خلاف سخت حکومتی کارروائی بھی ہوئی۔ان حالات میں یہ سوال کھڑا ہوا کہ کیا ایم کیو ایم کا بحران، اردو بولنے والی قوم کو بہت مہنگا پڑے گا؟ کیا اردو بولنے والوں کی اب کوئی سیاسی شناخت نہیں رہی؟مزے کی بات یہ ہے کہ اردو بولنے والے اس سیاسی بحران سے آگاہ تو ہیں مگر اب بھی وہ کوئی نیا رسک لینے کو تیار نہیں۔
فیصل سبزواری ، جو کہ ایم کیو ایم کے اہم نمائندہ ہیں، یہ بات مانتے ہیں کہ ان کی جماعت گذشتہ دو سال سے مختلف بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔ مگر ان سب کے باوجود، ان کا ووٹر اب بھی انکا ہی ہے۔یہ سچ ہے کہ ہماری جماعت کو دو سال میں بہت کچھ سہنا پڑا۔ مگر ہم نے خوب محنت کرکے اپنے اردو بولنے والے ووٹرز کا اعتماد قائم رکھا۔ آج بھی ہم فخر سے خود کو اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت کہتے ہیں۔
فیصل کا ماننا ہے کہ دوسری جماعتوں کی عدم حساسیت کراچی کے حوالے سے بالخصوص مہاجر قوم کے حوالے سے بہت واضح ہے۔کراچی وہ شہر ہے جس کو ملک کی باقی جماعتیں اس لئے توجہ نہیں دے پاتیں کیونکہ یہ ان کا حلقہ انتخاب نہیں بن پاتا ہے۔ لہذا وہ اس شہر اور یہاں کے رہنے والوں کے مسائل سے غیر تعلق رہتے ہیں۔
صارم برنی، جو کراچی کے جانے مانے سوشل ورکر ہیں کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر ایم کیو ایم، ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا ووٹر ختم ہوا ہے۔ایم کیو ایم ، آج بھی اردو بولنے والوں کے لئے زندہ ہے۔ اس بار بھی یہی لگتا ہے کہ وہ اسی کو ووٹ دیں گے۔ جیتنے کا تناسب شاید کم ہو مگر کراچی میں بسنے والے اردو ووٹر کی وفاداری ابھی تک اسی جماعت کے ساتھ ہے۔
ارم عظیم فاروقی، جو گزشتہ حکومت میں ممبر سندھ اسمبلی تھیں، اس کا الزام باقی قومی سیاسی پارٹیوں کو دیتی ہیں، جو اس خلا کو ُپر کرنے میں ناکام رہیں۔قومی سیاسی جماعتوں نے کبھی اردو بولنے والوں کو سیاسی طاقت نہیں سمجھا اور نہ ہی ان کوکبھی آگے لائی۔ دوسری طرف کراچی میں اردو بولنے والوں نے ایم کیو ایم کے آگے کسی اور جماعت کو گھاس نہیں ڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی قوم، آج سیاسی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔
خالد فرشوری کا ماننا ہے کہ کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں اردو بولنے والوں نے 30 سال سے اپنی سیاسی نمائندگی، ایم کیو ایم کے حوالے کردی ہے۔اردو بولنے والی مہاجر آبادی،ایم کیو ایم کو، اپنے سیاسی اور سماجی محرومیوں کا نجات دہندہ سمجھتی رہی ہے۔اور یہ ایک گھر میں ایک فرد کا معاملہ نہیں بلکہ لاکھوں گھرانوں اور ایک نہیں ، دو نسلوں کی سیاسی وفاداری کامعاملہ ہے۔ خالد یہ بھی کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے کسی اور جماعت نے کبھی کراچی پر محنت نہیں کی۔ کراچی میں مہاجروں کے مسائل کوکبھی کسی اور جماعت نے نہیں اپنایا۔ ایسی صورتحال میں اردو بولنے والے، کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اب بھی ایم کیو ایم کو ووٹ دیں۔
نصرت علی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے زوال نے مہاجر آبادی کو ایک مشکل میں کھڑا کردیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد کوئی ایسی جماعت نہیں جو اردو مہاجر آبادی کو سیاسی پہچان دے سکے یا اُن کے حقوق کے لئے کھڑی ہوسکے۔ لہذا ہمارے پاس کوئی اور جماعت یا لیڈر نہیں جس کو ہم اپنا نمائندہ کہہ سکیں۔ ایم کیو ایم جیسی بھی لنگڑی لولی ہے، اب بھی اردو بولنے والوں کو اپنی جماعت لگتی ہے۔ اور یہ بات اس انتخابات کے نتائج میں پھر ثابت ہوگی۔
اب صرف چند گھنٹوں کا انتظار اور! انتخابات کے نتائج یہ بات صاف کردیں گے کہ کیا اردو بولنے والے اب بھی اپنی پرانی سیاسی بساط پر تکیہ کریں یا اب وقت آگیا ہے کہ ایک نئی قیادت کو سامنے لانا ہوگا۔
Categories: فکر و نظر