کچھ لوگوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ شاہ بانو پر لیے گئے اسٹینڈنے کانگریس کو سیاسی طور پر کافی نقصان پہنچایا اوربی جےپی جیسی سیاسی جماعت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔
32 سال بعد شاہ بانو معاملے میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے ۔سابق وزیر ضیاء الرحمٰن انصاری کے بیٹےفصیح الرحمٰن نے اپنے والد پر لکھی کتاب میں یہ دعویٰ کیاہے کہ راجیو گاندھی نے وزیر انصاری کو شاہ بانومعاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرنے کو نہیں کہا تھا۔ الٹے انصاری نے راجیو گاندھی پر استعفیٰ دینے کا دباؤبنایا۔
فصیح الرحمٰن کی کتاب Wings of Destiny: Ziaur Rahman Ansari – A Life میں کہا گیا ہے کہ انصاری نےاپنی دینی حمیت کے چلتے شاہ بانو فیصلے کی مخالفت کی۔فصیح الرحمٰن نے سابق گورنر عزیز قریشی کو راجیو گاندھی اور انصاری کے بیچ ہی بات چیت کا گواہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ راجیو گاندھی نے انصاری کے جذبات کا احترام کرتے ہوے ان کو لوک سبھا میں شاہ بانو فیصلے کے خلاف بولنے دیا اور اپنے دوسرے وزیر عارف محمد خان سے بگاڑ مول لیا۔قریشی نے فصیح الرحمٰن کو بتایا کہ راجیو گاندھی نے انصاری کو کہا کہ آپ جیسے کانگریس کے خیر خواہ مسلمانوں میں کم بچے ہیں اور وہ ان کی بڑی قدر کرتے ہیں ۔فصیح الرحمٰن کی کتاب کا اجرا28 جولائی کو نئی دہلی میں ہے ۔
شاہ بانو کیس کا فیصلہ1985 میں آیا تھا جب سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے طلاق شدہ مسلم عورتوں کے لئے تا زندگی نان نفقے کا حق تسلیم کیا تھا اور شاہ بانو کے شوہر محمد احمد ایڈووکیٹ کو ہر مہینے نان نفقہ دینے کا حکم دیا تھا ۔راجیو گاندھی حکومت نے سال بھر کے اندر ہی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بدل دیا اور پارلیامنٹ میں ایک نیا بل پاس کرایا جس میں اسلامی شریعت کا لحاظ رکھا گیا۔ راجیو گاندھی کے اس فیصلے کی اکثریت فرقے اور روشن خیال مسلمانوں نے مخالفت کی تھی اور کانگریس کو آج بھی مسلم علماء و مذہبی شخصیتوں کے زیر اثر بتایا گیا۔کچھ لوگوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ شاہ بانو پر لیے گئے اسٹینڈنے کانگریس کو سیاسی طور پر کافی نقصان پہنچایا اوربی جےپی جیسی سیاسی جماعت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔
فصیح الرحمٰن نے اپنی کتاب میں کچھ دلچسپ باتیں پیش کی ہیں جوآج کے قارئین کو محظوظ کرے گا ۔اس کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ اس وقت چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے قرآن پاک کی کاپی حاصل کرنے کے لیے دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن کو فون کیا۔جبکہ قرآن پاک دہلی کے جامع مسجد ،نظام الدین جامعہ نگر و دیگر علاقوں میں باآسانی دستیاب ہو سکتا تھا۔ اسی طرح فصیح الرحمٰن نے بیان کیا ہے کہ کانگریس کی ایک برہمن لابی کملا پتی ترپاٹھی اور پرنب مکھرجی نے راجیو گاندھی کے شاہ بانو معاملے کی سخت تنقید کی ۔مکھرجی اور ترپاٹھی نہیں چاہتے تھے کی راجیو تحفظ شریعت کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں۔راجیو نے پرنب مکھرجی کو اگلے دن ہی پارٹی سے برخاست کر دیا۔
غورطلب ہے کہ تقریباً 2 سال پہلے سینئر آئی آے آیس افسر وجاہت حبیب الله نے دی ہندواخبار میں انکشاف کیا تھا کہ راجیو گاندھی کوشاہ بانو معاملے میں ایم جے اکبر نے تحفظ شریعت کی حمایت کرنے کو کہا تھا۔حبیب الله صاحب جو اس وقت پرائم منسٹر آفس میں ڈائریکٹر تھے اور اقلیتوں کے معاملے دیکھ رہے تھے ، انھوں نے راجیو گاندھی کے ساتھ میٹنگ کا پورا نقشہ کھینچا تھا۔حبیب الله صاحب نے لکھا کہ جب وہ راجیو گاندھی کے کمرے میں داخل ہوئے تو اکبر وہاں پہلے سے موجود تھے۔راجیو نے حبیب اللہ سے کہا کہ اکبر ان کے خاص ہیں اور پھر مسلم موقف کی شاہ بانو معاملے میں تائید کی بات کہی۔راجیو نے اکبر کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ کانگریس کو آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ ، مولانا علی میاں ندوی میں اور دیگر مسلم رہنماؤں کا ساتھ دینا چاہیے جس سے کانگریس کی ساکھ مسلمانوں میں اچھی ہوگی۔
انصاری مومن سماج کے ایک مضبوط لیڈر تھے اور ان کا ووٹرز پر کافی اثر تھا۔ انصاری نے نہ صرف لوک سبھا میں ایک بارتین تقریر کی بلکہ پارلیامنٹ کے باہر بھی مومن کانفرنس اور دوسری جماعتوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی۔مولانا علی میاں ندوی میں جو اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے سربراہ تھے، انصاری کے 9اکبر روڈ مکان پر شکریہ ادا کرنے گئے۔غور طلب ہے کہ ایم جے اکبر اس وقت ایک بڑے صحافی تھے۔وہ بعد میں کانگریس میں شامل ہوئے، ممبرآف پارلیامنٹ رہے ۔آج اکبر بی جےپی میں ہیں اور مودی سرکار میں وزیر۔جب حبیب الله نے ہندو اخبار میں لکھا تو اکبر کی طرف سے کوئی تردید نہیں آئی۔
Categories: فکر و نظر