خبریں

اکبر کے گاؤں سے گراؤنڈ رپورٹ: یقین و اعتماد کی ٹوٹتی سانسیں اور انصاف کی امید

اکبر خان اپنے گھر کے اکیلے کمانے والے تھے، اب ان کے 60 سال کے والد پر بیمار بہو، بزرگ بیوی، 7 پوتے پوتیوں اور 5 گایوں کی ذمہ داری ہے۔ بیٹے کی موت نے ان کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ وہ کسی پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہر ملنے آنے  والے سے بس یہی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی جگہ ہے جہاں انصاف کی فریاد کی جا سکے۔

ہریانہ کے میوات ضلع کا کول گاؤں/ فوٹو: دی وائر

ہریانہ کے میوات ضلع کا کول گاؤں/ فوٹو: دی وائر

بات گائے سے شروع کرتے ہیں اور ایک گاؤں پہنچتے ہیں۔گاؤں کا نام ہے کول گاؤں۔گائے پر  گفتگو اس لئے کیونکہ ملک کے سپریم کورٹ سے لےکر پارلیامنٹ  تک میں گائے پر بات ہو رہی ہے۔ اب آپ کا سوال ہوگا کول گاؤں کیوں؟ یہ کہاں ہے؟ اس کا انتخاب کیوں؟ تو شروعات میں ہی اس کا جواب دے دیتے ہیں۔ کول گاؤں ہریانہ کے میوات ضلع میں فیروزپور جھرکا کے تقریب ایک گاؤں ہے، جس کی سرحد پڑوسی ریاست راجستھان کے الور سے لگتی ہیں۔اراولی کی پہاڑیاں اس گاؤں کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ابھی اس کا انتخاب اس لئے کیونکہ گزشتہ ہفتہ الور کے رام گڑھ میں مبینہ گئورکشکوں کے ذریعے گئو تسکری  کے شک میں کی گئی مارپیٹ کے بعد قتل کیے گئے اکبر خان عرف رکبر یہیں کے رہنے والے تھے۔

کول گاؤں ہندوستان کے ان ہزاروں ابھاگے گاؤوں کی طرح ہے جہاں نام نہاد وکاس کا رتھ  نہیں پہنچا ہے۔ تعلیم، صحت سہولیات، پکے مکان، کھیل کا میدان، پینے کا صاف پانی، آب نکاسی کا انتظام جیسے پہلوؤں پر بات کریں‌گے تو شاید بات لمبی ہو جائے‌گی، صرف ایک لائن میں اس کو سمجھتے ہیں کہ یہاں اس کی بات کرنا بھی بےمعنی ہے کیونکہ سہولت کے نام پر یہاں پانی میں ڈوبی سڑکیں اور موبائل نیٹ ورک ہی ہیں۔

گاؤں میں تقریباً 700-600 فیملی رہتی  ہے۔ کچے پکے مکان بنے ہیں اور گاؤں والوں کے مطابق تقریباً 2000 گائے بھی اسی گاؤں میں رہتی ہیں۔ ہر گھر کے دروازے پر4-2 گائیں اور بھینسیں بندھی ہوئی مل جائیں‌گی۔ اب بات کول گاؤں میں رہنے والے اکبر کی… پوسٹ مارٹم کے بعد اکبر کو دفنا دیا گیا، لیکن تقریباً ہفتہ بھر بعد بھی ان کی بیوی اسمینہ کی حالت خراب ہی ہے۔ دلاسا دینے والے اور میڈیا کے لوگوں سے وہ بات نہیں کر پا رہی ہیں۔

کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے ان کو اسپتال  میں داخل  کرانا پڑا تھا، وہاں سے آنے کے بعد وہ نڈھال ہی ہیں۔ ڈاکٹر کو شاید اندازہ ہوگا کہ ان کو پھر واپس لانا پڑے‌گا اس لئے انہوں نے ہاتھوں پر سیرنج  کو ٹیپ سے چپکاکر چھوڑ دیا ہے۔ جب کوئی ان سے ملنے کی بات کرتا ہے تو ان کی ساس یعنی اکبر کی ماں بس دوپٹہ ہٹاکر ان کا منھ دکھا دیتی ہیں۔

بستر پر نڈھال پڑی اکبر کی بیوی اسمینہ اور ان کے بغل میں بیٹھی اکبر کی ماں حبیبن /(فوٹو: دی وائر)

بستر پر نڈھال پڑی اکبر کی بیوی اسمینہ اور ان کے بغل میں بیٹھی اکبر کی ماں حبیبن /(فوٹو: دی وائر)

جب اکبر کی ماں حبیبن سے بات کرنی چاہی اور حال چال پوچھا تو انہوں نے ہاتھ پکڑ‌کر اپنے پاس بیٹھا لیا لیکن بول نہیں پائیں۔ مسلسل  رونے کی وجہ سے ان کی آواز نہیں نکلتی۔ آہستہ سے پھسپھساتے ہوئے کہا، ‘ بہت غلط ہوا ہے ہمارے ساتھ۔ مجھے بہو کو بچانا ہے اور کچھ نہیں کہنا۔ ‘ لیکن جس طرح انہوں نے ہاتھ پکڑے رکھا اس کی گرفت الگ تھی۔ وہ ایک ڈرے ہوئے انسان کی گرفت تھی جو منھ سے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی یہ کہنا چاہتی تھی کہ نفرت کی وجہ سے  ہونے والی موت سے ان کو بخشا جائے۔ وہ ایک ایسا سہارا مانگ رہی تھیں کہ جو ہوا اس کو بھلانے کی طاقت ملے اور آگے کی زندگی سکون  سے گزار سکیں ۔

جس گھر میں یہ فیملی رہتی ہے، اس میں ایک کمرہ ہے۔تقریباً 10 فٹ لمبے  اور 12 فٹ چوڑے اس کمرے کے بغل میں چھپر  پڑی ہے جہاں پر وہ بیٹھی تھیں۔ اردگرد پڑوس اور رشتےداری کی عورتیں  اکٹھا تھیں۔ وہ کبھی اکبر کی ماں، تو کبھی ان کی بیوی کو دلاسا دے رہی تھی۔ ان کو دیکھ‌کر ایسا لگ رہا تھا کہ مانو  وہ بےسہارا فیملی کی رکھوالی کر رہی ہیں۔ سب کی آنکھیں نم  ہیں اور شاید اس بات کا غم بھی ہے کہ وہ سب اکٹھے ہوکر بھی اکبر کی فیملی کے لئے بہت کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔

ایسے ماحول میں آپ دیر تک بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔ آپ کو اندر ہی اندر ایک ڈر لگتا ہے کہ ایسی حالت میں اس ملک میں آپ کیا کر پائیں‌گے، جب بس آپ کی مذہبی پہچان کی وجہ سے آپ کو تشدد کا شکار بنایا جائے‌گا جبکہ یہ مذہبی پہچان چننے کی آزادی آپ کو نہیں ملی تھی۔ یہ پیدائش سے آپ کے ساتھ جڑ گئی اور اب آپ آسانی سے بدل نہیں سکتے ہیں۔ پہناوا بدل سکتے ہیں لیکن آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور باقی شناختی کارڈ سے اس کو نہیں چھپا سکتے۔ ایسے میں اکبر کی فیملی کی طرح اپنے آپ سے سوال پوچھیں‌گے کہ کیا آپ پرصرف اس لئے ظلم کیا جا سکتا ہے کہ آپ ‘ آپ ‘ ہیں!

اکبر کے بچے/ فوٹو: دی وائر

اکبر کے بچے/ فوٹو: دی وائر

اکبر کے کل 7 بچے  ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی تقریباً 11 سال کی ہوگی اور سب سے چھوٹا بچہ ایک سال کا ہے۔ فیملی پر آئی آفت کا ان کو اندازہ نہیں ہے۔ صبح سے کئی بار میڈیا والے ان کو اکٹھا کرکے فوٹو کھینچ چکے ہیں۔ ایک کمرے کا مکان، دو تین پھوس کی جھوپڑی اور پانچ گائیں اس فیملی کی کل جائیداد ہے۔ اکبر کے والد سلیمان کی عمر 60 سال کے قریب ہے۔ اتنے دنوں میں وہ خاموش ہو چکے ہیں۔ ان کے چہرے پر بیٹے کی موت کا غم ہے۔

بڑی تعداد میں لوگ ان سے ملنے آ رہے ہیں۔ وہ سب سے بس یہی پوچھ رہے ہیں کہ کیا کہیں کوئی جگہ ہے جہاں فریاد کی جا سکے۔ دیکھنے پر لگتا ہے کہ ان کے پاس نہ لڑنے کی بہت طاقت بچی ہے اور نہ ہی بہت غصہ بچا ہے۔ بیٹے کی موت  کا غم اور وجود کے تحفظ  کا سوال شاید ان کو کمزور بنا رہا ہے۔ جوان بیٹے کی موت کے بعد فیملی کو چلانے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے۔ وہ بس لوگوں کو سلام کرتے ہیں اور باقی کی بات پوچھنے کے لئے اکبر کے چچا زاد بھائی ہارون کو آگے بڑھا دیتے ہیں۔ان کو قانونی عمل سے ڈر لگتا ہے۔ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ بیٹے کی موت نے ان کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ کسی پر اعتماد نہیں کر پا رہے ہیں۔

نوح کے ڈسٹرک لیگل سروسیز  اتھارٹی سے ایک آدمی اکبر کا آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور بینک ڈٹیل لینے آیا تھا، جس سے فیملی کی مدد کی جا سکے تو وہ اس کو سرپنچ اور ملنے آئے لوگوں کے پاس لاکر کھڑا کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سمجھ‌کر بتائیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ایسے ہی راجستھان پولیس کے کچھ لوگ آکر ان سے پوچھ تاچھ کرتے ہیں اور ایک کاغذ پر انگوٹھا لگانے کو کہتے ہیں تو سلیمان وہ کاغذ لےکر بہت دیر تک گھومتے رہے کہ اس کاغذ میں لکھا کیا ہے؟ اور کیا ان کو اس پر دستخط کرنا چاہیے  یا نہیں؟ پھر پولیس والے کے زور دینے اور سرپنچ سمیت کئی لوگوں سے پوچھنے کے بعد وہ کاغذ پر انگوٹھا لگا دیتے ہیں۔

فی الحال اس ملک کی دھیمی پولیس اور جوڈیشیل پروسیس  اور ملزمین کے طاقت ور ہونے اور نام نہاد طور سے سرکاری تحفظ حاصل ہونے جیسی بات ہونے پر سلیمان جیسے لوگوں کو پوری طرح سے انصاف ملے‌گا، بس اس کی صرف امید ہی کی جا سکتی ہے۔ شاید اس کا جواب نہیں بھی ہو سکتا ہے۔

اکبر کے والد سلیمان (بائیں ہری پگڑی میں)اور چچا زاد بھائی ہارون(دائیں کالی قمیص میں)/فوٹو: دی وائر

اکبر کے والد سلیمان (بائیں ہری پگڑی میں)اور چچا زاد بھائی ہارون(دائیں کالی قمیص میں)/فوٹو: دی وائر

مانا جائے تو سلیمان کے ساتھ ایک نہیں دودو ریاستی حکومتیں ہیں۔ اکبر ہریانہ کے رہنے والے تھے اور ان کی موت راجستھان میں ہوئی ہے۔ لیکن یہ پوچھنے پر کہ کیا دونوں ریاستوں کے حکمراں جماعت کی طرف سے کوئی فیملی کا حال پوچھنے آیا، تو اکبر کے چچا زاد بھائی ہارون کہتے ہیں، ‘ نہیں۔ ابھی تک کسی بھی ریاست کا کوئی بھی حکمراں رہنما ہمارے گھر تک نہیں آیا ہے۔ یہاں تک کہ دونوں ضلعوں کے ڈی ایم، ایس پی یا کوئی دوسرا افسر بھی ہم سے نہیں ملنے آیا۔ ‘

اکبر سے جڑی کوئی بات بتانے یا اس کے کام کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہتے ہیں، ‘ ہم چاہتے ہیں کہ اکبر کو جس نے مارا ہے اس کو پھانسی دی جائے۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ گئو تسکری  ہمارے  بس کی بات نہیں ہے۔ اکبر کے پاس پانچ گائیں ہیں۔ وہ ان گایوں  کا دودھ بیچتا تھا۔مزدوری کرتا تھا اور کسی طرح اپنی فیملی کا پیٹ پالتا تھا۔ آپ پورے گاؤں میں کسی سے پوچھ لیجئے۔کوئی اس کو لےکر برا نہیں بولے‌گا۔ ابھی اس نے کافی دنوں سے پیسہ اکٹھا کرکے 60 ہزار روپے  میں دو گائیں خریدی تھیں۔ اب گائے بھی گئی اور پیسہ بھی۔ ‘

اس پورے معاملے میں پولیس کے  کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ پولیس کے کردار کے بارے میں پوچھے جانے پر ہارون کہتے ہیں، ‘ ہم پولیس پر کیا سوال اٹھائیں، ہمیں تو لگتا ہے کہ مبینہ گئورکشکوں نے یہ سب کیا ہے۔ انہوں نے اس کو پہلے ہی بری طرح سے پیٹ دیا تھا۔اس کے دونوں پیروں کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں، اس کے ہاتھ بھی توڑے گئے تھے۔ سینہ کی پسلی ٹوٹی تھی اور گردن کو مروڑ دیا گیا تھا۔ یہ کئی لوگوں کا کام تھا۔پولیس سے زیادہ اس میں وشو ہندو پریشد  کے نول کشور شرما کے لوگوں کا رول  ہے۔ اب پولیس نے کچھ لوگوں کو پکڑا ہے لیکن بہت سارے لوگ باہر ہیں۔اس کی جانچ  ہونی چاہیے ۔ ‘

اس گاؤں کے 80 فیصد لوگ مویشی پالتے  ہیں اور گاؤں کی تقریباً 80 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہی ہے۔ سبھی  اپنے کو میو مسلمان کہتے ہیں۔ گاؤں کے ہی ایک بزرگ عمر کہتے ہیں، ‘ اس گاؤں میں لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ دو چار فیملیوں کو چھوڑ‌کر سرکاری نوکری کسی کے پاس نہیں ہے۔ سب کھیتی باڑی  کرتے ہیں۔ گاؤں کے بغل میں جنگل ہیں اس لئے گائے بھینس پالنے میں سہولت ہوتی ہے۔ ان کو وہاں چرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ گائے کو پالنے کا خرچا کم ہوتا ہے اور سستے میں مل جاتی ہے۔ بھینسوں کو پالنے میں خرچا زیادہ آتا ہے، اس کی خریداری بھی مہنگی ہے۔ ایک دودھارو بھینس ایک ڈیڑھ لاکھ سے کم میں نہیں ملتی جبکہ گائے آسانی سے 40 سے 50 ہزار میں آ جاتی ہے۔ کم خرچ کی وجہ سے ہی میوات کے علاقے میں گایوں  کو پالنے کا چلن ہے۔ ‘

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ راجستھان سے گائے کے  خریدنے کی جہاں تک بات ہے تو جہاں سے جس کو گائے سستی ملتی ہے وہاں سے خرید لیتے ہیں۔ اب الور غیرملک میں تو ہے نہیں، اس گاؤں کے سامنے جو پہاڑی دکھ رہی ہے وہ الور ہے۔ ہم وہاں گائے خریدنے نہیں جائیں‌گے تو کہاں جائیں‌گے۔ یہاں سے رام گڑھ بہت نزدیک  ہے۔ ہم اپنے روز مرہ کا سامان بھی وہیں سے خریدتے ہیں۔ ‘

اکبر کا مکان/فوٹو: دی وائر

اکبر کا مکان/فوٹو: دی وائر

فی الحال گاؤں کے لوگ گایوں  کو لےکر اب محتاط ہیں۔ ایک بڑا حادثہ ہونے کے بعد اب ان کو اپنی روزی روٹی کا بحران دکھ رہا ہے۔ اگر گائے نہیں پالیں‌گے تو گھر کیسے چلے‌گا، یہ فکر سب کو ستا رہی ہے۔ ویسے زیادہ تر لوگوں کو اس کے پیچھے ایک چالاک سیاست نظر آ رہی ہے۔ گاؤں پہنچے سماجی کارکن سوائی سنگھ اس پر تفصیل سے بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ یہ مبینہ گئورکشک خودکار پہرےدار ہیں۔ اور ان سے نپٹنے کے لئے قانونی اہتمام ہیں۔ان کے سپورٹ کے لئے کوئی قانون نہیں ہے، لیکن ہم ان کا کیا کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنی سیاست چلانے کے لئے عام لوگوں کو ان جماعتوں  کے  حوالے کر دیا ہے۔ ‘

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ ویسے بھی یہ لوگ گئورکشک نہیں ہیں ، چوتھ کی وصولی کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر ان کو پیسہ مل گیا تو ہندو ہو یا مسلمان گائے لے جا سکتا ہے لیکن اگر نہیں ملا اور آپ مسلمان ہیں تو آپ کو گئو تسکر  بتا دیں گے۔ ویسے بھی ان کو اگر گایوں  کی اتنی پرواہ ہوتی تو جئے پور کے ہنگونیا میں ہزاروں گائیں گئوشالہ میں مر گئیں۔ یہ گئو رکشک اس کو بچا لیتے۔ فی الحال ایسا کام کرکے یہ مسلمانوں کو نہیں، ہندو مذہب کو بدنام کر رہے ہیں۔ ‘

سوائی سنگھ آگے کہتے ہیں، ‘ آپ اس پورے علاقے میں گھوم آئیں۔اس علاقے میں ہندوؤں سے زیادہ مسلمان گائے پالتے ہیں۔ میو مسلمانوں کے یہاں آپ کو راٹھی اور تھارپارکر نسل کی بہترین گائیں مل جائیں‌گی، لیکن ووٹ کی سیاست کی وجہ سے  آپ نے ایک کمیونٹی کو اتنا خوف زدہ کر دیا ہے کہ وہ گائے کا نام لینے سے ڈر رہی  ہے۔ ‘ اس پورے علاقے میں اقتصادی پسماندگی ، بےروزگاری، صحت سہولیات کی کمی، خراب سڑکیں جیسے مسائل ہیں لیکن آپ کو اس پر بات کرتا ہوا کوئی نہیں دکھائی دے‌گا۔ اس علاقے میں ووٹ کی سیاست نے ساری بحث ہندو مسلمان، گائے اور گئو تسکر ، گئورکشکوں پر مرکوز کر دی ہے۔

فیروز پور جھرکا سے کول گاؤں جاتے وقت راستے میں ایسے ہی 25-20 گایوں کے ساتھ مسلم گائے پالنے والے دکھ جائیں گے/ فوٹو: دی وائر

فیروز پور جھرکا سے کول گاؤں جاتے وقت راستے میں ایسے ہی 25-20 گایوں کے ساتھ مسلم گائے پالنے والے دکھ جائیں گے/ فوٹو: دی وائر

عوام کی اس حالت  پر مشہور طنز  و مزاح نگار ہری شنکر پرسائی یاد آتے ہیں۔ ‘ ایک گئو بھکت سے بھینٹ  ‘ عنوان سے لکھے اپنے مضمون میں وہ ایک مکالمہ کے ذریعے  اس پر  جم کر طنز کرتے  ہیں۔

‘ سوامی جی، جہاں تک میں جانتا ہوں، عوام کے من  میں اس وقت گئو رکشا نہیں ہے، مہنگائی اور اقتصادی استحصال ہے۔عوام مہنگائی کے خلاف آندولن  کرتی  ہے ۔ وہ تنخواہ اور مہنگائی بھتہ بڑھوانے کے لئے ہڑتال کرتی  ہے ۔ عوام اقتصادی انصاف کے لئے لڑ رہی  ہے  اور ادھر آپ گئو رکشا   آندولن  لےکر بیٹھ گئے ہیں۔ اس میں تُک  کیا ہے؟

بچہ، اس میں تُک  ہے۔ دیکھو، عوام جب اقتصادی انصاف کی مانگ کرتی ہے، تب اس کو کسی دوسری چیز میں الجھا دینا چاہیے ، نہیں تو وہ خطرناک ہو جاتی ہے ۔ عوام کہتی ہے ہماری مانگ ہے مہنگائی بند ہو، منافع خوری بند ہو، تنخواہ بڑھے، استحصال بند ہو، تب ہم اس سے کہتے ہیں کہ نہیں، تمہاری بنیادی مانگ گئورکشا ہے۔ بچہ، اقتصادی انقلاب کی طرف بڑھتی  عوام کو ہم راستے میں ہی گائے کے کھونٹے  سے باندھ دیتے ہیں۔ یہ آندولن  عوام کو الجھائے رکھنے کے لئے ہے۔ ‘

فی الحال اکبر کی موت کے معاملے میں جو سیاسی پیغام دیا جا رہا ہے، وہ فیملی کو اور ناامید کرنے والا ہے۔لنچنگ کے پچھلے کئی واقعات سے سبق نہ لیتے ہوئے جس غیرحساسیت کا ثبوت دیتے ہوئے نئے نئے بیان دیے  جا رہے ہیں ان کو صرف افسوس ناک  بتایا جا سکتا ہے۔

اس علاقے میں بھی نہ صرف مسلمانوں کو پیٹا اور جان سے مارا جا رہا ہے، ان کو ان کی ہی موت کا اخلاقی قصور وار  بھی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ان سب کے باوجود یہاں کے مقامی لوگ مانتے ہیں کہ یہاں ہندو مسلم یکجہتی ہے۔ سیاست داں صرف اس کو خراب کرکے ان کو ووٹ بینک میں باٹنا چاہتے ہیں۔ جب ہم اکبر کے گھر سے نکلنے لگے تو ایک گائے کھونٹے  کو توڑ‌کر بھاگنے لگی۔اکبر کی بڑی بیٹی اس کو پکڑ‌کر دوسرے کھونٹے  سے باندھ دیتی ہے۔ اب ملک کی  عوام کو بھی چاہیے  کہ رہنما جب ہندو مسلمان اور گائے کی سیاست کا کھونٹا پکڑ‌کر اسی کے ارد گرد گھومیں، تو پکڑ‌کر ان کو تعلیم اور روزگار کے کھونٹے پر باندھ دیں۔