منسٹری آف وومینز اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کی اسٹڈی ‘چائلڈ ایبیوز ان انڈیا’کے مطابق ہندوستان میں 53.22 فیصد بچوں کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ طرح کی جنسی بد سلوکی اور زیادتی ہوئی ہے۔ ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے گھر میں بچوں کا جنسی استحصال نہیں ہوا؟
اگر ہمیں اس دنیا میں حقیقی امن و امان حاصل کرنا ہے اور اگر ہمیں جنگ کے خلاف سچ مچ جنگ کرنا ہے، تو ہمیں اپنے کام کا آغاز بچوں سے کرنا ہوگا۔ (میرے سپنوں کا بھارت ،ص:257)
غالباً گاندھی جی بہت پرامیدتھے کہ آزادی کے بعد ہندوستان اصل میں آزاد ہونے کی ذمہ داری نبھا پائےگا۔ ذمہ داری کو نبھانےمیں ہندوستان بچوں کا تحفظ کر پائےگا اور ایک بہتر ہندوستان بنےگا۔ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہندوستان سات دہائیوں بعد ہی تشدد، جنسی استحصال اور بد سلوکی کے ہتھیار کو لےکر اپنے بچوں کے ہی خلاف جنگ چھیڑ دےگا۔
جب بار بار چیخ چیخ کر ہمارے سماج اور سیاست کے نمائندہ یہ بات کہتے ہیں کہ ہندوستان بہت عظیم ملک ہے، ہندوستان وشو گرو ہے، ہندوستان سپر پاور ہے، ہندوستان کا ایک طبقہ اعلی ترین ہے، تب حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے رہنماؤں کا گروپ بچوں اور خواتین کے خلاف چھڑی ہوئی جنگ، ان کے ساتھ ہو رہے تشدد، ریپ اور برے برتاؤ کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ہماری سیاست میں بچوں کے حق کی سیاست نہیں ہے، کیونکہ اس کی سوچکے مطابق بچے سرمایہ نہیں ہوتے ہیں۔ان جملوں میں کوئی سوالیہ نشان نہیں لگا ہے۔ یہ سبھی دو ٹوک بیان ہیں۔ احساس اور ذمہ داری کے نام پر چلائے جانے والے یتیم خانہ (تمل ناڈو معاملہ) میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال ہوتا ہے۔ کبھی کٹھوعہ ہو جاتا ہے، پھر مندسور ہو جاتا ہے۔ پھر دیوریا اور مظفرپور ہو جاتا ہے۔
بڑے پیمانے پر بچوں کے خلاف ہو رہے وحشیانہ تشدد کو ایک ایک واقعہ کے طور میں دیکھا جاتا ہے اور ہر واقعہ پر موم بتی تحریک ہوتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ 21ویں صدی سے پہلے سولہ سالوں (سال 2001 سے 2016 تک)میں ہندوستان میں 109065 بچوں نے خودکشی کی ہے۔ 153701 بچوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ 249383 بچوں کا اغوا ہوا ہے۔ جو مہذب سماج ہونے کی بیماری سے متاثر ہے، اسی سماج میں اسکولی امتحان میں ناکام ہونے کی وجہ سے 34525 بچے خودکشی کر سکتے ہیں۔ یہ وہ معاملے ہیں، جو درج ہوئے ہیں۔
ان سے کئی گنا زیادہ ریپ، استحصال اور بچوں سے جرم کے معاملے تو درج ہی نہیں ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچوں کی وزارت ترقی کا مطالعہ ‘چائلڈ ایبیوز ان انڈیا ‘کے مطابق ہندوستان میں 53.22 فیصد بچوں کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ طرح کی جنسی بد سلوکی اور ایذا دہی ہوئی ہے۔ ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے گھر میں بچوں کا جنسی استحصال نہیں ہوا؟
کسی بھی سماج کا اصل کردار کا تعین بچوں کے ساتھ کئے جانے والے برتاؤ سے ہی ہو سکتا ہے۔ ہمارا برتاؤ بتا رہا ہے کہ ہندوستان کا سماج وحشیانہ عمل کے ساتھ بدتمیزی کے نئے مقام کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہاں 95 فیصد معاملوں میں رشتہ دار اور آشنا ہی بچوں کو اپنی شہوانی محرومی کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ان کو نئی شکلوں میں مذہب اور روایت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہ بولیں نہیں!جب رشتہ دار ہی ریپ کرتے ہیں، تب بھی رشتہ دار ہی طے کر لیتے ہیں کہ مجرم کو سزا ملے یا نہیں! رشتہ داروں کو لگتا ہے کہ اگر قانونی کارروائی ہوگی تو ‘ان کا کنبہ ‘ کا وقار دھندلا ہوگا، یقین کرو کہ بچوں سے ریپ کرکے ان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
تعلیمی مراکز، گھروں، کھیلکے میدانوں سے لےکر اب چائلڈ پروٹیکشن اور دیکھ بھال کے لئے بنے اداروں میں بھی بچے جنسی استحصال اورریپ کے شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ تمام شیلٹر ہوم یا اداروں میں تو ایسا نہیں ہو رہا ہے، پر کیا یہ دعویٰ قابل اعتماد ہوگا؟ جب جڑوں میں زہر ڈالا جا رہا ہے، تو تنے کب تک اس کے اثر سے بچے رہ پائیںگے!لیکن ہماری انتظامیہ ، ہماری حکومتیں، ہماری عدلیہ، سیاست اور حکومت، کوئی بھی ان وجہوں پر سے پردہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے، جو بچوں کو ان حالات میں لا رہے ہیں۔بازار کو حاکمیت دینے والی اقتصادی ترقی کی پالیسیاں اندر ہی اندر سماج سے ہمدردی کے احساس کو چرا لیتی ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ فی الحقیقت ہندوستان کے سماج میں بچوں کو ایک الگ اکائی کے طور پر دیکھااور قبول نہیں گیا ہے۔
کہا ہی یہی جاتا ہے کہ بچوں کی عمر ماں،دادی یا بزرگوں کے سامنے بھلےہی بڑھ جائے، پر وہ رہتے بچے ہی ہیں۔یورپ یا شمالی دنیا میں بچوں کو بہت ہی کم عمر میں ایک آزاد اکائی مانا جانے لگتا ہے، اسی لئے اس کے گھر میں اکیلے رہنا یا اپنے لئے خود کوئی کام ڈھونڈنا یا کرنا، چونکاتا نہیں ہے، لیکن ہندوستان میں بچے سماج اور فیملی کے تحفظ میں رہے ہیں۔ہماری اقتصادی ترقی کی پالیسیوں نے سماج اور فیملیوں کے لئے اقتصادی ترقی کے عمل میں صرف ایک ہی اختیار چھوڑا ہے کہ فیملی کے ہر آدمی کو ‘انکم آمدنی ‘ کے لئے جٹنا ہی ہوگا۔ ٹکراؤ بڑھے اور جوائنٹ فیملی سنگل فیملی میں بدلنے لگے۔
یعنی فیملی، جو سب سے اہم بچہ تحفظ مرکز ہوتا تھا، وہ مرکز ٹوٹ گیا۔ ان بدلتی حالات میں سماج اور حکومت نے یہ اندازہ کیا ہی نہیں کہ نئے ماحولیات میں بچوں کے تحفظ کا انتظام کیا ہوگا؟شاید گاندھی نے بھی یہ تصور نہیں کیا ہوگا کہ ہندوستان جب ترقی یافتہ ہو جائےگا، تب اس ہندوستان کے دو تہائی بچوں کو باقاعدگی سے ماں کا دودھ بھی نصیب نہ ہوگا۔ انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ 90 فیصدی بچے اوپری غذا نہیں پائیںگے۔ پیدا ہونے کے بعد بچوں کو سب سے پہلا سبق بھوک کے ساتھ زندگی جینے کے طریقے کے طور پر سیکھنا ہوگا۔
اقتدار پر کنٹرول کی توقع سماج کے کچھ طبقوں میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ اس اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ مذہبی ٹکراؤ اور فرقہ پرستی کو بنایا گیا۔ یہ ذریعہ صرف فسادات کا ہی انعقاد نہیں کرتا ہے، بلکہ ہرایک آدمی کے اندر تشدد اور تلخی کا زہریلا بیج بو دیتا ہے۔نوآبادیاتی باشندوں کی پالیسیوں کی توسیع آزاد ہندوستان میں، ہندوستان کے رہنماؤں نے ہی اور ہندوستان کی علامتوں کے ذریعے کر دی ہے یعنی پھوٹ ڈالو، عدم مساوات کی کھائی کو گہرا کرو اور وسائل پر اجارہ داری قائم کرو۔
شروعاتی لمحوں میں اقتصادی ترقی نے کچھ خوشنما خواب دکھائے، پر بعد میں زندگی کو بچائے رکھنے کی جدو جہد ہی سماج کے سامنے اتنی بڑی ہو گئی کہ بچے حاشیے پر چلے گئے۔ ہندوستان کی اقتصادی پالیسیوں نے فیملی کو بھی سخت بنا دیا۔اسکول کے وزنی بستے کے بوجھ سے جھکے جا رہے بچوں کی تکلیف پر بھی وہ خاموش رہتا ہے اور ریپ ہونے پر بھی، کہیں آپ بچوں کے استحصال کو ترقی کے لئے انتہائی ضروری تو نہیں ماننے لگے ہیں؟
کٹھوعہ میں ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ ایسا عمل ہوا کہ درندگی بھی شرمندہ ہو جائے، سب کچھ سامنے ہے لیکن حکومت، سیاست اور عدالت کو صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔مذہبی سیاست نے نئے معیارات گڑھنا شروع کر دئے ہیں۔ اب یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ جنسی تشدد کا شکار بچہ کس مذہب کا ہے اور استحصال یا ریپ کرنے والا کس مذہب کا ہے!اب مذہب کی بنیاد پر طے ہوگا کہ بچے کو انصاف ملےگا یا نہیں!
کیا یہ اشارہ نہیں ہے کہ بچوں کے خلاف جنگ چھڑ گئی ہے؟ بھوپال میں ایک بچی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا، اس پر سیاسی نمائندوں نے کہا کہ لڑکیوں کو دیر شام باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے۔ ان کا تجزیہ تھا کہ جسم کو نمایاں کرنے والے اور نمائشی لباس سے اس طرح کے ‘ عمل کو دعوت نامہ ‘ ملتا ہے۔ بہر حال وہ ہی بتا پائیںگے کہ 8 مہینے کی بچی کے ساتھ ریپ کے معاملے میں کون سا عوامل ہو سکتے ہیں؟ مذہبی شدت پسندی کی سیاست میں بچوں کا استحصال ایک موجودہ سرگرمی ہوتی ہے۔
اس ترقی نے ہمیں لہروں کے ذریعے ابلاغ کرنے کی تکنیک بھی دی ہے۔ جس کو آپ انٹرنیٹ کہتے ہیں۔ پورے انٹرنیٹ پر دستیاب سامان میں سے 14 فیصد سامان پورن ہے یعنی 43 لاکھ ویب سائٹس پر پورن مواد ہے۔ ہر 34 منٹ میں ایک پورن فلم تیار ہوتی ہے۔سال 2016 میں 4.6 ارب گھنٹوں میں 92 ارب پورن ویڈیو دیکھے گئے۔ہرایک سیکنڈ میں پورنوگرافی پر 2.09 لاکھ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ جب ہم ڈیجیٹل انڈیا کی بات کر رہے ہیں، تب ہم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو پورن موادبانٹا جا رہا ہے، اس پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔
اب ہزاروں ایسے ثبوت دستیاب ہیں، جو یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال کو ترغیب دینے والا ایک بڑا ذریعہ پورن موادہے۔تازہ تخمینہ کے مطابق پورنوگرافی کا بازار 101 بلین ڈالر (6.7 لاکھ کروڑ روپے)کے برابر ہے۔خود اندازہ لگائیے کہ کیا بنا ہمت کئے، بچوں کے حق میں کھڑے ہوئے بنا، اس کو منضبط کیا جا سکتا ہے؟ ہماری حکومتیں اس معاملے میں بےرخی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ان تناظر کو دھیان میں رکھکر سوچیے اور بحث کیجئے کہ بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لئے بنے قانون (پاکسو-2012،) بچوں کی شادی سے متعلق روک تھام قانون، بچہ مزدوری روکنے والے قانون کے علاوہ بچوں کو باعزت زندگی دینے والے اصولوں کی عمل آوری میں وابستگی کیسے آئےگی؟
سب سے پہلا پوائنٹ تو یہی ہے کہ جب رشتہ دار، والد، بھائی، استاد، رشتہ دار کا استحصال کر رہے ہیں، تب بچوں کو ان کے ذریعے کئے جانے والے استحصال کو سامنے لانے کی آزادی دینی ہوگی۔ اصل میں ہمیں اپنی اس روایت کو اب بدلنا ہوگا، جس میں بچوں کو بڑوں پر سوال نہ کرنے کی نصیحت دی جاتی رہی ہے۔مذہب کے نام پر بنے اداروں میں پنپ رہے استحصال کو قبول کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی جمہوریت کے ڈھانچے میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے لئے ایک انتظامیہ کو منتخب کرنے میں ان 50 کروڑ شہریوں کی حصہ داری متعین ہو سکے، جن کو ہم بچہ کہتے ہیں۔
اس کے بعد یہ مسئلہ آئےگا کہ دیکھ ریکھ اور تحفظ کے لئے ضرورت مند بچوں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے بچوں کے لئے بنے اداروں کا جاری عمل، انتظامیہ اور نگرانی کا انتظام کیسا ہونا چاہیے؟مئی 2017 میں مہابلی پورم (تمل ناڈو) میں یتیم خانہ میں بچوں کے ساتھ استحصال کے معاملے سامنے آنے کے بعد عدالت عظمیٰ نے یہ پایا کہ ہندوستان میں بچوں کے تحفظ اور دیکھ ریکھ کے لئے ڈھیر سارے ادارے، مرکز اور شیلٹر ہوم ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایسے تمام اداروں کا رجسٹریشن ہو، ان کی نگرانی اور سماجی جانچ (سوشل آڈٹ) کا پختہ انتظام بنے۔ نیشنل کمیشن آف پروٹیکشن فار چائلڈ رائٹس کو سوشل آڈٹ کی پروسیسنگ پر عملدرآمد کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ایک سال بعد پتا چلا کہ کئی ریاستوں نے چائلڈ شیلٹر ہوم اور اداروں نے سوشل آڈٹ کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔تب عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ سنگین ہے اور کچھ نہ کچھ چھپایا جا رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد ہی مظفرپور کا معاملہ سامنے آ گیا۔ مظفرپور اکیلا نہیں ہے۔ مظفرپور ہرجگہ ہے۔
سپریم کورٹ کی دخل اندازی سے ان شیلٹروں کے سوشل آڈٹ کی بات آگے بڑھی ہے، نہیں تو ریاست اور مرکز ی حکومتیں کسی بھی قیمت پر فصیل میں بسی ہوئی جہنمی دنیا کو جگ ظاہر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ ابھی بھی یہ سوچنا باقی ہے کہ آخر یہ سوشل آڈٹ ہوگا کیسے؟ کون کرےگا؟اصول یہ کہتا ہے کہ ہر چائلڈ شیلٹرہوم میں تربیت یافتہ صلاح کار ہوناچاہیے اور بچوں کے لئے اپنی بات کہنے کے لئے جگہ بنائی جانی چاہیے، سچائی یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادہ تر اداروں میں بچے دہشت کے درمیان رہتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جذباتی دباؤ میں دبے رہتے ہیں۔
اصل میں سوشل آڈٹ کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ بچوں کے ساتھ مختلف سطحوں پر نفسیاتی طریقوں کی بنیاد پر باقاعدہ بات چیت ہو۔ مظفرپور کے تجربے کے بعد ملک کے کئی مراکز میں زمین کو بھی کھودکر دیکھنا ہوگا۔ بہت بڑاخدشہ ہے کہ کئی بچوں کی لاشیں دیکھنے کے لئے ہمیں تیار ہونا پڑے!اس عمل میں ماہرین کے ساتھ ساتھ سماج کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ان اداروں کی نگرانی اور تجزیہ کرنے کی قانونی ذمہ داری قانون کے مطابق چائلڈ ویلفیئر کمیٹی (سی ڈبلیو سی سی)اورڈسٹرکٹ چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی کی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی میں زیادہ تر حکمراں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور ذاتی مفاد حاصل کرنے کی منشاء رکھنے والے لوگوں کی تقرر کی جاتی رہی ہے۔
مدھیہ پردیش میں ان کمیٹیوں میں 76 ممبر ایسے ہیں، جو وکالت کرتے ہیں، یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں یا جن کی طےشدہ تعلیمی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جب حکومت اس طرح کا سمجھوتہ کرتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود ‘ بچوں کے مفادات کے خلاف اور احساس زیرو ‘ہے۔ غالباً باخبر تفتیش سے یہ بھی ظاہر ہو پائےگا کہ چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی بھی بچوں کے کاروبار میں منسلک ہیں۔خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے ذریعے دئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کل 8631 بچوں کی دیکھ ریکھ کے لیےادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 1522 ادارے طےشدہ قانون کے تحت رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، یعنی وہاں چل رہی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ خاص اتاپتا نہیں ہے۔
دہلی میں 96 اداروں میں سے 65 رجسٹرڈ ہیں، چھتیس گڑھ میں 85 میں سے 77، کرناٹک میں 1250 میں سے 918، کیرل میں 1189 میں سے 371، مہاراشٹر میں 853 میں سے 749 ادارے/ شیلٹرہوم رجسٹرڈ ہیں۔مدھیہ پردیش کی جانکاری کے مطابق ریاست میں 121 بچوں کے تحفظ سے متعلق ادارے ہیں، اور تمام رجسٹرڈ ہیں، لیکن اس دعویٰ کی جانچ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ مدھیہ پردیش کے شیلٹر ہوم میں بھی بچوں کے ساتھ جنسی استحصال ہوتا ہے اور اس کو انتظامیہ دانستہ طور پر چھپا لیتی ہے۔ہندوستان کے تمام شیلٹر ہوم میں 261566 بچے رہ رہے ہیں، لیکن زیادہ تر شیلٹر ہوم کی حالت جہنمی ہے۔ایک طرف تو استحصال کی حالت ہے، تو وہیں دوسری طرف بے عزتی، بھوک، گندگی اور بد سلوکی کا ماحول ہے۔ یہاں ہر بچہ سزا یافتہ شہری ہوتا ہے۔
پاکسو کے مطابق جسمانی یا ذہنی طور پر معذور یا مشکل بیماری سے متاثر بچے، جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہیں یا ماں باپ قابل نہیں ہیں، ان کو بھی ضرورت مند بچے کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ ہندوستان میں 749 رجسٹرڈ اداروں میں سے صرف 192 ادارے ہی ایسے بچوں کو رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بچے نظر میں ہی نہیں ہے، وہ مختلف سطحوں پر استحصال کے شکار ہو رہے ہیں۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جس طرح کی ترقی کی پالیسی کو ہم نے اپنایا ہے، اس میں بچوں کے تحفظ کے لئے ادارہ جاتی ڈھانچے ایک لازمی ضرورت ہیں، لیکن ان اداروں کے دروازے سماج کے لئے بند کر دینا، عمل کو خفیہ بنا دینا اور غیر جوابدہی کو اپنا لینا بہت خطرناک ہے۔
کچھ بھی ہو، بچوں کے مفاد کا سماج صرف قانون کے ذریعے نہیں بنایا جا سکتا ہے، اس کے لئے سماج کے لوگوں کو بھی ہمدردی اور آنکھوں میں نمی پھر سے پیدا کرنی ہی پڑےگی، نہیں تو نظام تو بازار سجانے کے لئے مستعد ہے ہی!اگر سچ میں بچوں کے متعلق ہمدردی اور شفقت ہے، تو شہر کی اونچی عمارت دیکھکر، میڈیا کی فرضی خبروں میں بہہکر، مذہبی سیاست کی گندگی سے لپٹکر اور ماب لنچنگ کے طرفدار بنکر جمہوریت کے لئے اپنا کردار مت چنیےگا۔ اب ان بچوں کے لئے سماج بنانے کے مقصد سے اپنا ووٹ طے کیجئے، کیونکہ اگر زندگی کو بہتر کرنا ہے تو ہر طرح کی جنگ ختم کرنی ہوںگی۔اس کی شروعات ہوگی اپنے بچوں کے خلاف چل رہے جنگ کو روککر۔کئی لوگ کہیںگے، میں نے بہت منفی باتیں کی ہیں، میں کہنا چاہتا ہوں مثبت ہونے کی ایک وجہ بتائیے!
(مضمون نگار سماجی محقق، کارکن اور اشوکا فیلو ہیں۔)
Categories: فکر و نظر