فکر و نظر

کرونا ندھی کے بعد تمل سیاست کا مستقبل

گزشتہ دو سالوں میں تمل ناڈو کے دو اہم سیاسی رہنماوں کا انتقال ہو چکا ہے- ان دنوں صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورت حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔

PTI

فوٹو : پی ٹی آئی

20ویں صدی کے اولیں عشروں میں جہاں جنوبی ایشیا  میں تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے لئے رائے عامہ منظم ہوچکی تھی، وہیں کئی طبقات میں یہ احساس بھی قوی ترہوتا جارہا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ دوسرے استعمار یعنی ہندو اعلیٰ ذاتوں خصوصاً برہمنوں کے رحم و کرم پر ہونگے اور پاور اسٹرکچر میں انکی حصہ داری محض خواب ہی رہ جائے گی ۔ اس کے سد باب کیلئے جن تین لیڈروں نے آواز بلند کی ، ان میں محمد علی جناح،جنوبی ہند میں دراوڑتحریک کے خالق ای   وی   راماسوامی عرف پیریاراور معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ  امبیڈکر شامل تھے۔

 8جنوری 1940کو بمبئی میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے ان تینوں لیڈروں کی ایک میٹنگ بھی ہوئی تھی ۔اس سے قبل 1938میں کرپس کمیشن کے سامنے پیریار نے تامل، تیلگو، ملیالم، کنڑااور تولو زبان بولنے والے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ  مملکت کے مطالبہ کو لیکر ایک میمورنڈم بھی دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی لوگ ہندوستان کے اصل باشندے ہیں ، جن کو صدیوں پہلے آرین ہندو حملہ آوروں نے جنوب کی طرف محدود کرکے ان سے انکی تہذیب و شناخت چھین لی ہے۔

یہی نظریہ کم و بیش  امبیڈکر  کا بھی تھا ، جو دلتوں کو ہندو نچلی ذات کے بجائے ایک علیحدہ  قوم تصور کرتے تھے ۔ گو کہ بمبئی کی اس میٹنگ کی بہت کم تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں، مگر یہ طے ہے کہ مسلم لیڈروں کی کج فہمی اور مہاتما گاندھی کی آڑ میں برہمنوں کی روایتی سیاسی کاریگری نے دراوڑ، دلت اور مسلم اتحاد کی یہ بیل منڈھے چڑھنے نہیں دی۔ اس کے چند ماہ کے بعد ہی مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں قرار داد پاکستان منظور ہوگئی۔ قیاس ہے کہ اس اتحاد کی کونپل کو پھوٹنے سے قبل ہی برہمنی نظام نے ایک بے دست وپا پاکستان کے قیام کے مطالبہ پر آمادگی ظاہر کی  تاکہ ہندوستان  کو Balkanization یعنی مزید تقسیم در تقسیم سے بچا کر اپنی بالادستی اور برتری قائم رکھی جائے۔

خیر فی الوقت دراوڑ سیاست کے مرکز تمل  ناڈو میں سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ گو کہ 1940میں اٹھی علیحدہ دراوڑہ ناڈو کی چنگاری کب کی سرد ہوچکی ہے، مگر ہندوستان  کے خفیہ اداروں کے حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تمل ناڈو ابھی بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ ان کی داخلی سیاست میں بیرونی عوامل کار فرما رہتے ہیں اور ان میں نئی دہلی سے بیزاری اور علیحدگی پسندی کے رجحانات بھی نمایاں ہیں۔20ماہ کے قلیل عرصہ میں اس خطے کے دو اہم لیڈروں اور سابق وزرا ء اعلیٰ جے جے للتا اور ایم کروناندھی کی موت سے ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جو نہ صرف صوبہ بلکہ ہندوستان  کی قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔

اس صوبے کی سیاست کا سری لنکا کے تمل مسئلہ سے بھی براہ راست تعلق ہے۔ سری لنکا کی تمل اقلیت دراصل تمل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔ 7اگست کو کروناندھی کی موت کے بعد ہندوستان  کی دو قومی جماعتیں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے اس صوبے کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، تاکہ ایک تو تمل یا دراوڑ علیحدگی پسند رجحان کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے نیز مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے اس صوبہ کی 39لوک سبھا کی نشستوں  پر دعویٰ مضبوط کیا جائے۔

پیریار کے بعد دراوڑ تحریک کی قیادت ان کے شاگرد سی نٹراجن انادرائی نے سنبھالی تھی، جنہوں نے  شیخ عبداللہ کی طرز پر تمل خود مختاری کے مطالبہ سے دستبردار ہوکرحق خود اختیاری یعنی آٹونامی  کا نعر ہ دیکر 1967 میں اپنی پارٹی دراوڑ کھزگم کو بھاری اکثریت دلاکر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد ڈی ایم کے دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔ دراوڑ منیتر کھزگم یعنی ڈی ایم کے کی قیادت ایم کروناندھی نے سنبھالی اور انا دراوڈ منیتر کھزگم (انا ڈی ایم کے) کی کمان مشہور تمل فلم اسٹار ایم جی راماچندرن کے حصہ میں آئی۔

 1987 میں رام چندرن یا ایم جی آر کی موت کے بعد فلمی دنیا میں ان کی ہم سفر اور محبوبہ جے جے للتا نے ان کی اہلیہ جانکی راماچندرن کو خاصی طویل  جد وجہد کے بعد شکست دے کران کی میراث پر قبضہ کرکے پارٹی پر کنٹرول حاصل کیا۔ 68 سالہ جے للتا دسمبر 2016میں انتقال کر گئی۔ وہ ایک پر اسرار شخصیت تھی۔ ان تک رسائی حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی ایک طرح کی دوری بنائے رکھتی تھی، مگر ان کی کارکردگی پر ہمیشہ ان کی نظریں رہتیں۔

1967 کے بعد سے یہ دو جماعتیں بار ی باری اقتدار کے مزے لوٹتی آئی ہیں۔ اس وقت آنجہانی جے جے للتا کی پارٹی انا ڈی ایم کے، لوک سبھا کی37 نشستوں پر قابض ہے۔ اس طرح یہ بی جے پی اور کانگریس کے بعد پارلیامنٹ  میں تیسری بڑی پارٹی ہے۔ من موہن سنگھ کی سابق کانگریسی حکومت ڈی ایم کے کی بیساکھیوں پر ٹکی تھی، اسی وجہ سے ان کو تمل پارٹیوں کے وزیروں کی بد عنوانیوں اور اسکینڈلوں کو نظر اندازکرنا پڑا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی بھی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود انا ڈی ایم کے کو خوش رکھنے کی کوشش  کرتے رہتے ہیں۔

 ایوان بالا میں جہاں وزیر اعظم مودی کی حکومت اقلیت میں ہے، کو اکثر قانون سازی کے لئے ان کی مدد درکار رہتی ہے۔ اگرچہ جے للتا ایک دراوڑ یعنی برہمن مخالف پارٹی کی سربراہ تھی، مگر وہ خود برہمن تھی۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ جب برہمن کسی تحریک کو دبا نہیں پاتا تو عمر بھر اس کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کو اپناکر اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس تھیوری کے ماننے والے ان تمل پارٹیوں کے اندر کرپشن، اقربا پروری اور بے انتہا دولت کے حصول کی تگ و دود کو اسی حکمت عملی کا حصہ بتاتے ہیں۔ 321 قبل مسیح میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے چندر گپت موریہ نے جب اقتدار سنبھالا تو پہلے تو برہمنوں نے اس کی مخالفت کی، مگر بعد میں ایسا اثر و رسوخ حاصل کیا کہ عملاً حکومت ایک برہمن کوٹلیہ یا چانکیہ کے سپرد ہوگئی۔

 حقیقت یہ ہے کہ جے للتا نے جو اپنے پیش رو  کے برعکس ذاتی طور پر مذہبی خاتون تھی، ہمیشہ ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ دوری بنائے رکھی۔ بسا اوقات مرکز میں بی جے پی کے ساتھ سیاسی رشتوں کے باوجود اس نے صوبے میں ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو پنپنے نہیں دیا۔ گو  کہ دونوں تمل پارٹیاں اپنے صوبہ کو حق خود اختیاری تو نہیں دلا سکی، مگر انہوں نے اس کو خوشحال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صوبہ کو وسائل مہیا کروانے کیلئے انہوں نے دہلی میں اپنے اثر و رسوخ کا بھر پور استعمال کیا۔

 اقتصادی لحاظ سے تمل ناڈو اس وقت ہندوستان  کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے۔ زراعت میں خود کفالت کے علاوہ یہاں صنعتوں کا جال بچھا ہو اہے۔ ہندوستان کی دو ٹریلین ڈالر کی معیشت میں اسکا حصہ 210بلین ڈالر ہے۔ ہندوستان  میں جہاں اوسط فی کس آمدن 86ہزار سالانہ ہے، وہیں اس صوبہ میں یہ ایک لاکھ 28ہزار ہے۔مگر خوشحالی کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی یہ صوبہ سرفہرست ہے۔ انتخابات میں یہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔  جے للتا کے انتقال کے بعد ان کی قریبی سہیلی وی کے ششی کلا کے بھتیجے ٹی ٹی وی دیناکرن نے ان کی اسمبلی سیٹ سے قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ان کی پارٹی نے ا ن کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے ایک دیگر لیڈر کو میدان میں اتارکر اسکو پارٹی کا آفیشل نشان دلایا۔

 الیکشن کمیشن نے دینا کرن کو آزاد امیدوار کے بطور پریشر ککر انتخابی  نشان تفویض کیا۔بس پھر کیا تھا انہوں نے پورے علاقہ میں پریشر ککر بانٹنے شروع کئے۔ کئی علاقوں میں پریشر ککروں میں پانچ تا دس ہزار تک کے کوپن بھی تھے ، جن کی ادائیگی امیدوار کی جیت کے ساتھ مشروط تھی۔چناچہ دینا کر ن نے پارٹی کے آفیشل امیدوار کو چاروں شانے چت کردیا۔ اب سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پریشر ککر کے بجائے دینا کرن کو کوئی بھاری بھرکم نشان تفویض کیا جائے ، جس کو وہ ووٹروں میں تقسیم نہ کرنے پائے۔

جے للتا کے برعکس کروناندھی پیریا ر اور انا درائی کی طرح آخری دم تک ہندو ازم خاص طور پر برہمن واد کے مخالفین میں سے تھے۔ وہ کئی ناولوں، کہانیوں کے تخلیق کار کے علاوہ فلموں کیلئے اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ ان کا مشہور ناول پاراسکتی برہمن واد اور اسکے ذریعے جکڑے نظام پر ایک کاری وار ہے۔ اسی نام سے اس پر ایک تمل فلم بھی بنائی گئی تھی ، جو خاصے ہنگامے اور سنسر کے بعد 1952میں ریلیز ہو گئی تھی۔ وہ سری لنکا میں  تمل علیحدگی کے حامی بھی تھے۔ 1997میں ایک جوڈیشل کمیشن نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کے قتل میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے سربراہ پربھاکرن کی معاونت کی تھی۔

کروناندھی کی پارٹی اس وقت اندر کمار گجرال کی قیادت میں مرکز کی مخلوط یونائٹیڈ  ڈیموکریٹک فرنٹ میں شامل تھی اور اسکے کئی لیڈران وزارتی کونسل میں تھے۔ کانگریس نے اس جوڈیشل رپورٹ کو بنیاد بناکر اسوقت کی گجرال حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ بعد میں ایک دن پارلیامنٹ  کے سینٹرل ہال میں انہوں نے چند صحافیوں اور اراکین پارلیامان کی معیت میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آخر کانگریس یا دیگر پارٹیاں کس منہ سے انکو سری لنکا کے تمل باغیوں کی حمایت کے الزام سے نوازتی ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ اگر 1984میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971 کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تمل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تمل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوں کوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔

اور پھر 1987 میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں کس طرح وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی موجودگی میں 40لاکھ روپیوں سے بھرا ایک سوٹ کیس پربھاکرن کے حوالے کیا۔ کروناکرن رک رک کر انگریزی میں گفتگو کر رہے تھے۔ بیچ میں وہ بے تکان تمل بولنا شروع کرتے تھے ، تو ان کے دست راست اور مرکزی وزیر ٹی بھالو اسکا انگریزی میں ترجمہ کرتے تھے۔ ان کو شکایت تھی کہ سری لنکا کو آگ کے حوالے کرنے او ر وہاں کی تمل آبادی میں علیٰحدگی پسند رجحانات کو آتش دینے کے بعد قومی پارٹیوں کے لیڈران ہمیں ایل ٹی ٹی ای کی حمایت کا الزام دیتے ہیں۔

2009 میں سری لنکا ئی فوج کی طرف سے ایل ٹی ٹی کے خلاف آل آوٹ آپریشن، پربھاکرن کی ہلاکت اور اس پر ہندوستانی  حکومت کی خاموش رضامندی سے وہ خاصے ناراض تھے۔ کروناندھی کی موت کے بعد سے اب تک ان کے 21حامیوں نے غم کی شدت سے خود کشی کر لی ہے۔ دسمبر 2016میں جے للتا کا انتقال ہوگیا تھا تو اسی طرح ریاست بھر میں خود سوزی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ دنیا شاید اس جذباتیت کو مضحکہ خیز یا حیرت انگیز محسوس کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان  میں سیاست دانوں اورغریب و کمزور طبقہ کے درمیان رشتہ دوستی کا ہوتا ہے نہ کہ شمالی ہندوستان  کی طرح مفاد پرستی اور استحصال کا۔

 شمالی ہندوستان  میں لوگوں کے دلوں میں سیاست دانوں کے خلاف ناپسندیدگی بلکہ بسا اوقات نفرت کے جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ قصہ مختصر تمل ناڈو کی سیاست اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے۔ کرو ناندھی کے جانشین اور صاحبزادے ایم کے اسٹالن جنہوں نے فی الحال پارٹی کا کارو بار سنبھالا ہوا ہے، بھی کسی موذی مرض کا شکا ر ہیں۔ صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورت حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ 60 کی دہائی کے بعد جس طرح دراوڑ پارٹیوں نے تمل قوم پرستی کو ایڈریس کرتے ہوئے حکومت سازی کرکے علیحدگی پسند رجحانات پر لگام لگا کر رکھ دی تھی، قومی پارٹیوں کے آنے سے یہ رجحانات دوبارہ پنپ سکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال جموں و کشمیر ہے۔ چاہے1987 ہو یا 2008 یا پھر 2010 یا 2016ہندوستان  کی قومی پارٹیوں کی مداخلت سے دبی ہوئی چنگاریاں آگ میں تبدیل ہوتی رہی ہیں، جن کو مقامی پارٹیاں شیخ عبداللہ یا مفتی سعید کی صورت میں دبا کر رکھتی ہیں۔