فیک نیوز:تصویر میں موجودہ پرائم منسٹر نریندر مودی ڈاکٹروں کے درمیان کھڑے ہیں اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آرہی ہے۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے گزشتہ16 اگست کو اس جہان فانی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا۔انہوں نے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں آخری سانس لی۔93 سالہ واجپائی Diabetic Nephropathy نامی بیماری سےمتاثر تھے اور ان کے گردے نےکام کرنا بند کر دیا تھا۔واجپائی کی انتقال کے بعد سوشل میڈیا میں ان کی شخصیت اور کردار کے تعلق سے تنقید اور تعریف کا ایک دور شروع ہوا جو تقریباً3 دنوں تک جاری رہا۔لیکن اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا میں بہت کچھ ایسا ہوا جو حقیقت کے برعکس تھا اور جس کو ہم فیک نیوز کے دائرے میں رکھتے ہیں۔
دراصل اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کے بعد ایک تصویر بہت عام کی گئی جس میں کچھ ڈاکٹر ایک کمرے میں کھڑے ہیں اور وہ ایک ڈیڈ باڈی کے سامنے اپنا سر سوگ میں جھکائےہوئے ہیں۔تصویر کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ تصویر دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) کی ہے جہاں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کے بعد وہاں کے ڈاکٹر ان کے مردہ جسم کے سامنے سوگ میں سر جھکائےہوئے ہیں۔اس تصویر کو ٹوئٹر اور فیس بک پر کثرت کے ساتھ عام کیا گیا اور ہندوستانی میڈیا نے بھی اس تصویر پر اسی طرح کی خبریں شائع کیں! ڈی این اے انڈیا نے 16 اگست کو شام4 بجے اسی تصویر کو ٹوئٹ کیا اور کہا کہ دیکھئے کس طرح ایمس کے ڈاکٹروں نے سابق پرائم منسٹر اٹل بہاری واجپائی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد ڈی این اے نے اب اپنے ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا ہے اور اپنے ٹوئٹ میں خبر کی جو لنک فراہم کی تھی اس کا مواد بھی پوری طرح سے تبدیل کر دیا ہے۔اسی طرح بعض افراد نے اپنے ٹوئٹر پر زی نیوز کی ایک خبر کی لنک شئیر کرتے ہوئے بھی یہی دعوے کئے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی جو سوشل میڈیا میں شئیر کیا گیا تھا۔اس تصویر کا تعلق چین کے ایک ہسپتال سے ہے جہاں ایک خاتون نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے جسم کے صحتیاب عضو کو بطور عطیہ ضرورت مند لوگوں کو دے دیا جائےتاکہ وہ صحتیاب ہو جائیں۔یہ تصویر12 نومبر2012 کی ہے اور چین کے اخبار China Daily نے اس تصویر کو2015 میں شائع کیا تھا۔تصویر میں ڈاکٹر اس خاتون کے ایثار کے سامنے سر خم کئے ہوئے ہیں۔لہذا تصویر کے تعلق سے یہ کہنا کہ یہ تصویر واجپائی جی کی ہے، بالکل غلط ہے۔ہمارے پاس موجود دلائل اس بات پر مہرثبت کرتے ہیں کہ یہ فیک نیوز تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
واجپائی کے انتقال کے دن ہی ایک دوسری تصویر بھی سوشل میڈیا پر گردش میں رہی تھی جس کے تعلق سے دو طرح کے دعوے کئے گئے تھے۔تصویر میں موجودہ پرائم منسٹر نریندر مودی ڈاکٹروں کے درمیان کھڑے ہیں اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آرہی ہے۔BJP مخالف پارٹیوں کے لیڈروں اور افراد نے سوشل میڈیا میں اس تصویر کو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ پرائم منسٹر نریندر مودی کتنے بے رحم انسان ہیں جو واجپائی جی کے انتقال کے بعد اس غمزدہ موقع پر بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔جس وقت اس بات کی خبر BJP اور ان کے ہمدردوں کو ہوئی تو انہوں نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے حمایتی مودی کے بارے میں غلط خبر پھیلا رہے ہیں۔ان کا دعوی تھا کہ یہ تصویر اپریل2016 کی ہے جہاں مودی جی کولّم ضلع (کیرل) کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹروں سے فرصت کے لمحات میں گفتگو کر رہے تھے۔
تصویر کے تعلق سے یہ دو دعوے کے گئے تھے اور بقول الٹ نیوز یہ دونوں دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹروں کے ساتھ پرائم منسٹر مودی کی تصویر16 اگست 2018 کی ہی ہے اور یہ تصویر ایمس کی ہی ہے۔نریندر مودی16 اگست کو دہلی کے ایمس ہسپتال میں اٹل بہاری واجپائی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تھے۔اس دن انہوں نے جو کرتا پہنا تھا اس کی آستین ہاتھوں تک تھی لیکن اپریل2016 میں کیرل کے دورے پر انہوں نے آدھی آستین کا کرتا پہنا تھا۔
دوسری بات، الٹ نیوز نے16 اگست کے ان کے ایمس دورے کی ویڈیو میں پایا کہ ان کی حفاظت میں جو باڈی گارڈ موجود تھا، وہ وہی ہے جو تصویر میں مودی کی پشت کے پیچھے کھڑا ہے۔ تصویر میں نریندر مودی کے قریب جو ڈاکٹر کھڑے ہیں وہ ڈاکٹر شیو کمار چودھری ہیں۔ڈاکٹر شیو کمار چودھری ایمس کے کارڈیوتھارسک سرجن ہیں اور ان کا تعلق کیرل کے ہسپتال یا میڈیکل کالج سے نہیں ہے۔اس طرح یہ دعوی کہ یہ تصویر 2016کی ہے، غلط ہے۔ الٹ نیوز کی تفتیش کے مطابق یہ تصویر ایمس کی ہی ہے اور16 اگست کی ہے۔
الٹ نیوز نے یہ بھی انکشاف کیا کہ نریندر مودی ایمس سے تقریبا پونے تین بجے رخصت ہو گئے تھے اور اٹل بہاری واجپائی کا انتقال 5بجکر 5منٹ پر ہوا تھا۔لہٰذا یہ تصویر اٹل بہاری کے انتقال سے پہلے کی ہے۔
جے مودی راج فیس بک کا وہ پیج ہے جو اکثر جھوٹی خبریں عام کرتا ہے، سابق پرائم منسٹر اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کے بعد بھی اس پیج کی جانب سے ایک تصویر جاری کی گئی جس میں ایک ڈیڈ باڈی فرش پر موجود ہے اور اس پر کچھ پھول موجود ہیں۔اس باڈی کے ایک جانب پرائم منسٹر نریندر مودی سر جھکائے کھڑے ہیں اور خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔جے مودی راج پیج کو 13 لاکھ سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں۔اس پیج کے مطابق تصویر میں جو ڈیڈ باڈی موجود ہے وہ اٹل بہاری واجپائی کی ہے اور نریندر مودی ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔دراصل، تصویر کے متعلق پیج کی اطلاع مبنی بر جھوٹ ہے۔
اس تصویر کو ریورس گوگل سرچ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تصویر دہلی کی نہیں ہے، بلکہ گجرات کی ہے۔ گجرات حکومت کے ملازم بھوپت وڈودریا کا2011 میں انتقال ہو گیا تھا، وہ گجرات حکومت کے معروف اسکرائب تھے اور ان کے انتقال کے بعد گجرات کے چیف منسٹر نریندر مودی ان کی تعزیت کے لئے ان کے مکان پر تشریف لے گئے تھے۔اس بات کی جانکاری ہم کو نریندر مودی کی آفیشل ویب سائٹ پر ملتی ہے۔
سوشل میڈیا، خاص طور سے ٹوئٹر، پر BJP اور AAP کے کارکنوں کے درمیان اکثر جھڑپ ہوتی رہتی ہے۔16 اگست کو عام آدمی پارٹی کے صدر اور دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال کا یوم پیدائش تھا۔ کیجریوال کی ایک تصویر BJP اور ہندتوا کے حمایتیوں نے سوشل میڈیا میں وائرل کر دی جس کے ساتھ یہ کہا گیا کہ کیجریوال بہت چھوٹی سوچ کے انسان ہیں، اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کی خبر کے بعد بھی وہ اپنے یوم پیدائش کا جشن منا رہے ہیں !
تصویر میں جس بات کا دعویٰ کیا گیا تھا وہ حقیقت سے بہت دور تھی۔جس تصویر میں اروند کیجریوال برتھ ڈے کیک کاٹ رہے ہیں، وہ تصویر11 بجے کی ہے۔تصویر میں کیجریوال کی پشت کے پیچھے دیوار پر ایک گھڑی لگی ہوئی ہے جس میں 11بج رہے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ11 بجے صبح کی ہے، رات کے 11 بجے یعنی دن تبدیل ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے کون کیک کاٹےگا ؟ کیجریوال نے برتھ ڈے کیک 11 بجے کاٹا تھا جب کہ اٹل بہاری واجپائی کا انتقال شام میں ہوا تھا۔
Delhi CM @ArvindKejriwal opts not to celebrate his birthday due to critical health of #AtalBihariVajpayee Ji & the floods in Kerala.https://t.co/cAZGIpbDtn
— AAP (@AamAadmiParty) August 16, 2018
اس کے علاوہ بھی AAP نے اپنے آفیشل ٹوئٹر پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں کیجریوال خود اپنی پارٹی کے کارکنان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس بار اپنے یوم پیدائش پر کوئی جشن نہیں کریں گے کیونکہ سابق پرائم منسٹر اٹل بہاری واجپائی کی حالت نازک ہے اور وہ منیش سسودیا کے ساتھ ان کی عیادت کے لئے جائیں گے۔کیجریوال نے یہ بھی کہا کہ کیرل میں اس وقت لوگ سیلاب کی وجہ سے تکلیف میں ہیں، اس لئے جشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے ! کیجریوال کے اس فیصلے کو متعدد میڈیا اداروں نے اپنے اخباروں میں شائع کیااور ٹی وی پروگراموں میں نشر کیا تھا۔
Categories: فکر و نظر