ارون جیٹلی کو این ڈی اے بنام یو پی اے حکومت کے جھگڑے سے نکلکر عالمی اقتصادی خطروں کے کالے بادلوں پر دھیان لگانا چاہیے۔ یہ پچھلی حکومت کے مظاہرہ سے موازنہ کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا وقت نہیں ہے۔
عالمی اقتصادی عوامل گہرائی سےمیکرو اکانومک مینجمنٹ (MACROECONOMIC MANAGEMENT) کو متاثر کرتے ہیں۔حکومت چاہے یو پی اے کی ہو یا این ڈی اے کی دونوں پر یہ بات یکساں طورپر نافذ ہوتی ہے۔اس لئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو معاملے کو بڑھا چڑھا کر بتانے سے باز آنا چاہیے کہ پچھلے چار سالوں میں معیشت نے ‘معمولی سے کم ترقی’حاصل کی ہے لیکن میکرو اکانومک مینجمنٹ’معیار’یو پی اے دورحکومت کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایکسپورٹ، زراعت،صنعتی پیداوار،نجی سرمایہ کاری اور بینک کریڈٹ (بینک قرض)جیسے تمام مورچے پر امید سے کم ترقی دکھائی دی ہے۔ وزیر خزانہ باتوں کو چاہے جیسے گھمائیں، اس حقیقت سے منھ نہیں چرایا جا سکتا۔جیٹلی کی دلیل کچھ کچھ ‘ انگور کھٹے ہیں’والی لگتی ہیں، کیونکہ ان کا یہ بیان National Statistical Commission کے اس مطالعے کے تناظر میں دیا گیا تھا جس میں جی ڈی پی کےدیرنیہ بینک سیریز سے متعلق اعداد و شمار کو جاری کیا گیا تھا۔
اس میں یہ بات ابھرکر سامنے آئی کہ پچھلی یو پی اے حکومت نے دراصل اپنے دس سالوں کی مدت میں کہیں زیادہ شرح نمو حاصل کی، جن میں سے دو سال 10 فیصد سے زیادہ شرح نمو والے تھے۔جب بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ اعداد و شمار اقتصادی مظاہرہ کے ایک اہم پیمانے پر پچھلی یو پی اے حکومت کے مقابلے میں موجودہ این ڈی اے حکومت کو پچھڑتا ہوا بتا رہا ہے، تب جلدبازی میں National Statistical Commission کے ذریعے جاری کئے گئے اعداد و شمار کو حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کی جگہ’ڈرافٹ رپورٹ ‘ اعلان کر دیا گیا۔
بہترمیکرو اکانومک مینجمنٹ کا جیٹلی کا دعویٰ اس لئے بھی کھوکھلا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ میکرو اکانومک مینجمنٹ کا تعلق اصل میں عالمی اقتصادی عوامل سے ہوتا ہے۔ حال ہی میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر نے پچھلے چھے مہینے میں سود کی شرح کو دوسری بار بڑھانے کے بعد ایک اہم تبصرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت پہلے ہی ایک تجارتی جنگ کے بعد تجارتی جھگڑوں کا تجربہ حاصل کر چکی ہے اور اب ہم ایک کرنسی جنگ کی شروعات ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ آگے انہوں نے اشاروں ہی اشاروں میں کہا کہ ایسے میں ہندوستان یہی کر سکتا ہے کہ وہ تنکر بیٹھے اور اپنی حفاظتی پیٹی کس لے۔
اصل میں دو بار سود کی شرح بڑھانے کا آر بی آئی کا فیصلہ کافی حد تک ابھرتے ہوئے بازاروں کی کرنسی پر ممکنہ حملے سے روپے کو بچانے کے مقصد سے لیا گیا ہے۔ تجارتی جنگ کی وجہ سے چینی معیشت اور کرنسی کے کمزور ہونے اور اس کے ساتھ ہی امریکی فیڈرل ریزرو کے ذریعے سود کی شرح بڑھانے کی وجہ سے امریکی ڈالر کے مضبوط ہونے کی حالت ایسے حملے کی وجہ بن سکتی ہے۔
آر بی آئی کے گورنر کو یہ بات خوب اچھی طرح سے معلوم ہے۔ یہ اچھا ہوگا اگر ارون جیٹلی بھی این ڈی اے کی میکرو اکانومک مینجمنٹ کو لےکر حوصلہ افزا اعلان کرنے سے پہلے ان عوامل پر بھی غور کر لیں۔حالات کا اندازہ کرنے کے لحاظ سے سینٹرل بینک کہیں زیادہ حقیقت پسند ہے۔اس کے ذریعے ریپو ریٹ (وہ شرح جس پر ریزرو بینک تجارتی بینکوں کو قرض دیتا ہے) میں اضافہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ مرکزی حکومت کے مالی انتظام سے پوری طرح سے مطمئن نہیں ہے اور یہ ممکنہ پھسلن سے بچاؤ کے لئے دفاعی بَکتر تیار کر رہا ہے۔
جیسا کہ دی وائر نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا، سی اے جی (کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل)نے مالی سال 2015-16 کے بجٹ دستاویز میں وزارت خزانہ کے ذریعے مالیاتی خسارہ دکھائے گئے اور اصل اعداد و شمار میں 50000 کروڑ سے زیادہ کا فرق بتایا ہے۔اس کے علاوہ مرکزی حکومت نقد کے ڈھیر پر بیٹھے عوامی محکمہ کے او این جی سی، این ٹی پی سی جیسےاداروں اور یہاں تک کہ ایل آئی سی کے خزانے کا استعمال اپنے خرچ کے فرق کو پاٹنے کے لئے لاپرواہی سے کر رہی ہے۔ جبکہ اصل میں اس کا معنی حکومت کے قرضوں کو اس کے اپنے کھاتے سے ہٹاکر ان عوامی محکمہ اور سیکٹرکے کھاتے میں منتقل کر دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک آرائشی سجاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ خاص طور پر آر بی آئی اس طرح کے اقدامات کو مالیاتی خسارے میں تنظیمی کمی کے طور پر نہیں دیکھتا ہے۔
وزارت خزانہ کی ذمہ داری کو لےکر کچھ واضح نہیں ہونے کی وجہ سے اصل میں میکرو اکانومک میجمنٹ کے ایک بڑے حصے کا بوجھ آر بی آئی کے کندھوں پر آ گیا ہے۔چیف اکانومک صلاح کارارویند سبرامنیم کی رخصتی کے بعد اس بات کو لےکر غلط فہمی اور بڑھ گئی کہ نئی دہلی سے میکرو پالیسیوں کی جانکاری کون دےگا؟ایک ایسے وقت میں جب عالمی تجارت اور کرنسی کی جنگ تیز ہو رہی تھی، اس وقت ہمارے یہاں ایک حقیقی خلا کی حالت بنی ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آر بی آئی کو پہل کرتے ہوئے اس خلا میں داخل ہونا پڑا اور کمان اپنے ہاتھوں میں لینی پڑی ہے۔اصل میں وزارت خزانہ کی طرف سے کسی طرح کا کوئی میکرو اکانومک پیغام نہیں آیا ہے۔حال ہی میں جب روپے کی ایکسچینج کی شرح گرکر 70 روپے سے بھی پار چلی گئی، تب اقتصادی معاملات کے محکمے کے سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے یہ بیان دیا کہ گرتا ہوا روپیہ تب تک حکومت کی فکر کی وجہ نہیں ہے-بھلےہی یہ فی ڈالر 80 کی سطح پر بھی کیوں نہ آ جائے، جب تک دوسری کرنسیوں میں بھی اسی دائرے میں گراوٹ آ رہی ہے۔
یہ روپے کی ایکسچینج کی شرح جیسے حساس مسئلے پر ایک خطرناک پیغام تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ عالمی بازار کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہندوستان روپے کو 80 روپے فی ڈالر تک گرنے دینے کے لئے تیار ہے، بشرطیکہ دوسری کرنسیاں بھی اس دائرے میں گر رہی ہیں۔اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر چین امریکہ کے ذریعے ایکسپورٹ فیس اضافہ کے اثر کو کم کرنے کے لئے اپنی کرنسی کی 15 فیصد سے 20 فیصد تک قیمت میں تخفیف کرتا ہے، تو ہندوستان بھی ایسا کرےگا۔ اصل میں ایسی کوئی صورت پیدا ہونے سے پہلے ہی کھلے طور پر ایسی منشاء ظاہر کرنا، پختگی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
سابق چیف اکونومک صلاح کار ارویند ویرمانی، جنہوں نے این ڈی اے اور یو پی اے دونوں کے ساتھ کام کیا، نے مجھے بتایا کہ اس سے پہلے آج کبھی بھی آر بی آئی یا وزارت خزانہ میں سے کسی نے بھی عملی ایکسچینج شرح کے طور پر کسی مخصوص اعداد و شمارکا ذکر نہیں کیا تھا۔ کرنسی انتظامیہ کا ناگفتہ اصول یہی کہتا ہے کہ ایکسچینج شرح بازار سے طے ہوتی ہے اور ریزرو بینک آف انڈیا صرف عدم استحکام پر قابو پانے کے لئے مداخلت کرتا ہے۔
لیکن موجودہ حکومت میں افسروں کے ذریعے تمام طرح کے بیانات بازار کی اثر پذیری کو دھیان میں رکھے بنا دئے جا رہے ہیں۔ آج عالمی کرنسی سٹّے باز اس بات کو لےکر مطمئن ہیں کہ ہندوستان آنے والے وقت میں روپے کی اور زیادہ تخفیف ہونے دینے کے لئے تیار ہے۔جیٹلی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کے پاس روپے کی حفاظت کے لئے کافی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر موجود ہیں۔یہ بےحد مدافعتی بیان تھا، کیونکہ جب آپ کے پاس کافی کرنسی کا ذخیرہ ہوتا ہے، تب آپ شیخی نہیں بگھارتے ہیں، بلکہ آپ کا کام ہی آپ کے بدلے میں بولتا ہے۔
کئی مہینوں کی میڈیکل چھٹی سے لوٹکر وزارت خزانہ کی ذمہ داری دوبارہ سنبھالنے والے ارون جیٹلی کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ مناسب مواصلات اور پالیسی کا دانشمندی سے اشارہ کرنا میکرو اکانومک مینجمنٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ان کی حکومت کو این ڈی اے بنام یو پی اے حکومت کے جھگڑے سے باہر نکلکر عالمی افق پر جمع ہو رہے مجموعی اقتصادی خطروں کے کالے بادلوں پر دھیان لگانا چاہیے۔یہ پچھلی حکومت کی کارکردگی بنام اپنی کارکردگی کا موازنہ کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا وقت نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر