جیسےجیسے 2019 کے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، ایک نئی کہانی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہےکہ دشمن ملک کے اندر ہی ہے اور یہ نہ صرف حکومت اور اس کی پالیسیوں بلکہ ملک کے ہی خلاف ہیں۔
منگل کو ملک کے الگ الگ حصوں میں وکیلوں، ٹریڈ یونین کارکنوں، قلمکاروں اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے گھر اور دفتروں پر پڑے پولیس کے چھاپے اور اس کے بعد ہوئی 5 لوگوں کی گرفتاری ہندوستان کی جمہوریت کی صورت حال کے بارے میں تشویش ناک اشارہ ہے۔ان پر غیر قانونی سرگرمی(روک تھام)قانون(یو اے پی اے)کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔ مہاراشٹر پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی نکسلی سرگرمیوں سے ان کے تعلقات کے ثبوت پر مبنی ہے۔
لیکن انتظامیہ کے ذریعے نہ ہی کوئی ثبوت اور نہ ہی کوئی پختہ الزام سامنے رکھا گیا ہے۔اس کے بجائے ہم نے جو دیکھا وہ قیاس آرائیوں کا سیلاب ہے، جو بدنام کرتے ہوئے ‘نامعلوم ‘ماخذات پر مبنی ہے اور پوری عقیدت کے ساتھ میڈیا کے ایک بڑے طبقے کے ذریعے نشر کی جا رہی ہے۔
اس پروپیگنڈہ مہم کی بنیادی بات یہ ہے کہ گرفتار کئے گئے پانچ افراد کو کسی بھی طرح سے 1 جنوری کو مہاراشٹر کے بھیما کورےگاؤں جنگ کی 200ویں سال گرہ پر دلتوں کے ایک جلسہ کے بعد مہاراشٹر کے کچھ حصوں میں بھڑکے تشدد میں ملوث دکھایا جائے۔
بی جے پی ترجمان نے ان پانچوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی مبینہ سازش سے بھی جوڑا، جس کا دعویٰ پونے پولیس نے گزشتہ جون کے مہینے میں کیا تھا۔کارکن کسی بھی قانون سے اوپر نہیں ہیں لیکن یہاں مدعا اس عمل کی استبداديت کا ہے۔ چونکہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہوئے آدمی کو جلدی ضمانت ملنا تقریباً ناممکن ہے، پولیس بھی جانتی ہے کہ ان کو گرفتار کئے ہوئے لوگوں کے خلاف مناسب ثبوت دینے یا الزام طے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک بار اگر ان لوگوں پر الزام طے ہو گئے، تو سالوں نہیں تو مہینوں تک ان کا جیل میں رہنا طے ہوگا، یقینی طور پر تب تک، جب تک ان کی گرفتاری کے پیچھے کا سیاسی مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ نشانہ بنائے گئے پانچوں شخص آدیواسیوں، کسانوں، خواتین، دلتوں اور ان تمام، جو سرکاری پالیسیوں سے سیدھے جڑے ہیں، کے حقوق کے لئے لڑتے رہے ہیں۔
چاہے وہ آئی آئی ٹی میں پڑھی، چھتیس گڑھ میں ٹریڈ یونین چلانے والی اور بلاس پور ہائی کورٹ میں وکالت کرنے والی سدھا بھاردواج ہوں، اپنی قلم سے شہری حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے گوتم نولکھا یا 79 سال کے مارکس وادی شاعر وراورا راؤ، ملک کے حاشیے پر پڑے لوگوں کے متعلق ان کی گہری وابستگی ان کو ایک کرتی ہے۔
ارون فریرا پر پہلے بھی یو اے پی اے کے تحت 10 معاملے درج کئے گئے تھے،جن میں 5 سال جیل میں گزارنے کے بعد ان کو بری کر دیا گیا تھا۔ ویرنان گونجالوس اسی معاملے میں جون میں گرفتار کئے گئے پانچ دیگر سماجی کارکنوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
اگر پولیس اسی طرح مزاحمت کی ہر آواز کو جرم بتاتی رہی، تو کوئی بھی شہری اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرےگا۔ اصل میں، وکیلوں سمیت مشہور اقتدار مخالف آوازوں کے خلاف دہشت گردی کے الزام لگانے کا اہم مقصد اصل اور ممکنہ ناقدین کو ڈراکر ان کو خاموش کرنا ہے۔
حکومت کے طرز عمل سے قدم ملاکر چلنے والے میڈیا کا ایک طبقہ گرفتار کئے گئے لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے نکل چکا ہے۔جیسےجیسے2019 کے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، ایک نئی کہانی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے،کہ دشمن ملک کے اندر ہی ہے اور یہ نہ صرف حکومت اور اس کی پالیسیوں، بلکہ ملک کے ہی خلاف ہیں۔
تاناشاہی حکمرانوں کے ذریعے یہ حکمت عملی پہلے بھی مؤثر طور سے استعمال کی گئی ہے، جہاں حکومت کی تنقید کو ملک سے بغاوت کی طرح بتایا گیا اور ڈر اور گھبراہٹ دکھاکر رائےدہندگان کو متاثر کیا گیا۔یہی اس وقت ہندوستان کے حالیہ حکمراں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس صورت حال سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ایمرجنسی سے اس کا موازنہ کرنے کا کوئی فائدہ ہے۔ایک آزاد اور آئینی جمہوریت کے بطور، جہاں ہر طرح کی رائے اور دلیلوں کو رکھنے کی آزادی ہے، ہندوستان اپنے جمہوری اصولوں کو اس طرح کمزور نہیں ہونے دے سکتا۔اگر عدلیہ، میڈیا اور سماج کے لئے بدلاؤکی شروعات کرنے کا کوئی صحیح وقت ہے، تو یہی ہےکہ بقول راز الہ آبادی؛
شب خون کا خطرہ ہے ابھی جاگتے رہنا
قاتل پس پردہ ہے ابھی جاگتے رہنا
Categories: فکر و نظر