آج کے ہندوستان میں کسی اقلیتی گروپ میں ہونا ایک گناہ ہے۔ مار دیا جانا ایک جرم ہے۔ پیٹ پیٹ کر مار دیا جانا (لنچ کر دیا جانا) ایک جرم ہے۔ غریب ہونا جرم ہے۔ غریبوں کے حق میں کھڑا ہونے اور اس کی پیروی کرنے کا مطلب حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
30 اگست، 2018 کے اخباروں نے اس سوال کا فیصلہ کر دیا، جس پر ہم پچھلے کچھ وقتوں سے بحث کرتے آ رہے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے پہلے صفحے کی رپورٹ تھی’ کورٹ میں پولیس نے کہا :جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی فسطائیت مخالف سازش میں شامل تھے۔’ہمیں اب تک یہ جان جانا چاہیے کہ ہمارا مقابلہ ایک ایسے نظام سے ہے، جس کو اس کی اپنی ہی پولیس فسطائی کہہکر پکارتی ہے۔
آج کے ہندوستان میں کسی اقلیتی گروپ میں ہونا ایک گناہ ہے۔ مار دیا جانا ایک جرم ہے۔ پیٹ پیٹ کر مار دیا جانا (لنچ کر دیا جانا) ایک جرم ہے۔ غریب ہونا جرم ہے۔ غریبوں کے حق میں کھڑا ہونے اور اس کی پیروی کرنے کا مطلب حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
جب پولیس نے معروف کارکنوں، شعراء ، وکیلوں اور پادریوں کے گھروں میں ایک ہی وقت میں چھاپا مارا اور پانچ لوگوں کو، جن میں شہری حقوق کی حفاظت کے لئے کام کرنے والے ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور دو وکیل شامل تھے،مضحکہ خیز الزامات میں بےحد کم یا بغیر کسی پختہ دستاویز کے گرفتار کر لیا، تب حکومت کو یہ ضرور پتا ہوگا کہ وہ لوگوں کی ناراضگی کو دعوت دے رہی ہے۔
اس نے یہ قدم اٹھانے سے پہلے ہی ہمارے تمام رد عمل، جس میں یہ پریس کانفرنس اور ملک بھر میں ہوئے تمام مزاحمت شامل ہیں، کا اندازہ لگایا ہوگا۔ سوال ہے کہ پھر ایسا کیوں ہوا ہے؟حال ہی میں اصل رائےدہندگان اعداد و شمار کے ساتھ ہی لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس-اے بی پی’موڈ آف دی نیشن’سروے نے بھی دکھایا ہے کہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت تشویشناک طریقے سے (ان کے لئے) گھٹ رہی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک خطرناک وقت میں داخل ہو رہے ہیں۔آنے والے وقت میں مقبولیت میں اس کمی کی وجہوں سے ہمارا دھیان بھٹکانے اور پروان چڑھ رہی حزب مخالف یکجہتی کو توڑنے کی سخت اور مسلسل کوششیں کی جائیںگی۔
یہاں سے لےکر انتخابات تک ایک مسلسل سرکس ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا جائےگا-جن میں گرفتاریاں، قتل، لنچنگ، بم دھماکے، دوسروں کے بھیس میں جھوٹے حملے، فسادات اور قتل عام شامل ہو سکتے ہیں۔ہم نے انتخابات کے موسموں کے نزدیک آنے کے ساتھ تمام طرح کے تشدد کے شروع ہونے کے ساتھ جوڑنا سیکھ لیا ہے۔
‘پھوٹ ڈالو اور راج کرو ‘، میں’بھٹکاؤ اورحکومت کرو ‘ کی نئی حکمت عملی شامل ہو گئی ہے۔یہاں سے لےکر انتخابات تک، ہمیں یہ نہیں پتا ہے کہ کب اور کہاں سے کوئی آگ کا گولہ ہمارے اوپر گر جائےگا اور اس آگ کے گولے کی فطرت کیا ہوگی؟اس لئے،اس سے پہلے کہ میں وکیلوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے بارے میں کچھ بولوں، میں کچھ باتوں کو پھر سے دوہرانے کی اجازت چاہوںگی، جن سے ہمیں اپنا دھیان نہیں بھٹکنے دینا ہے، بھلےہی ہم پر آگ کی بارش ہی کیوں نہ ہو رہی ہو یا ہم عجیب و غریب واقعات کے درمیان ہی کیوں نہ گھر جائیں۔
1۔ 8 نومبر، 2016 (جب مودی نے ڈرامائی طریقے سے ٹی وی پر آکر چلن میں موجود 80 فیصدی کرنسی کو چلن سےباہرکرنے کی اپنی پالیسی کا اعلان کیا تھا) کو ایک سال نو مہینے بیت چکے ہیں۔ اس وقت ان کی کابینہ بھی اس فیصلے سے حیران رہ گئی تھی۔ اب ریزرو بینک آف انڈیا نے یہ اعلان کیا ہے کہ 99 فیصد سے زیادہ 500 اور 1000 کے نوٹ واپس بینکنگ نظام میں آ گئے۔
برٹن کے دی گارجین کی جمعرات کی رپورٹ ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے ملک کی جی ڈی پی شرح نمو میں 1 فیصد کا نقصان اٹھانا پڑا اور تقریباً15 لاکھ نوکریاں ختم ہو گئیں۔ جبکہ نئے نوٹوں کو چھاپنے میں ہی کئی ہزار کروڑ کا خرچ آیا۔
نوٹ بندی کے بعد گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی)نافذ کیا-اس محصول کو اس طرح سے تیار کیا گیا کہ اس نے چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کی کمر توڑ دی، جو پہلے ہی نوٹ بندی کی مار سے کراہ رہے تھے۔جبکہ چھوٹے کاروباروں، کاروباریوں اور تقریباً تمام غریبوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، بی جے پی سے قریبی کارپوریٹ گھرانوں کی دولت اس دور میں کئی گنا بڑھ گئی۔ وجے مالیا اور نیرو مودی جیسے کاروباری عوام کے ہزاروں کروڑ لےکر ملک سے فرار ہو گئے اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دے کر بیٹھی رہی۔
ان سب کو لےکر ہم کس طرح کی جوابدہی کی امید کر سکتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں؟ زیرو؟ ان سب کے درمیان 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں میں لگی بی جے پی ہندوستان کی اب تک کے سب سے دولت مند پارٹی بنکر ابھری ہے۔سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ حال ہی میں جاری کئے گئے الیکٹورل بانڈ نے یہ متعین کرنے کا کام کیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو ملے پیسے کے ماخذ کو خفیہ رکھا جا سکے۔
2۔ ہم سب 2016 میں ممبئی میں مودی کے ذریعے افتتاح کئے گئے ‘میک ان انڈیا’کے تماشے کو بھولے نہیں ہیں، جس کے دوران ثقافتی پروگرام کے میں ٹینٹ میں ہی خوفناک آگ لگ گئی تھی۔’میک ان انڈیا’کے تصورکی اصلی ہولی تو رافیل جنگی جہاز معاہدے کے طور پر جلی ہے، جس پر فیصلہ اور جس کا اعلان وزیر اعظم نے پیرس میں کیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس کے بارے میں ان کے ہی وزیر دفاع کو کوئی بھنک تک نہیں تھی۔
یہ تمام معلوم پروٹوکالوں کے خلاف ہے۔ ہمیں اس کی سب سے اہم حقیقت کے بارے میں پتا ہے-2012 میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے ان ہوائی جہازوں کو خریدنے کا قرار کیا تھا، جس کے تحت ان ہوائی جہازوں کی اسیمبلنگ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کے ذریعے کی جانی تھی۔اس قرار کو منسوخ کرکے اس کو نئی شکل دی گئی۔ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کو اس معاہدے سے باہر کر دیا گیا۔
کانگریس پارٹی سمیت دوسری کئی پارٹیوں نے اس قرار کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں ناقابل اعتماد پیمانے پر مبینہ گھوٹالہ کا الزام لگایا ہے ساتھ ہی اس میں ریلائنس ڈفینس لمیٹڈ کے ساتھ ‘آفسیٹ’ڈیل پر سوالیہ نشان لگا یا ہے،جس کو ہوائی جہاز بنانے کا کوئی بھی سابقہ تجربہ نہیں ہے۔حزب مخالف نے اس مسئلے پر ایک مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کی جانچ کی مانگ کی ہے۔ کیا ہم اس کی امید کر سکتے ہیں؟یا ہمیں ہوائی جہازوں کے اس پورے ذخیرے کو باقی ساری چیزوں کے ساتھ نگل جانا چاہیے اورتھوڑا سا بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے؟
3۔ کرناٹک پولیس کے ذریعے صحافی اور کارکن گوری لنکیش کے قتل کی جانچکے سلسلے میں کئی گرفتاریاں ہوئی ہیں جس سے سناتن سنستھا جیسے کئی شدت پسند ہندتووادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر سے پردہ اٹھا ہے۔
پوچھ تاچھ کے دوران ایک چھپکر کام کرنے والے مکمّل تربیت یافتہ دہشت گرد نیٹورک کا پتا چلا ہے جس کے پاس اپنی ہٹ لسٹ ہے، چھپنے کی جگہیں اور محفوظ ٹھکانے ہیں۔ یہ ہتھیاروں اور گولہ بارود سے لیس ہیں اور ان کے پاس بم دھماکے کرنے، قتل کرنے اور لوگوں کو زہر دےکر مارنے کی اسکیمیں ہیں۔ ایسے کتنے گروپوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں؟ کتنے خفیہ طریقے سے کام کر رہے ہیں؟ اس بات کے اطمینان کے ساتھ کہ ان کے اوپر پر طاقتور لوگوں اور شاید پولیس کا بھی ہاتھ ہے، وہ کس اسکیم پر کام رہے ہیں؟
نقلی پہچان کے ساتھ کئے جانے والے حملے کیا ہیں اور اصلی کیا ہیں؟ یہ کہاں انجام دئے جائیںگے؟ کیا یہ کشمیر میں ہوگا؟ ایودھیا میں ہوگا؟ کمبھ میلا میں ہوگا؟ کتنی آسانی سے وہ ہر چیز کو بے پٹری کر سکتے ہیں-ہر چیز کو-کچھ بڑے یا یہاں تک کہ چھوٹے حملوں کے ذریعے جن کو پالتو میڈیا گھرانوں کے ذریعے بڑھاچڑھاکر دکھایا جاتا ہے۔ ان سب سے، یعنی اصلی خطرہ سے ہمارا دھیان بھٹکانے کے لئے حالیہ گرفتاریوں کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے۔
4۔ جس رفتار سے تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، اس پر بات کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اچھے ٹریک رکارڈ والی یونیورسٹیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ایسے خیالی / تصوراتی یونیورسٹیوں کو مدد کی جا رہی ہے، جن کا وجود صرف کاغذات پر ہی ہے۔ یہ کئی طریقے سے ہو رہا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے جواہرلال یونیورسٹی کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں کے طالب علموں پر ہی نہیں اساتذہ پر بھی لگاتار حملے کئے جا رہے ہیں۔
کئی ٹیلی ویژن چینل جھوٹ اور فرضی ویڈیو پھیلانے میں فعال طریقے سے شامل رہے ہیں، جس نے طالب علموں کی زندگی کو جوکھم میں ڈالنے کا کام کیا ہے۔ نوجوان ریسرچ اسکالر عمر خالد پر جان لیوا حملہ کیا گیا، جس کو خطرناک طریقے سے بدنام کیا گیا ہے اور اس کو لےکر تمام طریقے کے جھوٹ پھیلائے گئے ہیں۔اس کے ساتھ آپ تاریخ کو توڑمروڑکر پیش کرنےاور نصاب کو حماقتوں سے بھرنے کی کوششوں کو دیکھ سکتے ہیں، جو زیادہ نہیں، محض پانچ سالوں کے وقت میں ہمیں ایسے گڈھے میں دھکیل دیںگے، جس سے باہر آپانا مشکل ہوگا۔
آخرکار، ریزرویشن کی پالیسی سے جو چھوٹی موٹی مثبت ترقی دکھائی دی تھی، ان تمام ترقیات پر تعلیم کے نجی کاری کے ذریعے پانی پھیرا جا رہا ہے۔ ہم تعلیم کی پھر سے برہمن کاری ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں، جس کو اس بار کارپوریٹ کے چوغے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ فیس دے پانے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے دلت، آدیواسی اور دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) کے طالب علم ایک بار پھر تعلیمی اداروں سے باہر دھکیلے جا رہے ہیں۔ یہ عمل شروع ہو چکا ہے، جو کہ کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہونا چاہئیے۔
5۔ زراعتی شعبے وفناک بحران، کسانوں کی خودکشیوں کی بڑھتی تعداد، مسلمانوں کی لنچنگ، دلتوں پر کئے جا رہے لگاتار حملے، ان کی عوامی پٹائی، اعلیٰ ذات والوں کے حملوں کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کرنے والے بھیم آرمی کے رہنما چندرشیکھر آزاد کی گرفتاری، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل ظلم قانون کو کمزور کرنے کی کوششیں، ان سب کو اس کڑی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اتنا سب کہہ دینے کے بعد میں حالیہ گرفتاریوں پر آتی ہوں۔ منگل کو جن پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا-ویرنان گونسالوج، ارون فریرا، سدھا بھاردواج، وراورا راؤ اور گوتم نولکھا-ان میں سے کوئی بھی 31 دسمبر، 2017 کو ہوئے Elgaar Parishad rally میں یا اس کے اگلے دن ہوئی ریلی میں موجود نہیں تھا۔ یہاں تقریبا 300000 لوگ (جن میں زیادہ تر دلت تھے) بھیما کورےگاؤں جیت کی 200وین یوم پیدائش منانے کے لئے جمع ہوئے تھے (دلتوں نے جابرانہ پیشوا حکومت کو ہرانے کے لئے انگریزوں کے ساتھ ملکر لڑائی لڑی تھی۔ یہ ان کچھ جیتوں میں سے ہے، جس پر دلت فخر کر سکتے ہیں)۔
Elgaar Parishad rally کا انعقاد دو مشہور سبکدوش ججوں، جسٹس پی بی ساونت اور جسٹس کولسے پٹیل نے کیا تھا۔ اس کے اگلے دن ہوئی ریلی پر ہندتووادی شدت پسندوں نے حملہ کیا، جس سے کئی دنوں تک بدامنی بنی رہی۔ اس معاملے کے دو اہم ملزم ملند ایکبوٹے اور سمبھاجی بھڑے ہیں۔ یہ دونوں ابھی تک کھلے گھوم رہے ہیں۔ جون، 2018 میں ان کی حامیوں کے ذریعے کئے گئے ایک ایف آئی آر کے بعد پونے پولیس نے پانچ سماجی کاکرکنوں-رونا ولسن، سدھیر دھاولے، شوما سین، مہیش راوت اور وکیل سریندر گاڈلنگ کو گرفتار کر لیا۔
ان پر اس ریلی میں تشدد کی سازش رچنے کا الزام لگایا گیا ہے ساتھ ہی ان پر وزیر اعظم نریندر مودی کے بھی قتل کی سازش رچنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ انسداد یو اے پی اے غیر قانونی سرگرمی (روک تھام) قانون کے تحت حراست میں ہیں۔ قسمت سے وہ ابھی تک زندہ ہیں، نہیں تو ان کا حشر بھی عشرت جہاں، سہراب الدّین اور کوثر بی جیسا ہو سکتا تھا، جن پر سالوں پہلے یہی الزام لگا تھا لیکن وہ مقدمہ لڑ پانے کے لئے زندہ نہیں رہ سکے۔
حکومتوں کے لئے، پھر چاہے وہ حکومت کانگریس قیادت والی یو پی اے کی ہو یا بی جے پی کی، آدیواسیوں پر حملے کو، اور اب بی جے پی کے معاملے میں دلتوں پر ان کے حملے کو ‘ ماؤوادیوں ‘ یا نکسلی پر حملے کے طور پر پیش کرنا اہم رہا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ مسلمانوں کے برعکس، انتخابی اعدادوشمار کے کھیل سے جن کا وجود پوری طرح سے مٹا دیا گیا ہے، تمام سیاسی جماعت آدیواسیوں اور دلتوں کو ممکنہ ووٹ بینک کی طرح دیکھتے ہیں۔
ایکٹوسٹوں کو گرفتار کرکے اور ان پر ‘ ماؤوادی ‘ کا لیبل لگاکر حکومت دلتوں کی امید کو دوسرا نام دےکر اس کی بے حرمتی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے-اس کے ساتھ ہی وہ ‘ دلت مسائل ‘ سے متعلق حساس دکھنے کا سوانگ بھی کرتی رہتی ہے۔آج جب ہم یہاں بات کر رہے ہیں، ملک بھر میں ہزاروں غریب، محروم لوگ اپنے گھروں، اپنی زمینوں اور اپنی وقار کے لئے لڑتے ہوئے جیلوں میں ہیں-ان لوگوں پر غدار وطن کا الزام لگا ہے اور اس سے بھی خراب ہے کہ وہ بنا سماعت کی بھیڑ بھرے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
ان دس لوگوں کی گرفتاری-جن میں تین وکیل اور سات مشہور ایکٹوسٹ شامل ہیں-کمزور لوگوں کی پوری آبادی کے لئے انصاف اور نمائندگی کی کسی بھی امید کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ان کمزور لوگوں کے نمائندے تھے۔ سالوں پہلے جب بستر میں چھدوا جڈوم نام سے نام نہاد گرام-محافظ کی ایک فوج کی تشکیل کی گئی تھی جس نے قہر برپاکرتے ہوئے لوگوں کا قتل کیا اور پورے کے پورے گاؤوں کو آگ میں جھونک دینے والی کاروائیوں کو انجام دیا، تب پی یو سی ایل (پیپلس یونین فار سول لبرٹیز)، چھتّیس گڑھ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر بنائک سین نے متاثرین کی طرف سے آواز اٹھائی۔
جب بنائک سین کو گرفتار کر لیا گیا، تب اس علاقے میں سالوں سے کام کر رہیں، وکیل اور مزدور یونین کا رہنما سدھا بھاردواج نے ان کی جگہ لی۔ بستر میں نیم-فوجی دستوں کی کارروائیوں کے خلاف انتھک لڑائی لڑنے والے پروفیسر سائیں بابا بنائک سین کے حق میں کھڑے ہوئے۔ جب انہوں نے سائیں بابا کو گرفتار کر لیا تب رونا ولسن ان کے حق میں کھڑے ہوئے۔ سریندر گاڈلنگ سائیں بابا کے وکیل تھے۔ جب انہوں نے رونا ولسن اور سریندر گاڈلنگ کو گرفتار کر لیا، تب سدھا بھاردواج، گوتم نولکھا اور دیگر ان کے حق میں کھڑے ہوئے۔
اس طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کمزور لوگوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے اور ان کو خاموش کرایا جا رہا ہے۔ آواز اٹھانے والوں کو جیل بھیجا جا رہا ہے۔ ہے ایشور! اپنے ملک کو پھر سے پانے میں ہماری مدد کریں۔
(ارون دھتی رائے معروف قلمکار ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر