کانگریس کو اس وقت راہل گاندھی کی کمی کھل رہی ہے ۔دبے لفظوں میں کانگریس لیڈر یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کی اگر راہل کو اپنی شیو بھکتی ہی دکھانی تھی تو اجین کا شیو مندر مہاکالیشور ایک مناسب جگہ ہو سکتی تھی۔
نومبر2018 کے ریاستی الیکشن کی تیاری تقریباًپوری ہو چکی ہے اور چیف الیکشن کمشنر او پی راوت مدھیہ پردیش کی الیکشن کی تیاریوں کا جائزہ بھی لے چکے ہیں۔بی جے پی کی طرف سے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان پوری ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن مرکزی حکومت کا سرکاری نوکریوں میں پرموشن SC /ST کو دینا بی جے پی کے گلے میں ہڈی بن گیا ہے۔پچھلے کچھ دنوں میں مرکزی وزیر تھاور چند گہلوت ، ایم جے اکبر و شیوراج سنگھ چوہان کو اعلیٰ ذات کے گروپس کی ناراضگی جھیلنی پڑی۔
گہلوت کو تو گوالیار میں پچھلے دروازےسے نکل کر جانا پڑا۔اسی طرح اکبر کو بھی ودیشا میں نعرے بازی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا. مدھیہ پردیش میں پچھڑی ذات کی کافی تعداد ہے اور چوہان نے سپریم کورٹ کے اسٹے کے باوجود SC /ST کو سرکاری نوکریوں میں پروموشن کے معاملے میں فائدہ دینے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔کانگریس نے ابھی تک اپنا موقف صاف نہیں کیا ہے ۔گویا کہSC /ST معاملوں میں کانگریس کی رائے بی جےپی سے مختلف نہیں ہے اور پارلیامنٹ میں اس نے سرکاری موقف کی حمایت کی ہے۔
اسی وجہ سے اعلیٰ ذات کے گروپس کمل ناتھ اور جیوتی را آدتیہ سندھیا کو بھی گھیرے میں لے رہے ہیں۔مدھیہ پردیش میں اگر ذات پات کی بنیاد پر جھگڑا بڑھا تو دونوں کانگریس اور بی جےپی کو دقت کا سامنا کرنا پڑےگا، لیکن حکومت ہونے کے ناطے چوہان کی مصیبت زیادہ ہے۔کانگریس کو اس وقت راہل گاندھی کی کمی کھل رہی ہے ۔دبے لفظوں میں کانگریس لیڈر یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کی اگر راہل کو اپنی شیو بھکتی ہی دکھانی تھی تو اجین کا شیو مندر مہاکالیشور ایک مناسب جگہ ہو سکتی تھی۔
#WATCH: Black flags shown to Madhya Pradesh Chief Minister Shivraj Singh Chouhan & stones hurled at his vehicle in Sidhi during Jan Ashirwad Yatra. (02.09.18) pic.twitter.com/OVHoPVy7Hx
— ANI (@ANI) September 3, 2018
اجین کا مہاکالیشور مندر اپنی تاریخی اورمذہبی حیثیت سے منفرد ہے اور غورطلب بات یہ بھی ہے کی 14جولائی2018 کو بی جے پی صدر امت شاہ نے مدھیہ پردیش الیکشن کی شروعات مہاکال مندر سے ہی کی۔یہیں سے انہوں نے چوہان کے جن آشیرواد یاترا کو جھنڈی دکھائی۔چوہان کی یاترا اپنے55 دن کے سفر کے اختتام کے قریب ہے اور کانگریس نے اپنی انتخابی لڑائی کا آغاز بھی نہیں کیا ہے۔
دراصل کانگریس میں راہل گاندھی کے عمل دخل کے بنا پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔کانگریس کے امیدواروں کا انتخاب ، سماجوادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی سے تال میل ، انتخابی منشور ، ایکتیونکا خرچہ ، دگوجے سنگھ، کمل ناتھ، سندھیا کے بیچ یکتا جیسے ضروری کام صرف اور صرف راہل گاندھی کے کندھوں پر ہیں ۔ان حالات میں 17ستمبر2018 تک ا انتظار کانگریس کے لئے صبرآزما اور پریشان کن ہے۔
(صحافی اور کالم نگار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔)
Categories: فکر و نظر