جے یوا آدیواسی شکتی یعنی’جے وائی اے ایس’وہ گروپ ہے جوقبائلی علاقوں میں بیداری کا کام کر تا رہاہے اور اس نے ‘اب کی بار، آدیواسی سرکار’ کے نعرے سے، بی جی پی کی نیند حرام کر دی ہے۔
ہندوستان میں سب سے زیادہ آدیواسی آبادی والی ریاست مدھیہ پردیش میں سالہا سال سے دو ہی پارٹیاں آپس میں برسر پیکار رہی ہیں-یہاں کوئی بھی جماعت تیسری طاقت کے طور پر ابھر نہیں پائی۔مگر اب ایک آدیواسی تنظیم نے برسر اقتدار پارٹی کے لیے بڑی مشکل پیدا کر دی ہے۔ جے یوا آدیواسی شکتی یعنی’جے وائی اے ایس’وہ گروپ ہے جوقبائلی علاقوں میں بیداری کا کام کر تا رہاہے اور اس نے ‘اب کی بار، آدیواسی سرکار’ کے نعرے سے، بی جی پی کی نیند حرام کر دی ہے۔
جس صوبے میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آدیواسی ہوں اور ان کا فیصد 21 سے زیادہ ہو، کوئی بھی پارٹی اتنے بڑے بلاک میں سیندھ لگنے کا مطلب اچھی طرح سمجھتی ہے۔ خاص طور پر تب جب کہ بی جے پی یہاں پندرہ سال سے حکومت کر رہی ہے اور آنے والے انتخابات میں اسے اقتدار مخالف لہر کا سامنا بھی کرنا پڑیگا۔جے وائی اے ایس نے ‘آدیواسی ادھیکاریاترا’کے ذریعہ مدھیہ پردیش کے قبائلی بیلٹ میں اپنا اثر دکھا دیا ہے۔20 اضلاع میں کامیاب ریلیوں کے بعد اسی ہفتے دھار کے ککشی شہر میں ہوئے عظیم الشان جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں آدیواسیوں کی شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی مقبولیت کس قدر بڑھ چکی ہے۔اسٹیج پر برسا منڈا، ٹنٹیا بھیل، کیپٹین جئے پال سنگھ جے وائی اے ایسے آدیواسی رہنماؤں کی تصاویر تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں آدیواسی اس پروگرام میں شریک ہوئے۔
مدھیہ پردیش کی80سیٹوں پراپنے امیدواروں کو اتارنےاور جتانے کا ‘جے وائی اے ایس’کا اعلان، نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔در اصل آدیواسیوں کے حقوق کی بات اور ان کو حاصل آیئنی تحفظات کے بارےمیں مستقل بیدار کرنے کی وجہ سے جے وائی اے ایس نے قبائلی نوجوانوں کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔
دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے سابق اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر ہیرا لال الاوا نے آدیواسی علاقوں میں گھوم گھوم کر قبائلیوں کو یہ ذہن نشین کرا یا ہے کہ کس طرح شیڈول 5 کے تحت جل،جنگل اور زمین پر ان کا حق چھینا نہیں جا سکتا ساتھ ہی کیسے گرام سبھا کی اجازت کے بغیر پولیس یا سرکاری عملہ ان علاقوں میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔اپنی تقاریر میں ڈاکٹر الاوا بار بار اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح دونوں مین پارٹیوں کے ایم پی اور ایم ایل اے، قبائیلیوں کو اس کے حقوق کے بارے میں نہیں بتاتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلسل استحصال کا شکار ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ آدیواسیوں کو ان کی تہذیبی وراثت پر فخر کرنے اور اسکی تاریخ کے بارےمیں بتاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ انکے گروپ نے آدیواسی نوجوانوں کے لئے جگہ جگہ مفت کوچنگس کا انتظام کیا ہے۔ظاہر ہے اسکا انہیں فائدہ ہوا ہے جو کہ ان کے جلسوں کی بھیڑ سے نظر آرہا ہے۔
ایک سماجی تنظیم کے طور پر’جے وائی اے ایس’نے حکومت کا دھیان پہلے بھی کھینچا تھا۔آدیواسیوں کے حقوق کی بات کرنے پر اس پر نکسلیوں سے ربط کا شک کیا گیا۔ مگر جے وائی اے ایس نے زمین پر کا م کیا،آدیواسیوں کے مسائل سمجھے، ان کے بنیادی ایشوز کو جانا،اجاڑی آدیواسی بستیوں کی بازآبادکاری میں بے توجہی کو دیکھا اور اسکے ساتھ ہی مستقل اپنی تنظیم کو پھیلایا۔ کالجز میں ہوئے الیکشنس میں پہلی بار جے وائی اے ایسے نے اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کر دیا تھا۔مدھیہ پردیش میں کوئی بڑی تیسری طاقت نہیں ہے اور اس وجہ سے جے وائی اے ایس کا آدیواسی سرکار اور آدیواسی وزیر اعلیٰ کا سلوگن قبائلیوں میں پسند کیا جا رہا ہے اور اس سے بی جے پی اور کانگریس پر دباؤ بھی پڑا ہے۔
وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے’جے وائی اے ایس’کی بڑھتی مقبولیت کے پیش نظر تنظیم سے گفت و شنید کی ۔ ‘جے وائی اے ایس’ نے 25نکاتی میمورنڈم دیا اور مطالبات کی ایک طویل فہرست پیش کی تھی۔ اس میں آدیواسی طلبا کے لئے ہا سٹلز کا قیام،قبائلیوں علاقوں میں آئی ٹی آئی اور کالجوں کو کھولنا، آدیواسیوں کے لئے آ رہے فنڈ کوان پر ہی استعمال کرنے، جے وائی اے ایسی مانگیں تھیں۔ یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔فی الحال مدھیہ پردیش میں دلتوں کے ریزرویشن اور ‘ایس سی ایس ٹی ایکٹ’کے خلاف ایک بڑی مہم چل رہی ہے اور یہ بی جے پی کے لئے ایک اور سردرد ہے۔ایسے میں قبائلی ووٹ کا بی جے پی سے چھٹکنا، اس کے لئے بےحد نقصاندہ ہو سکتا ہے۔
گو کہ گونڈوانا گن تنتر پارٹی یعنی جی جی پی ایک پرانی قبائلی پارٹی ہے جو اپنا اثر رکھتی ہے مگر کئی بار ٹوٹنے کی وجہ سے وہ اب صوبے کی سیاست میں کافی کمزور ہو گئی ہے۔ کانگریس لیڈران بھی اس رجحان سے بہت خوش نظر نہیں آ رہے۔بی جے پی سے ناراض آدیواسی ووٹر جس کی حمات کی ان کو امید تھی، وہ اب ممکن ہے ‘جے وائی اے ایس’ کی طرف چلا جائے اور یہی ان کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔
انتخابات میں زیادہ وقت نہیں اور ‘جے وائی اے ایس’ ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، اس لئے 80 سیٹوں پر امیدواروں کو سپورٹ کیا جائےگا۔”47محفوظ نشستیں ہیں اور کل 80 ایسی سیٹس ہیں جہاں علاقائی ووٹ 30 سے 40 ہزار سے بھی زیادہ ہے اور فیصلہ کن ہے۔ ان تمام حلقوں میں جے وائی اے ایس کھل کر اپنے امیدوار کو جتانے کے لیے کام کرےگا” دی وائر سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر الاوا نے کہا؛ہماری رجسٹرڈ پارٹی نہیں ہے اور اب چناؤ میں اتنا وقت بھی نہیں ہے اس لیے،یہ آزاد امیدوار ہونگے، سماج کے اتفاق رائے سے کھڑے ہونگے “۔واضح ہوکہ ڈاکٹر الاوا نے سن 2016 میں ایمس کی ملازمت چھوڑ کر، مکمل طور پر آدیواسیوں میں کام کرنے کی شروعات کی تھی۔ڈاکٹر الاوا کہتے ہیں کہ آدیواسی اب ایک انچ زمین بھی نہیں دیگا اور اسکا مزید استحصال نہیں ہونے دیا جایئگا۔”ہم اپنے ووٹ سے آدیواسی سرکار اور آدیواسی مکھیہ منتری چنیں گے”۔
صوبائی الیکشن اب سر پر ہے- ٹرایئبل ووٹ جو مدھیہ پردیش میں بہت بڑی تعداد میں ہے، اس کے لئے ہونے والی جنگ یہ طے کریگی کہ صوبے میں کس کی سرکار بنتی ہے۔دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کانگریس اور بی جے پی اب آدیواسی ووٹ کے بکھراؤ کو روکنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔
Categories: فکر و نظر