ہا پوڑ میں زبردست خاں اور دوسرےشہیدوں کی یاد میں ہر برس ایک میلہ لگتا ہے جو 10مئی سے شروع ہوکر پورے ایک ماہ چلتا ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ آج ہاپوڑ کے بیشتر لوگ شہید زبردست خاں کی قربانی تو کیا ان کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔
برطانوی صیاد کے خلاف میرٹھ کے جن دیسی سپاہیوں میں بغاوت کی آگ شعلہ زن ہوئی تھی۔ان میں ہاپوڑ کے شہید زبردست خاں بھی تھے۔ انہوں نے اپنے عزم ،قوت ارادی اوربہادری سے انگریزی ایوانوں میں ہلچل مچادی تھی۔موضع ہاپوڑ کے زمیندارزبردست خاں جیسا نام ویسی ہی شخصیت بلند وبالا قدتقربیاًساڑھےچھ فٹ،چوڑاسینہ،مضبوط کاٹھی،پیشانی چوڑی،روشن آنکھیں اوررنگ گندمی۔
ان کے مالاگڑھ کے نواب ولی داد خاں سے قریبی تعلقات تھے۔ جس کا اندازہ اس روایت سے بخوبی ہوتاہے کہ جب ولی داد خاں کے بیٹے کی شادی نواب مظفر نگر اکرم ا للہ کی اکلوتی بیٹی شبنم بیگم سے ہوئی تھی اور بار ات مالاگڑھ سے مظفر نگر کے لئے روانہ ہوئی تو ہاپوڑ آتے ہی نواب موصوف نے بار ات کی ذمہ داری زبردست خاں کوسونپ دی اورخودانقلابی تحریک کی وجہ سےمالاگڑھ لوٹ گئے ۔اس کے بعد چودھری زبردست خاں نے ہی نوشہ میاں کے والدکے فرائض انجام دیے ۔
اس وقت آزادی اور خود مختاری کا نعرہ بلند ہورہا تھا۔ایسے میں گائے اور سور کی چربی لگے کارتوسوں کی خبر نے آگ پر تیل چھڑکنے کا کا م کیا تھا۔ جب یہ بات شمالی ہند کی چھاؤنیوں میں پہنچی تو میرٹھ میں پیر علی اور قدرت علی نے دیسی مسلم فوجیوں کو قرآن مجید اورہندو سپاہ کو گنگا جل پر حلف دلایا کہ وہ مذہب کو خطرے میں ڈالنے والے چربی لگے کارتوسوں کا استعمال نہیں کریں گے ۔جس کاردعمل23فروری1857کوسامنےآیا جب بعض سپاہیوں نے انگریزی حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ کارمائیکل اسمتھ کی موجودگی میں پہلے شیخ پیرعلی اورپھر قدرت علی نے مخالفت کی،اس طرح85سپاہیوں نے بھی کارتوس چھونے سے منع کردیا۔اس کے بعد انگریز حکام نے جانچ کا حکم دے دیا۔
9مئی کی صبح کو کورٹ مارشل کے حکم کی تعمیل ہوئی ،پریڈ پر ہندوستانی اوریورپین سپاہی جمع ہوئے،تیسرے رسالہ کوحکم ہوا کہ وہ پیدل آئے 85 مجرم سوار حوالات میں آگے بلائے گئے وہ اپنی وردی پہنے ہوئے تھے اب بھی سپاہی معلوم ہوتے تھے ۔اول سزا کا حکم بہ آواز بلند پڑھاگیاپھران کی وردیاں اتاری گئیں۔اس کے بعدان کے پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں اور وکٹوریہ پارک کے قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔
جب دوسرےدیسی سپاہی شام کو سیر وتفریح کے لئے صدر بازار گئے تو ان کو دیکھ کر طوائفوں نے طعنہ زنی کی۔تم نے بڑی بڑی موچھیں لگارکھی ہیں مگر تم مرد نہیں ہو،زنانے ہو۔اگر مرد ہوتے تو انگریزوں سے اپنے بھائیوں کے دوش بہ دوش کھڑے ہوکرجنگ کرتے اوران کے وجودسے اپنے ملک کوپاک کرتے ۔مرد وہ ہیں جوانگریزوں کوقتل کررہے اوران کے وجودسے اپنے ملک کوپاک کررہے ہیں۔ یہ سن کر ان کی غیرت جاگ اٹھی اور جنگ آزادی کی متعین تا ریخ کا انتظار کرنا دشوار ہوگیا۔
انگریزوں کے خلاف جہاد چھیڑنے کے مقصد سے میرٹھ میں بھی ایک جہادی مرکز قائم کیا گیا تھا۔اس نے بھی فوراًسپاہیوں کی اس بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے شہر میں جگہ جگہ اشتہار چسپاں کردیے ۔پورے شہر میں افواہوں کا بازار گرم کردیا۔ دوپہر تک یہ خبر عوام کے درمیان گشت کرنے لگی کہ آج کسی بھی وقت دیسی سپاہی بغاوت کرنے والے ہیں،مگر انگریز حکام نے اس اطلاع کو سنجیدگی سے نہیں لیااوردن ڈھلتے ڈھلتے جتنے منھ اتنی باتیں پھیلیں تو شہرمیں بھی بے چینی نظر آنے لگی انجام کاروہی ہوکر رہا جو انگریز افسران کے وہم وگمان میں نہیں تھا۔
10مئی1857کو تیسری کو لیری کے سپا ہی ہا تھوں میں بندوقیں اور برہنہ تلواریں لئے ہوئے آوازیں بلندکرنے لگے، باباؤں یہ جنگ مذہب کے خلاف ہے جو ہمارے ساتھ آنا چاہے آجائے۔ جیل خانہ پر پہنچ کر دھاوا بول دیا ،جہاں انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔85فوجیوں کوجیل سے چھڑاکرشاہ پیرکے تاریخی مقبرے پر پاؤں کی بیڑیاں کاٹی گئیں،بیڑیاں کٹنے کے بعد سپاہیوں کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں شہر کے لوگوں نے روزہ افطارکیا ۔سپاہیوں اور عوام کے ‘دلّی چلو’کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھی۔
ان باغی سپاہیوں کے ہمراہ تین نمبر رسالہ کے78آدمیوں کو چھوڑ کر کل رسالہ سواروں اورریجمنٹ نمبر20؍اور11پیدل ہندوستانی سپاہی اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوگئے اور علی ا لصبح دلّی پہنچے ۔انہوں نے آخری مغل بادشاہ سے قیادت کی درخواست کی۔آخر کاربہادرشاہ ظفرنے عنانِ انقلا ب سنبھال لی۔ اپنے مقصد کو منزل مقصود تک پہنچانے کے بعد یہ انقلابی11مئی سے16مئی تک دلّی میں رہے ۔بعد ازیں کچھ باغی سپاہی انقلابی بھیڑ میں کھو ہوگئے اورکچھ اپنے آبائی وطن لوٹ کر انگریزوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
زبردست خاں بھی ان میں سے ایک تھے ۔ جنہو ں نے واپس آ کر ہاپوڑکے محاذ پر انگریزوں کاجینا حرا م کردیا تھا۔ ولی داد خاں کوبہادر شاہ ظفرنے بلند شہر،علی گڑ ھ کاصوبہ دار مقررکیاتووہ بتاریخ26مئی مالاگڑھ چلے آئے۔زبردست خاں نے اس پرآشوب دور میں ولی داد خاں کا بھر پور ساتھ دیا۔انہوں نے ہاپوڑ میں انقلابیوں کی ایسی سربراہی کی جس سے جی ۔ٹی۔ روڑ پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا،اب میرٹھ سے آگرہ تک کاراستہ باغیوں کے ما تحت آگیا ۔ انگریزوں کو ٹیلی گراف سے بھی محروم کردیا۔
ولی داد خاں اور زبردست خاں نے ہاپوڑ میں انگریزوں پر حملہ کرنے کی حکمت عملی بنائی مگرانگریزو ں کے جو تے سر پر رکھنے والے بھٹونہ کے جاٹ ان کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا بن گئے ۔ ہاپوڑ میں مجاہدین کی سرتابی کے لئے انگریز افسرولیمس کو آنا پڑا۔اس نے ہاپوڑ میں تعینات ولسن اور مخبر بھوپ سنگھ تیاگی کی مددسے ہاپوڑکی شو رش کو دبانے میں کامیابی حاصل کی۔ بھوپ سنگھ تیاگی زبردست خاں کا سب سے بڑاکا رقیب تھا۔
وہ انگریزوں کی گود میں جا بیٹھا ا س نے زبردست خاں کی کو ئی تدبیر کارگر ہونے نہیں دی۔بھوپ سنگھ تیا گی عرف بھوپا نے زبردست خاں، الفت خاں اور ان کے انقلابی ساتھیوں کو انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ فاسٹ ٹریک کورٹ نے ان تمام مجاہدوں کو بغاوت کے جرم میں طے شدہ سزائے موت سنائی۔
جب14ستمبر1857کوانہیں پھانسی دی گئی تو قدرت کاکرشمہ دیکھیے کہ تین مرتبہ ریشم سے بنی پھا نسی کی ڈوری ٹوٹ ٹوٹ گئی تو اس منظر کودیکھ کر انگریز افسر ولسن (Wilson) حیرت زدہ رہ گیااور زبردست خاں کوزندہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ان کوتختہ دارسے اتار دیا گیااورپانی مانگنے پر پانی پلانے کاحکم دیامگر انگریزمخبروں نے اس پر برہمی کا اظہارکیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر اس جانباز کو موت کی سزانہیں دی گئی تو وہ ا ن کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس بات کو ولسن نے بھی تسلیم کیاکہ جب چودھری زبردست خاں پیاس بجھا رہے تھے تب اس نے ا نہیں اپنی بندوق کا نشانہ بنایا۔چودھر ی زبردست خاں وطن کی حرمت پہ قربان ہوگئے۔
انگریزی آفیسر نے اسی پر بس نہیں کیا،اس نے یہ بھی حکم دیا کہ زبردست خاں کے خاندان میں جتنے بھی مرد جوان بوڑھے یا بچے ہوں سب کو لاکر پھانسی دے د ی جائے کوئی بھی مرد زندہ نہ چھوڑا جائے اور تمام جائیداد ضبط کرلی جائے ۔ا س حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برٹش حکام نے زبردست خاں کے خاندان کے دوسرے افراد کی دھڑ پکڑ شروع کر دی ۔جن میں بیٹے امجد خاں کو انگریزوں نے پکڑنے میں کامیابی حاصل کی اور اس کو شہید کردیا۔
زبردست خاں کو جس پیپل کے درخت پرپھانسی پر لٹکایا گیا تھا و ہاں آج ٹیلی فون ایکسچنج ہے۔ہا پوڑ میں زبردست خاں اور دوسرےشہیدوں کی یاد میں ہر برس ایک میلہ لگتا ہے جو 10مئی سے شروع ہوکر پورے ایک ماہ چلتا ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ آج ہاپوڑ کے بیشتر لوگ شہید زبردست خاں کی قربانی تو کیا ان کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔
Categories: فکر و نظر