الور ماب لنچنگ معاملے میں پولیس کی طرف سے داخل ادھوری چارج شیٹ نہ صرف جیل میں بند ملزمین کے لئے قانونی طور پر مفید ہے، بلکہ اس سے یہ بھی صاف ہوتا ہے کہ پولیس کا باقی ملزمین کو پکڑنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جئے پور : اکبر خان عرف رکبر کے قتل کے معاملے میں پولیس کا رول ایک بار پھر سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں جمعہ کو الور کے سول جج اور جوڈیشیل مجسٹریٹ پرکاش چند مینا کے سامنے جو چارج شیٹ پیش کی ہے اس کو کورٹ نے ادھورا مانا ہے۔ کورٹ نے چارج شیٹ میں ایف ایس ایل رپورٹ شامل نہیں ہونے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے ایک بار تو اس کو منظور کرنے سے انکار کر دیا، لیکن بعد میں پولیس کی طرف سے ایک مہینے میں رپورٹ جمع کرنے کی انڈرٹیکنگ دینے پر اس کو منظور کر لیا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ کورٹ سے چارج شیٹ داخل کرنے کے لئے طے مدت کے علاوہ 7 دن کا اضافی وقت ملنے کے بعد بھی پولیس ایف ایس ایل رپورٹ حاصل نہیں کر پائی۔ معاملے کی جانچکر رہے اڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ ویر سنگھ شیکھاوت کی مانیں تو کئی بار ریمائنڈر بھیجنے کے بعد بھی ایف ایس ایل رپورٹ نہیں مل پائی۔
قانون کے جانکاروں کے مطابق بنا ایف ایس ایل رپورٹ کی چارج شیٹ جیل میں بند ملزمین کے لئےمفید ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ کے وکیل ڈاکٹر وبھوتی بھوشن شرما کہتے ہیں، ‘ اگر ملزم کورٹ میں ضمانت کی عرضی لگاتے ہیں تو سماعت کے دوران چارج شیٹ میں ایف ایس ایل رپورٹ کا نہیں ہونا ان کے حق میں جائےگا۔ حالانکہ صرف اس بنیاد پر کورٹ ضمانت نہیں دیتی۔ ‘
اس تکنیکی خامی کو کنارے کر دیا جائے توبھی چارج شیٹ کی شکل میں سامنے آئی پولیس کی تفتیش پر سوالوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ چارج شیٹ میں پولیس نے یہ تو مانا ہے کہ 20 جولائی کی رات کو اکبر کا قتل بھیڑ نے کیا، لیکن کارروائی کے کھاتے میں محض تین ملزمین کی گرفتاری ہے۔ ان تینوں کی گرفتاری ،واقعہ کے فوراً بعد ہو گئی تھی۔ پولیس نے دھرمیندر یادو اور پرمجیت سنگھ کو 21 جولائی کو پکڑا جبکہ نریش راجپوت کو 23 جولائی کو گرفت میں لیا۔ ان تین گرفتاریوں کے بعد پولیس کے ہاتھ خالی ہیں ۔
ایسے میں سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جانچ میں رکبر کے قتل کے لئے بھیڑ کو ذمہ دار ماننے کے بعد بھی پولیس نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ کیا پولیس نے دھرمیندر، پرمجیت اور نریش سے قتل میں شامل باقی لوگوں کے بارے میں پوچھ تاچھ نہیں کی؟ اگر ان تینوں نے نام بتائے تو پولیس نے ان کو پکڑا کیوں نہیں؟ ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے تفتیشی افسر ویر سنگھ شیکھاوت کہتے ہیں، ‘ فی الحال دھرمیندر یادو، پرمجیت سنگھ اور نریش راجپوت کے خلاف چارج شیٹ پیش کی ہے جبکہ نول کشور شرما، وجئے مورتی کاراور دیگر کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 173 (8) میں تفتیش زیر التوا ہے۔ معاملے کی تفتیش ابھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ ‘
تفتیشی افسر کا دعویٰ تکنیکی طور سے تو صحیح ہے، لیکن کارروائی کی سست چال الگ ہی کہانی بیان کرتی ہے۔ پولیس وجئے مورتی کار کو پہلے دن سے قتل میں شامل مان رہی ہے، لیکن اس کو ابتک پکڑ نہیں پائی ہے۔ مقامی پولیس سے جڑے ذرائع کے مطابق اس کو پکڑنے کی کوشش ہی نہیں ہو رہی۔ نول کشور شرما کو لےکر پولیس کا رویہ اور بھی عجیب ہے۔ تفتیش میں اس کا ملوث ہونا تو سامنے آیا ہے، لیکن پولیس اس پر ہاتھ ڈالنے سے بچ رہی ہے۔
نول وہی شخص ہے، جس نے معاملے کی جانکاری مبینہ طور پر پولیس کو دی تھی۔ اس نے خود کو پولیس کے جائے واردات پر پہنچنے سے لےکر اسپتال میں رکبر کو مردہ اعلان کرنے تک کے واقعے کا چشم دید بتایا۔ یہ دعویٰ بھی سب سے پہلے نول نے کیا کہ اکبر کی موت بھیڑ کی پٹائی سے نہیں، پولیس کے ٹارچر کرنے سے ہوئی۔ اس دوران مایا دیوی اور ڈال چند نام کے مبینہ چشم دید میڈیا کے سامنے آئے۔ انہوں نے پولیس والوں کو اکبر سے مارپیٹ کرتے ہوئے دیکھنے کا دعویٰ کیا۔
مایا دیوی اور ڈال چند کے اس دعوے کے بعد مقامی بی جے پی ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ نے اکبر کے قتل کے لئے پولیس کو ذمہ دار بتاتے ہوئے معاملے کی جوڈیشیل جانچ کی مانگ تیز کر دی۔ 24 جولائی کو جائے واردات پر پہنچے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا نے بھی کہا کہ اکبر کی موت پولیس حراست میں ہوئی۔ حالانکہ وزیر داخلہ کٹاریا نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے اکبر کے ساتھ مارپیٹ نہیں کی، اس کو اسپتال لے جانے میں ضرور لاپرواہی ہوئی۔
اے ڈی جی این کے ریڈی، اے ڈی جی پنکج کمار سنگھ، آئی جی مہیندر چودھری اور آئی جی ہیمنت پریہ درشی کی جانچ میں پولیس اہلکاروں کو اکبر کو اسپتال لینے جانے کی بجائے گایوں کو گئوشالہ پہنچانے کا قصوروار مانا۔ پولیس نے اکبر کے ساتھ مارپیٹ کی یا نہیں، یہ پتا عدالتی تفتیش پوری ہونے کے بعد چلےگا، لیکن کیس میں نول کشور شرما کا کردار شک کے دائرے میں ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس تفتیش میں قتل میں نول کا ملوث ہونا سامنے آیا ہے۔
حالانکہ اس بارے میں پولیس آن دی ریکارڈ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں ہے، لیکن جانچ ٹیم کا حصہ رہے ایک پولیس اہلکار بتاتے ہیں، ‘ کال ڈیٹیل میں سامنے آیا ہے کہ نول کشور شرما واقعہ کے دوران دھرمیندر یادو، پرمجیت سنگھ، نریش راجپوت اور وجئے مورتی کارکے لگاتار رابطہ میں تھا۔ ‘ وہ آگے کہتے ہیں، ‘ مایا دیوی اور ڈال چند نے میڈیا کو یہ بیان بھی نول کشور شرما کے کہنے پر ہی دیا کہ انہوں نے پولیس کو اکبر سے مارپیٹ کرتے ہوئے دیکھا۔ پوچھ تاچھ کے دوران انہوں نے یہ بات کہی۔ یہ دونوں نول کے رشتہ دار ہیں۔ ‘
قانون کے جانکاروں کے مطابق پولیس کے پاس نول کشور شرما کو گرفتار کرنے کا کافی ثبوت ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ میں وکیل تنویر احمد کہتے ہیں، ‘ پولیس کے پاس نول کشور شرما کو 120بی میں گرفتار کرنے کا پورا گراؤنڈ ہے۔ سرسری طور پر اس کے قتل کی سازش میں شامل ہونا دکھ رہا ہے۔ ‘ نول کو ابتک گرفتار نہیں کرنے کے پیچھے مقامی پولیس ‘ آف دی ریکارڈ ‘ بات چیت میں دو وجہ بتاتی ہے۔ پہلی سیاسی دباؤ اور دوسری عدالتی تفتیش۔ غور طلب ہے کہ نول وشو ہندو پریشد سے جڑا ہوا ہے۔ یہی نہیں، اس کو رام گڑھ ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کا بھی قریبی مانا جاتا ہے۔
آہوجہ نول کو ہی نہیں، گرفتار کئے گئے تینوں ملزمین کو بھی اس معاملے میں بےقصور بتا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ اکبر کی موت پولیس کی پٹائی سے ہوئی۔ نول اور گرفتار کئے گئے تینوں بچے بےقصور ہیں۔ عدالتی تفتیش پوری ہونے کے بعد پوری حالت صاف ہو جائےگی۔ اب کوئی گرفتاری نہیں ہوگی۔ تینوں بچے بھی جلد ہی باعزت بری ہوںگے۔ ‘
پولیس کے سامنے سیاسی دباؤ سے زیادہ ڈر عدالتی تفتیش کا ہے۔ اگر اس میں پولیس والوں کو اکبر سے مارپیٹ کا قصوروار مان لیا گیا تو پورا معاملہ الٹا ہو جائےگا۔ حالانکہ پولیس کو امید ہے کہ اس کو اس کیس میں کلین چٹ ملےگی۔ پولیس کے مطمئن ہونے کی سب سے بڑی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیس کے موقع پر پہنچنے سے پہلے ہی اکبر کے ساتھ مارپیٹ ہو چکی تھی۔
غور طلب ہے کہ اکبر کا پوسٹ مارٹم 21 جولائی کو دوپہر 12:45 بجے الور کے سرکاری ہاسپٹل میں ہوا۔ پوسٹ مارٹم میں شامل ڈاکٹروں کے مطابق اکبر کے جسم پر چوٹوں کے تمام نشان 12 گھنٹے پرانے تھے۔ یعنی اس کے ساتھ جو بھی مارپیٹ ہوئی وہ 20 جولائی رات کو 12:45 بجے تک ہی ہوئی۔ قابل غور ہے کہ نول نے مبینہ طور پر واقعہ کی اطلاع 12:41 بجے دی تھی اور 1 بجے پولیس موقع پر پہنچی تھی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر