پارلیامنٹ کی Estimates Committee کو بھیجے خط میں آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے ان طریقوں کے بارے میں بتایا ہے جن کے ذریعے بےایمان بزنس گھرانوں کو حکومت اور بینکنگ نظام سے گھوٹالہ کرنے کی کھلی چھوٹ ملی۔
نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی)کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے این پی اے کے فرضی واڑے کے بڑے معاملوں کی ایک فہرست پی ایم اوکو سونپی تھی،تاکہ ان معاملوں کی سنجیدگی سے جانچ کی جا سکے۔انہوں نے پی ایم او کو اس حقیقت سے بھی واقف کرایا تھا کہ کس طرح سے ‘بےایمان پروموٹروں ‘کے ذریعے درآمد کی اوور-انوائسنگ (اصل سے زیادہ بل بنانے)کا استعمال کرکے سرمایہ پر مبنی وسائل کی لاگت قیمت کو بڑھاچڑھاکر دکھایا گیا۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ راجن کی فہرست نے نہ تو اس حکومت کو اور نہ ہی پچھلی حکومت کو نیند سے جگایا-یہ فہرست کب سونپی گئی،یہ واضح نہیں ہے-نہ ہی ایسے کھاتوں پر نگرانی بڑھانے کی سمت میں ہی کوئی قدم اٹھائے گئے، جو کہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس سمت میں کوئی کارروائی نہیں کی۔راجن نے یہ انکشاف پارلیامنٹ کےاسٹیمیٹ کمیٹی کو سونپے گئے اپنے 17 صفحات کے ایک تفصیلی جواب میں کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی Estimates Committee نے این پی اے بحران پر راجن کو اپنی بات رکھنے کے لئے کہا تھا۔
حالانکہ،کمیٹی کا ماننا ہے کہ راجن نے موجودہ پی ایم او کے بارے میں بات کی ہے، لیکن وہ کسی طرح کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے راجن کو وزیر اعظم دفتر کو لکھے گئے خط کی تاریخ بتانے کے لئے کہنے پر غور رہے ہیں۔کمیٹی کے ایک ممبر نے کہا کہ یہ جانکاری زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، کیونکہ دھوکہ دھڑی کے معاملوں میں کارروائی کرنے کی ذمہ داری واضح طور پر موجودہ حکومت پر ہے۔’ہم پی ایم او ‘ کو ایک اٹوٹ اکائی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ‘
ریزرو بینک آف انڈیاکے سابق گورنر نے کہا، ‘خراب قرضوں کی ایک بڑی تعداد 2006-2008 کے وقت کی ہے، جب اقتصادی ترقی کی رفتار مضبوط تھی اور بجلی کارخانوں جیسے بنیادی ڈھانچے کے سیکٹر کی پچھلی اسکیمیں وقت پر اور بجٹ کے اندر پوری کی گئی تھیں۔ ایسے وقت میں ہی بینکوں کے ذریعے غلطیاں کی جاتی ہیں۔ وہ ماضی کا اضافہ اور مظاہرہ کو بنیاد مانکر مستقبل کا اندازہ لگاتے ہیں اور وہ منصوبوں میں زیادہ منافع اور پروموٹروں کی کم حصےداری کے لئے تیار ہو جاتے ہیں غیر معمولی حوصلہ افزائی کا تاریخی رجحان ہے جو وقت کے ایسے دور میں مختلف ممالک میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ‘لیکن، 2008 میں عالمی اقتصادی بازار کے چرمرانے اور عالمی اقتصادی بحران کے بعد جب ترقی کی رفتار دھیمی پڑ گئی، تب بینکوں کے ذریعے دئے گئے قرض بحران میں گھر گئے۔
راجن کے مطابق اس مسئلہ کو منظوریوں کو لٹکانے والے افسروں نے اور گہرا کر دیا۔ ‘کوئلہ کان کے مشتبہ مختص جیسے حکومت سے جڑے کئی مسائل اور ساتھ ہی جانچکے ڈر نے دہلی میں یو پی اے اور اس کے بعد آئی این ڈی اے، دونوں ہی حکومتوں کے فیصلے لینے کی چال کو سست کر دیا…اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان میں بجلی کی کمی کی حالت بنی ہوئی ہے، رکی ہوئی بجلی اسکیموں کی دشواریاں جس طرح سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، وہ اپنے آپ میں حکومت کے فیصلے لینے کی دھیمی رفتار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ‘
اس دور میں بینکرپسی کوڈ نہیں ہونے کی حالت نے بینکوں کے لئے قرض دار پر جرمانہ لگاکر قرضوں کو بٹّے کھاتے میں ڈالنے (رائٹ آف کرنے)کو مشکل بنا دیا ؛ اس کا نتیجہ خراب قرضوں کو جلائے رکھنے کے طور پر نکلا۔ حالانکہ راجن نے غلط رویہ اور دھوکہ دھڑی کو بھی اس کی وجہوں کے طور پر گنایا اور کہا کہ کارروائی کرنے کو لےکر انتظامیہ کی عدم دلچسپی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے:
‘ پبلک سیکٹر کے بینکوں میں فرضی واڑے کی شکلیں بڑھ رہی ہے، حالانکہ کل این پی اے میں اس کا حصہ مقابلتاً کم ہے۔ فرضی واڑہ عام این پی اے سے الگ ہے، کیونکہ ان میں ہونے والا نقصان خاص طور پر قرض لینے والے یا بینکوں کے غیر قانونی کاموں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ افسوس ناک ہے کہ حکومت ایک بھی بڑے گھوٹالےباز پر قانونی شکنجہ کسنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کا نتیجہ ایسے گھوٹالوں پر لگام نہیں لگنے کے طور پر نکلا ہے۔ ‘
‘ جانچ ایجنسی بینکوں پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ اصل دھوکہ دھڑی کے ہونے کے کافی بعد جاکر ان کے بارے میں جانکاری دیتے ہیں، اور بینک والے اس لئے اس معاملے میں سستی دکھاتے ہیں، کیونکہ ان کو یہ پتا ہے کہ کسی لین دین کو دھوکہ دھڑی کے طور پر نشان زد کئے جانے کے بعد ان کو جانچ ایجنسیوں کے ذریعے پریشان کیا جائےگا، جبکہ اصل ٹھگوں کو پکڑنے کی سمت میں کوئی زیادہ ترقی نہیں ہوگی۔ جب میں گورنر تھا، آر بی آئی نے ایک دھوکہ دھڑی نگرانی سیل کی تشکیل کی تھی، جس کا کام دھوکہ دھڑی کے معاملوں کی جانچ ایجنسیوں میں جلدی رپورٹنگ کے لیے تعاون کرنا تھا۔ میں نے پی ایم او کو بڑے-بڑے نام دار کے معاملوں کی ایک فہرست بھی بھیجی تھی اور ساتھ ملکر کارروائی کرنے کی مانگ کی تھی تاکہ کم سے کم ایک دو لوگوں پر قانون کی سختی کی جا سکے۔ مجھے اس محاذ پر ہوئی ترقی کے بارے میں جانکاری نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ترجیح کی بنیاد پر دھیان دیا جانا چاہیے۔ ‘
کمیٹی کو دئے گئے اپنے جواب میں راجن نے بنا کسی لاگ لپیٹکے کہا کہ ‘بڑے پروموٹروں کے ذریعے کی جانے والی مسلسل اور اکثر غیر سنجیدہ اپیلوں کے ذریعے دیوالیہ پروسس کوٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ ‘جگ ظاہر چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ عدالتی نظام ہر ڈوبے ہوئے قرض پر سماعت کرنے میں قابل نہیں ہے، راجن نے لکھا ہے کہ ‘قرضوں کو لےکر بات چیت دیوالیہ عدالتوں کے سایے میں کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کے اندر۔ ‘
بڑے ڈیفالٹروں کے ذریعے دباکے رکھا گیا بڑا این پی اے پر تیکھا حملہ کرتے ہوئے راجن نے لکھا ہے، ‘ بینکوں اور پروموٹروں کے ذریعے دیوالیہ عدالتوں کے باہر سمجھوتہ کرنا چاہیے اور اگر پروموٹروں کا رویہ عدم تعاون کاہے، تو بینکروں کے پاس ان کے بنا ہی کارروائی کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ‘حالانکہ یہ درج کرتے ہوئے بھی کہ حال کے سالوں میں ڈیفالٹروں کے متعلق ‘ نرمی کی تہذیب ‘بدل رہی ہے، راجن نے Estimates Committee کو مودی حکومت میں کافی بحث میں رہے دو خیالات-ایک بیڈ بینک اور دوسرا انضمام کے خلاف آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے،’ہمیں بینکوں کو سدھارنے کے لئے حکومت کے ذریعے تشکیل شدہ ایک بلند سطح کا بااختیار اور ذمہ دار گروپ کی کوشش درکار ہے۔ نہیں تو ہم ایسے ہی بےکار کے حل (بیڈ بینکوں، بحران زدہ اثاثہ کے حصول کے لئے انتظام وانصرام ٹیموں، بینکوں کے انضمام جیسے حل)کو اچھالے جاتے دیکھتے رہیںگے اور اصل میں اس سمت میں کوئی ترقی نہیں ہوگی۔ ‘Estimates Committee کو ہندوستان کے تقریباً9 لاکھ کروڑ روپے کے ڈوبے ہوئے قرض کے پیچھے کی وجہوں کا پتا لگانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
راجن نے اس کے پیچھے کام کرنے والے کئی وجہوں کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ‘ قرض کو کم کرنا اور کچھ نہیں پروموٹروں کو تحفہ دینے کی مانند ہے اور کوئی بھی بینکر ایسا کرتے ہوئے دکھنے اور اس طرح سے جانچ ایجنسیوں کی نگاہ میں آنے کا خطرہ اٹھانا نہیں چاہتا تھا۔ ‘
راجن نے این پی اے مسئلہ کی گڑبڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے، ‘بےایمان پروموٹرس جنہوں نے سرمایہ کے سامان کا اوور انوائسنگ کے ذریعے قیمتوں کو بڑھاچڑھاکر دکھایا، ان پر شاید ہی کبھی روک لگائی گئی۔پبلک سیکٹر کے بینکروں نے پروموٹروں کو پیسہ دینا جاری رکھا، جبکہ پرائیویٹ سیکٹرکے بینک خود کو اس سے باہر رکھے ہوئے تھے۔آخرکار رسوخ رکھنے والے کئی پروموٹروں کو ضرورت سے زیادہ قرض دئے گئے، جن کی تاریخ اپنے قرضوں کو واپس نہ کرنے کی تھی۔ ‘
بقول راجن، ‘این پی اے مسئلہ میں غلط استعمال اور بد عنوانی کا کتنا اہم کردار رہا؟ بلاشبہ، اس کا تھوڑا کردار تھا، لیکن بینکروں کے بہت جوش، نااہلی اور بد عنوانی کو الگ کرکے دیکھنا مشکل ہے۔ ‘ساتھ ہی وہ یہ بھی جوڑتے ہیں کہ پورا نظام ایک بھی بڑے نام دار گھوٹالےباز پر کارروائی کرنے کے معاملے میں زبردست طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دھوکہ دھڑی پر لگام نہیں لگائی جا سکی ہے۔
قرضوں کو لگاتار نیا کرتے جانے کے مسئلے پر راجن نے بغیر لاگ لپیٹ کی اپنی بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اسیٹ کوالٹی ریویو’ کا مقصد خراب قرضوں کو نیا کرنے اور چھپانے کو روکنا اور بینکوں کو رکی ہوئی اسکیموں کو بحال کرنے کے لئے مجبور کرنا تھا۔دیوالیہ کوڈ کے نافذ ہونے سے پہلے تک پروموٹروں کو یہ نہیں لگتا تھا کہ ان پر اپنے فرم کو گنوا دینے کا سنگین خطرہ منڈلا رہا ہے۔اس کے نافذ ہو جانے کے بعد بھی کچھ لوگ ابھی بھی کارروائی کو مذاق بنانے کوشش کر رہے ہیں۔ان کو امید ہے کہ وہ عوضی (پراکسی) بولی لگانے والوں کی معرفت اپنی کمپنیوں پر پھر سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ‘
باوثوق ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی ایم او اور وزارت خزانہ کو راجن کی فہرست مل گئی تھی، لیکن، اس پر کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔ Estimates Committee کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ مودی نے ‘دھوکہ دھڑی والے این پی اے ‘ پر کارروائی کیوں نہیں کی،یہ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب دینے سے حکومت کو کترانا نہیں چاہیے۔
یہ دلچسپ ہے کہ راجن نے کمیٹی کو جوابی خط میں لکھا تھا کہ چونکہ امریکہ میں ان کے پاس کوئی کلریکل مدد نہیں ہے، اس لئے ان کو جواب دینے میں وقت لگےگا۔ جوشی نے ان کو دو ہفتے کا وقت دیا تھا اور راجن نے اس وقت کا استعمال کمیٹی کو این پی اے بحران کی ایک فہرست فراہم کرانے کے لئے کیا۔
ذرائع کے مطابق، پارلمانی کمیٹی اب وزیر اعظم کے سربراہ سکریٹری نرپیندر مشر اور وزیر خزانہ ہنس مکھ ادھیا کو اپنے سامنے پیش ہونے کے لئے کہےگی اور اس بارے میں سوال پوچھےگی کہ آخر راجن کے ذریعے گھوٹالےبازوں کی فہرست دئے جانے کے بعد بھی اس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ادھیا پہلے بھی کمیٹی کے سامنے ایک بار پیش ہو چکے ہیں۔کمیٹی نے ریزرو بینک آف انڈیاکے موجودہ گورنر ارجت پٹیل کو بھی اپنے سامنے پیش ہونے اور اپنی بات رکھنے کے لئے کہا ہے۔ہندوستان کے سب سے بڑے ڈیفالٹروں میں بھوشن اسٹیل بھی شامل ہے، جس کے پاس 44478 کروڑ روپے کا بقایہ ہے۔ساتھ ہی روئیا بھائیوں کے ذریعے پروموٹ کیا گیا ایسّار اسٹیل بھی ہے، جس کے پاس 37284 کروڑ روپے کا بقایہ ہے۔
رگھو رام راجن کے نوٹ کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
Parliamentary Note – Raghur… by on Scribd
(سواتی چترویدی سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر