بھیما کورےگاؤں تشدد اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی مبینہ سازش کے الزام میں سماجی کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سے ایلگار پریشد چرچہ میں ہے۔ ایلگار پریشد کے ماؤوادی کنیکشن سمیت تمام دوسرے الزامات پر اس کے کنوینر اور بامبے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس بی جی کولسے پاٹل کا نظریہ۔
ایلگار پریشد کے ماؤوادی کنیکشن سے پہلے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد جسٹس پی بی ساونت اور جسٹس کرشن ایّر نے ایک پبلک ٹریبونل کے تحت گجرات فسادات پر نریندر مودی کے خلاف ایک رپورٹ سونپی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس قتل عام کے لئے مودی کو سزا ملنی چاہیے اور ان کو زندگی بھر کسی آئینی عہدے کی ذمہ داری نہیں دی جانی چاہیے۔
میں اور جسٹس ساونت تقریباً گزشتہ 30 سالوں سے سیکولرزم، اشتراکیت اور جمہوریت کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ میں مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے سے ہی ان کی تنقید کرتا رہا ہوں۔ 4 اکتوبر 2015 کو ہم نے شنیوارواڑہ میں ہی ایک ریلی کا انعقاد کیا تھا اور آر ایس ایس سے آزاد ہندوستان کی مانگ رکھی تھی۔ اس کے کنوینر بھی ہم ہی تھے۔ وہاں ہم نے حلف لیا تھا کہ اپنی زندگی میں ہم کبھی بی جے پی یا کسی فرقہ وارانہ پارٹی کو ووٹ نہیں دیںگے یا مودی کی حمایت کریںگے۔
ملک بھرکے لوگوں کے ساتھ غلط ہو رہا ہے اور یہ تمام ترقی پسند لوگ ہیں۔ تو اس لئے ہم نے مہاراشٹر سے سدھیر دھاولے، کبیر کلا منچ جیسے کچھ لوگوں کو مدعو کیا تھا۔ ہمیں لگا تھا کہ بھیما کورےگاؤں کی 200ویں سالگرہ پر بڑا جشن ہوگا اور لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا اچھا موقع ہوگا، تو کیوں نہ 31 دسمبر کو ملک بھر سے لوگوں کو شنیوارواڑہ میں بلایا جائے۔ ہم اس میں کامیاب بھی رہے۔ تقریباً 253 تنظیم اس میٹنگ میں شامل ہوئی اور ہم سب نے حلف لیا کہ اپنی زندگی میں کبھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیںگے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایلگار پریشد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ہم لوگ اس پروگرام کے کنوینر ہیں۔ الزام ہے کہ اس پروگرام کو ماؤوادیوں نے فنڈ دیا تھا۔ کس کے لئے، کہ لوگ بھیما کورےگاؤں آئیں اور آکر پریشد میں حصہ لیں۔ پروگرام کے انعقاد کو لے کر بھی سوال ہے، لیکن میں بتا دوں کہ ہمارے پروگرام کی اگلی صبح (1 جنوری) اسی جگہ ایم آئی ٹی کا پروگرام تھا، جہاں وہ مشہور سائنس داں ڈاکٹر آر اے ماشیلکر کی 75ویں یوم پیدائش کی سالگرہ پر ان کو اعزار دینے والے تھے۔
ہمارا پروگرام شام کو تھا تو انہوں نے ہم سے التجا کی کہ کیا وہ شام کو ہی اپنے پروگرام کے لئے اسٹیج کرسی، سجاوٹ وغیرہ کا انتظام کر سکتے ہیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، اس لئے ان کی سہولیت کے لئے ہم راضی ہو گئے۔ تو اس طرح کے خرچ کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ ہم عام لوگوں کے درمیان رہنے والے لوگ ہیں۔ ہم ٹرک ڈرائیوروں، مزدوروں جیسے عام لوگوں سے ملتے ہیں، بات کرتے ہیں۔
میٹنگ وغیرہ میں لاکھوں لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ ہمیں اس سب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری تحریک عوامی تحریک ہے۔ ہم رہنما نہیں ہیں۔ تو اس پریشد کے لئے ماؤوادیوں کے ذریعے فنڈ دئے جانے کی بات کورا جھوٹ ہے، سو فیصد جھوٹ۔ اس طرح کی فنڈنگ کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اگلا سوال اٹھتا ہے کہ وہ یہ کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ ہم سالوں سے ان کے، اور ان فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ مودی سے کوئی دشمنی تو ہے نہیں۔
لیکن ان کی حکومت دانشوارانہ مزاحمت برداشت نہیں کر سکتی۔ اسی لئے سیکولرزم کے بطور ہم بار بار یہی حلف لیتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دیںگے۔ مہاراشٹر پولیس کا یہ بھی الزام ہے کہ پروگرام میں دی گئی اسپیچ آئین کے خلاف تھی اور انہی کی وجہ سے تشدد بھڑکا تھا۔ میں یہی کہوںگا کہ وہ ثابت کریں۔ این ڈی ٹی وی کے ذریعے ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے ہیں، ہم نے ان کو ریکارڈ کیا تھا، یہ اسپیچ عام ہیں، یوٹیوب پر آپ ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کو دیکھکر خود فیصلہ لیجئے کہ کیا یہ غیر آئینی ہیں۔
وہ ایک نظم کی بات کر رہے ہیں، جو دھاولے نے پڑھی تھی، پر نظم کسی بھی تناظر میں ہو سکتی ہے، یہ سمجھنے والی بات ہے۔ بنایک سین معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں۔ کورٹ خود کہہ چکی ہے کہ اگر آپ کا نظریہ وہی ہے یا پھر آپ ماؤواد کی حمایت کرتے ہیں، تو آپ ماؤوادی نہیں ہو جاتے۔ مختصر اً کہیں تو جو بھی اس حکومت کے خلاف ہے، اس کو جھوٹے الزام میں پھنساکر 2019 تک جیل بھیجا جا رہا ہے۔
یہ سب دھیان بھٹکانے کے طریقے ہیں۔ کم سے کم 3 ایجنسی، پونے رورل پولیس، آندھر پردیش کا ایک پبلک ٹریبونل اور متعلقہ علاقے کے ڈی آئی جی کے ایک ٹریبونل نے متفقہ طور پر سمبھاجی بھڑے اور ملند ایکبوٹے کو اس تشدد کا ذمہ دار بتایا تھا۔ وہ مجرم ہیں۔ انہوں نے اس علاقے میں مہینوں تک کام کیا تھا۔ 29 دسمبر کو ہی انہوں نے مہارواڑہ میں گووند گوپال مہار کے مقبرہ کو نقصان پہنچایا تھا۔
وہ تاریخ بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ سب آر ایس ایس کا جانا پہچانا طریقہ ہے، وہ مہاروں اور مراٹھاؤں کے درمیان اختلاف پیدا کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ مہینوں سے تیاری کر رہے تھے۔ بھیما کورےگاؤں کے واقعہ والے دن بھی انہوں نے اس مقبرے سے لے کر بھیما کورےگاؤں تک ایک بڑا جلوس نکالا تھا۔ وہاں بھیما کورےگاؤں جا رہے دلتوں سے ان کی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ انہوں نے بند کی اپیل کی تھی، جس سے ان کو کچھ کھانا پینا ہی نہ ملے۔
یہ بہت ہی خراب ہے اور منصوبہ بند سازش ہے، جو ہو سکتا ہے حکومت کی مدد کے ساتھ کیا گیا ہو۔ کیونکہ پولس نے اس کے بعد بھڑکے تشدد پر کوئی ایکشن نہیں لیا، جیسا مودی نے گجرات فسادات میں کیا تھا۔ فسادیوں کو 72 گھنٹے دے دئے گئے تھے کہ جو کرنا ہے کرو۔
یہ سب ان باتوں سے دھیان ہٹانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات جس سے وہ دھیان ہٹانا چاہتے ہیں، وہ ہے ملک چلا پانے میں مودی کی ناکامی۔ جو بھی مودی کی مخالفت میں کچھ بول رہا ہے، اس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا ارادہ پریشد کو بدنام کرنے کا ہے۔ وہ اہم ملزمین بھڑے-ایکبوٹے سے دھیان ہٹا رہے ہیں، اس پر کام کرنے کے بجائے انہوں نے ایلگار پریشد کا ماؤوادیوں سے لنک نکال لیا، جس میں وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم کو مارنے کی سازش بھی شامل ہے!
وزیر اعظم کے قتل کی مبینہ سازش پر اگر ان کے پاس پختہ ثبوت ہے، تو صرف ایک خط کیوں سامنے لایا جا رہا ہے؟ میں یہی کہوںگا کہ یہ صرف بحث کو دوسری طرف لے جانے کے کچھ مقاصد سے کیا جا رہا ہے۔ پہلا مقصد کہ بھڑے-ایکبوٹے پر بات نہ ہو، دوسرا مودی کی ناکامیوں پر بات نہ ہو اور تیسرا مقصد ہے سناتن سنستھا۔
پولیس کو سنستھا کے لوگوں سے بم بر آمد ہوئے تھے، ہماری مانگ ہے کہ صرف ان کی گرفتاری سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں اس کی جڑ تک جانا ہوگا یعنی جینت اٹھاولے۔ جب پہلے 5 سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، تب وہ بھیما کورےگاؤں سے دھیان ہٹانا چاہتے تھے، اس کے بعد 5 کارکنوں کی گرفتاری تب ہوئی جب ملک سناتن سنستھا کے بموں کی بات کر رہا تھا۔ ان کے علاوہ وہ مجھے اور جسٹس ساونت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک گرفتار کئے گئے کارکنوں کی بات ہے، میرا سدھیر دھاولے کے علاوہ کسی سے کوئی خاص تعارف نہیں تھا۔ ہم کئی سالوں سے دھاولے اور کبیر کلا منچ کے قانونی صلاح کار رہے ہیں۔ جب بھی ان پر کوئی مشکل آئی، ہم سماجی انصاف کی لڑائی میں ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہم ان کو جانتے تھے، اس لئے ان کو پریشد میں مدعو کیا تھا۔
گاڈلنگ کا نام سنا تھا کہ وہ ناگ پور علاقے میں غریبوں اور مبینہ نکسلیوں کے لئے لڑ رہے ہیں۔ وہ دھاولے کا مقدمہ بھی لڑ رہے تھے۔ دھاولے پر نکسلیوں سے تعلق کے جھوٹے الزام لگائے گئے تھے، جس پر سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں نے یہ کہتے ہوئے ان کو باعزت بری کیا تھا کہ حکومت بنا کسی ثبوت کے ان پر الزام لگا رہی ہے۔ تو اسی طرح گاڈلنگ سے جان پہچان تھی۔
وہ کئی بار مجھے ملنے کے لئے بلایا کرتے تھے۔ میں ناگ پور میں ہوئی کچھ میٹنگ کا حصہ رہا ہوں۔ جیسے ہماری شکایت تھی کہ ناگ پور جیل میں بند جی این سائی بابا کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے۔ تو مجھے پتا تھا کہ گاڈلنگ ایک وکیل ہیں، دھاولے ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے علاوہ گرفتار کئے گئے کسی بھی آدمی کو ہم براہ راست یا بلاواسطہ، کسی طرح نہیں جانتے۔ اور جہاں تک کسی نکسلی سے پہچان کا سوال ہے، نہ ہم کسی کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی ایلگار پریشد تک کوئی پہنچ ہے۔
پریشد کے وقت جسٹس ساونت کی طبیعت ذرا خراب ہو گئی تھی اور ان کو پاس کے ایک ہاسپٹل میں داخل کروایا گیا تھا۔ جب میں وہاں سے لوٹا تب منچ پربہت سے لوگ تھے۔
سدھیر دھاولے، سریندر گاڈلنگ، مہیش راؤت، رونا ولسن اور شوما سین (بائیں سے دائیں)
ان سبھی کو غیرقانونی سرگرمی (روک تھام) قانون (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ میں خود عدلیہ کا حصہ رہا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ اس کے بننے کے وقت سے ہی اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ کیونکہ آپ بنا کسی ثبوت کے کسی بھی آدمی کو کم سے کم ایک سال کے لئے جیل میں ڈال سکتے ہیں۔ اس وقت اس کے تحت لاکھوں لوگ جیل میں ہیں اور ان میں زیادہ تر دلت اور آدیواسی ہیں۔ یقینی طور پر یو اے پی اے کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ کریمینل لاء کے مطابق جب تک کوئی آدمی مجرم ثابت نہیں ہو جاتا، آپ اس کو سزا نہیں دے سکتے، لیکن یو اے پی اے میں ایسا نہیں ہوتا۔
ملک بھر میں کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ آپ کسی پر بھی جھوٹے الزام لگاکر یو اے پی اے کے تحت اس کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ جب تک وہ الزام غلط ثابت ہوںگے تب تک کیا؟ تب تک اس آدمی کو ہوئے نقصان کا کیا؟ ہم سے سوال کیا جاتا ہے کہ ہم اس پروگرام کے اکیلے کنوینر تھے، کیا پولیس نے ہم سے رابطہ کیا؟ نہیں، ابتک تو نہیں۔ جب میڈیا پولیس سے ہمارے بارے میں سوال کرتا ہے ،تب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بیان دیا تھا کہ ایلگار پریشد کا بھیما کورےگاؤں تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایسا انہوں نے پہلی پریس کانفرنس میں کہا، دوسری بار انہوں نے کہا پریشد میں حصہ لینے والے تمام ماؤوادی نہیں ہیں۔ پھر ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے قتل کی سازش میں سب شامل نہیں ہیں۔ ان سب گرفتاریوں کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ بی جے پی اور مودی اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ایسا وہ گجرات میں بھی کر چکے ہیں۔ وہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ مودی کو یہ مارنے آیا تھا، اس لئے انکاؤ نٹر ہوا۔
انکاؤنٹر کیا وہاں تو کسٹڈی سے اٹھاکر لے گئے، باہر لے جاکر مارا اور کہا انکاؤنٹر ہوا۔ اب وہ یہی تجربہ قومی سطح پر کر رہے ہیں۔ وہ اسی گجرات ماڈل کو باہر نکال لائے ہیں۔ ملک میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ دلت اور سماجی کارکنوں کو ماؤوادی بتایا جا رہا ہے۔ مودی حکومت پر دلت مخالف ہونے کا الزام ہے، لیکن اصل میں کہوں تو مودی حکومت ہرایک کے خلاف ہے۔ مودی حکومت میں الگ طرح کی تقسیم ہے۔ وہ دلت، مسلم، او بی سی، آدیواسی، دانشور سب کے خلاف ہیں۔
وہ دلت، او بی سی، آدیواسی کو مسلموں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ دلت، او بی سی، آدیواسی کو ہندو مذہب میں رکھنے کے لئے وہ مسلمانوں کا ڈر دکھاکر حکومت چلا رہے ہیں۔ ان کے نظریہ کی دانشوارانہ مخالفت کا جواب وہ اسی طرح نہیں دے سکتے۔ اس زبان میں جواب دینے کے بجائے وہ ان کو مار رہے ہیں، ان کو جیل میں ڈال رہے ہیں۔ یہ غیراعلانیہ ایمرجنسی ہے، جو اعلانیہ ایمرجنسی سے زیادہ خراب ہے۔
(میناکشی تیواری سے بات چیت پر مبنی)
Categories: فکر و نظر