فکر و نظر

رویش کا بلاگ : کیا واقعی وزیر دفاع ایسا سوچتی ہیں کہ عوام نے سوچنا بند کر دیا ہے؟

ایک مرکزی وزیر جس کو اس وقت پیٹرول-ڈیزل کے بڑھتے داموں کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہونا چاہیے تھا تو وہ اپوزیشن کے ایک رہنما کی ضمانت کے دن گن رہا ہے۔  ان کی زبان ٹرول کی طرح ہو گئی ہے۔

(فائل فوٹو : رائٹرس)

(فائل فوٹو : رائٹرس)

جب آنکھوں پر  مذہبی جنون اور مذہبی برتری کی تہیں چڑھ جاتی ہیں تب چڑھانے والے کو پتا ہوتا ہے کہ اب لوگوں کو کچھ نہیں دکھے‌گا۔  اسی لئے امت شاہ کہتے ہیں کہ بی جے پی پچاس سال راج کرے‌گی۔  کہتے ہیں کہ ہم اخلاق کے بعد بھی جیتے۔  کیا وہ کسی کے قتل کے لئے کسی بھیڑ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں؟

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی پارٹی کے صدر نے بولا ہو کہ ہم اخلاق اور ایوارڈ واپسی کے بعد بھی جیتے۔آج تک جے این یو معاملے میں چارج شیٹ دائر نہیں ہوئی مگر اس معاملے کو لےکر سیاست ہو رہی ہے۔  کیا عوام کے طور پر آپ نے بالکل سوچنا بند کر دیا ہے؟

وجے مالیا کو بھاگنے دیا گیا۔  اس کے بہت عرصہ بعد نیرو مودی اور میہل کو بھاگنے دیا گیا۔  کیا اس سوال کا جواب آپ کو مل رہا ہے؟  سرکار اس سوال کو چھوڑکر بولنے لگ جاتی ہے کہ مالیا کو لون کب ملا۔سرکار دونوں بات بتا دے۔اتنے لوگ کیسے بھاگے اور کس-کس کو کس کی سرکار میں کتنا لون ملا اور اس کا کتنا حصہ کس کی سرکار میں نہیں چکایا گیا۔

مودی  سرکار میں 2015 میں 2.67 لاکھ کروڑ سے 10 لاکھ کروڑ کیسے ہو گیا؟  کیا یہ سارا لون یو پی اے کے وقت کا ہے؟  پھر کیا یہی جواب ہے کہ یو پی اے نے مالیا پر مہربانی کی تھی اس لئے ہم نے اس کو بھاگ جانے دیا؟

ایک مرکزی وزیر جس کو اس وقت پیٹرول ڈیزل کے بڑھتے داموں کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہونا چاہیے تھا تو وہ اپوزیشن کے ایک رہنما کی ضمانت کے دن گن رہا ہے۔  زبان ٹرول کی طرح ہو گئی ہے۔  آپ اس ٹوئٹ کی زبان پڑھیے۔

ضرور آپ اس کی مذمت کرنے کی جگہ دوسرے رہنماؤں کے ٹوئٹ لے آئیں‌گے۔  کیونکہ آپ کی نظر اور سوچ ختم ہو چکی ہے۔  آپ آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی غلطیوں کو اس ڈر سے نہیں دیکھ پا رہے ہیں کہ ان کا چڑھایا ہوا پردہ اتر گیا تو کیا ہوگا۔

ادھر ریل کے وزیر کو دیکھنا چاہیے تھا کہ نوکریوں کے لئے کروڑوں طالب علموں کو تکلیف نہ ہو، جوابی کتابچہ میں غلطیاں کیسے آ گئیں، کب طالب علموں کے چار سو روپے واپس ہوں‌گے، ان سب کی کوئی پرواہ نہیں۔  ریل کے  وزیر دوسرے وزارتوں کے معاملے میں پریس کانفرنس میں زیادہ دکھتے ہیں۔  دی وائر میں صحافی روہنی سنگھ نے 4اپریل کو ریل کے  وزیر پر ایک اسٹوری چھاپی تھی۔  کیسے شیئر کو لےکر ہیرپھیر کیا اور اس کی جانکاری نہیں دی۔ اس رپورٹ کو اب بھی پڑھ سکتے ہیں۔

وزیر دفاع نرملا سیتارمن کہتی ہیں کہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کے پاس 126 رفال کی تعمیر کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے 36 لیا گیا۔  کیا ایئر فورس کو یہ پتا نہیں ہوگا؟  اس کے بعد بھی وہ کئی سالوں سے 126 ہوائی جہازوں کی ضرورت بتاتی رہی۔  کیا تعداد کم کرنے کی یہی وجہ تھی؟  پھر کئی سالوں تک رافیل سے بات چیت میں ایچ اے ایل کیوں شامل تھی؟  نمکین بسکٹ اور چائے پینے کے لئے؟

کیا یہ ان کا آخری بچاؤ ہے کہ بالکل نئی اور کم تجربہ کار کمپنی کے ساتھ رافیل کا اس لئے قرار ہوا کہ پرانی سرکاری کمپنی کے پاس صلاحیت نہیں تھی؟  کیا 36 رافیل کے لائق بھی نہیں تھی ایچ اے ایل؟  تو کیا اس لئے 126 سے 36 کیا گیا؟  انل امبانی کی کمپنی پر مہربانی کی گئی؟  اجئے شکلا بلاگ پوسٹ نام سے سرچ کریں اور اس معاملے میں ان کی تحریر پڑھیے۔

کیا واقعی وزیر دفاع ایسا سوچتی ہیں کہ عوام نے دماغ سے سوچنا بند کر دیا ہے؟  عوام ہی بتا سکتی ہے یا پھر اس پوسٹ کے بعد آنے والے کمنٹ سے پتا چل جائے‌گا کہ مذہبی جنون نے آپ عوام کا کیا حال کیا ہے۔  ان بیانات سے یہی پتا چلتا ہے کہ  سرکار عوام کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے؟  وہ عوام کو کیا سمجھتی ہے؟  کیا پتا عوام بھی وہی ہو گئی ہے جو  سرکار اس کے بارے میں سمجھنے لگی ہے؟

(یہ مضمون  رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)