فکر و نظر

نفرت پھیلانے والے ٹی وی چینل کب تک ’میڈیا کی آزادی‘ کا سہارا لیتے رہیں گے ؟

جسٹس کاٹجو کی تجویز پر ٹی وی چینلس کے مالکان نے زبردست واویلا مچایا اور اسے میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ ان کی تجویز سرد خانے میں پڑ گئی۔ مگر یہ مسئلہ اب بھی باقی ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی سنگین ہو گیا ہے۔

16 مارچ کو زی ہندوستان نے ' جیتا مسلمان…اب ارریہ آتنکستان 'کے نام سے ایک پروگرام نشر کیا تھا/فوٹو :زی ہندوستان /ویڈیو اسکرین شاٹ

16 مارچ کو زی ہندوستان نے ‘ جیتا مسلمان…اب ارریہ آتنکستان ‘کے نام سے ایک پروگرام نشر کیا تھا/فوٹو :زی ہندوستان /ویڈیو اسکرین شاٹصا

صحافی ارنب گوسوامی ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ ستمبر کی7 تاریخ ؛اُن کے چینل ریپبلک ٹی وی کے ذریعہ معافی مانگنے کی ڈیڈ لائن تھی ،جو ریپبلک نے نہیں مانگی۔ یہ ڈیڈ لائن میڈیا ریگولیشن کے ادارہ این بی ایس اے یعنی نیشنل براڈکاسٹنگ سٹینڈرڈس اتھارٹی نے انہیں دی تھی۔ اس سال جنوری میں ارنب نے اپنے ایک پروگرام میں کچھ لوگوں پر اُن کی ایک رپورٹر کو اپنا کام نہ کرنے دینے کا الزام لگاتے ہوئے قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کیا تھا جس پر ان کے خلاف شکایت درج ہوئی تھی۔ این بی ایس اے جو کہ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ قائم کردہ ایک آزاد ادارہ ہے اس نے تحقیق کے بعد ان کے خلاف درج شکایت کو صحیح پایا اور ارنب کے چینل کو احکامات جاری کئے کہ وہ 7ستمبر کو نو بجے رات کے پرائم ٹائم شو سے پہلے پورے سکرین پر معافی نامہ دکھائیں۔

اس تنازعے کے بعد ایک بار پھر سے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلس کو ریگولیٹ کئے جانے یا یہ کہا جائے کہ ان پر لگام کسنے سے متعلق بحث تازہ ہو گئی ہے۔سرکاری طور پر کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو ان کی کارگردگی پر نظر رکھ سکے جس طرح کے اخبارات پر نظر رکھنے کے لئے 1966 سے پریس کونسل آف انڈیا قائم  ہے ۔جس کے پاس نیم عدالتی اختیارات ہیں جن کے تحت یہ کسی صحافی یا اخبار کے ایڈیٹر یا مالک کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے۔2011 میں جب جسٹس مارکنڈے کاٹجو پریس کونسل کےچیئرمین بنے تو انہوں نے تجویز رکھی کہ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلس کو بھی اس سرکاری ادارے کے تحت لایا جائے تاکہ اخبارات کی طرح ان کے خلاف آنے والی شکایتوں پرشنوائی ہو سکے۔

جسٹس کاٹجو نے اس سلسلے میں کئی مضامین لکھے  اور اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ایک  خط لکھ کر پریس کونسل ایکٹ میں ترمیم کی تجویز پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلس انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں جس سے سماج میں انتشار پھیل رہا ہے لہٰذا ان پر لگام کسنا ضروری ہو گیا ہے۔انہوں نے ٹی وی چینلس پر تین خاص الزامات عائد کئے:

  • وہ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں پھیلا کر سماج کو بانٹنے اور فرقہ واریت پھیلانے کا کام کرتے ہیں؛
  • وہ غیر ضروری خبریں جیسے حد سے زیادہ کرکٹ اور فلمی ستاروں کی بات کر کے عوام کا دھیان حقیقی مسائل سے ہٹانے کا کام کرتے ہیں؛ اور
  • وہ نجومیوں اور باباؤں کے پروگرام دکھا کر ملک میں دقیانوسیت اور توہمات پھیلاتے ہیں۔

جسٹس کاٹجو کی یہ تجویز تھی کہ پریس کونسل کا نام بدل کر میڈیا کونسل کر دیا جائے اور ٹی وی چینلوں کو اس کے تحت لایا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ 90 فی صد مسائل یا شکایتیں بات چیت سے حل ہو سکتی ہیں لہٰذا ہر دو مہینے پر وہ میڈیا کے لوگوں کے ساتھ غیر رسمی انداز کی میٹنگ کیا کریں گے۔ جو صحافی یا ادارے اس کے باوجود اپنی روش نہ بدلیں تو ان کے ساتھ تھوڑی سختی کی جانی چاہیے جس کے لئے میڈیا کونسل کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ سرکاری اشتہار رکوا س کے اور انتہائی صورت میں لائسنس بھی رد کروا سکے۔

جسٹس کاٹجو کی تجویز ذرا سخت معلوم ہوتی تھی جس کا اعتراف انہوں نے بھی کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کوئی بھی آزادی مطلق نہیں ہوتی ہے۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داریاں اور معقول پابندیاں بھی جڑی ہوتی ہیں۔ ایک جمہوری نظام میں ہر شخص عوام کو جواب دہ ہے اور میڈیا اس سے مستثنیٰ نہیں۔جسٹس کاٹجو کی تجویز پر ٹی وی چینلس کے مالکان نے زبردست واویلا مچایا اور اسے میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ ان کی تجویز سرد خانے میں پڑ گئی۔ مگر یہ مسئلہ اب بھی باقی ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی سنگین ہو گیا ہے۔

ارنب گوسوامی کا ریپبلک ٹی وی، جس کی شروعات کے وقت سب سے زیادہ سرمایہ لگانے والوں میں  موجودہ  بی جے پی ممبر راجیو چندراشیکھرکا نام قابل ذکر ہے، پہلا چینل نہیں ہے جس نے این بی ایس اے کی حکم عدولی کی ہو۔ ابھی تین ماہ قبل زی نیوز نے بھی گوہر رضا سے معافی مانگنے کا حکم نہیں مانا تھا۔دیگر چینلس بھی ماضی میں ایسی حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ این بی ایس اے کی پیرنٹ باڈی این بی اے یعنی نیشنل براڈکاسٹنگ اتھارٹی کے موجودہ صدر رجت شرما کے چینل انڈیا ٹی وی کو چند سال پہلے ایسا ہی ایک حکم ملا تھا جسے چینل نے نہیں مانا تھا۔ اس کے بجائے اس نے این بی اے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور جب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا تو دوبارہ اس میں شامل ہو گیا۔ اور اب اس کے مالک رجت شرما اسی ادارے کے صدر ہیں جس کی خلاف ورزی وہ کر چکے ہیں۔

Rajat_Sharma_IndiaTV

رجت شرما / انڈیا ٹی وی

ملک میں اس وقت کل 870 پرائیویٹ ٹی وی چینلس ہیں جن میں تقریباً آدھے کا رجسٹریشن “نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز”کے طور پر ہے اور بقیہ آدھے کا تفریحی چینلس کے طور پر۔ان دونوں گروپوں نے اپنے آپ کو “سیلف-ریگولیٹ” کرنے کے نام پر الگ الگ ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ جیسے نیوز چینلس نے این بی اے قائم کیا ہوا ہے جس کے ممبران میں 29میڈیا گھرانوں کے 71 چینلس ہیں۔ یعنی زائد از 400 میں سے 20فی صد بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ بالفاظ دیگر این بی اے اور اس کے ذریعہ قائم شدہ این بی ایس اے کے بنائے ضابطوں اور قوانین کے پابند بہت تھوڑے سے چینلس ہیں۔ ان کا بھی یہ حال ہے کہ وہ خود سری سے باز نہیں آتے۔

کچھ یہی حال تفریحی چینلس کا بھی ہے۔ان کے مالکان نے این بی ایف یعنی انڈین براڈکاسٹنگ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کے 250 ممبران ہیں۔ یعنی یہاں بھی ساٹھ فی صد کے اس پاس چینلس ہی اس کے اور اس کے ذریعہ قائم ریگولیٹری باڈی بی سی سی سی یعنی براڈکاسٹنگ کونٹینٹ کمپلینٹس کونسل کے پابند ہیں۔ یہ سبھی ادارے پرائیویٹ ہیں جن کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں۔ اس لئے یہ سب اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔ ان پر کسی بھی طرح کی پابندی کی بات اٹھے تو یہ میڈیا کی آزادی پر حملے کی گُہار لگانے لگ جاتے ہیں۔لیکن ان کا اپنا رویہ انتہائی غیر جمہوری ہے۔ جو لوگ میڈیا، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے کام کاج سے واقف ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ اپنے یہاں کام کرنے والوں کو یہ کسی بھی طرح کی آزادی دینے کے روادار نہیں۔ صحافیوں کی یک مشت برخواستگی عام ہے۔ ان کے کام پر آنے کا وقت تو طے ہے مگر کام ختم کر کے جانے کا نہیں۔

2016 میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا قضیہ ٹی وی چینلوں نے ہی کھڑا کیا تھا۔بعض چینلوں نے جعلی خبریں چلاکر چند طلبہ کو ملک دشمن قرار دینے اور ان کا میڈیا ٹرائل کرنے کا کام کیا جس کا خمیازہ ایک طالب علم عمر خالد آج تک بھگت رہا ہے۔ ابھی پچھلے مہینے بھی اس پر جان لیوا حملہ ہوا صرف اس لئے کہ میڈیا نے اس کے خلاف نفرت کی ایک فضا قائم کر رکھی ہے۔ ٹائمز ناؤ اور زی نیوز پر اُس وقت جے این یو میں ہوئی میٹنگز کی ویڈیو کلپپنگس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگا اور عدالت تک معاملہ پہنچا۔ زی نیوز کے ایک صحافی وشو دیپک نے اپنے چینل پر جھوٹی خبریں چلانے کے لئے مجبور کئے جانے کا الزام لگا کر استعفیٰ بھی دیا۔

ویڈیو : زی نیوز کے خلاف این بی ایس اے کے فیصلے پر گوہر رضا کا رد عمل

انہیں دنوں زی نیوز نے دہلی میں شنکر شاد کے سالانہ مشاعرے کو “افضل پریمی گینگ  کا مشاعرہ” کہہ کر گوہر رضا کو ملک دشمن قرار دے دیا۔ بعد کی تفتیش جو کہ این بی ایس اے نے کی سارے الزامات کو خارج کر دیا اور زی نیوز کو معافی مانگنے کا حکم دیا جسے زی نیوز نے نہیں مانا۔قاعدے سے این بی اے اور این بی ایس اے کو زی نیوز، ریپبلک ٹی وی یا کسی بھی ممبر کے ذریعہ اس کے حکم کو نہ ماننے کی صورت میں عدالتی کارروائی کرنی چاہیے جو یہ نہیں کرتے۔

ملک کے حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ نہ صرف بر سر اقتدار بی جے پی بلکہ اپوزیشن میں بیٹھی پارٹیاں بھی ٹی وی چینلوں پر لگام کسنے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ مگر اس کا جو نقصان ہو رہا ہے اس کا خمیازہ پورا ملک بھگت رہا ہے۔ ملک کی سیاسی اور سماجی فضا مکدر ہو چکی ہے۔2013 میں ہندو جن جاگرتی سمیتی نامی ایک تنظیم کی طرف سے سپریم کورٹ میں پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن کا ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس میں عدالت عظمیٰ سے اپیل کی گئی تھی کہ  اخبارات کی طرح پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کو بھی سرکاری ریگولیشن کے دائرے میں لیا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اس کے جواب میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو نوٹس جاری کرکے ان کے رائے  مانگی تھی۔ جن اداروں کو نوٹس جاری ہوئے تھے ان کے نام درج ذیل ہیں: وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت انصاف، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکشن کمیشن آف انڈیا، این بی اے یعنی نیشنل براڈکاسٹنگ اتھارٹی اور آئی بی ایف یعنی  انڈین براڈکاسٹنگ فاؤنڈیشن۔ پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے سپریم کورٹ کی اُس نوٹس کا کیا حشر ہوا کسی کو نہیں معلوم۔