اگر وزیر دفاع کو یونیورسٹیوں میں اتنی ہی دلچسپی ہے تو جیو اانسٹی ٹیوٹ پر ہی ایک پریس کانفرنس کر دیں۔ بہت سی یونیورسٹی میں استاد نہیں ہیں۔ جو عارضی استاد ہیں ان کی تنخواہ بہت کم ہیں۔ ان سب پر بھی پریس کانفرنس کریں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک کام کرنا چاہیے۔ اپنے وزراء سے کہہ سکتے ہیں کہ اپنی اپنی وزارت پر بولا کیجئے، اس سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس اپنی وزارت کا کوئی کام نہیں ہے۔ وزیر دفاع ڈوکلام اور رافیل پر بولیںگی اور انٹرنل سکیورٹی پر وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بولیںگے۔ وزیر دفاع بہت دنوں تک رافیل کے بارے میں بول نہیں سکیں۔ اب جب سب بولا جا چکا ہے تب میدان میں اتری ہیں۔ عجیب عجیب دلیل دے رہی ہیں کہ ہندوستان ایرونوٹکس لمیٹڈ کے پاس صلاحیت نہیں تھی کہ 126 ہوائی جہازوں کی مرمت یا تعمیر کے لئے۔
وہ یہ دعویٰ کرتے وقت بھول جاتی ہیں کہ پبلک پوچھ سکتی ہے کہ تو آپ نے اس لئے 126 سے 36 رافیل کی ڈیل کی۔ تو کیا ہندوستان ایرونوٹکس کے پاس 36 ہوائی جہازوں کے کل پرزے بنانے کی صلاحیت بھی نہیں تھی؟ اس لئے اس کا کام ایک نئی کمپنی کو مل گیا جس میں حکومت کا کوئی رول نہیں تھا؟ وزیر دفاع کا یہ حساب-کتاب ہی رافیل ڈیل کو مشتبہ کر دیتا ہے۔ تبھی لگتا ہے کہ مودی جی نے کچھ سوچکر وزیر خزانہ کو بلاگ لکھنے کو کہا ہوگا جس کی بنیاد بناکر وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جے اکبر نے لکھا ہوگا۔
ایک دن ایسا ہی چلا تو حکومت کے یہ وزیر عوام کے درمیان جاکر ثابت کر دیںگے کہ اب آپ لوگ خود سے سمجھنے کے لائق نہیں رہے۔ ہم جو بھی سمجھائیںگے، سمجھ جاتے ہیں۔ وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے کہا ہے کہ جے این یو کیمپس کے اندر ایسی طاقتیں تھیں جو ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہتی ہیں۔ یہ طاقتیں طلبہ یونین کی منتخب طاقتوں کے ساتھ دیکھی گئیں ہیں۔ یہ طاقتیں اپنے پیمفلیٹ اور بروشر میں ہندوستان مخالف باتیں لکھتی ہیں۔
دو سال ہو گئے۔ 2016 میں جے این یو کو لےکر جو تنازعہ ہوا تھا، اس معاملے میں چارج شیٹ نہیں ہوئی ہے۔ ثبوت نہیں تھا اس لئے جن کے ناموں کو لےکے تنازعہ ہوا، ان کو ضمانت مل گئی۔ وہ چارج شیٹ کہاں ہے؟ دو سال کیوں لگ گئے؟ جے این یو کے طلبہ یونین انتخاب میں تمام جماعتوں کے صدر عہدے کے امیدوار تقریر کرتے ہیں۔ کسی کی تقریر میں ایسا کچھ نہیں تھا جس کو آپ ہندوستان مخالف ٹھہرا سکتے ہیں۔
انٹرنل سکیورٹی پر بولنے سے پہلے کیا وزیر دفاع نے وزیر داخلہ سے کوئی صلاح لی تھی؟ کیا ان کو وزارت داخلہ یا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے بتایا ہے یا پھر انہوں نے کوئی ان پٹ ان کو دیا ہے۔ کیا واقعی ملک کی وزیر دفاع کے پاس اتنی فرصت ہے کہ وہ جے این یو کے طلبہ یونین کے انتخاب پر پریس کانفرنس میں تبصرہ کر رہی ہیں؟ وزارت دفاع کے افسر ہی آف ریکارڈ بتا سکتے ہیں کہ وزارت میں آج کل وزیر کتنا کام کرتے ہیں اور افسر کتنا کام کرتے ہیں۔
آخر دوسری وزارت پر بولنے کے لئے ان وزراء کے پاس وقت کہاں سے ملتا ہے؟ کیا ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے؟ تبھی یہ وزیر لوگ دن دن بھر اسی تاک میں رہتے ہیں کہ کب وزیر اعظم اپنے دونوں ہینڈل سے ٹویٹ کریں تاکہ یہ لوگ ری-ٹویٹ کرنے کے کام میں لگ جائیں۔ اس حکومت کے دور میں ایک چیز عام ہو گئی ہے۔ فرضی معاملوں میں پھنساکر یا فرضی طریقے سے معاملے کو اٹھاکر ٹی وی کے لئے ڈیبیٹ پیدا کیا جائے تاکہ ہفتہ بھر گرما گرم بحث ہو۔
پھر اس مدعے کو وہیں چھوڑکر دوسرے مدعے کی طرف نکل چلا جائے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا جناح تنازعہ کہاں گیا۔ یہ حکومت ایک ڈھنگ کی یونیورسٹی نہ تو بنا سکی نہ چلا سکی لیکن جو پہلے سے ہے اس کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ اگر وزیر دفاع کو یونیورسٹی میں اتنی ہی دلچسپی ہے تو جیو نسٹی ٹیوٹ پر ہی ایک پریس کانفرنس کر دیں۔ بہت سی یونیورسٹی میں استاد نہیں ہیں۔ جو عارضی استاد ہیں ان کی تنخواہ بہت کم ہیں۔ ان سب پر بھی پریس کانفرنس کریں۔
دہلی یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے صدر انکت بسویا کے سرٹیفیکیٹ پر ہی بیان دے دیں۔ کیا اس نے جعلی سرٹیفیکیٹ جمع کیا ہے؟ تھرولر یونیورسٹی کے ایگزامینشن کنٹرولر نے کہا ہے کہ سرٹیفیکیٹ صحیح نہیں ہے۔ یہ کون سی سرگرمی ہے وزیر جی؟ یہ پرو انڈیا ہے؟ نرملا جی کو کوئی یاد دلائے کہ وہ ملک کی وزیر دفاع ہیں، جے این یو کی نہیں۔ پیمفلیٹ کا بہانہ لےکر بتا رہی ہیں کہ اینٹی انڈیا ہیں۔ ان کے پاس کون سا پیمفلیٹ پہنچ رہا ہے جو ملک کے وزیر داخلہ کے پاس نہیں پہنچ رہا ہے۔
انٹرنل سکیورٹی کی فائلیں وزیر داخلہ کو جانی بند ہو گئی ہے کیا؟ بتانا چاہیے نہ کہ جے این یو سے کتنے لوگوں کو ہندوستان مخالف سرگرمیوں میں پکڑا گیا ہے؟ کیا ان کو جے این یو کے طلبا کی حب الوطنی پر یقین نہیں ہے؟ ملیٹری انجینئرنگ سرویسز کے دروازے سیکڑوں لڑکے لڑکیاں امتحان پاس کر دوڑ رہے ہیں۔ امتحان پاس کئے ہوئے سات مہینے ہو گئے لیکن کسی کو جوائننگ لیٹر نہیں ملا ہے۔ کیا یہ طالب علم کی بھلائی نہیں ہے؟ وزیر دفاع اسی پر دھیان دیں تو کتنی واہ واہی ملےگی۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر