سپریم کورٹ کو ناگ راج معاملے میں دئے اپنے فیصلے کو نظرِثانی کے لئے بڑی بنچ کو بھیج دینا چاہیے۔سپریم کورٹ کے ہی پانچ ججوں سے زیادہ والی بنچکے کئی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ ذات پات والے نظام میں نچلے پائیدان پر ہونا اپنے آپ میں ہی سماجی پچھڑاپن دکھاتا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیادیپک مشرا اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی رہنمائی میں سرکاری نوکریوں میں”پروموشن میں ریزرویشن”معاملے میں ہوئی آئینی بنچ کی سماعت کا فیصلہ جلدہی آنے والا ہے۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ ؛جس میں چیف جسٹس دیپک مشرا کے علاوہ جسٹس کرین جوزف، جسٹس روہنگٹن نریمن، جسٹس سنجے کال اور جسٹس اندو ملہوترا شامل ہیں،یہ فیصلہ دےگی کہ 2006 کے ایم ناگ راج بنام یونین آف انڈیا معاملے میں آئینی بنچ کے دیے ہوئے فیصلے پر نظرِثانی کی ضرورت ہے یا نہیں، یعنی اس پر بڑی بنچ کو پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
ناگ راج معاملے میں پانچ ججوں کی ہی ایک آئینی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پرموشن میں ایس سی-ایس ٹی طبقوں کو آئین کے آرٹیکل 16 (4) اور 16 (4بی)کے تحت ریزرویشن دیا جا سکتا ہے، پر اس کے لئے کسی بھی حکومت کو کچھ معیاری اصول کو پورا کرنا ہوگا۔ اس وقت آئینی بنچ نے ایس سی-ایس ٹی طبقوں کے لئے سرکاری نوکریوں میں پروموشن میں ریزرویشن کا اہتمام کرنے سے پہلے کسی بھی حکومت کے سامنے ان معیاروں کو رکھا تھا : پچھڑاپن، ناکافی نمائندگی اور کل انتظامی اہلیت۔
کورٹ نے تب یہ بھی حکم دیا کہ ایس سی-ایس ٹی طبقوں کے لئے پروموشن میں ریزرویشن کا اہتمام کرنے سے پہلے حکومت کو اس بات کے لائق اعداد و شمار یکجا کرنے ہوںگے کہ یہ طبقہ کتنے پچھڑے رہ گئے ہیں، ان کی نمائندگی میں کتنی کمی ہے اور یہ کہ انتظامیہ کے کام پر کیا فرق پڑےگا۔ ناگ راج کے فیصلے کے 12 سال بعد بھی حکومت ان طبقوں کی ناکافی نمائندگی سے متعلق اعدادوشمار پیش نہیں کر پائی ہے، جس وجہ سے ان طبقوں کی پروموشن میں ریزرویشن پر تقریباً روک لگ گئی ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی رہنمائی والی موجودہ آئینی بنچ کو اس بات کا فیصلہ دینا ہے کہ کیا ان معیارات پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
ناگ راج کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کچھ نکات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا، سپریم کورٹ کے ہی پانچ ججوں سے زیادہ والی بنچکے کئی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ ذات پات والے نظام میں نچلے پائیدان پر ہونا اپنے آپ میں ہی سماجی پچھڑاپن دکھاتا ہے۔ایس سی-ایس ٹی کمیونٹی کے پچھڑےپن سے متعلق اعدادوشمار کی اس لئے ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ کمیونٹی ذات پات والے نظام میں سب سے نیچے ہی رہی ہیں۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 341 اور 342 کے تحت صدر کے ذریعے کسی ذات کے ایس سی –ایس ٹی ہونے کی نوٹیفکیشن جاری کرنا خود میں ہی اس ذات کے پچھڑے ہونے کا ثبوت ہے۔
اس کے علاوہ اگر سرکاری نوکریوں میں عہدوں میں تقرری کرتے وقت ایس سی-ایس ٹی کمیونٹی کو پچھڑا مانا گیا ہے، توپروموشن کے وقت دوبارہ پچھڑاپن جانچنے کی ضرورت پیدا نہیں ہوتی ہے۔ دوسرا پوائنٹ جس پر بات کی جانی چاہیے، یہ ہے کہ ایس سی-ایس ٹی کمیونٹی کے لئے سرکاری نوکریوں میں ریزرو 22.5 فیصد عہدوں پر حکومتیں آج تک پوری بھرتیاں نہیں کر پائی ہیں، جو کہ اس سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ان طبقوں کی سرکاری نوکریوں میں نمائندگی ناکافی ہے۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی آج تک ان طبقوں سے آنے والے کسی بھی شخص کی حکومت ہند کے کابینہ سکریٹری کے عہدے پر تقرری نہیں ہوئی ہے
تیسرا پوائنٹ، تقرری سے پہلے کسی بھی شخص کی انتظامی صلاحیت متعین کر پانا مشکل ہے۔ داخلہ امتحان میں سب سے اچھا مظاہرہ کرنے والا شخص بھی انتظامیہ چلانے میں نااہل ثابت ہو سکتا ہے۔ حال میں ہی کئے گئے ایک ریسرچ میں پایا گیا ہے کہ ریزرو طبقے سے آنے والے افسر اتنے ہی انتظامی طور پر قابل ہوتے ہیں، جتنے کہ جنرل طبقے سے آنے والے۔ ریسرچ میں پایا گیا ہے کہ ریزرویشن کی وجہ سے انتظامیہ میں کوئی برا اثر نہیں پڑتا ہے۔ ساتھ ہی، پروموشن سے پہلے ہر محکمہ Annual Confidential Reportsپر غور کرتا ہی ہے، جو کہ کسی بھی شخص کی انتظامی صلاحیت دکھاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس بات پر زیادہ دھیان دینا چاہیے کہ ناگ راج معاملے میں لگائے ہوئے معیارات سپریم کورٹ کی ہی بڑی بنچکے فیصلوں کے برعکس ہیں۔ ناگ راج معاملے میں آئینی بنچ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 16 (4 اے) اور 16 (4 بی) کی بنیاد آرٹیکل 16 (4) ہے، جو بنیادی حق نہیں ہے۔ لیکن آرٹیکل 16 (4 اے) اور 16 (4 بی) کی بنیاد آرٹیکل 16 (4) نہیں، بلکہ آرٹیکل 16 (1) ہے۔ آرٹیکل 16 (1) سرکاری نوکریوں میں موقع پانے میں برابری دینے والا اہتمام ہے۔ 1975 میں کیرل ریاست بنام این ایم تھامس معاملے میں سپریم کورٹ کی 7 ججوں کی بنچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ آرٹیکل 14، 15، اور 16 کو ایک ساتھ پڑھا جانا چاہیے، جن کی اصل بنیاد برابری کا حق ہے۔
آرٹیکل 16 (4) مواقع کی مساوات کو دکھاتا ہے۔ اگر آرٹیکل 16 (4)، جیسا 7 ججوں کی بنچ نے مانا، آرٹیکل 16 (1) اور آرٹیکل 14، 15 کی توسیع ہے، تو آرٹیکل 16 (4 اے) اور 16 (4 بی) بھی انہی اہتماموں کی توسیع ہیں۔ ان تمام اہتماموں کا ایک ہی مقصد ہے-ریزرویشن کے ذریعے سماجی طور پر پچھڑے طبقوں کو مواقع کی مساوات کا حق دینا تاکہ یہ طبقہ سماج میں سب کے برابر آ سکے۔ ان اہتماموں کی ایسی وضاحت سپریم کورٹ کے بعدکے فیصلوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جو ناگ راج معاملے سے پہلے آئے۔
اس کے علاوہ اندا ساوہنی بنام یونین آف انڈیا کے 1992 کے فیصلہ (جو منڈل کمیشن مقدمہ کے نام سے مشہور ہے) میں سپریم کورٹ کی 9 ججوں کی بنچ نے قانون ساز اسمبلی میں دئے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر کے بیان کو بنیاد بناتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ آرٹیکل 16 (1) اور 16 (4) کو ایک ساتھ ہی پڑھا جانا چاہیے، کیونکہ ان کا مقصد سماجی برابری ہی ہے۔ ناگ راج معاملے کے بعد میں 2008 میں آئے اشوک کمار ٹھاکر بنام یونین آف انڈیا معاملے میں پانچ ججوں کی ہی آئینی بنچ نے صاف طور پر فیصلہ دیا تھا کا ایس سی-ایس ٹی طبقوں پر ” کریمی لیئر ” کا نظریہ نافذ نہیں ہوگا۔
یہ تمام فیصلہ ناگ راج معاملے میں بنائے ہوئے معیارات کی بنیاد کو بےمعنی ثابت کرتے ہیں۔ان تمام پوائنٹس کو دھیان میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو ناگ راج معاملے میں دئے اپنے فیصلے کو نظرِثانی کے لئے بڑی بنچ کو بھیج دینا چاہیے۔
(انوراگ بھاسکر ہارورڈ یونیورسٹی میں ایل ایل ایم کے طالبعلم ہیں۔اس سے پہلے انہوں نے لکھنؤ کی ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نیشنل لاء یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی پڑھائی کی ہے۔@anuragbhaskar_ان کا ٹوئٹرہینڈل ہے۔)
Categories: فکر و نظر