باڑمیر کے شو سے ایم ایل اے مانویندر سنگھ نے حال ہی میں بی جے پی کو چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ کانگریس ان کو اپنے پالے میں شامل کرنا چاہتی ہے، لیکن اس کو ذات پات والے فارمولے کے بگڑنے کا ڈر ستا رہا ہے۔
انتخابی موسم میں سیاسی جماعت ایک دوسرے کے بارسوخ رہنماؤں کو اپنے پالے میں لینے کے لئے ایڑی-چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔اس مشقت سے الگ اگر کوئی رہنما اپنی پارٹی سے بغاوت کر خودہی دوسری پارٹی کے دروازے پر دستک دے تو قیادت کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ پارٹی اس کے استقبال کے لئے پلک پانوڑے بچھا دیتی ہے، لیکن راجستھان میں اس سیاسی رواج سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
بی جے پی کے بانی ممبر اور اٹل بہاری حکومت میں وزیر رہے جسونت سنگھ کے بیٹے مانویندر سنگھ ‘ کنول کا پھول، ہماری بھول ‘ کا نعرہ دےکر اپنی پارٹی کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ وہ ‘ کانگریس کا ہاتھ، ہمارے ساتھ ‘ کا نعرہ لگانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، لیکن کانگریس ان کو ایسا کرنے کا موقع دینے سے کترا رہی ہے۔ آخر کانگریس مانویندر کو لےکر کشمکش میں کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے باڑمیر-جیسلمیر کے ذات پات والے فارمولے کو سمجھنا ضروری ہے۔ نوے کی دہائی سے ان دونوں ریگستانی ضلعوں کی سیاست جاٹ اور راجپوت رہنماؤں کے اردگرد گھومتی ہے۔
1991 کے لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کے رام نواس مردھا نے جاٹ، مسلم اور دلتوں کا مضبوط گٹھ جوڑ تیار کر کے یہاں سے جیت حاصل کی۔ اگلے تین انتخابات میں کانگریس کے کرنل سونارام اس ذات سے متعلق جگل بندی کی طاقت پر پارلیامنٹ پہنچے۔ جبکہ بی جے پی یہاں راجپوت اور باقی اشرافیہ کے دم پر انتخاب میں اتری، لیکن اس کو ہر بار منھ کی کھانی پڑی۔ بی جے پی نے 1991 میں کنول وجے، 1996 میں جوگراج سنگھ، 1998 میں لوکیندر سنگھ کالوی اور 1999 میں مانویندر سنگھ کو میدان میں اتارا مگر کانگریس کے امیدواروں کے سامنے ان میں سے کسی کی دال نہیں گلی۔
مسلسل چار ہار جھیلنے کے بعد کانگریس کے قلعے میں تبدیل ہو چکی باڑمیر-جیسلمیر سیٹ پر آخرکار 2004 کے انتخاب میں بی جے پی نے سیندھ لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس انتخاب میں مانویندر سنگھ نے کرنل سونارام کو قریب پونے تین لاکھ ووٹ کے بڑے فرق سے پٹکنی دی۔ بی جے پی کے لئے یہ بڑی کامیابی تھی، کیونکہ جن سنگھ کے زمانے سے اس کے حصے میں یہاں سے ہار ہی آ رہی تھی۔ یہاں تک کہ بھیروں سنگھ شیکھاوت جیسی شخصیت بھی 1971 میں اس سیٹ سے انتخاب نہیں جیت پائی ۔
2004 کے انتخاب میں مانویندر کی جیتکے مرکزی کردار ان کے والد جسونت سنگھ رہے۔ سندھ سے آئے مسلمانوں اور دلتوں میں ان کا داخلہ کانگریس کے ووٹ بینک میں پھوٹ ڈالنے میں کام آیا۔ حالانکہ 2009 کے انتخاب میں وہ ان کو پارٹی سے جوڑے نہیں رکھ پائے اور مانویندر کانگریس کے ہریش چودھری سے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ سے انتخاب ہار گئے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں جسونت سنگھ نے اپنے بیٹے پر داؤ کھیلنے کی بجائے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ مانویندر باڑمیر کے شو اسمبلی سیٹ سے جیتکر ایم ایل اے بن چکے تھے۔
جسونت سنگھ نے لوک سبھا انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کا آخری انتخاب باڑمیر-جیسلمیر سے لڑیںگے۔ لیکن بی جے پی نے جسونت سنگھ کو انتخاب لڑنے کا موقع نہیں دیا۔ پارٹی سے اس سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر لگاتار تین بار رکن پارلیامان بننے والے کرنل سونارام کو ٹکٹ دے دیا۔ اس سے دکھی جسونت سنگھ آزاد امیدوار کے طور پرمیدان میں کود پڑے۔ ان کی اس بغاوت نے خوب سرخیاں بٹوری۔
انتخاب میں جسونت سنگھ راجپوتوں کے علاوہ سندھ سے آئے مسلمانوں اور دلتوں کو ایک حد تک صف بند کرنے میں کامیاب رہے، لیکن مودی لہر نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ وہ 80 ہزار ووٹ سے انتخاب ہار گئے۔ یہی نہیں، انتخاب کے دوران پارٹی کے امیدوار کی تشہیر کرنے کے بجائے اپنے والد کا ساتھ دینے کے الزام میں مانویندر سنگھ کو پارٹی نے معطل کر دیا۔ وہ ابھی بھی معطل ہیں، لیکن ان کو اس سزا سے بڑی ٹیس 2014 کے انتخاب میں والد کے ٹکٹ کٹنے کی ہے۔ 22 ستمبر کو باڑمیر کے پچ پدرا میں ہوئی سوابھیمان سبھا میں مانویندر کی اسپیچ میں اس کا درد صاف طور پر نظر آیا ۔
مانویندر نے اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ 2014 میں ملے زخم پر مرہم تبھی لگےگا جب باڑمیر-جیسلمیر سیٹ پر جیت کا پرچم پھہرائےگی ۔ انہوں نے کہا، ‘ میں اپنے گھر باڑمیر سے ہی اگلا لوک سبھا انتخاب لڑوںگا۔ اسمبلی کا انتخاب لڑنے کی میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ ‘ مغربی راجستھان کی سیاست کے جان کار اس پر ایک رائے ہیں کہ کانگریس کی ٹکٹ پر انتخاب لڑنے پر مانویندر کو جیتنے میں زیادہ زور نہیں آئےگا۔ راجپوت تو ان کو یک مشت ووٹ دیںگے ہی، مسلمان اور دلت بھی ان کی حمایت میں صف بند ہوںگے۔ جسونت سنگھ کی ناساز طبیعت کی ہمدردی بھی ان کو ملےگی۔
ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ باڑمیر-جیسلمیر سیٹ پر جیتکے اچھے آثار ہونے کے باوجود کانگریس مانویندر سنگھ کو گلے لگانے سے کترا کیوں رہی ہے۔ اصل میں راجستھان میں کانگریس کی پہلی ترجیح لوک سبھا انتخاب نہیں، بلکہ اسمبلی انتخاب ہے۔ کانگریس کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ مانویندر سنگھ کو پارٹی میں شامل کرنے سے پارٹی سے جاٹ رائےدہندگان بدک جائیںگے۔ انتخاب کے وقت جاٹوں میں یہ شگوفہ چل نکلا تو اس کا اثر صرف باڑمیر-جیسلمیر میں نہیں ہوگا، پورا میواڑ اس کی چپیٹ میں آئےگا۔
غور طلب ہے کہ تعداد کے حساب سے جاٹ راجستھان کی سب سے بڑی ذات ہے۔ ریاست کی سیاست میں یہ متھ کئی دہائیوں سے ہے کہ جدھر جاٹ جاتے ہیں، حکومت اس کی ہی بنتی ہے۔ جاٹوں کا رخ کافی حد تک اس پر منحصر کرتا ہے کہ راجپوت کس کو حمایت دیتے ہیں۔ ویسے جاٹوں کو روایتی طور پر کانگریس کا حمایتی مانا جاتا ہے، لیکن 1998 کے اسمبلی انتخاب میں پرس رام مدیرنا کے مقابلے میں اشوک گہلوت کو ترجیح دینا اس قدر ناگوار گزرا کہ 2003 کے اسمبلی انتخاب میں وہ بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔
حالانکہ اس کے پیچھے وسندھرا راجے کا خود کو جاٹوں کی بہو کے طور پر مشتہر کرنا بھی ایک وجہ رہی۔ 2008 کے اسمبلی انتخاب میں جاٹوں نے پھر سے کانگریس کی طرف رخ کیا اور 2013 میں وہ بی جے پی کے اکھاڑے میں آ گئے۔ جاٹ رہنماؤں کی مانیں تو وسندھرا حکومت کے کابینہ میں راجپوتوں کے مقابلے کم نمائندگی ملنے سے ان کا سماج بی جے پی سے خوش نہیں ہے۔
ہنومان بینی وال کو نظرانداز کرنا بھی ناراضگی کی فہرست میں شامل ہے۔ جاٹوں نے اس بار کانگریس کی طرف رخ کرنے کا من بنا رکھا ہے، لیکن اگر بی جے پی ان کو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ راجپوتوں کی قیمت پر آپ کا مان رکھا ہے تو اس کسان برادری کے قدم ٹھٹک سکتے ہیں۔ بی جے پی اس کے لئے ریاستی صدر کے عہدے پر ہوئی کھینچ تان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔
قابل غور ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ مرکزی وزیر مملکت زراعت گجیندر سنگھ شیکھاوت کو ریاستی صدر بنانا چاہتے تھے، لیکن وسندھرا راجے نے جاٹوں کے ناراض ہونے کی دلیل دیتے ہوئے ان کے نام پر ویٹو لگا دیا تھا۔ سینئر بی جے پی رہنما دیوی سنگھ بھاٹی نے تو عوامی طور پر اس بات کو کہا۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی داخلی طور پر اس حکمت عملی پر کام بھی کر رہی ہے۔ پارٹی کے ایک سینئر ایم ایل اے آف دی ریکارڈ بات چیت میں اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ راجپوت بی جے پی سے ناراض ہیں، لیکن اس سے پارٹی کو نقصان کے بجائے فائدہ ہوگا۔ اس بار جاٹ ہمیں یکمشت ووٹ دیںگے۔ ‘
بی جے پی کی اس حکمت عملی کی بھنک کانگریس کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مانویندر سنگھ کا بی جے پی چھوڑنے کے اعلان کرنے کے بعد نہ تو ریاستی صدر سچن پائلٹ نے ان کو لےکر کوئی بیان دیا اور نہ ہی سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے۔ خاص طور پر گہلوت ان کو پارٹی میں لینے کی حمایت میں نہیں ہیں۔ اشوک گہلوت کو یہ خدشہ ہے کہ مانویندر سنگھ کے کانگریس میں آتے ہی بی جے پی میواڑ میں یہ مشتہر کرےگی کہ وہ ہی اس کے مرکزی کردار ہیں۔ یہ ‘ سہرا ‘ ان کے لئے ‘ سیاسی بحران ‘ کا کام کرےگا۔ اسمبلی انتخاب سے پہلے گہلوت ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیںگے جو ان کی مبینہ جاٹ مخالف امیج کو پھر سے کرید دے۔
کانگریس سے جڑے ذرائع کے مطابق پارٹی مانویندر کو اپنےپالے میں لینا چاہتی ہے، لیکن اپنی شرطوں پر۔ ‘ آف دی ریکارڈ ‘ بات چیت میں کانگریس کے ایک سینئر رہنما کہتے ہیں، ‘ مانویندر سنگھ اسمبلی انتخاب میں شو سے اپنی بیوی کے لئے ٹکٹ چاہتے ہیں اور خود کے لئے باڑمیر-جیسلمیر سیٹ سے لوک سبھا کا ٹکٹ۔ ‘ وہ آگے کہتے ہیں، ‘ مانویندر سنگھ کی دونوں مانگیں قابل قبول نہیں ہیں۔ کانگریس ان کو شو سے اسمبلی کا انتخاب لڑنے سے زیادہ کا آفر نہیں دے سکتی۔ اس سے زیادہ دینے کا مطلب ہے جاٹوں کا کانگریس سے چھٹکنے کا خطرہ مول لینا۔ ‘
دراصل، کانگریس اس بات کو سمجھ رہی ہے کہ راجپوتوں کے بی جے پی سے ناراض ہونے سے اس کو جو بھی فائدہ ہوگا، مانویندر سنگھ اس سے کم زیادہ کی حالت میں نہیں ہیں۔ اس لئے ان کو ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کا مطلب ہوگا جاٹوں کی ناراضگی مول لینا۔ ایسے میں یہ دیکھنا مزے دار ہوگا کہ تھار کو دھوروں میں اٹھا یہ سیاسی طوفان کب اور کیسے پر سکون ہوتا ہے۔ خودداری کی سیاسی سڑک پر چل رہے مانویندر سنگھ آخرکار کس منزل پر ٹھہرتے ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر