خاص رپورٹ : مدھیہ پردیش میں پچھلے تین اسمبلی انتخابات ہارکر 15 سالوں سے بنواس کاٹ رہی کانگریس اس بار اقتدار میں واپسی کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ لیکن، سرخیوں میں پارٹی کی اندرونی اٹھا پٹک ہی حاوی ہے۔
26 اپریل 2018، مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر کے طور پر رکن پارلیامان کمل ناتھ کی تقرری۔ یہ تاریخ اور تقرری اس لئے اہم تھی کیونکہ ریاست میں سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں کانگریس اس وقت کے صدر ارون یادو کو بدلکر ایک نئے صدر کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتی تھی۔ ایک ایسے چہرے کے ساتھ جو ریاست کی پارٹی اکائی میں معقول ہو، تجربہ کار ہو اور وزیراعلیٰ شیوراج کے سامنے ٹکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
لیکن، پارٹی کی مرکزی قیادت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تھا کہ کئی گروپوں میں منقسم گروپ بندی کا شکار ریاستی کانگریس میں کس کے سر صدر کا تاج رکھا جائے؟ اس وقت دعوے دار تو کئی تھے لیکن رکن پارلیامان کمل ناتھ اور جیوتی رادتیہ سندھیا پارٹی کارکنوں کے درمیان مقبولیت کے معاملے میں قطار میں دوسروں سے کہیں آگے کھڑے تھے۔ کانگریس اعلیٰ کمان کے سامنے سندھیا گروپ اور کمل ناتھ گروپ کو سادھنے کے ساتھ ساتھ دیگر گروپ کو بھی سادھنے کا چیلنج تھا۔
اسی کشمکش میں لمبے وقت تک فیصلہ ٹالا جاتا رہا۔ آخرکار، بطور صدر کمل ناتھ کی تاج پوشی اور جیوتی رادتیہ سندھیا کو انتخابی مہم کمیٹی کا چیف مقرر کرنے کی صورت میں آیا۔ ساتھ ہی ساتھ، پانچ ایگزیکٹو کی بھی تقرری کی گئی جو کہ الگ الگ دھڑ ےکی نمائندگی کرتے تھے۔ اس طرح کانگریس 2013 کی طرح وہ غلطی کرنے سے بچ گئی جہاں اس نے آخری وقت میں انتخابی مہم کی کمان سندھیا کو سونپی تھی۔ حالانکہ، سینئر صحافی رشید قدوائی نے کمل ناتھ کی تقرری کو ریاست میں کانگریس کی اندرونی گروپ بندی کو سادھنے کی ایک ناکام کوشش ٹھہرایا تھا۔
لیکن کانگریس کی سوچ تھی کہ ریاست میں ہی نہیں، مرکز میں بھی کانگریس کے سینئر رہنما کمل ناتھ کے نام پر گروپ بندی کا شکار ریاستی اکائی کے تمام راجاؤں کو سادھا جا سکتا تھا، جبکہ جیوتی رادتیہ زیادہ نو جوان تھے جن کے صدر بننے پر پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے بکھرنے کا امکان رہتا۔
ہوا بھی ایسا ہی، ریاست کے تمام بڑے رہنما اجئے سنگھ، سریش پچوری، دگوجئے سنگھ، کانتی لال بھوریا، ارون یادو، سندھیا ایک اسٹیج سے ہنکار بھرتے نظر آئے۔ امید تو تھی کہ اب کانگریس کو ان حالات سے دو-چار نہیں ہونا پڑےگا جہاں انتخاب کا ٹکٹ پانے کی خواہش رکھنے والوں سے پارٹی فنڈ میں 50000 روپے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ جمع کرانے کے لئے کہہ دیا گیا تھا، جس کو ریاست کے بڑے رہنماؤں کی مخالفت اور میڈیا کی سرخیاں بننے کی وجہ سے مچے ہنگامے کے بعد واپس لینا پڑا۔
لیکن، کیا اصل میں ریاستی کانگریس میں اس ایک فیصلے سے سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا؟ گروپ بندی ختم ہو گئی تھی، فیصلوں کا ابہام دور ہو گیا تھا، کیا پارٹی منظم ہوکر شیوراج حکومت کو چیلنج دےکر اپنا 15 سالوں کے بنواس ختم کرنے کی حالت میں آ گئی ہے؟ اگر پچھلے کچھ وقت میں ریاستی کانگریس کے کام کاج پر غور کریں تو ظاہری طور پر منظم دکھتی پارٹی میں ابھی بھی اتنا ہی بکھراو ہے جتنا کہ کمل ناتھ سے پہلے تھا۔
کمل ناتھ کے صدر بننے پر منچ سے بھلےہی پارٹی نے یکجہتی کی تصویر پیش کی ہو لیکن پارٹی اصل میں کتنی یکجا تھی اس کی مثال تب ملی جب مہینے بھر بعد ہی سابق وزیراعلیٰ دگوجئے سنگھ کی صدارت میں ایک کو آرڈینشن کمیٹی تشکیل کرکے اس کو گروپ بندی ختم کرنے کا کام سونپنا پڑا جو گروپ بندی موجود ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ حالانکہ اس کمیٹی کی تشکیل بھی کم متنازع نہیں رہی۔ ظاہری طور پر یہ گروپ بندی ختم کرنے کی کانگریس کی ایک قواعد تھی لیکن سچائی یہ تھی کہ یہ دگوجئے کو سادھنے کی ایک کوشش محض تھی۔ گروپ بندی دور کرنے کے لئے بنائی گئی یہ کمیٹی خود گروپ بندی کی ہی دین تھی۔
نرمدا پریکرما یاترا ختم کرنے کے بعد دگوجئے سنگھ نے اعلان کیا کہ وہ ہر اسمبلی حلقہ میں جائیںگے اور کارکنوں اور رہنماؤں کو متحد کرکے آئندہ انتخاب کے لئے پارٹی کو تیار کریںگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے رہنماؤں میں اس حد تک گروپ بندی ہے کہ کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ اس بیچ کانگریس کا ایک اندرونی سروے میڈیا میں سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ دگوجئے کا عوام کے درمیان جانا کانگریس کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور کانگریس نے ان کو سفر پر جانے سے روک دیا۔ اس دوران کمل ناتھ کی تاج پوشی بھی بطور صدر ہو گئی۔ انہوں نے 12 مئی کو ہدایت جاری کی کہ پارٹی کی اجازت بغیرکوئی بھی یاترا نہیں نکالی جائےگی۔
پھر اچانک 22 مئی کو پارٹی نے دگوجئے سنگھ کی صدارت میں کو آرڈینشن کمیٹی تشکیل کرکے دگوجئے کو وہی کام آفیشیل طور پر سونپ دیا جو کہ وہ پہلے ذاتی سفر کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ یاترا سے روکے جانے کے بعد دگوجئے کی ناراضگی دور کرنے کے لئے صرف ان کو تسلی دینے کے لئے ان کی صدارت میں یہ کمیٹی بنائی گئی۔ جو اپنے آپ میں ایک مثال تھی کہ جو سب کچھ ٹھیک دکھ رہا ہے، اصل میں پارٹی میں ویسا چل نہیں رہا ہے۔ ایسی بہت سی مثال بیتے وقت میں ملتی ہیں جو دکھاتی ہیں کہ آئندہ انتخابات کو لےکر پارٹی ابہام کی حالت میں ہے اور نہ اس کے پاس کوئی حکمت عملی ہے۔
دگوجئے سنگھ نے ‘ دی وائر ‘ سے اگست میں ہوئے انٹرویو میں قبول بھی کیا کہ پارٹی میں ابھی بھی گروپ بندی ہے جس کو وہ وقت رہتے دور کر لیںگے۔ غور طلب ہے کہ جب انتخابات میں دو ڈھائی مہینے کا وقت بچا ہو اور گروپ بندی کو دور کرنے کی ذمہ داری نبھانے والا شخص ہی گروپ بندی موجود ہونے کی بات قبول کرے تو یہ اس پارٹی کے لئے فکر کا موضوع ہونا چاہیے۔ اور یہی فکر، وجہ ہے کہ پارٹی ٹکٹ بانٹنے کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہی ہے۔
پارٹی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان اسمبلی انتخاب میں پچھلے انتخابات کی غلطیاں نہیں دوہرائی جائیںگی۔ امیدواروں کو ٹکٹ جلدی بانٹ دئے جائیںگے تاکہ ان کو تیاری کے لئے کافی وقت مل سکے۔ اس تعلق سے 15 اگست کی تاریخ طے کی گئی تھی۔ لیکن، ابتک ٹکٹ تقسیم نہیں ہوا ہے اور بار بار تاریخ بڑھائی جا رہی ہے۔ اب کمل ناتھ نے کہا ہے کہ پہلی فہرست ستمبر کے آخر تک جاری کر دیںگے۔
اسی طرح ریاستی اکائی کی طرف سے پہلے اصول بنایا گیا کہ تنظیم میں کارگزار رہنماؤں کو ٹکٹ نہیں دیا جائےگا لیکن پھر اپنے ہی اعلان سے کنارہ کرکے پارٹی اہلکار کہتے نظر آئے کہ اگر تنظیم کا اہلکار ٹکٹ مانگتا ہے اور اس میں جیتنے کی صلاحیت ہے تو اس کو ٹکٹ دیا جا سکتا ہے۔ ٹکٹ تقسیم کے تعلق سے پارٹی ایک طرح سے گمراہ ہی نظر آتی ہے۔ اس کے حالیہ فیصلوں سے لگتا ہے کہ ابتک پارٹی میں یہی طے نہیں ہو سکا ہے کہ ٹکٹ پانے کی کیا صلاحیت ہونی چاہیے؟ کس امیدوار پر کیوں داؤ کھیلا جانا چاہیے؟ ٹکٹ تقسیم کی کیا شرطیں اور پالیسیاں ہونی چاہیے؟
اس لئے کبھی ٹکٹ کے دعوے دار سے پارٹی فنڈ میں ڈیمانڈ ڈرافٹ کی مانگ کی جاتی ہے تو کبھی سوشل میڈیا پر فالوورس کی۔ گزشتہ دنوں پارٹی آرگنائیزیشن ان چارج اور نائب صدر چندرپربھاش شیکھر نے سرکلر جاری کیا کہ ٹکٹ انہی دعوے دار کو ملےگا جن کے فیس بک پیج پر 15000 لائک ہوں اور ٹویٹر پر 5000 فالوورس۔
چونکہ چندرپربھاش کمل ناتھ کے ایگزیکٹو کا ہی حصہ ہیں تو فطری طور پر کمل ناتھ کی بھی اس میں اجازت رہی ہوگی۔ یہ ایک عجیب و غریب، بےبنیاد، بنا کسی ریسرچ اور صلاح مشورہ کے لیا گیا فیصلہ تھا۔ کیا کمل ناتھ کو جانکاری نہیں تھی کہ سوشل میڈیا پر فالوور بڑھانے کا کام کرنے والی کئی آئی ٹی کمپنیاں فعال ہیں جو ایک ہی دن میں فالوور بڑھوا سکتی ہیں؟ نتیجہ یہ ہوا کہ کمل ناتھ کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
کمل ناتھ کی ٹکٹ تقسیم پالیسی سے جڑا ایساہی ایک اور اعلان تنازعے میں رہا۔ ایک پریس کانفرنس میں ٹکٹ تقسیم کے تعلق سے بات کرتے ہوئے وہ کہہ گئے کہ ٹکٹ پانے کے 2500 دعوے دار کی لسٹ ان کے پاس ہے جس میں 30 بی جے پی کے ایم ایل اے بھی شامل ہیں جو کانگریس سے ٹکٹ چاہتے ہیں۔ بعد میں وہ اپنے دعویٰ سے مکر بھی گئے۔ اگر ان کی بات پر یقین بھی کر لیں تو تضاد سامنے آتا ہے جب اگلے دن راہل گاندھی بھوپال کے بھیل میدان سے اعلان کرتے ہیں کہ پیراشوٹ امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دئے جائیںگے۔
صرف سالوں سے پارٹی کے لئے کام کر رہے کارکن ہی ٹکٹ پائیںگے۔ اسی کڑی میں ریاستی کانگریس ان -چارج دیپک باوریا کے اس اعلان کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے جہاں انہوں نے 60 سال سے زیادہ عمر والے رہنماؤں اور دو بار لگاتار انتخاب ہارنے والوں کو ٹکٹ نہیں دینے کی بات کی تھی۔ اس پر بھی پارٹی کے اندر کافی بوال مچا تھا۔ مخالف جماعت کے رہنما اجئے سنگھ سے لےکر پارٹی کا تقریباً ہر وہ رہنما جو کہ 60 کی عمر پارکر چکا تھا، کھل کر مخالفت میں سامنے آیا۔
ایک ٹکٹ کے دعوے دار نام نہ چھاپنے کی شرط پر بتاتے ہیں، ‘ ٹکٹ تقسیم میں لگاتار دیری ہماری انتخابی تیاریوں پر اثر ڈالےگی ہی۔ جو پہلی فہرست جاری ہو رہی ہے اس میں بھی ان کے نام ہوںگے جو کہ موجودہ ایم ایل اے ہیں یا ان سیٹوں پر امیدوار اعلان کئے جائیںگے جن پر دعوےداری کرنے والوں کی تعداد کم ہے یا ایک-دو ہی دعوے دار ہیں۔ لیکن اصلی چیلنج تو ان سیٹوں پر ہے جہاں 10-10 دعوے دار ٹکٹ پانے کی قطار میں ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ ٹکٹ تو ایک کو ہی ملےگا۔ باقی 9 ناراض ہو جائیںگے۔ آخری وقت میں ٹکٹ ملےگا تو ناراض لوگوں کو منانے کا بھی وقت نہیں ملےگا۔ نقصان پارٹی کا ہی ہوگا۔ ‘ ٹکٹ کے ایک دیگر دعوے دار جو کہ پچھلا اسمبلی انتخاب بھی لڑ چکے ہیں اور دہائیوں سے کانگریس سے جڑے ایک متاثر کن فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، کہتے ہیں، ‘ بار بار شرطیں بدلنا، نئے اصول لانا، اس سے ایک غلط فہمی کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔ وہیں، اندر کی بات تو یہ ہے کہ عوامی طور پر تو اصول واپس لے لئے جاتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ پارٹی اندر ہی اندر انہی کرائی ٹیریا کو فالو کرتے ہوئے ٹکٹ بانٹتی ہے۔ ‘
وہ مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں، ‘ پہلے 50000 کے بانڈ کی جو شرط لائے تھے۔ اس کے واپس لینے تک کئی دعوے دار وہ بانڈ جمع کرا چکے تھے۔ بعد میں ان کا پیسہ لوٹا دیا گیا۔ لیکن جن-جن دعوے دار نے پیسہ دیا تھا، ان کی لسٹ پارٹی کے پاس پہنچ گئی اور اب ٹکٹ دینے کے معاملے میں ان کے ناموں کو ہی ترجیح میں رکھا جا رہا ہے۔ کہنے کو تو اصول واپس لیا جا چکا ہے لیکن جنہوں نے پیسے جمع کرائے، ان کو ٹکٹ پانے کے لئے سنجیدہ مانا جا رہا ہے۔ ‘
پارٹی کا مسئلہ صرف گروپ بندی اور ٹکٹ تقسیم کو لےکر ابہام تک ہی نہیں سمٹا۔ حالات یہ ہیں کہ اگر کہا جائے کہ ریاستی کانگریس کے ایک ہاتھ کو نہیں پتا کہ اس کا دوسرا ہاتھ کیا کر رہا ہے، تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ ایک طرف تو کانگریس بنا کسی وزیراعلیٰ کے چہرے کے انتخاب لڑ رہی ہے تو دوسری طرف ریاستی صدر دیپک باوریا اعلان کر دیتے ہیں کہ حکومت بننے پر ریاست میں پارٹی کے ایگزیکٹو چیئر مین سریندر چودھری نائب وزیراعلیٰ بنیںگے کیونکہ وہ دلت ہیں۔
یہ بیان کانگریس دفتر میں ہی ایک جلسہ میں دیا گیا اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں کو اس کی جانکاری تک نہیں تھی۔ نتیجتاً پارٹی کے اندر ہی اس کو لےکر گھماسان ہوا۔ ایک دیگر دلت رہنما سجن سنگھ ورما سمیت اور بھی کانگریسی کھلکر مخالفت میں اتر آئے۔
کچھ وقت بعد دیپک باوریا نے کمل ناتھ اور سندھیا میں سے کسی ایک کے وزیراعلیٰ بننے کا اعلان کر دیا۔ جس کے رد عمل میں مخالف جماعت کے رہنما اجئے سنگھ کے حمایتیوں نے ان پر حملہ کرکے جھوما-جھٹکی تک کر دی۔ پھر چاہے 50000 کے ڈیمانڈ ڈرافٹ کی بات رہی ہو یا پھر 60 تک کی عمر والوں کو ٹکٹ، اعلان ہو بھی جاتے ہیں اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا۔
کانگریس کی پول کھول جن جاگرن یاترا بھی اسی بدانتظامی سے اچھوتی نہیں رہی۔ شیوراج کی جن آشیرواد یاترا کے خلاف پارٹی جن جاگرن یاترا نکالنے کا اعلان کرتی ہے۔ کہتی ہے کہ جہاں جہاں شیوراج اپنی یاترا لےکر جائیںگے، ان کے پیچھے پیچھے کانگریس اپنی جن جاگرن یاترا نکالےگی اور جن آشیرواد یاترا میں شیوراج کے ذریعے کئے دعووں کی پول کھولےگی۔ لیکن، پھر وہ یاترا ایک طرح سے سرخیوں سے ہی غائب ہو جاتی ہے۔
وہ اچانک سرخیوں میں تب آتی ہے جب ریاستی کانگریس کے ایگزیکٹوچیئر مین بالا بچن یاترا کو ناکام بتاتے ہوئے سندھیا سے خود کوئی دوسری یاترا نکالنے کا اصرار کرتے ہیں۔ پہلے کانگریس نے اس یاترا میں بڑےبڑے رہنماؤں کے شامل ہونے کی بات کی تھی، پھر بعد میں اس حکمت عملی سے پیچھے ہٹکر طے کیا جاتا ہے کہ اب شیوراج کی جن آشیرواد یاترا جہا-جہاں جائےگی، وہاں کانگریس پول کھولنے کے لئے پریس کانفرنس کرےگی۔
یہاں خاص بات یہ بھی ہے کہ 18 جولائی سے جن جاگرن یاترا کے شروع ہونے کا دعویٰ کانگریس کرتی ہے، لیکن پارٹی کی کو آرڈینشن کمیٹی کے صدر دگوجئے سنگھ کو پتا ہی نہیں کہ یاترا شروع بھی ہو چکی ہے۔ یاترا شروع ہونے کے ایک مہینے بعد ‘ دی وائر ‘ کو دئے انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ یاترا تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ ریاست کے آئی ٹی سیل کے صدر کی تقرری کے وقت دیکھا گیا۔ بیتے دنوں جن ابھے تیواری کی اس عہدے پر تقرری ہوئی ہے، ان پر الزام لگا کہ انہوں نے اپنے این جی او کے لئے بی جے پی کے رہنماؤں سے کروڑوں کا چندہ لیا ہے۔
جب یہ خبر سامنے آئی تو پارٹی کے اندر کھلبلی مچ گئی اور سوال اٹھے کہ اتنے اہم عہدے پر ایسے آدمی کی تقرری پارٹی کی پرائیویسی کے لئے خطرہ ہے۔ پارٹی اہلکار کہتے نظر آئے کہ اگر اس سےمتعلق پختہ جانکاری ملتی ہے تو کارروائی کی جائےگی۔ کچھ یہی حالات مانک اگروال کے میڈیا ان- چارج کےعہدے سے ہٹائے جانے پر بنے۔ ایسی خبریں نکلکر سامنے آئیں کہ ان کی رخصتی پارٹی کی اندرونی گروپ بندی کی دین ہے۔
حالانکہ مانک اگروال نے کہا کہ وہ اسمبلی انتخاب لڑنا چاہتے ہیں اس لئے پارٹی کی ہدایت کے مطابق عہدہ چھوڑا ہے۔ لیکن، ان کی صفائی پر اس لئے بھی یقین نہیں کیا گیا کیونکہ جس طرح کا کانگریس کا طریقہ کار ہے، اس میں شک ہونا لازمی ہے۔ بات کمل ناتھ کی ایگزیکٹو کی کرنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے جب جولائی کے شروعاتی ہفتے میں اپنی 85 رکنی ایگزیکٹو کمیٹی کی تشکیل کی تو کہا کہ یہ پہلی فہرست ہے، اس میں توسیع کرنے والی دوسری فہرست جلدہی جاری کی جائےگی۔
جس میں جو نام رہ گئے ہیں، ان کو بھی شامل کیا جائےگا۔ لیکن، تقریباً 3 مہینے کے بعد بھی وہ فہرست جاری نہیں ہو سکی ہے۔ کانگریس اپنی ہی الجھنوں میں اس قدر الجھی ہے کہ اس کے ذریعے بی جے پی کو گھیرنے کی خبریں سرخیوں میں ہی نہیں ہیں۔سرخیوں میں ہیں تو اس کی اندرونی کھینچ تان اور فیصلے۔ اجین میں ہوئی ڈویژنل میٹنگ میں جب سندھیا نے پارٹی کی خاتون رہنما اور ترجمان نوری خان کو اسٹیج سے اتار دیا تو انہوں نے واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالکر سندھیا کے خلاف مورچہ کھول دیا اور ان کو زمیندارانہ سوچ والا بتایا۔
انہوں نے راہل گاندھی کو خط لکھکر سندھیا کی شکایت تک کر ڈالی۔ نوری کا واسطہ بھی سندھیا مخالف گروپ سے بتایا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ریاست میں بی جے پی سندھیا کے خلاف ان کے ‘ مہاراج ‘ کی امیج کو زمیندارانہ کہہکر ہی بھناتی ہے اور نوری خان کا یہ الزام تو بی جے پی کے لئے اپنی بات ثابت کرنے کا کانگریس کے ذریعے دیا گیا ایک دعوت نامہ تھا۔
ارون یادو کو ہٹاکرر کمل ناتھ کو صدر بنانے کے بعد بھی پارٹی کے لئے پریشان کن حالت تب بنی، جب پہلے تو یادو نے اعلان کر دیا کہ وہ لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخاب نہیں لڑیںگے۔ اس کے بعد انہوں نے ٹویٹر پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا اور صاف طور سے حملہ آور رخ اپنایا۔ اسی کڑی میں بعد میں کمل ناتھ نے راہل گاندھی کو لکھا ایک خط بھی لیک ہوا جس کےمتعلق ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ارون یادو کانگریس ترجمان درگیش شرما سے خط کو عام کرنے پر بات کر رہے ہیں۔
بی جے پی کے لئے یہ بیٹھے بٹھائے ملنے والے مدعے رہے۔ انہوں نے ان کو بھنایا بھی۔ ارون یادو کو بی جے پی نائب صدر پربھات جھا نے بی جے پی میں شامل ہونے کی تجویز رکھ دی۔ ایسا ہی سابق مرکزی وزیر میناکشی نٹراجن کے معاملے میں دیکھا گیا۔ نٹراجن کی مخالفت کے باوجود کمل ناتھ نے مندسور کے ایک مقامی رہنما کو پارٹی میں جگہ دے دی۔ جس کی وجہ سے ناراض نٹراجن نے پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ کچھ وقت بعد جب ریاستی کمیٹی کمل ناتھ نے بنائیں تو نیمچ، مندسور، رتلام میں نٹراجن کے حمایتیوں کے استعفیٰ کا دور شروع ہو گیا۔
ایک میٹنگ کے دوران کمل ناتھ کے روکنے کے باوجود نٹراجن اس میٹنگ کو چھوڑکر چلی گئی تھیں۔ حالانکہ، جب نٹراجن نے پارٹی کے عہدوں سے استعفیٰ دیا تھا تو دگوجئے سنگھ ان کو منانے بھی پہنچے تھے لیکن باوجود ا س کے نٹراجن کی ناراضگی دور نہیں ہوئی۔
ریاست کی اعلی قیادت کے کام کاج کے طریقے کا اثر پارٹی کے زمینی کارکنوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیپک باوریا پر ابتک پارٹی کارکن کئی بار حملہ کر چکے ہیں جن میں ان کے ساتھ دھکا-مکی کی گئی۔ ان کو بچانے کے لئے ایک بار تو کمرے تک میں بند کرنا پڑا تھا۔ کارکن الگ الگ گروہ میں منقسم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب کے ٹھیک پہلے ٹکراو ان کو بی جے پی سے لینا چاہیے لیکن وہ اپنے-اپنے رہنما کو وزیراعلیٰ بنوانے کے لئے ٹویٹر وار چھیڑکر آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں کمل ناتھ اور سندھیا کے حامیوں میں سوشل میڈیا پر ایسی ہی جنگ چھڑی۔ جس کے سبب ‘ چیف منسٹر سندھیا ‘ اور ‘ کمل ناتھ نیکسٹ ایم پی سی ایم ‘ ٹویٹر پر ٹرینڈ کرنے لگے اور دونوں رہنماؤں کو صفائی دینے سامنے آنا پڑا۔ دگوجئے سنگھ کو لےکر بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کو بھی سی ایم چہرہ بنانے کے لئے ٹویٹر پر ان کے حامیوں نے مورچہ سنبھالا۔ دگوجئے کو بھی سامنے آکر صفائی دینی پڑی۔
بھوپال میں کارکن مکالمہ کے دوران راہل گاندھی کو بھی ایسی ہی حالت سے دو چار ہونا پڑا۔ سندھیا حمایتی ‘ سندھیا سی ایم ‘ لکھا ایپرین پہنکر آئے تو کمل ناتھ حامیوں نے بھی ان کو وزیراعلیٰ بنائے جانے کے نعرے لگائے۔ کارکن مکالمہ میں شامل ہونے جب راہل بھوپال پہنچے تو پورے شہر کو ان کے استقبال میں بینروں، ہورڈنگ اور کٹ-آؤٹ سے بھر دیا گیا۔ ان پر مرکز اور ریاست کے تمام ضروری کانگریسی رہنماؤں کو جگہ دی گئی، لیکن دگوجئے سنگھ غائب تھے۔
معاملے نے طول پکڑا تو خود کمل ناتھ نے اس کی مذمت کی۔ یہی نہیں، اسٹیج پر بھی دگوجئے سنگھ کو نظرانداز کیا گیا۔ بس کمل ناتھ اور سندھیا ہی راہل کے قریب نظر آئے، جبکہ ان دونوں کے بعد ریاست میں انتخابات کے نظریے سے تیسرا سب سے اہم عہدہ دگوجئے کے پاس ہے۔ ہر پنچایت میں گئو شالہ بنانا، نرمدا پریکرما پتھ تعمیر کرنا، رام گمن پتھ تعمیر کرناجیسے فیصلوں نے بھی کانگریس کے طریقہ کار پر سوال کھڑا کیا ہے۔ کانگریس اس طرح کا سافٹ ہندوتوا اپناکر بی جے پی کی راہ پر ہے، ایسا مانا جا رہا ہے۔
وہ شیوراج حکومت کی خامیوں یا ترقی کی اپنی اسکیمیں پیش کرنے کے بجائے غلط راہ پر جاتی دکھائی دے رہی ہے اور ماہرین اس کو ریاستی کانگریس کے گمراہ کن رویےہی قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار گرجاشنکر اس کو کانگریس کا 15 سالہ بنواس ختم کرنے کی بےقراری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ جیتنے کے لئے کانگریس بدحواسی میں ایسے فیصلے لے رہی ہے جو کہ نہیں لینا چاہیے۔ اس کے پاس اصل میں کوئی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔ ‘
بات صحیح بھی لگتی ہے۔ کانگریس، کمل ناتھ اور سندھیا ہر بےروزگار نوجوان کو روزگار دینے کی بات تو کر رہے ہیں، لیکن کیسے دیںگے، یہ حکمت عملی پیش نہیں کر پا رہے ہیں۔ کل ملاکر کانگریس کے اقتدار میں واپس آنے کی کوشش راہل گاندھی کے ذریعے کی گئی کسانوں کی قرض معافی اور اینٹی انکم بینسی پر آکر ٹک گئی ہے۔ گرجاشنکر کہتے ہیں، ‘ یہ صحیح بات ہے کہ کانگریس جو فیصلے لے رہی ہے، ان پر کام نہیں کر پا رہی ہے یا فیصلوں کو واپس لینا پڑ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کمل ناتھ کی تقرری میں پارٹی نے دیر کر دی۔ جتنا وقت ان کو ملنا چاہیے تھا، اتنا نہیں ملا۔ اسی جلدبازی میں فیصلے بھی ہو رہے ہیں اور پلٹ بھی رہے ہیں۔ جس سوچی-سمجھی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے وہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس لئے حال میں کیے گئے اعلانات پر بھی کتنا عمل ہوگا، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ جہاں تک اس سب سے نقصان اٹھانے کی بات ہے تو اس کا اندازہ نہیں کر سکتے لیکن یہ تو طے ہے کہ کم سے کم یہ حالات کانگریس کو فائدہ تو نہیں پہنچانے والی ہیں۔ جو فائدہ ہونا چاہیے تھا، فی الحال تو ہوتا نہیں نظر آتا ہے۔ ‘
اتحاد کی بات پر وہ کہتے ہیں کہ کانگریس کی ساری دقت یہی ہے کہ چاہے دہلی ہو یا بھوپال ہو، وہ ہمیشہ پس و پیش کا شکار رہی ہے جس کا اس کو دہلی میں نقصان جھیلنا پڑا، مدھیہ پردیش میں جھیلنا پڑا اور ابھی بھی وہ اس سے باہر نہیں آ پائی ہے۔ بہر حال، انتخابات میں محض دو مہینے کا وقت باقی ہے اور ریاستی کانگریس کی موجودہ حالت اقتدار میں واپسی کے لئے موافق نہیں کہی جا سکتی ہے۔
(دیپک گوسوامی آزاد صحافی ہیں۔ )
Categories: گراؤنڈ رپورٹ