انل امبانی گروپ پر 45000 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ اگر آپ کسان ہوتے اور پانچ لاکھ کا قرض ہوتا تو سسٹم آپ کو پھانسی کا پھندا پکڑا دیتا۔انل امبانی قومی ورثہ ہیں۔یہ لوگ ہمارے جی ڈی پی کے علم بردار ہیں۔
ایک ڈالر کی قیمت 73 روپے 37 پیسے کو چھو گئی۔ روپے کی گراوٹ کی یہ نئی تاریخ ہے۔ ہندوستان کے روپے کی قیمت اس سال 12 فیصد گر گئی ہے۔ ایشیا میں سب سے خراب مظاہرہ ہندوستانی کرنسی کا ہے۔2013 میں کبھی ایک ڈالر 72 کے پار نہیں گیا لیکن اس وقت اکتوبر سے دسمبر کے درمیان 13 فیصد گرا تھا۔ یہاں تو 12 فیصد میں ہی 72 کے پار چلا گیا۔ ابھی اس کے جلدہی 74 تک جانے کے آثار بتائے جا رہے ہیں۔ ہندوستانی اسٹاک بازار اور بانڈ سے سال بھر کے اندر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 900 کروڑ ڈالر نکال لئے ہیں۔ باقی آپ بلیومبرگ کی سائٹ پر جاکر کارتک گوئل کی رپورٹ پڑھیں۔
سویڈن کی ٹیلی کام کمپنی ایرکسن نے سپریم کورٹ میں عرضی لگائی ہے کہ انل امبانی اور ان کے دو افسر کو ہندوستان چھوڑنے سے روکا جائے۔ایرکسن نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ملک کے قانون کے تئیں ان کا کوئی جذبہ احترام نہیں ہے۔انل امبانی کی کمپنی کو 550 کروڑ روپے دینے تھے مگر وہ قانون کے عمل کا غلط استعمال کر کے ڈفالٹر ہو گئی۔ ویسے تو ایرکسن پر 1600 کروڑ روپے کا بقایہ تھا مگر کورٹ کے ذریعے سیٹلمینٹ ہونے کے بعد بات 550 کروڑ روپے پر آ گئی تھی۔ وہ بھی نہیں دے پا رہی ہے۔
انل امبانی کی کمپنی نے اسٹاک ایکسچنج کو بتایا ہے کہ ایرکسن کی یہ عرضی غیرضروری تھی۔اس نے تو پیمنٹ کے لئے 60 دن اور مانگے تھے۔ حکومت سے بینک گارنٹی کو لےکر تنازعہ چل رہا تھا اس سبب دیری ہوئی ہے۔اب بتائیے غیر ملکی کمپنیوں کو بھی انل امبانی کی حب الوطنی پر بھروسہ نہیں ہے۔ ان کو کیوں شک ہو رہا ہے کہ انل امبانی ہندوستان چھوڑکر بھاگ سکتے ہیں؟یہ خبر 2 اکتوبر کے ٹائمس آف انڈیا میں چھپی ہے۔ نامہ نگار کا نام ہے پنکج دوبھال۔
انل امبانی گروپ پر 45000 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ اگر آپ کسان ہوتے اور پانچ لاکھ کا قرض ہوتا تو سسٹم آپ کو پھانسی کا پھندا پکڑا دیتا۔انل امبانی قومی ورثہ ہیں۔یہ لوگ ہمارے جی ڈی پی کے علم بردار ہیں۔ ہندوستان کے آکسیجن ہیں۔اس لئے 45000 کروڑ روپے کا ڈفالٹر ہونے کے بعد بھی ان کی نئی نویلی کمپنی کو دفاعی معاملوں میں تجربہ کار کمپنیوں میں سے ایک ڈاسسو ایویشن رافیل کا پارٹنر بناتی ہے، جس کو لےکر ان دنوں تنازعہ چل رہا ہے۔ کاش کسانوں کا بھی کوئی دوست ہوتا۔اگر مودی جی دوست نہیں ہو سکتے تو ہندوستان کے کسانوں کو انل امبانی سے دوستی کر لینی چاہیے۔
اب چھوڑئیے امبانی کو۔ اپنی نوکری کی فکر کیجئے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ ستمبر میں بےروزگاری کی شرح 6.6 فیصد ہو گئی ہے؟ بےروزگاری کی شرح کا 4 فیصد سے پار چلے جانا بہت ہوتا ہے۔مہیش ویاس روزگار پر بزنس اسٹینڈرڈ میں ایک کالم لکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگست میں بےروزگاری کی شرح 6.3 فیصد تھی جو ستمبر میں بڑھکر 6.3 فیصد ہو گئی ہے۔اسی کے ساتھ نوٹ بندی کے دوران لیبر مارکیٹ میں لوگوں نے آنا چھوڑ دیا تھا۔ اب آہستہ آہستہ واپسی کر رہے ہیں پھر بھی نوٹ بندی کے پہلے کی سطح تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ مہیش ویاس کی دلیل ہے کہ کام مانگنے والے لوگوں کی تعداد نوٹ بندی کے وقت سے کم ہے لیکن پھر بھی کام نہیں مل رہا ہے۔
آپ ان دنوں میڈیا کی خبروں کو غور سے دیکھیے۔وزیر اعظم مودی طرح طرح کی ایونٹ میں نظر آنے لگے ہیں۔ کبھی بھوپال، کبھی جودھ پور، کبھی دہلی، کبھی اروناچل۔ اس کے علاوہ انتخابی ریلیاں بھی ہیں۔ ان میں آنے جانے سے لےکر تقریر دینے کا وقت جوڑ لیں، تو حساب نکل جائےگا کہ وہ کام کب کرتے ہیں۔ان کے آنے جانے کی تیاریوں پر جو خرچ ہوتا ہے، ریلیوں اور ایونٹ پر جو خرچ ہوتا ہے وہ بھی حساب نکال سکیں تو نکال لیں۔ریلیوں کی تصویریں بتاتی ہیں کہ کتنا خرچ ہوا ہوگا۔ یہ بھی دیکھیے کہ وہ اپنی تقریروں میں کہتے کیا ہیں۔
جن دھن کا پچاس بار ذکر کریںگے مگر نوٹ بندی اب یاد ہی نہیں آتی ہے۔ نوٹ بندی کے وقت کہا گیا کہ دوررس نتائج ہوںگے۔ دو سال بیت گئے۔ کیا دوررس نتیجہ بتانے کا وقت نہیں آیا ہے؟ لیکن وزیر اعظم نہ تو پیٹرول پر بولتے ہیں، نہ ڈیزل پر بولتے ہیں نہ روپے پر بولتے ہیں اور نہ روزگار پر بولتے ہیں۔مگر آپ کو دکھتے ہمیشہ ہیں۔ ایونٹ میں۔مہیش ویاس کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد بہتوں کا کام چھن گیا مگر سماجی کشیدگی پیدا نہیں ہوئی کیونکہ زیادہ تر عورتوں کا کام چلا گیا۔
نوٹ بندی کے وقت عورتوں پر ہی مار پڑی تھی۔ گھر والوں سے چھپاکر رکھے گئے ان کی کمائی کے پیسے چلے گئے۔ وہ چوری کی نہیں تھی، محنت کی تھی۔ عورتیں اقتصادی طور پر نہتہ ہو گئیں۔ عورتوں نے وزیر اعظم پر بھروسہ کیا۔ پر وزیر اعظم نے کیا کیا۔ پیسے بھی لے لئے اور کام بھی لے لیا۔ویسے آپ غور کریںگے کہ لوک سبھا اور ریاستوں کے انتخابات کو دیکھتے ہوئے بڑی تعداد میں سرکاری ویکینسی آنے والی ہیں۔ان کا مقصد نوکری دینا نہیں بلکہ نوکری کا اشتہار دےکر اپنا اشتہار کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو بہلانا ہوگا کہ دیکھو نوکری دے رہے ہیں۔چلو تیاری کرو۔جوکبھی ملےگی نہیں۔ملےگی بھی تو 5 پانچ سال لگ جائیںگے۔
اس مالی سال میں لگاتار پانچویں مہینے میں جی ایس ٹی ہدف سے ایک لاکھ کروڑ کم ہی جمع ہو سکی ہے۔ اگست کے مقابلے میں ستمبر مہینے میں 0.5 فیصد کا اضافہ تو دیکھا گیا ہے مگر جی ایس ٹی اپنے ہدف کو پورا نہیں کر پا رہی ہے۔27 جولائی کو جی ایس ٹی کی کچھ شرحوں میں کمی کی گئی تھی اس کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ ایکسپرٹ کو امید ہے کہ تہواروں کے موسم میں شاید جی ایس ٹی کے جمع میں اضافہ ہو جائے۔ اس سال ابھی تک صرف اپریل مہینے میں ہدف پورا کیا جا سکا ہے۔
ویسے ستمبر 2017 میں جتنی جی ایس ٹی جمع ہوئی تھی، اس کے مقابلے میں ڈھائی فیصد کا اضافہ تو ہے مگر حکومت جتنا ہدف طے کر رہی ہے وہ پورا نہیں کر پا رہی ہے۔بزنس اسٹینڈرڈ میں ابھیشیک واگھمرے کی رپورٹ میں کھیتان اینڈ کمپنی کے ابھیشیک رستوگی نے کہا ہے کہ جتنا ہدف طے کیا گیا ہے اس سے 6 فیصد کم جمع ہوا ہے۔اس جمع رقم میں ری فنڈ کیا جانے والا پیسہ بھی ہے۔ اس کے لوٹانے کے بعد ہی صحیح رقم کا پتا چلےگا۔
مینیوفیکچرنگ کے آٹھ کور سیکٹر ہوتے ہیں۔ کبھی 10 فیصد کی شرح سے بڑھنے والا یہ سیکٹر مودی حکومتکے پورے چار سال رینگتا ہی رہ گیا۔ جولائی میں یہ 7.3 فیصد پر تھا لیکن اگست میں گھٹکر 4.2 فیصد ہو گیا۔ہندوستان میں جتنی بھی صنعتی پیداوار ہوتی ہے اس کا 40 فیصد ان آٹھ کور سیکٹر سے آتا ہے۔ ان آٹھ کور سیکٹر میں ریفائنری بھی ہے۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عالمی بازار میں کچّے تیل کی قیمت بڑھنے کا کیا اثر ہوا ہوگا۔ کوئلہ پیداوار بھی وزراء کے دعوے کی نفی ہے۔ پچھلے چھے مہینے میں یہ نچلی سطح پر ہے۔
بلیومبرگ کوئنٹ کی ایک رپورٹ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان کی پبلک سیکٹرکی کمپنیوں کا شیئر مارکیٹ میں چار لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ 76 پبلک سیکٹر کی کمپنیوں میں سے 74 کے شیئرزکے دام گرے ہیں۔ پنجاب نیشنل بینک کے شیئرزکے دام 65 فیصد گرے ہیں۔ ریل کوچ بنانے والی کمپنی بی ایم ای ایل کے شیئرز کے دام میں 62 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔آخر میں ایک روٹین درخواست۔ ہندی کے اخبارات ہندی پڑھنے والوں کا قتل کر رہے ہیں۔ وہ اپنے قارئین کے لئے طرح-طرح کے سورس سے جانکاری نہیں دیتے ہیں۔ آج نہ کل میری یہ بات آپ کے گھروں میں گونجےگی۔
امید ہے آپ ہندی کے اخباروں کی خبروں کو بہت توجہ سے پڑھ رہے ہوںگے، مطلب کیا ڈیٹیل ہے، جانکاری جٹانے کے لئے کتنی محنت کی گئی ہے، کیا اخبار نے حکومت کی کسی پالیسی پر گہرائی سے جانچ کی ہے۔یہ سب دیکھیے۔خبروں کو پڑھنے اور دیکھنے کا طریقہ بدل لیجئے۔ ہندی کے اخبار اور چینل آپ کو گھٹیا صحافت دے رہے ہیں۔ جبکہ ہندی کے اخباروں کے پاس شاندار صحافی ہیں۔ بس ان سے خبر نہیں لکھوائی جا رہی ہے۔ خبروں کا قتل کروایا جا رہا ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر